اداریہ: سرمایہ داری کا زوال اور کمیونسٹ تحریک

ماہانہ کمیونسٹ کے پہلے شمارے کی اشاعت کے موقع پر عالمی سرمایہ داری کا زوال گہرا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایک جانب پوری دنیا میں جنگیں اور خانہ جنگیاں پھیل رہی ہیں اور فلسطین سے لے کر یوکرائن تک لاکھوں لوگ اس نظام کی بربریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر ایک نئی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے لے کر کینیا تک عوامی تحریکیں حکمران طبقے کے خلاف اعلانِ بغاوت کر رہی ہیں۔ امریکہ کے صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران ٹرمپ موت سے بال بال بچا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر گولی ایک انچ سرک جاتی تو امریکہ میں خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا تھا۔ دونوں بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کے امیدوار پر ہر طرح کا ذاتی اور سیاسی حملہ کر رہی ہیں اور ٹرمپ پر 91 مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ میں بڑی تعداد میں نوجوان دونوں پارٹیوں کی حمایت نہیں کرتے اور کمیونزم کے نظریات کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔

اس دوران امریکہ میں جولائی کے مہینے میں بیروزگاری میں اضافے کی خبروں نے ایک نیا بھونچال شروع کر دیا ہے۔ اگست کے آغاز میں جب یہ خبر آئی کہ امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 4.3 فیصد ہو چکی ہے اور جولائی کے مہینے میں توقعات سے کہیں کم صرف ایک لاکھ چودہ ہزار نیا روزگار ہی پیدا ہو سکا تو اس نے عالمی منڈی کو ہلا کر رکھ دیا۔ عالمی سرمایہ دارانہ معیشت میں امریکی منڈی یا اس کا کنزیومر بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی قوت خرید میں کمی کے اثرات عالمی معیشت پر مندی کی صورت میں پڑتے ہیں۔ اس دوران امریکی مرکزی بینک سرکاری شرح سود پانچ فیصد سے بڑھا کر اسے 23 سال کی سب سے بلند سطح پر لے گیا جبکہ افراطِ زر کا جن پھر بھی قابو میں نہیں آ رہا۔ اس صورتحال میں 5 اگست کے روز امریکی اسٹاک ایکسچینج منڈی میں 3 فیصد کی گراوٹ دیکھی گئی۔ جبکہ جاپان کی اسٹاک ایکسچینج اپنی تاریخ کی بد ترین 12 فیصد کی گراوٹ کا شکار ہوئی جبکہ یورپ اور دیگر خطوں کی منڈیوں میں بھی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ انڈیا کی کرنسی بھی گراوٹ کے بعد ڈالر کے مقابلے میں 84 روپے پر اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اس دوران امریکی معیشت میں ایک دفعہ پھر کساد بازاری (recession) کے امکانات پر بحث کا آغاز ہو گیا ہے جبکہ امریکی مرکزی بینک پر شرح سود کم کرنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

اس تمام صورتحال کے اثرات امریکہ کی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے اور پوری دنیا میں عالمی طاقتوں کا بگڑتا توازن بھی سنبھلنے کی بجائے مزید خراب ہو گا۔ پہلے ہی امریکی سامراج کا زوال پوری دنیا میں طاقتوں کے سابقہ توازن کو تبدیل کر چکا ہے اور چین اور روس اپنے سامراجی عزائم کے ساتھ اجارہ داری بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودیہ، ایران، ترکی اور انڈیا سمیت مختلف ممالک اپنے خطوں میں اپنا سامراجی تسلط بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن عالمی سرمایہ داری کے زوال کے عہد میں کوئی بھی سرمایہ دارانہ ملک امریکی سامراج کے خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یورپی سامراجی ممالک بھی بد ترین سیاسی و مالیاتی بحرانوں کا شکار ہیں۔

اس صورتحال میں سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں کمیونسٹ نظریات مقبول ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک پوری نسل اس نظام کی ہولناکیوں، تباہی اور خونریزی کو دیکھ کر ایک بہتر مستبقل کی جستجو میں ان نظریات کی جانب راغب ہو رہی ہے۔ لیکن ان کے پاس دنیا بھر میں ایسا کوئی پلیٹ فارم یا ادارہ موجود نہیں تھا جہاں پر وہ اپنی جدوجہد کو جاری رکھ سکتے اور اس نظام کے خاتمے کی لڑائی کا حصہ بنتے۔ ماضی میں سوویت یونین یا چین میں منصوبہ بند معیشت کی موجودگی ان عوامی تحریکوں اور باغیانہ سرکشیوں کو متوجہ کرتی تھی اور جہاں انہیں نظام کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے ابھارتی تھی وہاں ان سوشلسٹ معیشتوں پر براجمان سٹالنسٹ بیورو کریسی انہیں ایک حد سے آگے جانے سے روکتی بھی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد عالمی سطح پر ایسی کسی قوت کی کمی محسوس کی جا رہی تھی جو ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انقلاب کی قیادت کے طور پر بھی موجود ہو۔ دنیا کے مختلف ممالک میں موجود کمیونسٹ پارٹیاں یا تو معدوم ہو چکی ہیں یا پھر زیادہ تر حکمران طبقے کی پارٹیوں کے دم چھلے کا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تمام پارٹیاں در حقیقت کمیونسٹ نظریات کی بجائے اس کے دشمن نظریے سٹالنزم پر یقین رکھتی تھیں جو سوویت یونین کے انہدام کا باعث بنا تھا بلکہ ان میں سے اکثر اب لبرل نظریات کی غلاظت کو اپنا چکی ہیں۔ انہی نظریات کے تحت ان پارٹیوں نے ماضی میں بھی انقلابی تحریکوں سے بڑے پیمانے پر غداریاں کیں اور سرمایہ دارانہ نظام کو کئی دفعہ سنبھلنے کا موقع ملا۔ اسی لیے اب ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو نہ صرف کمیونزم کے حقیقی نظریات کا دفاع کرے بلکہ اس کا دامن ماضی میں کمیونزم کے نام پر کی گئی غداریوں سے بھی پاک ہو۔

یہ پلیٹ فارم اب انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نام سے قائم ہو چکا ہے اور اس کے تحت دنیا بھر میں انقلابی کمیونسٹ پارٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے تحت کمیونزم کے نظریات کو مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے ان ٹوٹ دھارے سے دوبارہ جوڑ دیا گیا ہے۔ 1917ء کے انقلاب روس کے بعد لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بننے والی کمیونسٹ انٹرنیشنل اور اس کے پہلے پانچ سال اس نئی انٹرنیشنل کی اساس ہیں۔ اس کے بعد کے سالوں میں سٹالنسٹ زوال پذیری کے تحت ہونے والے غلط فیصلوں اور غداریوں سے اس انٹرنیشنل کے بانیوں نے ہمیشہ جنگ لڑی ہے۔ اسی طرح اس پلیٹ فارم سے پہلے کی طرح آج بھی حکمران طبقے کی پھیلائی گئی مختلف فلسفیانہ غلاظتوں کے خلاف لڑتے ہوئے کمیونزم کے بنیادی نظریات کا دفاع جاری ہے۔ لبرل ازم، قوم پرستی اور پوسٹ ماڈرن ازم جیسے نظریات عوامی تحریکوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جن کے خلاف نظریاتی جنگ اہم ہے۔

اس انٹرنیشنل اور اس کے تحت انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا قیام مزدور طبقے اور انقلابی نوجوانوں کے لیے امید کی ایک ایسی کرن ہے جس کا وہ بے تابی سے انتظار کر رہے تھے۔ ایک ایسا پلیٹ فارم جو نہ صرف مہنگائی، بیروزگاری، اجرتوں میں اضافے، مظلوم قومیتوں پر قومی جبر اور دیگر فوری مطالبات کے گرد تحریکوں کی حمایت میں اپنا کردار ادا کرے بلکہ ان تحریکوں کو جوڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے فیصلہ کن مرحلے تک بھی لے جا سکے۔ اسی طرح دنیا بھر کے انقلابیوں اور مزدور تحریک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ایک ایسی اجتماعی قیادت تشکیل دی جائے جو اس بربریت پھیلانے والے نظام کو پوری دنیا سے مٹا دے اور ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پوری دنیا میں حقیقی امن، ترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز کرے۔

Comments are closed.