ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام زوال کا شکار ہے اور امریکی سامراج ماضی کی نسبت کمزور ہو چکا ہے اور اس کی دنیا پر پہلے جیسی گرفت موجود نہیں۔ اس صورتحال میں دنیا میں دوسری سامراجی طاقتیں ابھر رہی ہیں جو امریکہ کا چھوڑا گیا خلا پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن میں چین سرِ فہرست ہے۔بائیڈن کے چار سالہ دور میں امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اس کا لبرل دھڑا امریکہ کی گرفت میں مضبوطی لا سکے اور نہ ہی ٹرمپ کا رستہ روکنے میں کامیاب ہوئے۔ دنیا کو ماضی کے ورلڈ آرڈر کے تحت قابو میں رکھنے کی کوششیں مسلسل ناکامی سے ہی دوچار ہوتی گئیں اور آج سرمایہ داری کا بحران امریکہ سمیت پوری دنیا میں کئی گنا بڑھ چکا ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجوں کا ذلت آمیز انخلا، کرونا وبا سے نپٹنے میں ناکامی سمیت امریکہ اور یورپ میں ہوشربا افراطِ زر اور مہنگائی نے اس نظام کی بنیادوں کو مزید کمزور کیا۔ یوکرائن میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی مسلط کردہ پراکسی جنگ بھی ان کے مطلوبہ نتائج کے بر عکس نکلی اور تمام تر معاشی ناکہ بندی اور جنگ کے باوجود روس کی سامراجی گرفت مشرقی یورپ میں پہلے سے مضبوط ہو چکی ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی بربریت کو کھلی چھوٹ دینے اور اس کی فلسطین کے مظلوم عوام پر بربریت مسلط کرنے کے بعد اس اہم خطے میں بھی عدم استحکام کئی گنا بڑھ چکا ہے خاص طور پر شام میں بشارالاسد کے آمرانہ اقتدار کے خاتمے کے بعد امریکہ کے گماشتہ دہشت گرد اس خطے کو مزید ہولناکی میں دھکیل رہے ہیں۔ اس تمام صورتحال میں اسرائیل سمیت امریکہ کے پٹھو عرب حکمران ابلتے ہوئے لاوے پر براجمان ہیں اور آنے والے عرصے میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں عوامی بغاوتیں ان حکمرانوں کے ظالمانہ اقتدار کو للکارنے کی جانب بڑھیں گی۔
اس صورتحال میں ٹرمپ نئی صورتحال کے مطابق امریکی سامراج کو ”دوبارہ عظیم بنانے“ کی پالیسی مسلط کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔اپنے اس نعرے میں ہی یہ اعتراف موجود ہے کہ اب امریکہ پہلے جیسا”عظیم“نہیں رہا اور اسے دوبارہ ماضی جیسی طاقت بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹرمپ نسبتاً کمزور ممالک پر سامراجی تسلط مسلط کرنے کے اعلان کر رہا ہے جن میں کینیڈا، ڈنمارک کی کالونی گرین لینڈ اور وسطی امریکہ کا ملک پاناما شامل ہیں۔ان اعلانات پر عملی جامہ پہنانا بھی آسان نہیں جبکہ دوسری طرف ٹرمپ چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر تجارتی جنگ شروع کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔اس کے علاوہ ابراہام معاہدے کو آگے بڑھاتے ہوئے سعودی عرب اور اسرائیل کے باقاعدہ تعلقات بھی استوار کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ امریکہ میں موجود مہاجرین پر بھی بڑے کریک ڈاؤن کے اعلانات کر چکا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی مہاجرین کو جبری بیدخل کا بھی اعلان کر چکا ہے اور اس حوالے سے اپنے جنوبی ہمسائے میکسیکو کو بھی دھمکیاں لگا چکا ہے جس نے واپس امریکہ کا مذاق اڑایا ہے۔
ٹرمپ نے اس ایجنڈے کو مسلط کرنے کا آغاز حلف اٹھانے سے پہلے ہی کر دیا ہے اور اسرائیل کی فلسطین پر جاری جارحیت میں جنگ بندی کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کر رہا ہے۔اس امر سے یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ امریکی سامراج کی پشت پناہی کے بغیر اسرائیل یہ قتل عام نہیں کر سکتا تھا اور بائیڈن حکومت اور نام نہاد لبرل دھڑے نے پوری قوت کے ساتھ یہ بربریت مسلط کی تھی تاکہ دنیا بھر میں موجود امریکی سامراج کی کمزوری کے تاثر کو زائل کیا جا سکے۔ لیکن اس عمل میں امریکی سامراج اور اسرائیل کی صیہونی ریاست بظاہر طاقتور نظر آنے کے باوجود حقیقت میں مزید کمزور ہوئے ہیں جس کا اظہار آنے والے عرسے میں ہوتا نظر آئے گا۔ٹرمپ یوکرائن جنگ کا بھی مخالف ہے اور مغربی ممالک کے دفاعی اتحاد نیٹو کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ ان اقدامات اور اس کی تجارتی جنگوں کے باعث یورپ میں پہلے ہی زلزلے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ جرمنی اور فرانس کی حکومتیں گِر چکی ہیں جبکہ ڈنمارک کو اپنی سالمیت خطرے میں محسوس ہو رہی ہے۔برطانیہ کی برسر اقتدار لیبر پارٹی کو بھی ٹرمپ دھمکیاں دے چکا ہے۔ آنے والا عرصہ پورے یورپ میں مزید سیاسی طوفانوں اور ہیجان کو جنم دے گا۔
مشرقِ بعید میں بھی عدم استحکام بڑھ چکا ہے۔ جاپان کی بر سر اقتدار پارٹی اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور جنوبی کوریا میں معاشی بحران کے بعد سیاسی زلزلے آچکے ہیں اور سابقہ صدر مارشل لا مسلط کرنے کی پاداش میں اب جیل میں ہے۔ اس کو جیل پہنچانے میں جنوبی کوریا کی مزدور فیڈریشن کی ہڑتال نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اسی طرح امریکہ کے اندرمہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹرمپ کے کیے جانے والے تمام اقدامات بھی ا ن مسائل میں اضافہ ہی کریں گے اور سرمایہ داروں کے اپنے سنجیدہ افراد مسلسل یہی واویلا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔پہلے بھی ٹرمپ سرمایہ دار طبقے کو بڑے پیمانے پر ٹیکسوں میں چھوٹ دے چکا ہے جس سے امریکہ کے ریاستی قرضوں کے بوجھ میں اضافہ بھی ہوا تھا۔
اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ٹرمپ اورسرمایہ دار طبقے اور اسٹیبلشمنٹ میں اس کاحامی دھڑا سرمایہ داری کے زوال کو روکنے کی تمام تر کوششوں میں درحقیقت اس کو تیز کریں گے۔ ماضی میں امریکی سامراج کی طاقت کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کا عروج تھا۔ خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کی تباہکاریوں کے بعد اس نظام کو تاریخ کا سب سے بڑا عروج ملا جس کی بنیاد پر امریکی سامراج دنیا پر اپنا تسلط قائم کر سکا۔ سوویت یونین کے سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث انہدام نے بھی اس کو مزید طاقت دی اور یہ پوری دنیا کی واحد سامراجی طاقت بن گئی تھی۔اب یہ نظام زائد پیداوار جسے اب زائد صلاحیت کہا جاتا ہے کے باعث نامیاتی بحران کا شکار ہے جس کی وضاحت مارکس نے داس کیپیٹل میں ڈیرھ صدی قبل ہی کر دی تھی۔ سرمایہ دار طبقے کے تنخواہ دار لاکھوں پروفیسروں، دانشوروں اور معیشت دانوں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود یہ بحران حل نہیں ہو پا رہا اور آنے والے عرصے میں شدت اختیار کرے گا۔
اس کا واحد حل ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ ہے جس کے بعد پوری دنیا سے جنگوں، خونریزیوں، بھوک اور لاعلاجی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ٹرمپ سمیت اس جیسے تمام حکمرانوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔پاکستان سمیت پسماندہ ممالک کے تمام حکمرانوں کی سامراجی گماشتگی سے لے کر سامراجی ممالک کے انسان دشمن حکمرانوں تک اس کرۂ ارض کو اور اس میں بسنے والے اربوں انسانوں کی بقا کے لیے اس نظام کا خاتمہ اب ضروری ہو چکا ہے۔ اسی لیے اس نظام سے نفرت کرنے والے اور طبقاتی تقسیم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عالمی کمیونسٹ انٹرنیشنل کا حصہ بنیں جو پوری دنیا کے انقلابیوں کی پارٹی بنا رہی ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے ساٹھ سے زیادہ ممالک میں سرگرم ہے۔
ٹرمپ کو شکست دینے کے لیے سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کرو!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!