
اس وقت دنیا انسانی تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال پوری دنیا میں ہر سماج کو تہہ و بالا کر رہا ہے۔ ہر ملک کی سیاست، معیشت اور سماج معیاری طور پر ایک نئے عہد میں داخل ہو چکا ہے اور ہر سمت میں ایسے نئے واقعات اور عوامل ظہور پذیر ہورے ہیں جن کا کچھ سال قبل تک تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ ہر جانب ایک ہیجان، ہنگامہ خیزی، افرا تفری اور بے چینی ہے۔
اس اتھل پتھل کا اظہار جہاں جنگوں، خانہ جنگیوں اور بڑھتی خونریزی میں ہو رہا ہے وہاں پوری دنیا میں انقلابی تحریکیں اور بغاوتیں بھی ابھر رہی ہیں اور ہر طرف انقلابی سیاست کی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ عالمی تعلقات اور طاقتوں کا توازن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ابھرنے والا ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے۔ نئے ابھرنے والی سیاست، معیشت اور سماجی عوامل بالکل ابتدائی کیفیت میں ہیں اور کسی کو بھی ان کا پوری فہم اور ادراک نہیں۔ بالکل ایک نئے بیج کی طرح جس نے ایک کٹھن سفر کے بعد تناور درخت بننا ہے جب اس کے مضبوط تنے، شاخوں اور پتوں کو دنیا دیکھ اور جان سکے گی لیکن ابھی وہ سب اس بیج میں پنہاں ہے۔
دنیا کے بڑے بڑے نام نہاد دانشور، تجزیہ کار، معیشت دان اور معروف یونیورسٹیوں کے پروفیسر ہونقوں کی طرح منہ کھولے اس سب کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے پاس کوئی ایسا نسخہ نہیں جو انہیں سمجھا سکے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ صرف انقلابی کمیونسٹوں کے پاس وہ نظریہ، وہ تناظر اور لائحہ عمل ہے جس کے ذریعے نہ صرف وہ حالات کا درست تجزیہ کر رہے ہیں بلکہ اس کا تناظر تخلیق کرتے ہوئے اس بھنور میں پھنسی دنیا کو کامیابی سے نکالنے کا لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے اس کے لیے جدوجہد بھی کر رہے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے کے دوران پروان چڑھے تصورات بھی شکست و ریخت کا شکار ہیں اور وقت انہیں روندتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اس میں سب سے اہم تصور امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کی ابدی حاکمیت کا ہے۔ سیاسی قیادتوں سے لے کر سماج میں عمومی طور پر یہ تصور ایک طویل عرصے کے دوران پروان چڑھایا گیا اور باور کروایا گیا کہ امریکی سامراج کی طاقت اٹل ہے اور اس میں کمزوری یا زوال ممکن نہیں۔ آج امریکہ کی سیاست اور ریاست پوری دنیا میں تماشا بن چکی ہیں اور ٹرمپ اس تصور کی مزید دھجیاں بکھیرنے میں مصروف ہے۔
افغانستان میں ذلت آمیز شکست اور عوام دشمن طالبان کو اقتدار سونپنے سے لے کر یوکرائن کی جنگ میں روس کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد آج امریکہ کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ میں مصروف ہے اور پچاس ہزار آبادی کے گرین لینڈ پر سامراجی قبضے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ امریکی معیشت کا بحران بھی اب تیز ترین زوال کی جانب بڑھ چکا ہے۔ ایسے میں امریکی سامراج کی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہونے والے خود سب سے زیادہ مشکل میں ہیں۔ آنے والے عرصے کے واقعات سماج میں اس تصور کو مزید جھنجھوڑیں گے اور نئی حقیقتیں ان تصورات کو اکھاڑ پھینکیں گی۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین، عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر عالمی اداروں کو بھی دیو ہیکل اور انسانی سماج کے ساتھ لازم و ملزوم بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر یورپ کو ایک ناقابل شکست سامراجی طاقت اور وہاں کے سماجوں کو آئیڈیل تسلیم کیا جاتا تھا جہاں جمہوری حقوق کی ضمانت موجود ہے۔ لیکن یہ تصور بھی اب ٹوٹ رہا ہے اور یورپ کی زوال پذیری اب حقیقت بن کر سامنے آ چکی ہے۔ امریکہ کے بعد چین اور روس ہی سب سے بڑی سامراجی طاقتوں کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
جمہوری حقوق کی ضمانت دینے والوں کے ہاتھ لاکھوں فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اس ظلم و بربریت کیخلاف سب سے بڑے احتجاج انہی ممالک میں ہوئے ہیں جن پر بدترین جبر کیا گیا ہے۔ مغربی ممالک کے مالیاتی بحران کے باعث نام نہاد فلاحی ریاست کا تصور بھی ٹوٹ چکا ہے اور وہاں بھی دیگر ممالک کی طرح مزدور دشمن اقداما ت کیے جا رہے ہیں اور صحت اور تعلیم پر کٹوتیاں لگائی جا رہی ہیں جبکہ دفاعی اخراجات کے لیے سینکڑوں ارب یورو مختص کیے جا رہے ہیں۔
دہائیوں سے قائم سیاسی پارٹیاں ٹوٹ رہی ہیں اور ان کی جگہ لینے کے لیے نئی پارٹیاں اور افراد ابھر رہے ہیں۔ دہائیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلتے رہنے کے باعث ان سیاسی پارٹیوں کو ازلی اور ابدی سمجھا جانے لگا تھا حالانکہ دائیں یا بائیں جانب کی یہ پارٹیاں بھی ماضی میں سماجی اتھل پتھل کے دور میں ہی تخلیق ہوئی تھیں۔ ایک طویل عرصہ اقتدار یا اپوزیشن میں رہنے کے باعث ان پارٹیوں کے ختم ہونے اور اپنی عوامی حمایت مکمل طور پر کھو دینے کا تصور ہی موجود نہیں تھا۔ لیکن اب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی سماجی اتھل پتھل کے دوران ان پارٹیوں کی بقا خطرے میں ہے اور وہ بحرانوں کا شکار ہو کر ختم ہو رہی ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی عوامی حمایت ختم ہو چکی ہے اور اس ملک کا وزیراعظم، پنجاب کی وزیر اعلیٰ اور اس پارٹی کا سربراہ سابق وزیر اعظم پچھلے الیکشن میں لاہور سے اپنی آبائی نشستیں ہی ہار گئے تھے لیکن اس کے باوجود اقتدار ان کو سونپ دیا گیا۔ دنیا کے تمام ممالک میں یہی عمل جاری ہے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے لے کر یورپ کے تمام ممالک میں دائیں اور بائیں جانب نئی پارٹیاں ابھر رہی ہیں اور عوامی نفرت کا اظہار سیاسی میدان میں بھی نئی پارٹیوں کی حمایت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے اور اپنے مخالفین کو یا تو نکال دیا ہے یا انہیں اپنے تابع کر لیا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ عمومی تصور مزید بڑی تبدیلیوں سے گزرے گا۔
کمیونسٹ نظریات کے بارے میں عمومی تصور دنیا بھر میں تبدیل ہو چکا ہے اور ہر ملک میں لاکھوں نوجوان اس نظریے کو اپنا رہے ہیں اور اسی کے تحت سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ سماج اور تحریکوں پر حاوی سیاسی قیادتیں اور دانشور ماضی کے مزار بن کر اس تصور کے پھیلاؤ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔ ان کے ذہن میں ماضی کے اس عہد کے تصورات عقیدے کی طرح راسخ ہو چکے ہیں جس میں سوویت یونین میں سٹالنزم کے انہدام کو کمیونزم کی ناکامی بنا کر پیش کیا گیا اور سامراجی طاقتوں نے دنیا بھر میں کمیونسٹ نظریات کے خلاف غلیظ پراپیگنڈہ کیا۔
کئی سادہ لوح تو اس سے بھی پہلے کے سرد جنگ کے دور میں زندہ ہیں جب دنیا میں ایک جانب سرمایہ دارانہ منڈی کی معیشت اور دوسری جانب سوویت یونین، مشرقی یورپ اور چین سمیت کئی ممالک میں منصوبہ بند معیشت تھی۔ بلکہ ان ماضی پرستوں کے نزدیک امریکہ، چین اور روس کی حالیہ سامراجی جنگ دراصل انہی بنیادوں پر ہے جبکہ آج کا چین اور روس سرمایہ دارانہ معیشتیں اور سامراجی طاقتیں ہے جواپنے ملک کے محنت کش طبقے کا بد ترین استحصال کر رہے ہیں۔ امریکہ اور چین کا ٹکراؤ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں موجود دو معیشتوں اور سامراجی طاقتوں کا ہی ٹکراؤ ہے۔
آج کے عہد میں پروان چڑھنے والی نسل کے لیے ماضی کے یہ تصورات قدیم دور کی باقیات کے طور پر موجود ہیں اور وہ کمیونزم کو درست طور پر ایک اعلیٰ اور ارفع نظریہ سمجھ کر اس کی طرف راغب ہور رہے ہیں جو دنیا کو سرمایہ داری کے عفریت سے نجات دلائے گا۔ جہاں آج کی دنیا کے بارے میں تصورات تبدیلی سے گزر رہے ہیں وہاں ہر خطے کی تاریخ بھی نئے انداز میں سامنے آ رہی ہے۔ اس دنیا کو سمجھنے کے لیے یقیناً تاریخ کا درست مطالعہ بھی ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے موضوع میں اس وقت دلچسپی سب سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔ درحقیقت تاریخی مادیت کمیونسٹ نظریات کا بنیادی ستون ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کی تاریخ کے ساتھ ساتھ مزدور طبقے کی جدوجہد اور انقلابات کی درست تاریخ سامنے لانا انقلابی تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
1886 ء میں شہید ہونے والے شکاگو کے مزدوروں سے لے کر پاکستان کے 1968-69ء کی انقلابی تحریک تک اور انڈیا کے 25کروڑ سے زائد مزدوروں کی متعدد عام ہڑتالوں سے لے کر مغربی ممالک کے مزدوروں کی بے مثال جدوجہد تک تمام تر تاریخ کا علم ہمیں مزدور طبقے کی فیصلہ کن طاقت پر یقین بھی دلاتا ہے اور اس نظام کو بدلنے کے امکان پر بھرپور اعتماد دیتا ہے۔ یہ تصور بھی وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوگا اور جڑیں پکڑے گا۔
سچا نظریہ وہی ہے جو آج کسی بھی سماج میں موجود حقیقی تضادات کی درست اندازمیں وضاحت کر سکے اور ان کا سائنسی بنیادوں پر حل پیش کر سکے۔ وہ نظریہ آج کے عہد میں صرف کمیونزم ہی ہے اور اسی کی بنیاد پر ایسی پارٹی تعمیر کی جا سکتی ہے جو ظلم اور بربریت کے نظام کو ختم کرے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے انسانیت کو اس تکلیف سے نجات دلائے۔
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!