|تحریر: جارج مارٹن؛ ترجمہ: ولید خان|
لاطینی امریکہ کے ملک ایکواڈور میں انقلابی تحریک پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ 14 اکتوبر کو لینن مورینو کی حکومت نے فرمان نمبر 883 منسوخ کر دیا۔ کئی دنوں کی جدوجہد اور تحرک جب بغاوت میں تبدیل ہو گئی تو مورینو کو انقلاب کے ہاتھوں حکومت ختم ہونے کے امکانات کے پیشِ نظر ایک اہم رعایت دینی پڑی۔ مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کی تحریک نے جزوی ہی سہی لیکن 8 اموات، 1340 زخمیوں اور 1192 گرفتاریوں کی قیمت ادا کر کے ایک اہم کامیابی اپنے نام کرلی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتہائی اہم کامیابی ہے۔ 2 اکتوبر کو مورینو نے جن کٹوتیوں کا اعلان کیا تھا اور جس کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز ہوا تھا، ان کٹوتیوں کا ایک اہم حصہ اب منسوخ ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ جدوجہد کی کامیابی کیا رنگ لاتی ہے اور اس حوالے سے سڑکوں کی بندش، صوبوں میں قبضے، دارالحکومت کویٹو پر مارچ، عام ہڑتال اور قومی ہڑتا لوں نے حکومت اور IMF کو پسپائی پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن یہاں یہ نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ فی الحال ایک جزوی کامیابی ہے۔
IMF کے ساتھ مورینو کے طے شدہ پروگرام میں مزید 6 معاشی اقدامات اور 13 مزدور دشمناقدامات موجود ہیں۔ یہ اقدامات محنت کشوں پر خونخوار حملہ ہیں جن کا مقصد دیوہیکل عوامی وسائل کی سرمایہ داروں کو منتقلی ہے۔ معاہدے کے تمام اقدامات سے مورینو متفق ہے اور ان پر کاربند بھی ہے جن میں قومی قرضے اور مالیاتی خسارے میں کمی، لیبر مارکیٹ کی ”لبرلائزیشن“، عوامی اجرتوں میں کمی، قومی اداروں کی نجکاری وغیرہ شامل ہیں۔
حکومت کا ہدف تھا کہ ایندھن کی سبسڈی ختم کر کے 1.2 ارب ڈالر کی بچت کی جائے گی۔ مورینو کا ارادہ یہ تھا کہ بچائی گئی رقم میں سے کچھ کو براہِ راست منتقلی یا محدود سبسڈیوں کے ذریعے کسانوں یا مقامی آبادیوں کی فلاح کا دھوکہ دینے کے لئے استعمال کیا جائے۔درحقیقت یہ CONIAE کو چند ٹکڑے پھینکنے کی گھناؤنی سازش تھی جس کے ذریعے حکومت کا حقیقی ہدف یہ تھا کہ ایندھن سبسڈی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
تلخ و شیریں فتح
یہ واضح ہے کہ محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی پر مورینو حکومت نے جلد یا بدیر پھر سے خوفناک حملے شروع کر دینے ہیں۔ سرمایہ دارانہ بحران کا تمام تر وزن سماج کی کمزور ترین پرتوں پر ڈالا جائے گا۔ لیکن اکتوبر تحریک کے بعد حکومت کو بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پھر دوبارہ بغاوت نہ بھڑک اٹھے۔
تحریک کو ایک تلخ و شیریں فتح نصیب ہوئی ہے۔ کٹوتیوں بھرے معاشی پروگرام کے خلاف شروع ہونے والی تحریک خاص طور پر 9 اکتوبر کی عام ہڑتال کے بعد مورینو حکومت کا تختہ الٹنے کی تحریک بن چکی تھی جس کے بعد پورے سامراجی معاشی نظام اور بدترین استحصال کا خاتمہ یقینی تھا۔
لیکن تحریک کے سب سے سرگرم قائد اور خاص طور پر CONIAE کے قائد تحریک کے ہر فیصلہ کن لمحے میں اپنا تاریخی فریضہ سرانجام دینے سے ہچکچاتے رہے۔ یہاں تک کہ جب کویٹو کے ہاؤس آف کلچر میں منعقد ہونے والی عوامی اسمبلی نے یک آواز ہو کر نعرہ لگایا کہ ”مورینو کو باہر نکالو! مورینو کو باہر نکالو!“ اور اسی نعرے کو اپناتے ہوئے دارلحکومت کے ہر گلی محلے میں کرفیو اور فوجی موجودگی کی دھجیاں اڑا دی گئیں، تب بھی قیادت تاریخی فیصلہ نہ کر سکی۔
حکومت کے ”کورایا نواز“ (ایکواڈور کا سابق صدر کورایا)الزام کے دباؤ میں CONIAE قیادت نے نہ صرف اپنے آپ کوریا سیاست سے دور رکھا بلکہ حکومت کا تختہ الٹنے کے ہدف سے بھی دستبردار ہو گئی۔ یہاں فرقہ واریت نے انتہائی خوفناک کردار ادا کیا۔ حکومت نے کورایا نواز، ”ماڈورو کے کرائے کے مظاہرین“، ”FARC گوریلا دہشت گرد“ وغیرہ وغیرہ کے الزامات لگا کر تحریک کو مجرم ثابت کرنے اور تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
CONIAE کے قائدین کو اس بہتان تراشی کا واضح جواب دینا چاہیے تھا کہ اگرچہ وہ کورایا نواز نہیں ہیں لیکن جو بھی مورینو معاہدے کے خلاف ہے اس کا تحریک خیر مقدم کرتی ہے۔ اور ہاں، انہیں واضح طور پر اپنا ہدف پیش کرنا چاہیے تھا کہ ان کا مقصد سرمایہ داروں اور IMF کی دلال حکومت کے خونخوار معاشی حملوں کامقابلہ کرتے ہوئے اس کا خاتمہ کرنا ہے تاکہ مزدوروں اور کسانوں کی حکومت بنائی جائے اور عوام، عوامی اسمبلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لے۔
ایک افسوسناک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ سڑکوں پر احتجاج ختم ہونے کے بعد مورینو حکومت نے کورایا شہری انقلاب کے نمائندگان، قومی اسمبلی کے ممبران اور دیگر منتخب نمائندگان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ 14 اکتوبر کو پیچینچا، کی گورنر پاؤلا پابون پرتحفظاتی قید مسلط کر کے اس کے گھر پر چھاپہ مار ا گیا اور اسے ”بغاوت“ کے جرم میں گرفتاری کر لیا گیا۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس میں وہ تمام افراد شامل ہیں جو ”ریاست کے خلاف کسی بھی مسلح تحریک جس کا مقصد نقصِ امن ہو اور وہ اس کی مدد، ترویج یا معاونت کریں“۔ یعنی اس خاتون کو عوامی تحریک سے تعلق کی بنا پر گرفتار کیا گیا ہے اور یہ ا قدام تحریک میں شامل تمام افرادیا مستقبل میں شامل ہونے والے افراد کو ڈرانے دھمکانے کی بھونڈی سازش ہے۔ دیگر کئی گرفتاریاں بھی کی گئی ہیں اور رفائیل کورایا کی شہری انقلاب کی تحریک کے 7 قائدین بشمول ممبر پارلیمان نے میکسیکو کے سفارت خانے میں پناہ لی ہوئی ہے۔
اگر CONIAE قائدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان گرفتاریوں کا تعلق ان سے نہیں بلکہ کورایا نواز تحریک سے ہے تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔ کورایا کے حامیوں کے خلاف آج کے کریک ڈاؤن کی زد میں کل حکومتی کٹوتیوں کے خلاف جدوجہد کرنے والا ہر قائد اور عوامی نمائندہ ہو گا۔
مورینو حکومت کا خاتمہ کر دو!
یہ بات وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ اکتوبر تحریک ایک ابتدائی مشق تھی۔ انتہائی اہم ہے کہ حالیہ تحریک سے تمام ضروری اسباق سیکھے جائیں تاکہ تحریک کے نئے دور میں ان تجربات کو بخوبی استعمال کیا جا سکے۔ اور تحریک کا نیا دور بہت زیادہ دور نہیں۔ سرگرم افراد نے اس جدوجہد میں شاندار نظم اور جرات کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے عوامی تحرک کے ذریعے پورا ملک مفلوج کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے حکومت کو قومی اسمبلی پر تالا لگا کر دارالحکومت سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے اپنی مسلح تحفظاتی گارڈ۔۔مقامی گارڈ۔۔ بنائی تاکہ شر پسندوں اور پولیس کا مقابلہ کیا جا سکے۔ انہوں نے عوامی اسمبلی کا خیال سماج میں متعارف کرایا جس کا مطلب بورژوا ریاست کے مقابلے میں ایک متبادل قوت ہے۔ پولیس گردی، نافذالعمل ایمرجنسی، کرفیو، فوج، سنائیپر وغیرہ کچھ بھی عوام کی ہمت نہیں توڑ سکا۔ ایک مشترکہ ہدف کے گرد سماج کی کئی پرتوں۔۔خواتین، نوجوان، مزدور، طلبہ۔۔ کو متحرک کیا گیا۔
لیکن تحریک کی کچھ خامیاں بھی رہیں جو قابلِ ذکر ہیں۔ مقامی تحریک اور ٹریڈ یونین تحریک کے درمیان کمزور رشتہ اور کورایا نواز تحریک کی جانب فرقہ ورانہ رویہ، دونوں تحریک کو کمزور کرنے کا باعث بنے۔ قیادت کے جمہوری ڈھانچوں کی عدم موجودگی نے بھی ایک کردار ادا کیا۔ ناکہ بندیوں، گلی محلوں، فیکٹریوں اور مقامی آبادیوں سے منتخب نمائندگان کی موجودگی سے عوامی اسمبلی حقیقی طاقت کا مرکز بن سکتی تھی۔ فیصلہ کن موقع پر اقتدار پر قبضہ کرنے کا پروگرام پیش نہیں کیا گیا۔ فی الحال مزدور اور کسان سڑکیں خالی کر چکے ہیں۔ لیکن پہلی فتح کے ذریعے انہوں نے عوامی طاقت کا اظہار کیا ہے اور اس طاقت کی حقیقت کا ادراک بھی حاصل کر لیا ہے۔ ایکواڈور کے مزدوروں اور کسانوں نے جدوجہد اور جرات کی وہ اعلی مثال قائم کر دی ہے جو اس برِ اعظم کے مختلف خطوں میں موجود عوام کے لئے مشعلِ راہ بن چکی ہے۔ ہاں، کوئی شک نہیں کہ وہ بہت جلد IMF پروگرام کو دوبارہ لاگو کرنے کی حکومتی کوشش کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے۔ مزدورکسان تحریک کے اگلے دور کا صرف ایک ہی مقصد ہونا چاہیے۔۔حکومت کا خاتمہ اور اقتدار پر قبضہ۔