[تحریر: عدیل زیدی]
سرمایہ دارانہ نظام کے تحت صنعتی انقلاب بنی نوع انسان کے لئے وہ تکنیکی، سماجی و معاشی ترقی لایا جو ماضی کا کوئی نظام نہیں دے پایا تھا۔ تاہم زائد پیداوار کا بحران سرمایہ داری کے خمیر میں شامل ہے جسے اس نظام کی حدود و قیود میں حل کرنا ناممکن ہے۔ یہ بحران معاشی عروج کے عہد میں سطح کے نیچے پنپتا رہتا ہے اور ایک مقام پر آکر پیداوار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اشیا فروخت نہیں ہوپاتیں، پیداوار رک جاتی ہے، لوگوں کا روزگار ختم ہو جاتا ہے جس سے طلب مزید کم ہو جاتی ہے اور تنزلی کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ ’’زائد پیداوار‘‘ کی اصطلاح کے معنی و مقاصد سرمایہ داری کے تحت بالکل متضاد ہو چکے ہیں۔ فاضل پیداوار کو معاشرتی طور پر ایک خوش کن مظہر ہونا چاہئے اور کسی قدرتی آفت کی صورت میں انسانی ضروریات کی تکمیل میں ایک سہارے کا کردار کرنا چاہئے لیکن ذاتی ملکیت اور منافع پر مبنی اس نظام میں زائد پیداوار ایک ایسے بحران کو جنم دیتی ہے جو مارکس کے الفاظ میں بہتات میں بھی قلت پیدا کر دیتا ہے۔ زائد پیداوار کے بحرانات کی تاریخ سرمایہ داری کے ساتھ ہی شروع ہوتی ہے۔ ماضی کے ہر سماجی و معاشی نظام میں قلت اور قحط سے بحران آیا کرتے تھے۔ سرمایہ داری تاریخ کا وہ واحد نظام ہے جس میں زائد پیداوار کے بحران آتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے اس بحران پر قابو پانے کے لئے حکمران طبقے نے کئی طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جن میں نئی منڈیاں پر قبضہ اور نوآباد کاری، جنگیں اور اسلحہ سازی کی صنعت کا فروغ، ریاستی بیل آؤٹ اور بڑی صنعتوں کو قومی تحویل میں لئے جانے جیسی پالیسیاں شامل ہیں۔
صنعتی سرمایہ داری کا آغاز تجارتی سرمایہ داری (Merchantile Capitalism) سے جاگیر دارانہ یورپ میں ہوا تھا۔ تیرہویں صدی کے اٹلی میں سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کی کچھ جھلکیاں ضرور ملتی ہے لیکن یہ غالب نظام نہ تھا۔ تاریک عہد میں ڈوبے یورپ میں جب نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا تو پہلی بار سرمایہ دارانہ نظام کے لئے سازگار معروضی حالات میسر آئے۔ سترہویں صدی میں انگلستان میں پہلی بار تاریخی طور پر متروک ہوجانے والے جاگیردارانہ نظام کو سرمایہ داری نے شکست دی۔ انگلستان میں ترقی پسند بورژوازی (سرمایہ دار طبقہ) کے غلبے نے پیداواری قوتوں کو ان دیکھی جلا بخشی اور یہ قومی ریاست دنیا کی سب سے بڑی پیداواری اکائی بن کر ابھری۔ انگلستان کی منڈی اس پیداوار کے سامنے جب محدود ہوئی تو بورژوازی نے نئی منڈیوں اور سستے خام مال کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں نوآباد کاری کا آغازکیا۔
یورپ کے دوسرے حصوں میں بھی سرمایہ دارانہ انقلابات نے نئی قومی ریاستوں کوجنم دیا اور مختلف ممالک کے حکمران طبقات کے درمیان نوآبادیات اور منڈیوں پر قبضے کی دوڑ سے نئے تضادات پیدا ہوئے۔ اس دوڑ میں انگلستان کے سرمایہ دار طبقے نے اپنے معاشی غلبے کے سبب سبقت حاصل کر لی۔ منڈیوں کی اس تلاش میں نئی دنیا (امریکہ) دریافت ہوئی اور اہل یورپ افریقہ، لاطینی امریکہ، ہندوستان اور مشرق بعید جا پہنچے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا کا بیشتر حصہ یورپی نوآبادکاروں کے تسلط میں تھا۔ فرانس، پرتگال اور سپین وغیرہ اپنی وسیع نوآبادیات کے باوجود انگلستان کے بین الاقوامی غلبے کو چیلنج نہ کرپائے۔
اٹھارہویں صدی کے اواخر میں انقلابی جنگ کے ذریعے برطانیہ سے آزادی کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایک نئی سرمایہ دارانہ طاقت کی شکل میں معرض وجود میں آیا۔ وسیع و عریض زرخیز میدانوں اور معدنی ذخائر کی وجہ سے امریکہ میں معاشی ترقی کی صلاحیت موجود تھی۔ انیسویں صدی میں یورپ سے لاتعداد تارکین روزگار کی تلاش میں امریکہ آنے لگے۔ افریقہ سے لائے جانے والے غلام اس کے علاوہ تھے۔ بیش بہا قدرتی وسائل اور افرادی قوت کے امتزاج نے امریکی سرمایہ داری کو تیز ترقی دی اور بیسویں صدی کے آغاز تک امریکہ ایک طاقتور سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہو گیا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے زائد پیداوار کے بحران کو شدید کر دیا اور منڈیوں کی بندر بانٹ پر سرمایہ دارانہ ممالک کے آپسی تضادات اس نہج پر پہنچ گئے جہاں براہ راست جنگ سے بچنا ناممکن تھا۔ پہلی عالمی جنگ انہی معاشی تضادات کا نتیجہ تھی۔ کروڑوں انسانوں کی ہلاکت اور بڑے پیمانے کے مالی نقصان کے باوجود یہ جنگ سرمایہ داری کے داخلی تضادات کو حل نہیں کر پائی۔ جنگوں کو کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ 1917ء میں بالشویک انقلاب برپا ہوا اور 1922ء میں سوویت یونین معرض وجود میں آیا۔ سوویت یونین میں رائج منصوبہ بند معیشت نے تیز ترین معاشی و سماجی ترقی دی اور ابتدائی پانچ سالہ منصوبوں نے جدید صنعتکاری کی راہ ہموار کر دی۔ اسی دوران 1929ء میں امریکہ سے شروع ہونے والا ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ عالمی سرمایہ داری کو نگلتا چلا گیا، منڈی مزید سکڑ گئی، بیروزگاری عام ہوگئی اور شرح منافع گر گئی۔ 1939ء میں شروع ہونے والی دوسری عالمی جنگ درحقیقت پہلی عالمی جنگ کا ہی تسلسل تھی۔ عالمی جنگ نے ہتھیار سازی کی منافع بخش صنعت کو چالو کر دیا جس سے بیروزگاری میں تیزی سے کمی آئی اور سرمایہ داروں کی شرح منافع بحال ہوئی۔ جنگ کے بعد بڑے پیمانے کی تعمیر نو سے بھی عالمی سرمایہ داری کو سہارا ملا۔ مزید برآں بعد از جنگ ہونے والی گلوبلائزیشن سے عالمی تجارت میں اضافے اور نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری سے زائد پیداوار کا بحران کچھ عرصہ کے لئے ٹل گیا۔
1973-74ء میں ریاستی سرمایہ داری Stagflation (افراط زر کے باوجود منجمد معاشی شرح نمو) کا شکار ہو کر بکھرنے لگی جس سے نکلنے کے لئے قومی تحویل میں لئے گئے اداروں کی نجکاری شروع کر دی گئی۔ یہ حکمت عملی دراصل مستقبل میں ایک بڑے اور گہرے بحران کا پیش خیمہ تھا۔ نجکاری اور لبرل ازم کے تحت سرمایہ داروں کی گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کرنے کے لئے توانائی، بینکاری اور ٹرانسپورٹ جیسے کلیدی شعبے بھی نجی ملکیت میں دے دئیے گئے جس سے ماضی میں دی جانے والی ریاستی سبسڈی کا خاتمہ ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ کلیدی شعبے ریاستوں نے اپنی تحویل میں لے لئے تھے تاکہ قومی بورژوازی کو سستی سہولیات فراہم کر کے عالمی منڈی میں مقابلے کے قابل بنایا جاسکے۔ لیکن نظام کے بحران نے سرمایہ داروں کو سونے کے انڈے دینے والی مرغی زبح کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے علاوہ ان شعبوں کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد ریاستیں معاشی طور پر کمزور ہو کر اپنی آمدن کے لئے نجی بینکوں کے قرضوں پر منحصر ہو گئیں۔
سرمایہ داری 1973-74ء کے بحران سے ڈگمگا ہی رہی تھی کہ 1978ء میں چین میں سرمایہ داری کی بحالی کا آغاز ہو گیا اور 1991ء میں سوویت یونین میں سٹالن ازم ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ان واقعات نے دم توڑتی ہوئی سرمایہ داری کو کچھ سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ چین کی سستی لیبر کے تعاقب میں مغرب سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری وہاں منتقل ہونے لگی اور چین میں بنائی گئی سستی اشیا مغربی منڈیوں میں فروخت کر کے ہوشربا منافع کمایا جانے لگا۔ لیکن سرمائے کی اس پرواز سے مغرب میں روزگار اور اس کے ساتھ ساتھ قوت خرید بھی کم ہونے لگی جسے بحال رکھنے کے لئے Credit Financing (قرضے) کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ شرح سود کم رکھی گئی اور ریاستیں سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے قرضے لیتی چلی گئیں۔ 2008ء میں قرضوں کا یہ پہاڑ زمین بوس ہو گیا اور عالمی معیشت ایک نئے بحران کا شکار ہو گئی۔ 2008ء کے معاشی بحران کا آغاز مالیاتی سیکٹر کے بحران سے ہوا کیونکہ صنعت میں سرمایہ کاری کی بجائے سٹہ بازی کے ذریعے پیسے سے پیسہ بنانے کا عمل اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔
ڈوبتے ہوئے بینکوں کو بچانے کے لئے ریاستوں نے بڑے پیمانے پر بیل آؤٹ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ مختلف ممالک کی معیشتیں کس طرح ایک دوسرے پر منحصر ہیں اس کا اندازہ ان بیل آؤٹ پیکجوں سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ مثلا برطانیہ کے Barclays بینک کو بچانے کے لئے 552.32 ارب پاؤنڈ امریکہ کے فیڈرل ریزرو اور 6ارب پاؤنڈ قطری حکومت نے ادا کئے۔ مزید برآں برطانوی حکومت نے 37 ارب پاؤنڈ کے ساتھ HBOS اور رائل بینک آف سکاٹ لینڈ وغیرہ کو قومی تحویل میں لے لیا تاکہ مزید معاشی بربادی سے بچا جاسکے۔ دوسرے الفاظ میں نجی شعبے میں دہائیوں تک سٹہ بازی کر کے دولت کے انبار لگانے والے بینکار جب ڈوبنے لگے تو ان کے نقصان کو ’’نیشنلائز‘‘ کرکے عوام پر لاد دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ ریاست کا حقیقی کردار یہی ہے۔ لیکن یہاں ہمیں ایک اور تضاد ابھرتا ہوا نظر آتا ہے کہ سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ کرنے والی ریاستوں کا اپنا دیوالیہ نکل رہا ہے اور وہ قرضے کے پہاڑ تلے دبتی چلی جارہی ہیں۔ اس صورتحال میں ریاستیں اپنے اخراجات کم کررہی ہیں۔ مفت علاج، تعلیم، بیروزگاری الاؤنس اور پنشن جیسی مراعات اور سہولیات جو محنت کشوں نے لمبی جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں، اب ’’کٹوتی‘‘(Austerity) کے نام پر چھینی جارہی ہیں اور ’’فلاحی ریاست‘‘ قصہ ماضی ہوچکی ہے۔ آسٹریلیاکی ریاست نے2011 ء میں 1.17 بلین ڈالر کے اضافی ٹیکس عوام پر لگائے۔ جرمنی میں حکومت آئندہ چار سال میں اپنے اخراجات پر 30 ارب یورو کی کٹوتی کرے گی، 2014 تک ملازمین کی تنخواہیں 15,000 یورو سالانہ تک کم کرے گی۔ اس معاشی دہشت گردی کے رد عمل میں یورپ اور امریکہ کے محنت کش عوام سیاسی طور پر متحرک ہورہے ہیں اور نئی تحریکیں پھوٹ رہی ہیں۔
بحران سے نکلنے کے لئے ’’مقداری آسانی‘‘ کا طریقہ کار بھی استعمال کیا جارہا ہے جس کے تحت منڈی کو سرگرم رکھنے کے لئے نوٹ چھاپ کر معیشت بھی پھینکے جارہے ہیں۔ امریکی ریاست ہر ماہ 85 ارب ڈالر چھاپ رہی ہے۔ یہ سلسلہ لا امتناہی طور پر جاری نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ اس سے افراط زر پیدا ہوتی ہے اور صورتحال زیادہ بگڑ سکتی ہے۔
2008ء میں شروع ہونیو الا بحران تاحال جاری ہے، عالمی معیشت کی شرح نمو کم و بیش منجمد ہے اور مستقبل قریب میں بحالی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طور پر متروک ہو کر اپنی حتمی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ یہ نظام پیداواری قوتوں کو ترقی دینے اور آبادی کی وسیع اکثریت کی زندگی کو سہل بنانے سے قاصر ہے۔ بیروزگاری، گرتا معیار زندگی اور بڑھتی غربت آج کا معمول ہے۔ بنی نوع انسان کو اس ذلت سے نکالنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ نجات کی سو شلسٹ منزل تک پہنچنے کے لئے انقلابی پارٹی ناگزیر ہے وگرنہ انسانیت اس نظام کی تنگ و تاریک گلی میں دیواروں سے سر ٹکراتی رہے گی۔