چین کا مالیاتی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور ایک بہت بڑے حجم کی کساد بازاری کی پیش گوئیاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور اسی باعث چین کا مالیاتی بحران پوری دنیا کی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔
14 ستمبر کو یہ خبر پوری دنیا کی منڈیوں میں سب سے اہم خبر تھی کہ چین میں رئیل اسٹیٹ کاروبار کی ایک دیو ہیکل کمپنی ایور گرینڈ (Evergrande) دیوالیہ ہونے جا رہی ہے جس کے باعث چین میں رئیل اسٹیٹ کا ہزاروں ارب ڈالر کا کاروبار کریش کر سکتا ہے۔ اس کمپنی کے ذمے کم از کم تین سو ارب ڈالر مالیت کے قرضے واجب الادا ہیں اور دیوالیہ ہونے کے باعث وہ یہ قرض ادا نہیں کر سکے گی جس کے باعث بہت سے بینک اور دیگر کمپنیاں بھی دیوالیہ ہو جائیں گی۔ اس کمپنی میں دو لاکھ سے زائد ملازمین نوکری کرتے ہیں جبکہ اپنے بیان کے مطابق اس کمپنی کے تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے ہر سال بیس لاکھ سے زائد افراد کو چین میں روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔ ستمبر کے آخری ہفتوں میں یہ کمپنی اپنے قرضوں پر واجب الادا سود کی 84 ملین ڈالر کی ایک قسط ادا نہیں کر سکی اور اسی طرح دیگر واجب الادا قسطوں کی ادائیگی بھی نہیں کر سکے گی جس کے باعث اس کا دیوالیہ ہونا تقریباً یقینی ہے، گو کہ عالمی سطح پر سرمایہ کار چینی ریاست کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کسی طرح اس دیوالیہ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام پر لٹکتی یہ تلوار ہٹائی جا سکے۔ اس کمپنی میں بہت سے امریکی انویسٹمنٹ بینکوں کی سرمایہ کاری بھی موجود ہے جبکہ کلنٹن فیملی کے بھی اس سے مفادات جڑے ہوئے ہیں اس لیے اس کمپنی کا دیوالیہ پن امریکی معیشت کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ خبر دنیا میں پھیلی تو امریکی اسٹاک ایکسچینجوں میں شدید مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا اورایک وقت پر پانچ سو بڑی کمپنیوں کے انڈیکس میں دو فیصد سے بھی زیادہ گراوٹ دیکھنے میں آئی جبکہ ایک رپورٹ کے مطابق یہ بیس فیصد تک بھی گر سکتا ہے۔
اکثر معیشت دان اس صورتحال کا موازنہ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے آغاز کا سبب ہونے والے دنیا کے ایک دیو ہیکل بینک لیہمن برادرز کے دیوالیہ سے کر رہے ہیں جو 600 ارب ڈالرز سے زیادہ کا مقروض تھا۔ اس کے دیوالیہ ہونے کے ساتھ ہی اس کے ساتھ جڑے بہت سے امریکی بینک اور کمپنیاں دیوالیہ ہو گئی تھیں اور ساتھ ہی رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی کریش کر گیا تھا۔ تعمیراتی شعبے پر اس کے اثرات کے ساتھ ساتھ اس شعبے سے وابستہ دیگر صنعتوں پر بھی مرتب ہوئے تھے اور خاص طور پر لوہے کی صنعت شدید گراوٹ کا شکار ہو گئی تھی اور یہ بحران ”عظیم کساد بازاری“ (Great Recession) بن گیا تھا جس نے مالیاتی شعبے اور صنعتوں کے بعد دنیا کی بہت سی کمزور ریاستوں کو دیوالیہ کرنا شروع کر دیا تھا جس میں یورپی یونین کی رکن ریاست یونان بھی شامل تھی۔
چین میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بعد بہت سی رئیل اسٹیٹ کمپنیاں دیوالیہ ہونا شروع ہو گئی ہیں اور لوہے کی قیمتیں بھی گزشتہ عرصے کی نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ایور گرینڈ کمپنی اس وقت چودہ لاکھ سے زیادہ مکانات کی تعمیر میں مصروف تھی جو فوری طور پر رُک گئی ہے اور ساتھ ہی چین میں رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں بحران کا شکار ہو رہی ہیں۔ چین کا حکمران طبقہ اس بحران کو ٹالنے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے اور ہر ممکن طریقے سے ایور گرینڈ کمپنی کے اس دیوالیہ کو کنٹرولڈ انداز میں کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ منڈی میں 17 ارب ڈالر کی رقم بھی پھینکی گئی ہے۔ اس کمپنی کے ساتھ جڑے سینکڑوں دیگر کاروبار، بینک اور کمپنیاں بھی ہیں جنہیں مکمل کنٹرول کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں، خاص طور پر چین میں موجود شیڈو بینکنگ کے ہزاروں ارب ڈالر کے غیر قانونی نیٹ ورک سے بھی یہ کمپنی منسلک تھی جسے قابو کرنا حکومت کے بس میں نظر نہیں آتا۔ یہ تمام صورتحال چین کے سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی زوال پذیر اور بیمارکیفیت کی عکاسی کرتی ہے اور چین کا ممکنہ بحران اگر فوری طور پر کسی طرح کنٹرول کر بھی لیا جاتا ہے تو بھی اسے زیادہ عرصے کے لیے ٹالا نہیں جا سکتا اور یہ کچھ عرصے بعد زیادہ بڑے پیمانے پردوبارہ اپنا اظہار کرے گا۔
اسی کے ساتھ چین کے سرمایہ دارانہ سماج کا عالمی معیشت سے گہرا رشتہ بھی واضح ہو کر ابھرا ہے جس میں امریکہ، یورپ اور چین سمیت پوری دنیا میں پھیلے سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران اور اس کی لرزتی بنیادوں کا اظہار ہوا ہے۔ گزشتہ سال لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر کی معیشتیں تاریخ کے بد ترین بحران سے گزری تھیں جس کے دوران ترقی یافتہ معیشتوں نے ہزاروں ارب ڈالر کے نوٹ چھاپ کر عوام کو گھر بیٹھے تقسیم کیے تھے تاکہ ممکنہ عوامی بغاوت کو ابھرنے سے روکا جا سکے۔ لیکن اب معیشتوں کی بحالی کے آغاز کا واویلا کیا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ اب سرمایہ دارانہ نظام ریکوری کی جانب گامزن ہے۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے اس ریکوری کے کھوکھلے پن کو عیاں کر دیا ہے اور یہ عندیہ دے دیا ہے کہ آنے والے عرصے میں ماضی کی نسبت کہیں گہرا اور وسیع عالمی مالیاتی بحران ممکن ہے جو پوری دنیا کی معیشتوں کو ڈبونے کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا بھر کے حکمران طبقات اس صورتحال میں شدید خوفزدہ ہیں اور اپنے نظام کو بچانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں لیکن ایک بوسیدہ اور انہدام کے قریب پہنچی عمارت کی طرح اس نظام پر جتنا مرضی رنگ و روغن کر لیا جائے اس کی بنیادوں میں موجود خرابی کودرست نہیں کیا جا سکتا۔
یہ نظام اور اس کی بحران زدہ معیشت اب لوگوں کو روزگار سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے اور آج کروڑوں لوگ غربت اور ذلت کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ آنے والے نئے بحران ایسے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کریں گے جو ناگزیر طور پر حکمران طبقے کے پر تعیش معمولات زندگی کے خلاف عوامی بغاوتوں کو ابھاریں گے۔ چین کا حکمران طبقہ ایسی عوامی تحریکوں کے خطرات کو پہلے ہی بھانپ رہا ہے اور بظاہرچین کے امیر ترین افراد کے خلاف ایک کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا ہے جس میں انہیں بھاری جرمانے کیے جا رہے ہیں تاکہ عوام کو باور کرایا جا سکے کہ چینی ریاست عوام کی خیر خواہ ہے۔ لیکن اس کریک ڈاؤن کا مقصد بھی چین کے عوام کا اس سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد بحال کروانا اور سرمایہ دار طبقے کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ چین کے صدر نے بیجنگ میں ایک نئی اسٹاک ایکسچینج کا افتتاح بھی کیا ہے اور دیگر ایسے بہت سے اقدامات کیے ہیں جن سے چین میں سرمایہ دارنظام کی مسابقت کا عمل پہلے سے بہتر ہو سکے اور بڑی کمپنیاں چھوٹی کمپنیوں کو آسانی سے نہ نگل سکیں۔ لیکن اس سارے عمل میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی بجائے مضبوط کیا گیا ہے۔
اس نظام کو تبدیل کرنے کی صلاحیت صرف چین کے محنت کش طبقے کے پاس ہی ہے جس کا حجم دنیا میں سب سے بڑا ہے اور دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی اس کے تصرف میں ہے۔ اسی لیے چین میں ابھرنے والی عوامی تحریکیں مشرقی ایشیا سمیت پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کریں گی۔ ایک جانب چین کا مالیاتی بحران ایک نئے عالمی بحران کا آغاز کرے گا اور دوسری جانب چین کی انقلابی تحریکیں پوری دنیا میں انقلابات کے ایک نئے سلسلے کا آغاز بھی کریں گی۔ اس عمل کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی منطقی انجام تک پہنچایا جا سکتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال، ظلم، جبر اور خونریزی کا انت کرتے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے دور کاآغاز کیا جا سکتا ہے۔