عالمی تعلقات اور سیاست میں بھونچال، آگے کیا ہوگا؟ کمیونسٹ تجزیہ

 

”دہائیاں گزر جاتی ہیں اور کچھ نہیں بدلتا، اور پھر چند دن ایسے آتے ہیں جن میں دہائیوں کا سفر طے ہو جاتا ہے۔“ (لینن)

20جنوری 2025ء سے لے کر 28 فروری تک کے دنوں میں عالمی تعلقات میں بھونچال آ گیا۔ ان مختصر عرصے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد 80 سال سے قائم لبرل ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر گیا۔ اس لبرل ورلڈ آرڈر کی قیادت یورپ کے ساتھ مل کر امریکہ کر رہا تھا جسے عرف عام میں ’مغرب‘ کہا جاتا ہے۔ موجودہ امریکی صدر نے اپنے ہی ہاتھوں سے اسے نیست و نابود کر ڈالا ہے۔ اب امریکہ اور یورپ اتحادی نہیں رہے بلکہ فنانشل ٹائمز میں لکھنے والے تجزیہ نگار مارٹن وولف کے الفاظ میں ”دشمن بن چکے ہیں“۔ ٹرمپ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف روس-یوکرین جنگ میں یوکرین کو شکست ہو چکی ہے پر اسے نہ تو یوکرینی صدر زیلینسکی تسلیم کر پا رہا ہے اور نہ ہی یورپ۔ امریکہ نے نیٹو اور یورپی دفاع کا خرچہ اُٹھانے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکہ نے یوکرین کی جنگی امداد روک دی ہے۔ ان چند دنوں میں دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ آخر امریکی صدر نے ایسا کیوں کیا؟ یہ لبرل ورلڈ آرڈر کیوں ٹوٹا اور اس کے دنیا پر کیا اثرات ہوں گے؟ دنیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس تحریر میں ان سمیت دیگر کئی سوالات کا کمیونسٹ نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جائے گا۔

12 فروری کو ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن کو کال کی اور ان دونوں نے روس-یوکرین جنگ بندی کا معاہدہ طے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب میں ان دو ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز مناظر تھے۔ ان مذاکرات میں نہ تو یوکرینی نمائندے موجود تھے اور نہ ہی یورپی۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ روس اور یوکرین کی نہیں بلکہ درحقیقت نیٹو اور روس کے درمیان ایک پراکسی جنگ ہے۔ کمیونسٹ اس جنگ کے آغاز سے ہی کہتے آرہے ہیں کہ یہ امریکی قیادت میں نیٹو کی پراکسی جنگ ہے۔ اس جنگ میں امریکی اور یورپی سامراج یوکرینی عوام کو اپنے سامراجی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب روسی حکمران طبقے کے بھی اپنے سامراجی عزائم موجود ہیں۔ اسی طرح یوکرینی حکمرانوں کے بھی اپنے سیاسی و مالی مفادات موجود ہیں۔ اس جنگ میں تباہی و بربادی یوکرینی محنت کش عوام کی ہوئی ہے۔

ان مذاکرات کے آغاز کے بعد یوکرینی اور تمام یورپی حکمرانوں کی نیندیں اُڑ گئیں۔ اب تک سب کے سامنے یہ واضح ہو چکا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت یعنی امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مزید اس جنگ کو جاری نہیں رکھا جائے گا۔ اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر دوڑے دوڑے امریکی صدر ٹرمپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام ہوئے۔ کنگال فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے پاس دنیا کے ”سب سے عظیم“ بزنس مین اور ”ڈیل میکر“ ٹرمپ کو دینے کیلئے سوائے اپنے فرانسیسی ادب و آداب اور مصنوعی مسکراہٹ کے کچھ نہ تھا۔ برطانوی وزیر اعظم کے پاس اگرچہ ایک نہایت ہی خاص تحفہ تھا۔ یہ تھا برطانیہ کے بادشاہ چارلس سوم کا دستخط شدہ دعوتی خط۔ بادشاہ سلامت نے امریکی صدر کو اپنے بیوی بچوں سمیت شاہی محل میں کھانے پر بُلایا تھا۔ مگر شاید اُس تحفے کو دینے کا وقت موزوں نہ تھا یا شاید وہ تحفہ کاروباری ٹرمپ کیلئے اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ اِس تحفے سے اتنا متاثر نہیں ہوا۔ بلکہ ٹرمپ نے انتہائی حیرت انگیز جواب دیا کہ وہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کر کے اُنہیں شرفِ ملاقات بخشے گا۔ خدا جانے یہ بات غلطی سے کر دی یا جان بوجھ کر ٹرمپ نے یہ کہا۔ بہر حال ٹرمپ نے میکرون اور سٹارمر سے انتہائی خوشگوار ماحول میں ہر بات کی اور تقریباً ہر غیر ضروری بات پر ہاں میں ہاں بھی ملائی سوائے اصل بات کے، کہ امریکہ اس جنگ کو جاری رکھے گا یا کم از کم یوکرین کو سیکورٹی گارنٹی دے گا۔ اس طرح میکرون اور کیئر سٹارمر خالی ہاتھ آئے اور خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے۔

پھر آیا 28 فروری کا دن، اور اوول ہاؤس (امریکی صدر کے دفتر) میں انٹری ہوئی مغرب کے لاڈلے زیلینسکی کی۔ یہ تھا وہ تاریخی دن جب دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والے لبرل ورلڈ آرڈر کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان ہوا گو کہ یہ عمل ایک طویل عرسے سے جاری تھا۔ ٹرمپ اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس سمیت امریکی میڈیا نے اِس دن جس طرح زیلینسکی کو ذلیل و رسوا کیا (اور خود بھی ہوئے) وہ مناظر ساری دنیا نے دیکھے۔ اُس پریس کانفرنس کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے گلی میں دو بچے آپس میں لڑ رہے ہوں۔ اس پریس کانفرنس میں جب ایک بار تکرار شروع ہوئی تو پھر سفارتی زبان (یعنی منافقت) کا استعمال نہیں کیا گیا اور جو بات جیسی ہے اُسے ویسا ہی بولا گیا۔ ایک موقع پر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں زیلینسکی کو کہا کہ ”تمہارے پاس (تاش کے) پتے نہیں ہیں“ یعنی کہ تم ہار چکے ہو، لہٰذا تم خاموش رہو۔ بالآخر ٹرمپ نے پریس کانفرنس ختم کروا دی اور اُسکے بعد زیلینسکی کو ذلیل و رسوا کر کے امریکہ سے واپس بھیج دیا گیا۔

یہ سمجھنے کیلئے پہلے ہمیں واضح ہونا ضروری ہے کہ اس وقت روس-یوکرین جنگ سے جڑے مختلف فریقین کے مفادات کیا ہیں؟ اس جنگ میں چار فریق اہم ہیں روس، یوکرین، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک۔


1) یوکرین کا صدر زیلینسکی یہ چاہتا ہے کہ جنگ جاری رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر جنگ ختم ہو گئی تو اُسے اپنا اقتدار جاتا نظر آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ زیلینسکی اور اس کے حامی حکمران ٹولے نے جنگ کے دوران اربوں ڈالر اپنی تجوریوں میں منتقل کیے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق امریکہ یوکرین کو تین سو ارب ڈالر سے زائد دے چکا ہے اور اب وہ اس کا حساب مانگ رہا ہے۔ زیلینسکی کے مطابق ان میں سے 100 ارب ڈالر کا پتہ لگانا ممکن نہیں کہ وہ کہاں خرچ ہوئے۔ یوکرین میں جب سے جنگ شروع ہوئی ہے تب سے اب تک الیکشن نہیں کرائے گئے، اسی لیے ایک موقع پر ٹرمپ نے زیلینسکی کو آمر بھی کہا تھا۔ بہر حال یوکرین یہ جنگ ہار چکا ہے۔ اس وقت یوکرینی فوج کا مورال تقریباً مکمل ٹوٹ چکا ہے اور فوج میں بغاوتیں ہونا شروع ہو گئی ہیں اور حتیٰ کہ 18 سال سے کم عمر نوجوانوں کو بھی جبری طور پر محاذ جنگ پر بھیجا جا رہا ہے۔ اب تک یہ جنگ مکمل طور پر مغربی بالخصوص امریکی عسکری و مالی امداد کی بنیاد پر جاری ہے۔ اور امریکی امداد بند ہونے کے بعد اس جنگ کا زیادہ عرصہ جاری رہ پانا ناممکن ہے۔ اسی لیے زیلینسکی کی کوشش ہے کہ کسی طرح امریکہ جنگ میں گھسا رہے۔

2) روس اس وقت جنگ جیت چکا ہے اور آئے روز نئے علاقوں پر قبضے کرتا جا رہا ہے۔ روس کے جن علاقوں میں یوکرینی فوج گھسی تھی اسے بھی خالی کروایا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر سخت ترین معاشی پابندیوں کے باوجود روس کی معیشت ابھی تک دیوالیہ نہیں ہوئی بلکہ عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے اسے فائدہ ہوا ہے۔پیوٹن کا اقتدار بھی ابھی تک مضبوط ہے۔

3) امریکہ فوری جنگ بندی چاہتا ہے۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ امریکی عوام میں جنگوں کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ لہٰذا اس نفرت کا ووٹ لینے کیلئے ٹرمپ نے اپنی الیکشن کمپئین میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ جنگیں ختم کرے گا۔ چنانچہ اب وہ اپنے ووٹروں کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے۔ مگر دوسری اور بنیادی ترین وجہ یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ اور امریکی حکمران طبقے کا وہ دھڑا جو اِسکے ساتھ جڑا ہے، کی یہ پالیسی ہے کہ مالیاتی بحران کے باعث امریکہ اب بیرون ممالک جنگوں میں مداخلت ختم کرے اور اپنی فوجوں کو واپس بلائے تا کہ ہر جگہ پاؤں پھنسائے رکھنے کی بجائے اپنے وسائل اور ہتھیاروں کے ضیاع کو روکا جا سکے اور سب سے بڑے دشمن چین کے خلاف محاذ پر فوکس کیا جا سکے۔ اسی طرح پوری دنیا کا تھانیدار بنے رہنے کی بجائے اپنی قدرتی تزویراتی سرحدوں یعنی کینیڈا، پانامہ کینال، میکسیکو، گرین لینڈ تک محدود ہوا جائے، جس کا ناگزیر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یورپ پھر امریکی خارجہ پالیسی میں آخری نمبر پر چلا جاتا ہے۔

4) یورپی ممالک بالخصوص برطانیہ اور فرانس یہ چاہتے ہیں کہ جنگ جاری رہے۔ کیونکہ جنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی انہیں ایک طرف امریکہ کی یورپ میں دلچسپی ختم ہوتی ہوئی اور دوسری جانب روس کا پورے یورپ اور بالخصوص مشرقی یورپ پر اثر و رسوخ بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ امریکی دفاعی سپورٹ کے بغیر تمام یورپی ممالک نہایت ہی کمزور ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ یورپی ممالک کے دفاع کا بہت سا خرچہ آج بھی امریکہ اُٹھاتا ہے اور ٹرمپ نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ مزید یورپ کا خرچہ نہیں اٹھائے گا۔ دوسری جانب یورپ کا مالیاتی بحران بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ جرمنی کو اس جنگ کی وجہ سے شدید مالیاتی نقصان اٹھانا پڑا۔

ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد یورپی حکمرانوں بشمول زیلینسکی کو یہ نظر آگیا تھا کہ اب امریکہ مزید اس جنگ میں شامل نہیں رہے گا۔ اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے زیلینسکی نے اپنی طرف سے ٹرمپ کو پھنسانے کیلئے ایک ”شاطر پلان“ بنایا جسے اُس نے ”فتح کا پلان“ کا نام دیا۔ اس پلان کے مطابق امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنی ذخائر کی ایک ڈیل ہونا تھی کہ یوکرین میں موجود معدنی ذخائر جیسے لیتھیئم، یورینیئم وغیرہ (جن کا استعمال ٹیکنالوجی سے جڑی مشینری میں ہوتا ہے) امریکہ نکال کر لے جائے اور ان کے بدلے یوکرین کو سیکورٹی گارنٹی فراہم کرے۔ یعنی کہ مالی اور عسکری امداد جاری رکھے اور باقاعدہ نیٹو ممبر ہونے کے بغیر ہی نیٹو ممبر کا درجہ فراہم کرے۔ ٹرمپ نے سیکورٹی گارنٹی فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا اور اُلٹا یہ کہہ دیا کہ امریکہ پہلے ہی 300 ارب ڈالر کے قریب یوکرین کو امداد کی مد میں دے چکا ہے لہٰذا پہلے وہ واپس کیا جائے۔ یعنی کہ ٹرمپ کے نزدیک معدنی ذخائر کی ڈیل کا مطلب یہ تھا کہ اس سے امریکہ اپنے سابقہ خرچے پورے کرے گا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب امریکی کمپنیاں یوکرین میں معدنی ذخائر نکال رہی ہوں گی تو اس کا مطلب امریکی سیکورٹی گارنٹی ہی ہے۔


موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ زیلینسکی کیلئے کافی اچھی ڈیل تھی۔ ویسے بھی یوکرین میں موجود معدنی ذخائر کافی مشکوک کردار رکھتے ہیں۔ مثلاً کہا جا رہا ہے کہ جن علاقوں میں یہ ذخائر موجود ہیں وہ پہلے ہی روس کے قبضے میں ہیں۔ اس طرح اس معاہدے کا مقصد معاشی سے زیادہ سیاسی ہی تھا۔ ٹرمپ بھی اپنے ووٹروں کو یہی دکھانا چاہ رہا تھا کہ اُس نے امریکی پیسے واپس لیے ہیں اور زیلینسکی بھی عوام کو یہ کہہ سکتا کہ یوکرین نے جنگ اپنے پیسوں پر لڑی ہے۔ مگر انوکھا لاڈلا کھیلنے کو چاند تو مانگے گا ہی۔ اُس نے ٹرمپ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ٹرمپ یہ چاہ رہا تھا کہ امریکی اور یوکرینی وزرا آپس میں یہ معاہدہ کر لیں۔ مگر زیلینسکی کی ضد تھی کہ ٹرمپ کے ساتھ مل کر ”معدنی ذخائر معاہدے“ پر دستخط کرے گا، بالآخر اُسے امریکہ بلا ہی لیا گیا۔ 28 فروری کی ملاقات میں اس معاہدے پر دستخط ہونا تھے۔ مگر جب زیلینسکی نے معاہدے کو پڑھا تو اُس کی بے قراری اور غصہ مزید بڑھ گیا۔ اس معاہدے میں امریکی سیکورٹی گارنٹی کا کہیں ذکر نہ تھا۔ تو دوستو، اس طرح شدید بے قراری کے عالم میں ملا تھا زیلینسکی امریکی صدر ٹرمپ سے۔ یہ تھے وہ حالات جن کے نتیجے میں دو ممالک کے صدور آپس میں گتھم گتھا ہوئے اور ملاقات کا اختتام باقاعدہ طور پر لبرل ورلڈ آرڈر کے خاتمے کے ساتھ ہوا۔اس طرح عالمی سرمایہ داری کے بحران کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا جو عمل ایک طویل عرصے سے جاری تھا وہ اس واقعے کے بعد سطح پر نمودار ہوا اور صورتحال معیاری طور تبدیل ہو گئی۔

1) ’مغرب‘ (بنیادی طور پر امریکہ) کی قیادت میں قائم لبرل ورلڈر آرڈر اور ’مغربی اتحاد‘ ٹوٹ چکا ہے۔ یورپ اب امریکی مفادات اور عالمی تعلقات میں پہلے کی نسبت انتہائی کم اہمیت رکھتا ہے۔

2) روس یہ جنگ جیتنے کے بعد ایک علاقائی سامراجی طاقت کی بجائے اب ایک عالمی سامراجی طاقت بن چکا ہے۔ اس کے عالمی سیاست اور بالخصوص یورپ پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہوں گے۔

3) امریکہ اب عالمی سطح پر پھیلاؤ کی پالیسی کی بجائے سکڑاؤ کی پالیسی پر کاربند ہے۔ اگرچہ یہ ٹرمپ اور اُس سے جڑے امریکی حکمران طبقے کے ایک دھڑے کی پالیسی ہے، مگر یہ بظاہر ”حقیقت پسندی“بھی ہے کیونکہ اب امریکی سامراج اپنی حدود کو چھو چکاہے اور نسبتی زوال کا شکار ہے، لہٰذا مزید پوری دنیا کی ٹھیکیداری نہیں کر سکتا۔ اب صدر خواہ ٹرمپ ہو یا کوئی اور، نہ تو امریکی سامراج کے نسبتی زوال کو کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی مستقبل میں پھیلاؤ کی پالیسی کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔ مگر اس کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ امریکی سامراج اب عالمی سطح پر اپنے سامراجی عزائم کم کر دے گا یا پھر سختی سے سکڑاؤ کی پالیسی پر ہی کاربند رہے گا۔ بلکہ وہ مخصوص مواقعوں پر ماضی کی طرح اور بعض اوقات ماضی سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ پھیلاؤ کی پالیسی اپنانے پر بھی مجبور ہو گا۔ بہر حال عمومی پالیسی اپنی سامراجی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے سکڑاؤ کی ہی رہے گی، یعنی کہ اس بات کا ادراک رکھتے ہوئے کہ امریکہ اب واحد عالمی سامراجی طاقت نہیں رہا بلکہ چین اور روس جیسی دیگر بڑی سامراجی طاقتیں بھی موجود ہیں، اور امریکہ بھی اُن کے ساتھ ایک تیسری بڑی سامراجی طاقت ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ امریکہ اس وقت سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے، مگر وہ نسبتی زوال کا بھی شکار ہے جس کی بنیاد پھر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو مستقبل میں کئی تضادات کو جنم دے گی اور جنگوں، خانہ جنگیوں اور تجارتی جنگوں میں اضافہ کرے گی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ اُس وقت مغرب کے سرمایہ دارانہ اور سامراجی ممالک کی قیادت امریکہ کر رہا تھا اور ان کے مقابلے میں سوویت یونین اور اس کے اتحادی ممالک موجود تھے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ واحد بڑی سامراجی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب سوویت انہدام اور چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ تجزیہ نگاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اب انسانیت کا مستقبل ”جمہوری لبرل اصولوں پر قائم ورلڈ آرڈر“ ہی ہے۔ اُس وقت سوائے کمیونسٹوں کے سب یہی کہہ رہے تھے کہ اب امریکہ تا حیات دنیا پر راج کرے گا اور پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ جمہوریت لاگو کرے گا۔ یہی انسانیت کا مستقبل اور ترقی کا واحد ضامن ہے۔ جدلیاتی مادیت کے سائنسی فلسفے کی بنیاد پر سماج کو دیکھنے کی وجہ سے کمیونسٹوں کو یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک عالمی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔یہ بحران عالمی سطح پر سیاست اور سماجوں کو تہہ و بالا کرنے والا تھا۔ کمیونسٹ اُس وقت لگاتار یہ تناظر پیش کر رہے تھے۔ اسی طرح امریکی سامراج کو بھی ازلی و ابدی سمجھنے کی بجائے اُس کے زوال کا تناظر بھی کمیونسٹ ہی پیش کر رہے تھے (اس حوالے سے ہماری ویب سائٹ marxist.com وزٹ کریں) ۔ اور پھر آیا 2008ء کا عالمی مالیاتی بحران۔ اس عالمی بحران نے امریکی سامراج کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا۔ بڑی بڑی کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے امریکی ریاست کو ہزاروں ارب ڈالر کے بیل آؤٹ دینے پڑے اور اس طرح معیشت پر قرضوں کا انبار لگ گیا۔ یہی کام باقی ممالک نے بھی کیا۔ریاستی سرمایہ داری کے تحت چلنے والاچین اُس وقت کسی حد تک اس بحران سے بچ گیا تھا، بلکہ متعدد وجوہات کی بنیاد پر عالمی معاشی سائیکل چل ہی صرف چین کی بدولت رہا تھا۔ اس بحران سے امریکہ سمیت عالمی معیشت بھی باہر نہ نکل پائی اور پھر بارہ سال بعد 2020ء میں کرونا وبا آگئی۔ اُس وقت پوری دنیا لاک ڈاؤن میں چلی گئی اور اکثریتی کام بند ہو گئے۔ بیروزگاری میں اضافہ اور قوت خرید میں کمی انتہائی خوفناک شکل اختیار کر گئی۔ انقلابی تحریکوں کے خوف سے امریکہ سمیت تمام ممالک نے تاریخ کے سب سے بڑے قرضے دیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکہ پر 36 ہزار ارب ڈالر قرضہ چڑھ چکا ہے۔ اگر ڈالر عالمی کرنسی نہ ہو تو امریکہ آج ہی ڈیفالٹ کر جائے گا۔

لہٰذا معاشی طور پر کمزور ہونے کے نتیجے میں امریکہ کو افغانستان، مشرق وسطیٰ سمیت باقی جگہوں پر فوجی ذلت بھی اُٹھانا پڑی۔ دوسری طرف چین ایک بڑی عالمی سامراجی طاقت کے طور پر اُبھرنا شروع ہوا۔ اگرچہ امریکہ کے مقابلے میں چین کمزور سامراجی طاقت ہے مگر کئی حوالوں سے وہ تیزی سے امریکہ کے مقابلے میں آتا جا رہا ہے جیسے ڈیپ سیک جیسی پیش رفتوں کے ساتھ ٹیکنالوجی میں۔ لہٰذا امریکہ جہاں جہاں پیچھے ہٹتا گیا، اُس خلا کو چین، روس سمیت دیگر علاقائی سامراجی قوتوں نے پُر کرنا شروع کیا۔ اس طرح امریکہ کے دیگر سامراجی طاقتوں بالخصوص چین کے ساتھ تضادات بڑھتے چلے گئے۔ اِس صورت حال میں ٹرمپ نے ”سب سے پہلے امریکہ“ کی پالیسی شروع کی۔ پالیسی یہ ہے کہ بیرون ممالک کی اشیاء پر ٹیکس (ٹیرف) لگائے جائیں (ٹرمپ نے حال ہی میں چین سمیت کئی ممالک پر ٹیرف لگا دیے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے اتحادی کینیڈا کی چند اشیاء پر بھی 25 فیصد ٹیکس لگا دیے ہیں اور 50 فیصد کرنے کی دھمکی دی ہے)۔ نتیجتاً عالمی تجارت و تعلقات میں انتشار بھی بڑھتا چلا گیا۔ عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری، ریاستی جبر کے خلاف مختلف ممالک میں عوامی احتجاجی تحریکیں بھی شروع ہو گئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہو جانے کی وجہ سے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک کی اصلاح پسند پارٹیوں نے بھی کھل کر اس بحران کا بوجھ محنت کش عوام کے کندھوں پر ڈالنا شروع کیا اور تنخواہوں میں کٹوتیاں، ٹیکسوں میں اضافے کیے، تعلیم اور صحت مہنگی کرنی شروع کر دی۔ لہٰذا محنت کش عوام نے سٹیٹس کو کی نمائندہ ہر سیاسی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کو رد کرنا شروع کر دیا۔ کئی ممالک میں صدیوں اور دہائیوں سے قائم روایتی پارٹیاں بھی رد ہو گئیں اور سیاسی بحران ایک قدم آگے بڑھ کر ریاستی بحران میں داخل ہو گیا۔ اس طرح عالمی معاشی و سیاسی بحران اور امریکی سامراج کے نسبتی زوال کے نتیجے میں مختلف ممالک کی اندرونی سیاست بھی شدید بحران کا شکار ہو گئی۔ لہٰذا عالمی تعلقات کے بگڑنے اور ممالک کے اندرونی معاشی و سیاسی تقاضوں اور تضادات نے جنگوں اور خانہ جنگیوں کو جنم دیا۔ روس-یوکرین جنگ،شامی خانہ جنگی اور فلسطین پر اسرائیلی جارحیت سمیت دیگر کئی جنگیں اور خانہ جنگیاں اسی کا نتیجہ ہیں۔ آج ان جنگوں اور خانہ جنگیوں کے نتیجے میں نئے اور معیاری طور پر بلند پیمانے کے تضادات جنم لے چکے ہیں جو مستقبل میں اپنا اظہار کریں گے۔

موجودہ عہد عالمی سطح پر ہر شعبے میں تیز ترین اور غیر متوقع تبدیلیوں کا عہد ہے۔ یہ انقلابات اور ردِ انقلابات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کا عہد ہے۔ یہ روایتوں کے ٹوٹنے کا عہد ہے۔ یہ معاشی بحرانات اور تجارتی جنگوں کا عہد ہے۔ یہ انتشار سے بھرپور عہد ہے۔ یہ وقتی اور انتہائی عارضی نوعیت کے عالمی تعلقات کا عہد ہے۔ آج مستقل اور لمبے عرصے تک کوئی بھی تعلق قائم نہیں رہے گا۔ اس عہد کا خاصا یہ ہے کہ پہلے ہر ناممکن دکھنے والی بات آج حقیقت کا روپ دھارے گی، لہٰذا اَنہونی کیلئے تیار رہیں۔ موجودہ دور میں فرد کا کردار بھی مخصوص سماجی و سیاسی حالات کے تحت انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے، بلکہ کئی دفعہ فیصلہ کن نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ٹرمپ، بائیڈن، زیلینسکی، نیتن یاہو اس کی مثالیں ہیں۔ ان افراد کے فیصلوں نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ مثلاً اگر سابقہ امریکی صدر بائیڈن نہ چاہتا تو روس-یوکرین جنگ روکی جا سکتی تھی۔ اپنے دھڑے کے سیاسی و مالی مفادات کیلئے زیلینسکی جنگ کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ یہ کافی پہلے ہی ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اتنا لمبا عرصہ صرف نیتن یاہو کے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے جاری ہے جسے اسرائیل کا حکمران طبقہ بھی اپنے بحران کے باعث جاری رکھے ہوئے ہے۔ باقی ٹرمپ کے فیصلے تو پہلے زیر بحث آ چکے ہیں۔ اس طرح مستقبل میں بھی پیوٹن، مودی، شی جن پنگ سمیت دیگر افراد کا بھی کئی حوالوں سے فیصلہ کن کردار نظر آئے گا۔ بہر حال ان افراد کا کردار سماجی حالات کی حدود سے بڑھ کر قطعاً نہیں ہوگا اور آخری تجزیے میں حالات کا ہی نتیجہ ہوگا۔ یہ افراد کسی نہ کسی سماجی پرت،طبقے اور سماجی عمل کی ہی نمائندگی کریں گے۔ لہٰذا اگرچہ انتشار سے بھرپور عہد کو مزید پُر انتشار بنانے میں ان افراد کا کردار انتہائی اہم ہوگا، مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس انتشار کی بنیادی وجہ ہی یہ افراد ہیں، غلط ہوگا۔

سرمایہ دارانہ نظام کا موجودہ عالمی معاشی بحران کوئی معمول کا بحران یا محض حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک نامیاتی بحران ہے جسے کارل مارکس نے زائد پیداوار (Overproduction) کا بحران کہا تھا۔ یعنی کہ سرمایہ دارانہ نظام اب مزید انسانی سماج کو ترقی دینے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہو چکا ہے۔ اب یہ نظام انسانوں کی اکثریت کو صرف مہنگائی، غربت، لاعلاجی، وبائیں، جنگیں، ماحولیاتی تباہی اور دہشت گردی ہی دے سکتا ہے۔ اب یہ مزید صرف انسانوں کی اکثریت کے خون پر ہی پل سکتا ہے۔ بہر حال یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگرچہ مستقبل میں جنگوں اور خانہ جنگیوں میں اضافہ ہوگا، مگر تیسری عالمی جنگ کے امکانات فوری طور پر موجود نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ حکمرانوں کو دنیا کی فکر ہے بلکہ دراصل یہ ایک جوہری جنگ ہوگی جس کے نتیجے میں تاریخ کی بدترین تباہی و بربادی ہو گی۔ اور چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں جنگیں ہوتی ہی منافعوں اور منڈیوں کیلئے ہیں تو ایسی جنگ جس کے نتیجے میں منڈی ہی نہ بچے، وہ سرمایہ داروں کے حق میں بھی نہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مستقبل بعید میں بھی اس کے کوئی امکانات نہیں۔ اگر مستقبل میں طویل عرصے تک مسلسل جاری عوامی تحریکوں کا انجام سرمایہ دارانہ نظام کو عالمی سطح پر اُکھاڑ پھینکنے پر نہیں ہوتا اور دنیا کمیونزم کی طرف نہیں بڑھ پاتی تو پھر یقیناً تیسری عالمی جنگ کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔

بہر حال آج اس تباہی و بربادی کے خلاف پوری دنیا میں محنت کش عوام بھی احتجاج، ہڑتالیں اور کئی ممالک میں تو انقلابات بھی کر رہے ہیں۔ فروری کے مہینے میں ہی یونان میں 10 لاکھ لوگوں نے عظیم الشان ہڑتال کی ہے۔ مستقبل میں یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کرے گا اور سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے تاریخ ساز واقعات جنم لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اسی طرح سیاست میں بھی پولرائزیشن بڑھے گی اور دائیں اور بائیں بازو کی جانب جھکاؤ تیز تر ہو تا جائے گا۔ یہ عمل پہلے سے ہی جاری ہے مگر مستقبل میں اس میں معیاری اضافہ ہوگا۔ اس سفر میں کبھی دایاں بازو حاوی ہوگا تو کبھی بایاں بازو۔ جدلیاتی مادیت کے سائنسی فلسفے کے بغیر محض سطحی طور پر دیکھنے والے لوگ مودی اور ٹرمپ جیسے دائیں بازو کے اشخاص کی جیت کو ازلی و ابدی اور فاشزم کی جیت قرار دیں گے۔ مگر اول تو ان کی جیت سٹیٹس کو کے خلاف عوامی نفرت کا اظہار ہے اور دوسرا یہ انتہائی وقتی نوعیت کی حامل ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا میں جہاں آج پاپولسٹ دایاں بازو حاوی ہے مثلاً جرمنی وغیرہ، وہاں مستقبل میں بایاں بازو بھی حاوی ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو دایاں بازو اور نہ ہی اصلاح پسند بایاں بازو سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران سے باہر نکال سکتا ہے۔ اسی طرح دائیں اور بائیں دونوں جانب پہلے سے زیادہ لڑاکا اور ریڈیکل پروگرام پیش کرنے والی پارٹیاں اور اشخاص اپنے سے نرم پارٹیوں اور اشخاص کی جگہ لیتے جائیں گے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا اور انقلابی سیاست کیلئے میدان ہموار ہوتا جائے گا۔اسی طرح جنگی کیفیت میں مختلف ممالک کے محنت کش عوام میں وقتی طور پر حب الوطنی کا جذبہ بھی نظر آ سکتا ہے مگر وہ بھی درحقیقت ملک اور فوج سے محبت کی بجائے اپنے دفاع کا اظہار ہوگا جو کہ جلد ہی انقلابی بغاوت کی شکل اختیار کر جائے گا۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جہاں جنگوں نے انقلابات کو جنم دیا۔

آج سب سے بڑا بحران ’قیادت کا بحران‘ ہے۔ محنت کش عوام تو آج پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کا حصہ ہیں اور مستقبل میں اس تعداد میں اضافہ بھی ہوگا، مگر جب تک ہر ملک میں بڑی انقلابی کمیونسٹ پارٹی موجود نہیں ہوتی جو سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب بنانے کی صلاحیت رکھتی ہو، یہ تحریکیں زائل ہوتی رہیں گی۔ بہر حال آج جہاں ایک طرف محنت کش عوام جدوجہد کے میدان میں موجود ہے وہیں نوجوانوں کی بھی بہت بڑی تعداد کمیونزم کے انقلابی نظریات کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی نوجوانوں کی بہت تعداد اپنے آپ کو کمیونسٹ کہہ رہی ہے۔ لہٰذا مستقبل میں پوری دنیا میں انقلابی کمیونسٹ پارٹیوں کی تعمیر کیلئے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔

Comments are closed.