|تحریر: لیزا رائے|
12 نومبر کوایران عراق کے سرحدی علاقے میں 7.3ریکٹر سکیل کی شدت کا زلزلہ آیا، جس نے ایران کے شمال مغربی صوبے کرمانشاہ سے لے کر عراقی کردستان میں حلبجہ تک پھیلے ہوئے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ سبھی حکمرانوں نے متاثرین اور کُرد علاقوں کی حمایت میں بیانات دیئے اور اس کے ساتھ ساتھ درجنوں قومی اخبارات نے بھی اظہارِیکجہتی میں اپنے صفحہِ اول کُرد زبان میں شائع کیے۔ بظاہر تو اس کا مطلب کُرد عوام سے اظہار یکجہتی کرنا تھا، لیکن زمینی حقائق ایرانی حکمران طبقے کے اصل چہرے کو عیاں کرتے ہیں۔
کم از کم 540 لوگ جاں بحق اور آٹھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، یہ اعداد و شمار بھی نا مکمل ہیں کیونکہ کئی دیہاتوں میں ابھی تک ممکنہ اموات کی گنتی ہی نہیں کی گئی۔ زلزلے سے ایران میں لگ بھگ دو ہزاردیہات متاثر ہوئے اورانہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ IRNA کے مطابق، زلزلے سے بارہ ہزار گھر مکمل مسمار اور پندرہ ہزار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ 70 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
ایران عراق کے درمیان واقع یہ علاقہ زلزلوں کا محور بنا رہتا ہے کیونکہ یہ خطہ زیر زمین موجودعرب اوریوریشین ٹیکٹونک پلیٹس کے درمیان فالٹ لائن کے نزدیک واقع ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ خطہ بڑے زلزلوں کا شکار چلا آ رہا ہے، جس میں 2003ء میں بام اور 2012ء میں تبریز اس کا شکار ہوئے۔
حالیہ زلزلے نے کرمانشاہ کے شہر سریل ذھاب میں اموات اور انفرا سٹرکچر کی تباہی کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ صرف سریل ذھاب میں تین سو سے زائد جانیں گئی ہیں، یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ان عدادو شمار میں وہ اموات شمار نہیں کی گئیں جوزلزلے کی وجہ سے پورے پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ جانے میں ہوئی ہیں۔
اموات اور زخمیوں کی تعداد بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے مقامی ہسپتال اور امدادی ادارے سینکڑوں زخمیوں کا علاج اور دیکھ بھال کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی ممبر پارلیمنٹ، فرہاد تجاری نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ’’ سریل ذھاب میں ایک ہی ہسپتال تھا جو کہ اس واقعے کی وجہ سے منہدم ہو چکا ہے۔ وہاں موجود تمام مریض اور ہسپتال کا عملہ ملبے تلے دب گیا تھا، اس لیے اب وہ کسی کام کے نہیں رہے۔ ‘‘ قصرِشیریں جیسے قریبی شہر ابھی تک شدید تباہ حالی کا شکار ہیں اور یہا ں بھی گمشدہ خاندانوں اور دیہاتوں کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔
زلزلے کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں موجود کئی ایرانی شہروں میں بجلی منقطع ہو گئی، جس کی وجہ سے زلزلہ متاثرین سرد موسم میں بغیر کسی چھت یا گرمائش کے انتظام کے رہنے پر مجبور ہو گئے۔ حکومت کی طرف سے کی گئی سبھی امدادی سرگرمیاں شدید سست روی اور غیر منظم ہونے کی وجہ سے ہنگامی امداد مہیا کرنے میں بیکار ثابت ہوئی ہیں۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے اموات کا اندازہ بہت کم لگایا بلکہ تاحال متاثرین کو مناسب ہنگامی امداد چھت، خوراک اور علاج وغیرہ کی سہولت مہیا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جو فوجی اور گارڈز، رات کو ملبوں میں سے گمشدہ نعشیں اورافراد کو ڈھونڈنے کے لیے بھیجے گئے ان کے پاس روشنی کا کوئی انتظام ہی نہیں تھا۔
رہائش کے لیے ٹینٹ، صاف پانی، خوراک اور ادویات کی کمی کے علاوہ خا ندانوں کو یکجا کرنے اور ان کی امداد میں تاخیر ہونے کی وجہ سے بھی اموات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ مقامی ہسپتال اور امدادی مراکز یا تو منہدم ہو چکے تھے یا پھر ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ ہر متاثرہ فرد کی مدد کر سکتے۔
سریل ذھاب میں موجود ایک متاثرہ فرد نے کہا کہ ’’ابھی تک کسی نے بھی مدد فراہم نہیں کی۔ ہماری بجلی، پانی، گیس اور فون سبھی منقطع ہیں۔ سارا شہر مسمار ہو چکا ہے۔ ‘‘
یکی از اهالی سرپل ذهاب: فعلا اصلا کمکی نیامده است. برق، آب، گاز و تلفنمان قطع است. شهر کلا داغان شده است.
?: @IranNewspaper @H_Hajipour60 pic.twitter.com/50RYtUwVsi— روزنامه ایران (@IranNewspaper) November 13, 2017
منہدم عمارتوں سے گھری ہوئی گلی میں کھڑے ایک رہائشی نے نیویارک ٹائمز کو بتا یا کہ ’’ابھی تک کوئی مدد نہیں پہنچی، نہ خوراک، نہ پانی، نہ کپڑے، نہ ٹینٹ، کچھ بھی نہیں ملا۔ ابھی تک کوئی سہولت میسر نہیں کی گئی، ہم کل رات سے باہر سو رہے ہیں، یہ ہمارے گھروں کی حالت ہے۔ ہماری بجلی، پانی، گیس، فون کی لائنیں سب منقطع ہیں، ہر چیز منقطع ہے، تمام شہر برباد ہو چکا ہے، تباہ ہو گیا ہے۔ ‘‘
کرمانشاہ، ایران کے غریب ترین صوبوں میں سے ایک ہے اور یہ تاریخی طور پرسرمایہ کاری کو ترستا رہا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ تو یہاں کی اکثریتی آبادی کا کُرد ہونا ہے۔ اسی لیے ایرانی معیشت میں اس کا حصہ کل ایرانی جی ڈی پی کامحض 1.5فیصد ہے۔ ایسی پالیسیوں کے نتائج، اس وقت زیادہ شدت سے سامنے آتے ہیں، جب زلزلے جیسی آفات رو نما ہوتی ہیں۔ نیچے دی گئی ویڈیو میں زلزلے سے متاثر ایک آدمی، یہ کہتا چیخ رہا ہے کہ سرکاری افسران یہاں موجودمتاثرہ لوگوں کوضروری چیزیں فراہم کرنے نہیں بلکہ ملبے کے ڈھیروں کے ساتھ اپنی ’سیلفیاں‘ بنانے آتے ہیں، کیونکہ ہم ایرانی نہیں، کُرد ہیں۔ ‘‘یہ جذبات اس گہری نفرت کی عکاسی کر رہے ہیں جو کہ اس وقت کُرد عوام میں مرکزی حکومت کے حوالے سے پنپ رہے ہیں۔
#کرمانشاە! مردم مناطق زلزلە زدە کرمانشاە پاسخ ادعای دولت مبنی بر کمک را میدھند.
ئەوەش وڵامی خەڵکی بومەلەرزە لێدراو بە ئیدعای حکومەت:ھاتون بۆ سێلفی گرتن و تەنیا خەلکی کورد یارمەتی داوە. pic.twitter.com/tpUfUJXjXI— Ali Javanmardi (@Javanmardi75) November 15, 2017
فرق بالکل واضح تھا کیونکہ حکومت سالانہ زیارت پر آئے زائرین کو وہی تمام امدادی آلات مہیا کر رہی ہے، جن کی زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں شدید
ضرورت ہے۔ ذیل میں موجود سکرین شارٹ ٹوئیٹر پر سب سے زیادہ گردش میں رہا ہے:
لیکن یہ مسئلہ امدادی کاوشوں میں کمی و تاخیر کی وجہ سے شروع نہیں ہوا۔ زلزلے نے بہت بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کو برباد کر دیا، جس میں رہائشی اور دیگر کمزور ڈھانچوں پر مبنی عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ احمدی نژاد کے دور میں تعمیر کی گئی سستی سرکاری رہائشی سکیم ’مہر ہاؤسنگ‘ زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ ان میں اکثریتی گھر بہت بڑی تعداد میں اور بہت سستے میں تعمیر کئے گئے تھے، جن کی تعمیر میں معیار، تحفظ اور زلزلے جیسی آفات سے بچنے کے لیے کسی قسم کی احتیاطی تدابیر پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ در حقیقت، یہ منصوبہ عوام کی جیبوں سے بہت بڑے پیمانے پر پیسہ نکال کر حکومتی اتحادیوں کی جھولی میں ڈالنے کی ایک چال تھی۔ تعمیر کے معیار، یعنی ان گھروں میں رہائش پذیر ہونے والے افراد کے مقدر پر لگ بھگ کوئی بھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔
سر یل ذھاب میں نئے تعمیر کیے گئے ہسپتال، جیسا کہ اما م خمینی ہسپتال، زلزلے کے فوری بعد منہدم ہو گئے، جس کی وجہ سے مقامی امدادی ٹیموں کومتاثرہ زخمیوں کے علاج میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ زلزلے کے بعد صرف ایک ہی ہسپتال باقی بچا تھا۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق، صرف رہائشیں یا ہسپتال ہی نہیں بلکہ سرکاری عمارتیں بھی منہدم ہوئی ہیں۔ ایران کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چالیس ہزار سے زائد جگہیں اب قابل استعمال نہیں رہیں، جن میں نئے تعمیر کئے گئے ہسپتال، سکول، اپارٹمنٹ اور یہاں تک فوجی چھاؤنیاں بھی شامل ہیں۔
مہر ہاؤسنگ اور ایسے دیگر رہائشی منصوبوں میں رہنے والے متاثرین اب براہ راست حکومتی کرپشن کو اس تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، انہی کے ناقص معیارِ تعمیر اور کمزور منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ بدترین حالات سامنے آئے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے پہلے مرحلے میں تو روحانی نے احمدی نژاد کی مہر ہاؤسنگ سکیم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ غریبوں کے لیے سستے رہائشی منصوبے کا خیال کافی مقبولیت حاصل کر رہا ہے تو اسے وعدہ کرنا پڑاکہ وہ باقی گھروں کی تعمیر بھی جلد مکمل کروائے گا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ روحانی حکومت کا ریاستی خزانے سے کم آمدن پر مبنی رہائشی منصوبے کو جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
زلزلے کے بعد تو یہ مشکل ہو گیا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے کوئی رہائشی منصوبے تعمیر کئے جا سکیں۔ بجائے اس کے کہ غریبوں اور محنت کشوں کے لیے معیاری گھر تعمیر کرنے کی بات کی جائے، روحانی اور اسٹیبلشمٹ، اس زلزلے کو بہانہ بنا کرتمام سستے رہائشی منصوبوں کو ہی سرے سے ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی، وہ بڑی احتیاط سے اس بات کی جانب سرک رہے ہیں کہ حکومتی قرضوں اور فنڈز کے ذریعے ’’ کم آمدنی والے افراد کی مد د کرتے ہوئے شہروں اور قصبوں میں سالانہ بنیادوں پر ڈیڑھ لاکھ گھر تعمیر کئے یا خریدے جائیں۔ ‘‘
ان بنیادوں پر حکومت پہلے سے موجود ایرانی سرمایہ داروں کے بنائے گئے پراپرٹی کے بلبلے میں مزید ہوا بھر رہی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ غریب گھرانوں کی قیمت پر کیا جا رہا ہے جن کے حصے میں سوائے مستقل قرضوں کے اور کچھ نہیں آئے گا۔ زیادہ تر غریب افراد کے لیے گھر کے لیے چھوٹے قرضے لینے کا مطلب ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے افراط زر اوراسی کے ساتھ جڑی ہوئی شرح سود، کے سبب انہیں بر وقت ادا نہیں کر پائیں گے۔ اس کے ساتھ بڑی تعمیراتی کمپنیاں، مہر ہاؤسنگ سکیم سے بھی زیادہ بڑے پیمانے کے منافعے کمانے کے لیے پَر تول رہی ہیں۔
ایران کیونکہ جغرافیائی طور پر زلزلوں کی آماجگاہ ہے، اس لیے پرانے گھروں کی مرمت بہت ضروری ہے۔ بہر حال اس وقت تو پراپرٹی مالکان کا پرانی عمارتوں کی مرمت کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا۔ زیادہ تر عمارتوں کے اجازت نامے ذاتی طور پرحاصل کئے جا تے ہیں اور’’ ٹھیکیدار حضرات کو حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے او رکوالٹی کنٹرول افسران اپنی تنخواہوں سے زیادہ رشوت سے گزر بسر کرتے ہیں۔ ‘‘نہ صرف یہ کہ ٹھیکیدارحضرات دورانِ تعمیر حفاظتی اقدامات کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ مہر ہاؤسنگ سکیم کی طرح بڑے پیمانے پر گھر وں اور عمارتوں کی تعمیر کے دوران عمارتوں کی بنیادیں اس قدر ناقص تعمیر کی جاتی ہیں کہ وہ زلزلے کے دوران ٹھہر ہی نہیں پاتیں۔ بلکہ حکومت کی جانب سے کئے گئے تمام تعمیراتی کام میں کمزور اینٹوں اور بلڈنگ بلاکس کا استعمال کیا گیاہے۔
رواں سال میں تہران میں پلاسکو بلڈنگ کا منہدم ہونا، ملک بھر میں پھیلی ہوئی بہت سی غیر محفوظ عمارتوں کی ایک مثال ہے۔ حکومتی ادارے ’’قومی عمارتوں کے قانون نمبر 22‘‘ کا اطلاق نہیں کروا تے، تو دوسری جانب پراپرٹی مالکان عمارتوں کی مرمت کا ذمہ نہیں لیتے۔ اس کے علاوہ جنہوں نے قوانین پر عمل کرنا ہوتا ہے، ان ٹھیکیداروں کی بڑی تعداد کو بر وقت ادائیگی نہ ہونے کے سبب ان میں مرمت کے حوالے سے غبن کرنے اور کم آمدن والی یہ نوکریاں چھوڑ جانے کے رحجانات بڑھ رہے ہیں، اور یہ سب شعوری منصوبہ بندی اور ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب ہو رہا ہے۔
ایران کے انفراسٹرکچرکا گرتا ہوا معیار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حادثاتی خدشات ہونے کے باوجود بھی، ایرانی حکام نے کرمانشاہ اور کرمن جیسے علاقوں میں کبھی کسی قسم کی حفاظتی تدابیر نہ کیں، حالانکہ یہ علاقے زلزوں کا مرکز ہیں۔ ان تمام قدرتی آفات میں ایک مظہر یکساں نظر آ رہا ہے وہ ان پراپرٹی مالکان اور سٹے بازو ں کی لا پرواہی اور کرپشن ہے، جو منافع بٹورنے کی جلدبازی میں حفاظتی اقدامات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ یہ جلدی امیر بنانے والے منصوبے جو عوامی انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال نہیں کرتے، ان کے نتائج آفات کے بعد ہونے والی مزید بربادیوں کی صورت میں ہی نکلتے ہیں، اصل میں آفات نہیں بلکہ یہ ناکارہ انفراسٹرکچر ہیں، جن کی وجہ سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
زلزوں کے بعدپڑنے والے ان کے دور رس اثرات کے حوالے سے ایک مثال2003ء میں بام میں آنے والا ہولناک زلزلہ تھا جس نے معاشرے کی غریب ترین پرتوں پر کاری ضرب لگائی تھی۔ نہ صرف یہ کہ متاثرین بے گھر و بے آسرا چھوڑ دیے گئے تھے بلکہ ایرانی حکومت کی جانب سے زلزلے کے بعد ہنگامی مراکز، خالی کروانے اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے غیر مناسب ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا، جس کی وجہ سے کئی متاثرین نے زلزلے سے جڑے اپنے ذہنی اور جسمانی حوادث پر مبنی تجربات کو بھلانے کے لیے افیم اور ہیروئن استعمال کرنا شروع کر دی۔
ان آفات کے اثرات اتنے شدید اسی لیے ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے نتائج سے نمٹنے کے لیے کوئی شعوری منصوبہ بندی کی ہی نہیں جاتی۔ ان آفات کے مادی اثرات کسی طور بھی قدرتی نہیں ہیں۔ انارکی پر مبنی پراپرٹی کی منڈی کا مطلب ہے کہ پراپرٹی مالکان جو بھی چاہیں کر لیں، اوریہ بات بھی واضح ہے کہ ان ٹھیکیداروں کے مفادات سرمایہ داروں کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں؛ یعنی منافع کمانا۔
مہر ہاؤسنگ سکیم کوبڑی چالاکی سے احمدی نژاد کی انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن اس سے معیاری گھروں کی تعمیر کی بجائے، اسے عوامی رقوم کو مڈل مین، تعمیراتی کمپنیوں اور دیگر خون چوسنے والے سرمایہ دارانہ عناصر کی جیبیں بھرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس وجہ سے ان میں پانی، بجلی اور گیس کی فراہمی میں تاخیر جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ اس سے پورے ایران میں ریاست کی جانب سے بنائے گئے گھروں اور انفراسٹرکچر کی اصل صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے جہاں مختلف سرمایہ دار وں کے مابین ریاست کے خزانے اور عوام کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ درحقیقت سماج کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں نہ ان کی نہ کوئی دلچسپی ہے، نہ ہی کوئی نیت۔
زلزلے کے بعد ہونے والی اتنے بڑے پیمانے پر اموات اور تباہی کا ذمہ دار مکمل طورپر ایرانی حکمران طبقہ ہے۔ جیسے ان پر اچھے گھر اور انفراسٹرکچر فراہم کرنے کے حوالے سے اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ویسے ہی ان پر تباہ حال علاقوں کی تعمیرِ نو کرنے کے حوالے سے بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ تعمیر نو کے عمل کو بھی یہ خون چوسنے والے سرمایہ دار للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہوں گے تاکہ عوامی پیسوں سے منافع کما سکیں۔
سرمایہ دار طبقے کے پاس، یہاں تک کہ اگر یہ چاہے بھی تو اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ سرمایہ داری انارکی کے نظام پر محیط ہے جس کی ترتیب درست یا’منظم ‘ نہیں کی جا سکتی۔ کرپشن اور امتیازی سلوک اس کی بنیاد ہیں۔ ایرانی سرمایہ دار اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بالآخر اس بحران کا حل جمہوری طور پر چلائی جانے والی منصوبہ بند معیشت کو رائج کر نے میں پنہاں ہے، جس کا کنٹرول محنت کش طبقے کے پاس ہو جو اس طاقت کو معاشرے کی ضروریات کے مطابق پیداوار کرنے اور تعمیر کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ روزا لگسمبرگ نے ایک بار کہا تھا کہ انسانیت کے سامنے دو ہی راستے ہیں، بربریت یا سوشلزم اور اس قسم کی آفات سرمایہ داروں کی جانب سے محنت کشوں پر تھونپی گئی بربریت ہی ہیں۔ اس مقام پر معاشرے کی سوشلسٹ بنیادوں پر تبدیلی وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔