|عالمی مارکسی رجحان|
عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے مندرجہ ذیل جاری کردہ اعلامیہ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتا ہے۔ اس میں مغربی سامراج اور اس کے پالتو کتوں کی غلیظ منافقت کا جواب دیا گیا ہے جو 7 اکتوبر کے دن حماس کے حیران کن حملے کے بعد رجعتی اسرائیلی ریاست کی غزہ پر ہولناک تباہی و بربادی مسلط کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی تفصیلی بیان کیا ہے کہ کیوں فلسطینی آزادی کا واحد راستہ پورے خطے میں سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
7 اکتوبر کو ہفتے کے دن حماس کے حیران کن اور تندوتیز حملے نے پوری دنیا میں تھرتھلی مچا دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مغربی حکومتوں نے مذمتی بیانات اور اعلامیوں کی بوچھاڑ کر دی ہے۔
اس حملے کو فوراً میڈیا نے انتہائی اعصاب شکن الفاظ میں بتانا شروع کر دیا۔ ہمارے نام نہاد ”آزاد میڈیا“ نے مغربی عوامی رائے عامہ کو مکمل طور پر تیار کیا کہ کون سے فریق کی حمایت کرنی ہے اور ظاہر ہے اس ساری صورتحال کو ہمیشہ کی طرح اچھائی کی قوتیں بمقابلہ بدی کی قوتیں بنا کر پیش کیا گیا۔
اس غلیظ اور مکروہ کھلواڑ میں بڑی آسانی سے کرداروں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مظلوم مجرم بن چکے ہیں اور مجرم مظلوم۔ اس جھوٹ کو مسلسل تشدد، قتل اور دہشت گردی سے منسلک تمام خوفناک صفات کی مذمت کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق واشنگٹن میں صدر بائیڈن ”غصے سے کانپتا رہا“، اس حملے کو ”خالص بدی“ بتاتا رہا اور ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف اسرائیل کی حمایت کا غیر مشروط اعلان بھی کیا۔
دنیا کی سب سے امیر اور طاقتور ریاست نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اعلان کیا کہ امریکہ فوراً سامان، وسائل اور اسلحہ اسرائیل بھیج رہا ہے جبکہ جدید ترین ایئرکرافٹ کیریئر پورے کیریئر سٹرائیک گروپ سمیت مشرقی بحیرہ روم بھیجا جا رہا ہے۔
سامراجی منافق یا نسبتی اخلاقیات
مردوں اور خواتین کا قتل عام طور پر عوام کی اکثریت میں فطری طور پر شدید نفرت کے جذبات ابھارتا ہے۔ ہمیں بار بار انجیل کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ”تم لوگوں کو قتل نہ کرنا“۔
پہلی نظر میں یہ حکم مطلق معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حکمران طبقے اور میڈیا کے تشدد اور قتل سے نفرت کا یہ جذبہ مطلق نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر نسبتی ہے۔
عام خواتین و حضرات پریس میں شائع ہونے والی تباہی و بربادی پر اپنے غم و غصے اور وحشت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ایک فطری انسانی رد عمل ہے اور ہم اسے سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ہمدردی بھی کرتے ہیں۔
لیکن جب یہی الفاظ ایک امریکی صدر کے منہ سے ادا ہوتے ہیں جس کے ہاتھ بے شمار معصوموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں تو پھر ہم کندھے اچکا کر نفرت کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔
سامراجی حرام زادے جو تشدد پر پریشان ہونے کا ناٹک کر رہے ہیں وہ خود مسلسل جبری اور ہولناک جنگوں کو شروع کرنے کے مجرم ہیں۔ انہوں نے ایک لمحہ توقف کے بغیر عراق اور افغانستان کو دو دہائیوں کے لئے کشت و خون میں ڈبو دیا جن میں لاکھوں کی تعداد میں معصوم عوام گاجر مولی کی طرح کٹتی رہی۔ انہوں نے لیبیا، شام، سوڈان اور سربیا پر معصوم جانوں کا ایک لمحہ سوچے بغیر بموں کی برسات کر دی۔
حالیہ عرصے میں سب سے بڑی انسان سوز بربریت یمنی عوام پر مسلط کی گئی ہے۔ دنیا کے سب سے غریب ترین ممالک میں سے ایک پر سعودی بادشاہت نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر سامراجی قوتوں کی مکمل حمایت، شمولیت اور سرگرم مداخلت کے ساتھ ہولناک جنگی مظالم ڈھائے ہیں۔
اگر کسی بھی جنگ کو نسل کش کہا جا سکتا ہے تو یقینا یمنی جنگ سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 1 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ یمنی قتل ہو چکے ہیں جبکہ 2 لاکھ 27 ہزار سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مسلط کردہ ہولناک قحط میں قتل ہو چکے ہیں۔ یہی حرام زادے ہسپتالوں اور صحت کی سہولیات کو تباہ و برباد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعداد و شمار اس قتل و غارت گری کی حقیقت سے بہت کم ہیں جو یمنی عوام پر سعودی عرب اور اس کے سامراجی مالکان نے مسلط کر رکھی ہے۔
لیکن اس بربریت کی مذمت کہاں ہوئی ہے؟ واشنگٹن اور لندن نے کہاں احتجاج ریکارڈ کرایا ہے؟ اس ”دہشت گردی“ کے خلاف بڑی بڑی شہ سرخیاں کدھر ہیں؟ وہ خاموش رہے کیونکہ مغربی حکومتیں انتہائی سرگرم انداز میں ایک غریب اور بے یار و مددگار قوم کی قتل و غارت میں مصروف تھیں۔
ان کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ تشدد کی شکایت کریں یا کسی پر ”دہشت گردی“ کا الزام لگائیں۔ جب معاملہ جنگ کا ہو تو اخلاقی یا انسانی سوالات پر بات کرنا بیکار ہے۔ جنگوں کا مقصد عوام کا قتل عام ہے۔ انسانی تاریخ میں آج تک کوئی انسان دوست جنگ نہیں ہوئی ہے۔
یہ سفاک لفاظی ہے، ایک فریب جس کے ذریعے آج حملہ آور عوام کو اپنا تشدد درست بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غزہ اور یوکرین یا نسبتی ”دفاع کا حق“
جہاں تک اسرائیل کے نام نہاد دفاع کے حق کا تعلق ہے، یہاں ایک مرتبہ پھر ہمیں مغربی سامراج کی منافقت نظر آتی ہے۔ جب یوکرین کا معاملہ ہو تو اسے اسلحے میں غرق کر دیا جاتا ہے تاکہ ان کے لئے روس سے جنگ جاری رکھی جائے اور جواز پیش کیا جاتا ہے کہ مقبوضہ عوام کے پاس دفاع اور جوابی جارحیت کا حق موجود ہے۔
لیکن جب سوال فلسطین کا ہو تو اچانک ہی یہ حق ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ مظلوموں کے دفاع کے برعکس سامراجی ظالم کو مسلح کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے حق خودارادیت سب کا حق نہیں ہے!
سامراج کی مکروہ منطق کے تحت یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ملک پر روسی جارحیت کے ساتھ حماس کے حملے کا موازنہ کیا ہے اور اپنی خفیف خصی آواز میں شور مچاتے ہوئے اسرائیل کے ”حقِ دفاع“ کی حمایت کر رہا ہے! اس بونے کے رجعتی کردار کا اور مزید کیا ثبوت چاہیے؟
توقعات کے مطابق زیلنسکی نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک جنگ چاہتا ہے تاکہ یوکرین کے لئے عالمی حمایت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ ان جملوں میں اس خوف کا اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کیف کی جنگ سے دھیان بانٹ سکتی ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ ”روس کو مشرق وسطیٰ میں ایک جنگ چھیڑنے میں دلچسپی ہے تاکہ درد و تکلیف کا ایک نیا ذریعہ عالمی اتحاد کو کمزور کرے، اختلافات اور تضادات کو مزید ابھارے اور اس طرح یورپ میں آزادی کو تباہ و برباد کرنے میں روسی کوششوں کو تقویت فراہم کرے“۔
زیلنسکی پاگل ہو چکا ہے جو ایسے وقت میں ہتھیاروں اور پیسوں کی رسد جاری رکھنے کے لئے کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور کر سکتا ہے جب یوکرین کو میدان جنگ میں شرمناک شکست ہو رہی ہے اور امریکہ، سلوواکیہ، پولینڈ اور دیگر اتحادیوں کی حمایت واضح طور پر تذبذب کا شکار ہو رہی ہے۔
انتقام
ایک مرتبہ اخلاقیات کے نسبتی ہونے کو قبول کر لیا جائے تو پھر قتل کا جواز فراہم کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔۔۔ شرط یہ ہے کہ اس کا مرتکب ”ہم لوگ“ ہوں۔ اس وقت ہمیں یہ آسان نسبتی اخلاقیات اپنے جوبن پر نظر آ رہی ہیں۔
ہفتے کے دن اسرائیل نے حماس کے حملے کا انتہائی تندوتیز اور جابرانہ جواب دیا۔ بنیامین نتن یاہو نے اعلان کر دیا ہے کہ اسرائیل حالت جنگ میں ہے۔ اس نے اعادہ کیا ہے کہ وہ غزہ کو ایک ”ویران جزیرہ“ بنا دے گا۔
جنگی ہوائی جہاز مقبوضہ غزہ پٹی پر اندھا دھند گولہ بارود برساتے ہوئے رہائشی علاقوں میں عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنا رہے ہیں۔ سکولوں، ہسپتالوں اور مسجدوں کو بلاتفریق مسمار کیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین کے ایک سکول میں کوئی ”دہشت گرد“ موجود نہیں تھا لیکن اسے براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ کئی رہائشی فلیٹس کی عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے جس کی پہلے سے خبر نہیں دی جاتی۔
اسرائیل مسلسل غزہ پر بمباری کرتے ہوئے عمارتوں کو ملبہ بناتا رہا۔ غزہ میں حکام کے مطابق سکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا اور 900 فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں 260 بچے بھی شامل ہیں۔
اس ساری صورتحال کا دفاع سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ انتقام کی سلگتی پیاس ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ اسرائیل غزہ کی عوام کو ان کے قائدین کے اقدامات کی سزا دانستہ طور پر معصوم عوام کو قتل کر کے دے رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوواف گالانت نے حکم دیا ہے کہ غزہ پٹی کی ”مکمل ناکہ بندی“ کی جائے۔ اس نے کہا کہ ”میں نے غزہ پٹی کی مکمل ناکہ بندی کا حکم دے دیا ہے۔ بجلی، اشیاء خوردونوش، ایندھن۔۔ سب بند“۔
مردوں، عورتوں اور بچوں کو اشیائے خورد و نوش، پانی اور بجلی سے محروم کرنا تو ”عالمی قانون“ کے تحت ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ بانجھ اقوام متحدہ کو بھی اسرائیلیوں کو یہ ناگوار تفصیل بتانی پڑی اگرچہ اس مودبانہ گزارش کے نتائج توقعات کے مطابق صفر ہی رہے۔
”انسانی جانور“
اس سارے ظلم و جبر اور تشدد کا کیسے جواز پیش کیا جا رہا ہے؟ بہت آسانی سے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یوواف گالانت نے واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ ”ہم انسانی جانوروں سے جنگ لڑ رہے ہیں اور ہمارا رویہ بھی ایسا ہی ہو گا“۔
ہمیں اس زبان کا بخوبی علم ہے۔ سامراجیوں کا یہ عام وطیرہ ہے کہ اپنے قتل و غارت کو قابل قبول بنانے کے لئے دشمن کو انسانیت سے گرا دیا جائے۔ اگر ہم مان لیں کہ ہمارے دشمن انسان کی بجائے جانور ہیں تو پھر ہمارے لئے ان کے ساتھ ہر قسم کا برتاؤ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دہائیوں تک یہودیوں کو انسان سے کم گردانا جاتا رہا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں مارا پیٹا، ٹارچر، بھوک سے مارا اور قتل کیا جا سکتا تھا اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔
لیکن غزہ کے عوام جانور نہیں ہیں۔ وہ اتنے ہی انسان ہیں جتنے اسرائیل کے رہائشی انسان ہیں اور تمام انسانوں کا حق ہے کہ ان کے ساتھ برابر کا رویہ اختیار کیا جائے۔
منافقوں کی دُہائی
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت پوری دنیا میں سیاسی قائدین ”اسرائیلی حقِ دفاع“ کے لئے حمایت کا اعلان کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کا ہو یا ”بائیں کا“، ریپبلیکن ہو یا ڈیموکریٹ، سب وہی پرانا راگ الاپ رہے ہیں۔
وہی میڈیا جو سامراج کے جرائم پر قبر سے زیادہ خاموش ہوتا ہے اسرائیلی ریاست کے فلسطینیوں پر دہائیوں سے جاری ہولناک مظالم پر بھی خاموش ہے۔ ان پر انتہائی دائیں بازو کے یہودی آبادکار مسلسل مظالم ڈھا رہے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس طریقہ کار سے اسرائیلی ”حقِ دفاع“ کو تقویت فراہم کی جا رہی ہے تاکہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر رہنے والے 23 لاکھ لوگوں کو نیست و نابود کیا جا سکے۔ اس زمین کے ٹکڑے کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی ہوا میں موجود جیل کہا جاتا ہے۔
اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اور پورا سامراجی کیمپ اس کی پشت پر کھڑا تالیاں بجا رہا ہے۔ اگر بموں، گولہ بارود اور میزائلوں سے فلسطینیوں کی معقول تعداد قتل نہیں ہوتی تو پھر یورپی یونین مزید چند ایک کو بھوکا مارنے کے لئے تیار کھڑی ہے۔
یورپی یونین نے اعلان کیا کہ وہ فلسطینیوں کو مالی امداد بند کر رہی ہے جس پر ان کا کافی انحصار ہے۔ یہ فیصلہ اتنا مکروہ اور ذلیل تھا کہ شدید مخالفت پر اسے واپس لینا پڑا۔
یہاں ہمیں نظر آتا ہے کہ نام نہاد ”مغربی تہذیب“ کا اصل غلیظ چہرہ کیا ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ کیئر سٹارمر جیسے دائیں بازو کے ”لیبر“ قائدین برطانیہ میں فوراً اس فریبی شور شرابے میں شامل ہو گئے۔ ان خواتین و حضرات نے عرصہ دراز پہلے سرمایہ دارانہ دلالی کا طوق فخر سے گلے میں پہن لیا تھا۔ یہ سامراج کے تنخواہ دار ایجنٹوں سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
لیکن صرف دائیں بازو کے اصلاح پسند ہی مجرم نہیں ہیں۔ کئی خصی ”بائیں بازو کے“ اصلاح پسند بھی اس حمام میں ننگے ہونے پر فخر محسوس کر رہے ہیں جیسے سینڈرز، الہان عمر، الیکزینڈرا اوکازیو کورٹیز، فرانسیسی ’کمیونسٹ‘ پارٹی وغیرہ وغیرہ۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ نام نہاد بایاں بازو مکمل بے غیرتی اور نظریات سے انحراف کا اعلان کر رہا ہے۔ لمحہ بھر توقف کے بغیر یہ فوری طور پر سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ اور سرمایہ دارانہ عوامی رائے عامہ کے سامنے لیٹ گئے اور اب حکمران طبقے کے دم چھلہ بنے ہوئے ہیں۔
عالمی مارکسی رجحان سامراجیوں اور اس کے پالتو کتوں کی منافقانہ چیخ و پکار کا حصہ نہیں بنے گی۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟
ہر جنگ میں جارح مد مقابل ایک دوسرے کے ظلم و جبر کی حقیقی یا جھوٹی داستانوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے پر تشدد اور قاتلانہ اقدامات کو جواز فراہم کرتے ہیں۔ جنگ کی طرف کمیونسٹوں کے رویے کی بنیاد سنسنی خیز پراپیگنڈہ نہیں ہوتا جس کے ذریعے سفاکی سے ایک یا دوسرا فریق اپنے اقدامات کو درست قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلا وار کس نے کیا، یہ جواز بھی جنگ کو درست قرار دینے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ جنگ کی طرف ہمارے رویے کی بنیاد یکسر مختلف ہے۔
ہماری پوزیشن بہت سادہ ہے:
”ہر جدوجہد میں ہم ہمیشہ غریب مظلوم عوام کا ساتھ دیں گے، ہم کبھی بھی امیر اور طاقتور ظالم کی حمایت نہیں کریں گے“۔
موجودہ صورتحال میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ: ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے؟ کیا یہ فلسطینی ہیں جو اسرائیل پر ظلم کر رہے ہیں؟ کوئی بھی ذی شعور انسان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔
یہ فلسطینی تو نہیں ہیں جو طاقت اور جبر کے ذریعے اس زمین پر قابض ہوئے بیٹھے ہیں جو ان کی ہے ہی نہیں۔ وہ تو اسرائیلی آبادکاروں کو نسل در نسل ملکیتی زمین سے بے دخل نہیں کر رہے بلکہ معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہے۔
یہ فلسطینی تو نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کو بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں یا انہیں ہولناک ناکہ بندیوں کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی ہی زمین پر اچھوت بنا رہے ہیں۔
کیا یہ ضروری ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف رجعتی اسرائیلی ریاست کے لاتعداد مظالم اور جرائم کی فہرست دہرائی جائے؟
ہمارے پاس اتنی جگہ ہی موجود نہیں کہ دن بدن، سالہا سال، مہینوں در مہینوں اور دہائیوں سے جاری ان مظالم کو قلم بند کیا جائے جنہوں نے فلسطینیوں کی زندگیاں جہنم سے بدتر بنا دی ہیں۔
فلسطینیوں کی حالت غلاموں سے بھی بدتر ہے۔ جب غلاموں سے ہر قسم کا حق چھین لیا جاتا ہے تو ان کے پاس پھر ایک ہی حق رہ جاتا ہے: بغاوت کا حق۔
تاریخ غلاموں کی بغاوتوں سے بھری پڑی ہے جس میں شدید تشدد بھی شامل ہوتا ہے جو مالکان کے مسلط کردہ شدید جبر کا محض ایک اظہار اور ردعمل ہی ہوتا تھا۔
یہ ایک قابلِ افسوس حقیقت ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہم مالکان کے خلاف غلاموں کی بغاوت کا دفاع ترک کر دیں۔ مارکس نے 1857ء میں لکھے گئے ایک مضمون میں اس سوال پر تفصیلی بات رکھی جس میں اس نے ان مضامین کا جواب دیاجو برطانوی پریس میں برطانیہ کے خلاف بغاوت کرنے والے ہندوستانیوں کے مظالم کا واویلا کر رہے تھے:
”ہندوستان میں باغی سپاہیوں کے مظالم واقعی ہولناک، مکروہ، ناقابل برداشت ہیں۔۔۔ اس کے لئے (ذہنی طور پر) تیاری ہوتی ہے۔۔ صرف باغیانہ، قومی، نسلی اور سب سے بڑھ کر مذہبی جنگوں میں۔ اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو جیسے قابل عزت برطانیہ تالیاں بجاتا تھا جب یہی کام ویندی انز نے ’بلوز‘ کے ساتھ، ہسپانوی گوریلا جنگجوؤں نے کافر فرانسیسیوں کے ساتھ، سروینز نے اپنے جرمن اور ہنگری ہمسایوں کے ساتھ، کرواٹس نے ویانیز باغیوں کے ساتھ، کافیناک کے گارد موبیل یا بوناپارٹ کے دسمبرستوں نے فرانسیسی پرولتاریہ کے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا۔
لیکن سپاہیوں کا عمل مجتمع شدہ شکل میں انڈیا میں برطانیہ کے اپنے طرز عمل کا ایک اضطرابی اظہار ہے جو مشرقی سلطنت کی بنیادیں بنانے کے عمل کے ساتھ آخری دس سالوں میں مکمل تسلط کے دوران روا رہا ہے۔ اس حکمرانی کو اگر نام دیا جائے تو یہ کہنا کافی ہے کہ اس کی فنانس پالیسی میں ٹارچر ایک نامیاتی ادارہ رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں انتقام نام کی چیز بھی موجود ہے اور یہ تاریخی انتقام کا قانون ہے کہ یہ ہتھیار مظلوم نہیں بلکہ خود مجرم تخلیق کرتے ہیں“ کارل مارکس، (بغاوت ہند)۔
کیا ہم حماس کی حمایت کرتے ہیں؟
ہمارے دشمن کہیں گے کہ یعنی تم حماس کی حمایت کرتے ہو۔ اس الزام پر ہمارا جواب ہے کہ ہم نے کبھی حماس کی حمایت نہیں کی۔ ہم نہ اس کے نظریے سے متفق ہیں اور نہ اس کے طریقہ کار کی حمایت کرتے ہیں۔
ہم کمیونسٹ ہیں اور ہمارے اپنے نظریات، پروگرام اور طریقہ کار ہیں جن کی بنیاد امراء اور غرباء، ظالم اور مظلوم کے درمیان طبقاتی جدوجہد ہے۔ یہ حقیقت ہر صورتحال میں ہمارے رویے کا تعین کرتی ہے۔
لیکن حماس سے بنیادی اختلافات سے زیادہ بنیادی اور اٹل اختلافات ہمارے امریکی سامراج، جو کہ اس سیارے کی سب سے رجعتی قوت ہے، اور جرم میں شریک اس کا ساتھی، اسرائیلی حکمران طبقے سے ہیں۔
ہمارے ناقدین ہم سے پوچھیں گے کہ کیا آپ اتنے سارے معصوم افراد کے قتل سے متفق ہیں؟ ہمارا جواب ہے کہ ہم نے ایسے اعمال کا پرچار کیا ہے اور نہ کبھی حمایت کی ہے۔
سپینوزا کے الفاظ میں ہمارا پہلا کام ہنسنا یا رونا نہیں بلکہ سمجھنا ہے۔ اخلاقیات کوئی بھی تفصیل بتانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ کیا ہو رہا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ اس سوال کو ایک دوسرے انداز میں سامنے رکھا جائے یعنی حماس کے حملے کی کیا بنیادیں تھیں؟
کیا اسے فلسطینیوں پر دہائیوں سے جاری اسرائیلی ریاست کے جبر، تشدد اور تسلط سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟
ہر گز نہیں۔
اسرائیل ایک امیر اور طاقتور ریاست ہے جو دہائیوں سے ننگی جارحیت اور معاشی ناکہ بندی کے ذریعے فلسطینیوں کو بے دخل کر رہی ہے اور جبر کا نشانہ بنا رہی ہے۔
ہمیں لازمی دیکھنا ہے کہ واقعات کی وہ کونسی کڑی ہے جس کے ذریعے موجودہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ بس یہ سب کچھ اچانک ہو گیا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔
دھوکہ
سامراجیوں نے فلسطینیوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ تھوڑا انتظار کریں تو انہیں انصاف ملے گا۔ لیکن وہ دہائیوں انتظار کرتے رہے ہیں اور نتیجہ یہ رہا ہے کہ ان کے گھر اور انسانی حقوق ریزہ ریزہ کئے جا رہے ہیں۔
جب مظلوم کے صبر کا پیمانہ چھلک جائے تو جلد یا بدیر وہ ظالم پر حملہ کرے گا۔ ایسے لمحات میں زیادتیاں اور تشدد ناگزیر ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ قابلِ افسوس ہے۔ لیکن حقیقی طور پر ان کا ذمہ دار کون ہے؟
اگر ایک مرد یا عورت ایک سفاک قتل کرتا ہے تو یقینا یہ ایک جرم ہے اور اس کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
لیکن اگر ایک عورت پر کئی سال اس کا خاوند تشدد کرتا رہے اور ایک دن وہ عورت پلٹ کر جواب میں اذیت دینے والے کو قتل کر دے تو زیادہ تر افراد یہی کہیں گے کہ جن حالات میں وہ عورت یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوئی ہے انہیں بھی ہر صورت مدنظر رکھا جائے۔
موجودہ صورتحال کی جانب پلٹتے ہیں۔ اس دھماکے سے پہلے کئی ہفتوں یہودی مذہبی جنونی مسلسل اشتعال انگیزی کرتے رہے۔ انہوں نے الاقصیٰ مسجد، جو کہ اسلامی دنیا کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے، کے کمپاؤنڈ پر حملہ کیا۔ ان کو مکمل پولیس اور عسکری حفاظت فراہم کی گئی۔
اشتعال انگیزی
نیتن یاہو صیہونی انتہائی دائیں بازو کے ساتھ اتحاد میں ہے جن میں سے کچھ کھلم کھلا فسطائی ہیں۔ ان کا اعلان کردہ ہدف نیا نقبہ برپا کرنا ہے ۔۔۔ یعنی یروشلم اور مغربی کنارے سے آغاز کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کی موجودہ رہائشی زمینوں سے بے دخل کر دیا جائے۔
یہ کوئی نئی پالیسی نہیں ہے لیکن حالیہ مہینوں میں اس میں تیزی آئی ہے۔ زیادہ تر امریکہ سے درآمد اور شدید ترین مذہبی قدامت پرستوں میں سے ریکروٹ ہونے والے آبادکاروں نے مغربی کنارے میں آبادیاں تعمیر کی ہیں۔
یہ عسکری حفاظت میں سڑکوں کے ایک جال کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور اس علاقے کی حدود میں آتی ہیں جو فلسطینی سرکاری کنٹرول میں ہے۔
رجعتی آبادکاروں کا ہمت و حوصلہ اس وجہ سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ ہماری پشت پر انتہاء پسند قوم پرست اسرائیلی حکومت کھڑی ہے۔
مذہبی جنونیوں کے مسلح جتھے خفیہ یا اعلانیہ طور پر اسرائیلی فوج اور پولیس کی حمایت کے ساتھ فلسطینیوں کو قتل اور ان کی زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں۔ یہ قبضے تو ”عالمی قانون“ کے مطابق غیر قانونی ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی تمام مقدس قراردادیں ایک لایعنی مشق ہے جس نے ان مجرمانہ سرگرمیوں میں سے کسی ایک کی روک تھام نہیں کی۔
ان حالات میں کوئی بھی حیران کیوں ہو کہ فلسطینی مزاہمت کر رہے ہیں۔ مزاہمت تمام مظلوموں کا بنیادی حق ہے۔
منافق بحث مباحثہ کریں گے کہ دونوں فریقین قابل مذمت ہیں کیونکہ دونوں تشدد کو استعمال کرتے ہیں۔ سطحی طور پر یہ درست ہے۔ لیکن اس کا جوہر بنیادی طور پر غلط ہے۔ ایک کا تشدد دوسرے کے متوازی کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں فریقین کا تشدد متوازن ہرگز نہیں ہے۔
ایک طرف ایک جدید سرمایہ دارانہ ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار، طاقتور میزائلوں سے لیس جنگی ہوائی جہاز، جدید ٹیکنالوجی اور نگرانی کے آلات کے ساتھ دنیا کے سب سے طاقتور ترین سامراجی ملک کی مکمل مادی اور مالیاتی مدد موجود ہے۔
دوسری طرف مظلوم فلسطینی ہیں جو ہاتھ لگی کسی بھی چیز کو ہتھیار بنا کر مزاہمت کرنے پر مجبور ہیں۔
حالیہ واقعات پر حیران ہونا انتہا درجے کی بیوقوفی ہے۔ ان حالات میں کسی بھی قسم کا دھماکہ ناگزیر تھا اگرچہ وقت اور جوہر کا تعین ناممکن تھا۔۔۔ اس میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کی ذلت و رسوائی
یہ انتہائی اہم ہے کہ جنگ کا اس کی اپنی اندرونی حرکیات کے تحت تجزیہ کیا جائے اور باہر سے کسی اجنبی عنصر کو اس میں گھسانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اسرائیلی حکمران طبقے میں پھٹنے والے شدید غصے کا قتل ہوئی عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی پریشانی خالص حکمت عملی سے متعلق ہے۔
عسکری نکتہ نظر سے حملہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ غیر متوقع طوفانی حملہ شہرہ آفاق اسرائیلی انٹیلی جنس کے لئے مکمل طور پر ایک حیران کن واقعہ تھا۔ اسلحہ سے لیس کمانڈوز نے اس اسرائیلی دفاعی حصار کو روند ڈالا جسے ناقابل شکست بنا کر پیش کیا جاتا تھا اور اسرائیلی فورسز کو شدید کاری ضرب لگائی۔
جب اس واقعے کی خبر ہر طرف پھیلی تو اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل گیا جہاں عوام کو حکمرانوں نے لوریاں دے کر سلا رکھا تھا کہ ناقابل شکست دفاعی حصار ان کی حفاظت پر معمور ہے۔ ایک رات میں ناقابل تسخیر ہونے کا نشہ ہرن ہو گیا۔ یہ حقیقت اپنے اندر مستقبل کے لئے بے پناہ اور دوررس نتائج چھپائے بیٹھی ہے۔
اس کے برعکس اس حملے کی خبر کا جشن کئی عرب دارالحکومتوں میں منایا گیا۔ عوام کو بہت حوصلہ ہوا کہ بالآخر طاقتور اسرائیلی ریاست کو شرمناک شکست ہوئی ہے۔ اس کے موازنے میں باقی تمام عناصر ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
نیتن یاہو بہت پُر اعتماد ہے کیونکہ امریکی سامراج اس کی پشت پناہی کر رہا ہے جو اسرائیل کو ڈالروں اور مہلک ہتھیاروں کی کبھی ختم نہ ہونے والی سپلائی سے نواز رہا ہے۔
انہوں نے اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دیا ہے ۔۔۔ یہ تمام فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ صدر ٹرمپ نے یہ اشتعال انگیز فیصلہ کیا۔ لیکن صدر بائیڈن نے یہ فیصلہ تبدیل نہیں کیا ہے۔ وہ پریشان ہے کہ اگلے سال کے انتخابات میں یہودی ووٹ کیسے حاصل کیا جائے جبکہ اس خطے میں آخری ثابت قدم اتحادیوں میں سے ایک کے ساتھ تعلقات کو قائم و دائم رکھنے کا سوال بھی انتہائی اہم ہے۔
پرامن یا پرتشدد؟
ہمارے دشمن اکثر ہمارے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ کیا آپ تشدد کی حمایت کرتے ہیں؟ اس سے بہتر ہے کہ وہ ہم سے یہ سوال کر لیں کہ آپ طاعون کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ دونوں سوال ہی مواد سے خالی ہیں۔
کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں جو اپنا جواب آپ ہوتے ہیں اور یہ بھی ایسے ہی ہیں۔ لیکن منفی جواب بیکار ہے۔ آپ کو ٹھوس بنیادوں پر بتانا ہو گا کہ تشدد کی بنیادیں کیا ہیں۔۔۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ کس کے مفاد میں ہے؟ ان معلومات کے بغیر ایک درست جواب ناممکن ہے۔ ہر جنگ میں یہی حقیقت ہے اور اس جنگ میں بھی یہی معاملہ ہے۔
”بائیں بازو“ کے کئی افراد (ہمیشہ کی طرح) عمومی طور پر اپنے آپ کو ہر قسم کے تشد کی مخالفت تک محدود رکھتے ہیں اور ”مذاکرات“ اور ”عالمی اداروں“ کی مداخلت کے ذریعے ایک ”پُر امن تصفیہ“ کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک جھوٹ اور فریب ہے۔
75 سالوں سے لاتعداد مذاکرات اور بحث مباحثہ ہو چکے ہیں لیکن فلسطینی آزادی کا سوال ایک انچ آگے نہیں بڑھا۔ کئی دہائیوں سے نام نہاد اقوام متحدہ قراردادیں منظور کر رہا ہے جن میں اسرائیل کی 1967ء میں فلسطین پر قبضے کی مذمت کی گئی ہے لیکن کچھ نہیں بدلا۔ درحقیقت صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مخدوش ہو رہی ہے۔
موجودہ صورتحال اوسلو معاہدوں کی مکمل ناکامی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اسرائیل کے بغل میں ایک چھوٹی سی فلسطینی ریاست کا قیام ناممکن تھا اور ہے۔
اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینیوں کو قابو میں رکھنے کی نوکری پر فلسطینی نیشنل اتھارٹی (PLA)کو نوکر رکھا جائے جس کی قیادت مکمل طور پر دلبرداشتہ اور بانجھ الفتح کے سرمایہ دارانہ قوم پرستوں کے پاس ہو جو نامیاتی طور پر فلسطینی قومی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی اہلیت سے مکمل طور پر عاری تھے۔
پچھلے 30 سالوں نے امریکی سامراج اور اسرائیلی سرمایہ داری کی فلسطینیوں پر دو ریاستی حل مسلط کرنے کی کوششوں کی ناکامی کو ثابت کر دیا ہے۔
یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ایک حالیہ رائے شماری میں 61 فیصد فلسطینیوں نے کہا ہے کہ وہ اوسلو معاہدوں کے بعد زیادہ بدتر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور 71 فیصد کا کہنا تھا کہ معاہدے پر دستخط کرنا ایک غلطی تھی۔
اس کے باوجود پُر امید بایاں بازو امن پسند بحث مباحثہ کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کو پرامن طریقہ کار کے ذریعے ہی جدوجہد کرنی چاہیے۔ لیکن جب انہوں نے یہ کوشش کی تو نتیجہ کیا نکلا؟
2018ء میں ”واپسی کا مارچ“ نہتی عام عوام نے منعقد کیا۔ اسرائیلی فوج نے بے دریغ اسلحہ استعمال کرتے ہوئے کئی سو افراد کو قتل اور ہزاروں کو زخمی کر دیا جن میں بچے، خواتین اور صحافی سب شامل تھے۔
یہ وہ ہولناک جبر ہے جس نے فلسطینیوں کو قائل کر دیا ہے کہ تشدد کا جواب تشدد کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔ یہ قابل افسوس ہو سکتا ہے لیکن فلسطینی یہی نتیجہ اخذ کر سکتے تھے اور اس کی تمام تر ذمہ داری اسرائیلی ریاست اور اس کے سامراجی پشت پناہوں پر عائد ہوتی ہے۔
اسی رائے شماری کے مطابق 71 فیصد کو یقین ہے کہ دو ریاستی حل اب قابل عمل نہیں رہا کیونکہ آبادکاریاں دیوہیکل پیمانے پر پھیل چکی ہیں، 52 فیصد فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنے کے حامی ہیں اور 53 فیصد کو یقین ہے کہ مسلح جدوجہد کے ذریعے ہی اس ڈیڈلاک کو توڑا جا سکتا ہے۔
سامراجی منصوبہ بندی کا جنازہ نکل چکا ہے
7 اکتوبر کے واقعات سے پہلے حالات کو معمول پر لانے کا ایک نام نہاد عمل جاری تھا جس کا بنیادی مطلب یہ تھا کہ اسرائیل عرب ممالک (خاص طور پر سعودی عرب) کے ساتھ معمول کے مطابق سفارتی اور معاشی تعلقات قائم کرے۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی مسئلے کو ختم شد قرار دے دیا جائے گا۔
اس پر ستمبر میں نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران خطے کا ایک نقشہ دکھایا جس میں اسرائیل اور جن ممالک کے ساتھ تعلقات قائم ہو رہے ہیں وہ تو موجود تھے ۔۔۔ لیکن اسرائیلی نقشے میں گولان ہائیٹس، غزہ اور مغربی کنارہ اسرائیل میں شامل تھے جبکہ فلسطین کا دور دور تک ذکر ہی موجود نہیں تھا!
یہ سفاک کھلواڑ نیتن یاہو اور اس کے رجعتی ٹولے کے سنگ دل رویے کے ساتھ نام نہاد سامراجی جمہوریتوں کو بھی ننگا کرتا ہے جو چھوٹی اقوام کو سیاست اور طاقت کی شطرنج میں پیادوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
اس سارے غلیظ کھلواڑ میں فلسطینیوں کی کوئی بات، کوئی دہائی، کوئی نمائندگی موجود نہیں تھی۔ ان کا وجود ہی ایک تکلیف دہ ناگواری سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مسلسل شکایتوں کو سکون سے نظرانداز کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کو ان کی اوقات میں رکھنے کا ناپسندیدہ لیکن اہم کام اسرائیلی مسلح افواج کو سونپا جا سکتا ہے۔
یہ ساری منصوبہ بندی تھی۔ بدقسمتی سے زندگی کا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے بہترین منصوبے بھی لمحہ بھر میں صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ اس مخصوص منصوبے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ خوش فہمی تھی کہ فلسطینیوں کو اتنا دبایا جا چکا ہے، ان کی روح اتنی کچلی جا چکی ہے اور وہ اس قدر دلبرداشتہ ہو چکے ہیں کہ وہ کسی قسم کی حقیقی مزاہمت سے ہی عاری ہو چکے ہیں۔ اس خام خیالی کو 7 اکتوبر کو ہفتے کے دن لمحہ بھر میں نیست و نابود کر دیا گیا۔
کچھ ذرائع نے ایران کی مداخلت کا عندیہ دیا ہے۔ تہران کے تمام تر انکار کے باوجود یہ درست ہو سکتا ہے۔ حملے کی ماہرانہ عمل داری اور جس تیزی کے ساتھ اسرائیل کے مضبوط دفاع کو روندا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مخصوص قسم کی پیشہ واریت کا عمل دخل ہے جو حماس کا خاصہ نہیں ہو سکتی۔
پھر ایران کی دلچسپی بھی تھی کہ یہ حملہ کامیاب ہو۔ اس کا فوری نتیجہ تو یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کا نیتن یاہو کا خواب اب غارت ہو چکا ہے۔ ریاض میں رجعتی بدمعاش فلسطینیوں کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے کے لئے بالکل تیار تھے۔
لیکن امریکہ کی آشیرباد میں یہ منصوبہ بندی مٹی کا ڈھیر ہو چکی ہے۔ محمد بن سلمان نے واضح طور پر اسرائیل کے ”حقِ دفاع“ کے شور شرابے میں اپنی آواز شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو بادشاہت کو خطرہ لاحق ہو جاتا کیونکہ سعودی عوام فلسطینیوں سے گہری ہمدردیاں رکھتی ہے۔
گارڈین اخبار کے ایک مضمون میں یہ لکھا تھا کہ:
”حماس کے حملے نے لمحہ بھر میں مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری تبدیل کر دی ہے“۔
یہ الفاظ حقیقی صورتحال کی درست عکاسی کر رہے ہیں۔ گارڈین کے سفارتی ایڈیٹر پیٹرک ونٹور نے لکھا ہے کہ ”ایران سعودی عرب کے لئے کوئی بھی معاہدہ ناممکن بنانا چاہتا ہے جبکہ خطے میں موجود دیگر (ممالک) غزہ میں تباہی و بربادی برداشت نہیں کر سکتے“۔
یہ درست ہے۔ عرب قائدین یہ اس لئے برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے ممالک میں عوام شدید متاثر ہوتی ہے۔ عرب حکمران ٹولے کے سروں پر عوامی بغاوت کا بھوت ہر وقت منڈلاتا رہتا ہے کیونکہ انہیں ابھی تک عرب بہار کے اسباق بھولے نہیں ہیں۔
یہ صورتحال عرب حکمرانوں اور واشنگٹن دونوں کے لئے ایک بھیانک خواب ہے۔ لیکن عرب انقلاب کا ایک نیا روپ ہی فلسطینی سوال کو حل کرنے کی واحد امید ہے۔
فلسطین کی مظلوم عوام کسی ایک غیر ملکی حکومت کے وعدوں پر اعتبار نہیں کر سکتی۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت میں کھوکھلے اعلانات کرتے ہوئے اپنے لئے مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کی منظر کشی کریں جو کہ صریح دھوکہ اور فریب ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ سامراجیوں کے وعدوں کی کوئی قیمت نہیں جس طرح نام نہاد اقوام متحدہ کی جھوٹی قراردادوں کی کوئی اوقات نہیں۔
فلسطینی عوام اپنی جدوجہد کے ذریعے ہی اپنی آزادی یقینی بنا سکتی ہے۔ اس ہدف کے لئے ان کے پُراعتماد اتحادی صرف خطے اور پوری دنیا کے محنت کش اور کسان ہیں جو خود اسی طرح مظلومیت اور استحصال کا شکار ہیں جس کا شکار فلسطینی عوام ہے۔
اسرائیل ایک خطرناک راہ پر گامزن
ایک اور عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اسرائیلی ریاست کو یہودی آبادی کی اکثریت حاصل ہے اس وقت تک اس کا خاتمہ ناممکن ہے۔ صرف اسرائیلی ریاست کو طبقاتی بنیادوں پر توڑ کر ہی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
موجودہ حالات میں یہ ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حماس کے شدید محدود نظریات اور طریقہ کار اسرائیلی عوام کی اکثریت کو باور کراتے ہیں کہ ان کی زندگیوں کو فلسطینی ”دہشت گردوں“ سے خطرہ ہے۔
بدقسمتی سے شہریوں پر حالیہ حملے اور قتل و غارت نے کئی اسرائیلیوں کو باور کرایا ہے کہ ان کے سامنے حکومت کی حمایت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی نام نہاد حزب اختلاف کے شرمناک رویے نے بھی کی ہے جس نے نیتن یاہو حکومت کی تمام تر رجعتی پالیسیوں کی مخالفت کو فوری طور پر ترک کر کے ایک نام نہاد قومی اتحادی حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ یہ ایک تباہ کن راستہ ہے۔
اسرائیل کی عوام کو اپنے آپ سے ایک سوال کرنا چاہیے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کئی سالوں کے جنگ و جدل اور کئی عسکری فتوحات کے باوجود آج وہ اپنے آپ کو اسرائیلی ریاست کے قیام (1948ء) کے بعد سب سے زیادہ غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں؟ ان کی حفاظت کے لئے تیار کردہ تمام طریقہ کار، جب ان کی ضرورت پیش آئی، ناکارہ ثابت ہوئے۔
یہ درست ہے کہ اسرائیل کی دیوہیکل عسکری اور اعلیٰ معیار گولہ بارود کی طاقت حماس کو عسکری میدان میں بار بار اور ہر بار شکست دے سکتی ہے۔ لیکن غزہ پر فوج کشی کا مطلب دونوں فریقین کی دیوہیکل پیمانے پر قتل و غارت ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں تنگ گلیاں اور ان گنت سرنگیں اور نفرت کرنے والی ایک تباہ حال عوام موجود ہے۔ ایک مرتبہ جب غزہ ملبے کا ڈھیر بن جائے تو پھر؟ اس کے بعد؟ اسرائیل کے پاس اتنی افواج ہی نہیں ہیں کہ 23 لاکھ افراد کی ایک دشمن عوام کو لامتناہی غلام بنا کر رکھا جا سکے۔ جلد یا بدیر نئے دھماکے اور خون خرابہ ناگزیر ہے۔
معاملات ادھر ہی ختم نہیں ہوتے۔ فلسطینیوں پر جبر پوری عرب دنیا میں جذبات بھڑکا دے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا خواب جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ اسرائیل کو اس وقت تاریخی تنہائی کا سامنا ہے۔ چاروں اطراف کروڑوں دشمنوں کے نرغے میں اسرائیل کا مستقبل یقینا تاریک ہے۔ حالیہ قتل و غارت ایک تنبیہ ہے کہ ابھی یہ محض آغاز ہے اور اگر اسرائیل میں بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو آنے والا طوفان سب کو تباہ و برباد کر دے گا۔
مارکس نے عرصہ دراز پہلے نشاندہی کی تھی کہ کوئی قوم اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک وہ دوسری اقوام پر ظلم و جبر اور قبضہ ختم نہ کرے۔ ”لندن میں سنٹرل کونسل کی یہ خاص ذمہ داری ہے کہ وہ انگلش محنت کشوں کو باور کرائے کہ ان کے لئے آئرلینڈ کی قومی آزادی کسی تجریدی انصاف یا انسانی ہمدردی کا سوال نہیں ہے بلکہ ان کی اپنی سماجی آزادی کی پہلی شرط ہے“ (سگفریڈ میئر اور اگست وگت کے نام مارکس کا خط، 1870ء)۔
اس وقت اسرائیل میں منطق کی آواز کو رد انقلاب کا دیوہیکل شورشرابا دبا رہا ہے۔ لیکن جو نیتن یاہو کی رجعتی قوتوں اور مذہبی دیوانوں کے ساتھ اتحاد کا پرچار کر رہے ہیں وہ اسرائیل کو اندھی کھائی میں دھکیل رہے ہیں۔
آگے کا راستہ کیا ہے؟
دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے جذبہ قربانی، بہادری اور جدوجہد کے لئے رضامندی کا لوہا منوا رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کو درکار قیادت میسر نہیں ہے۔
دہائیوں میں ٹوٹے وعدوں اور دھوکوں نے فلسطینی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔ وہ لڑاکا فلسطینی نوجوان جو طاقتور اسرائیلی ریاست کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے حماس کے راکٹ کچھ نہ کچھ جواب ہیں۔ اس یقین کو حالیہ واقعات نے مزید تقویت دی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیلی دفاعی حصار کو توڑنے، جسے ناقابل عبور سمجھا جاتا تھا، اور اسرائیل پر کاری ضرب لگانے پر حماس کی کامیابی کو عرب دنیا میں کئی لوگ ایک فتح کے طور پر دیکھ رہے ہیں جن کے سینوں میں اسرائیل کو ذلیل و خوار دیکھنے کی خواہش سلگ رہی تھی۔
قلیل مدت میں اس سے حماس کی ساکھ میں دیوہیکل اضافہ ہو گا۔ لیکن طویل مدت میں حماس کی کامیابی کی محدودیت سب پر واضح ہو جائے گی۔ اسرائیل فلسطین سوال میں اسرائیل کی دیوہیکل عسکری قوت فیصلہ کن ہے۔
لڑاکا نوجوانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ مذاکرات نہیں انقلابی جدوجہد ہے۔ اس کے لئے عوامی تحرک، عوامی ہڑتالیں اور ہاں، حتمی تجزیے میں اسرائیلی ریاست کے خلاف جنگ کا مطلب مسلح دفاع اور مسلح جدوجہد ہے۔
لیکن یہ لازمی ہے کہ توازن کا احساس قائم رہے۔ فلسطینی عوام کی انقلابی جدوجہد اگر تنہائی کا شکار رہتی ہے تو یہ اسرائیلی ریاست کو شکست فاش دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔
اس کے لئے پورے مشرق وسطیٰ میں ایک عوامی انقلابی تحریک کی جدوجہد درکار ہے۔ لیکن اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ رجعتی سرمایہ دارنہ عرب ریاستیں ہیں جو فلسطین کی حمایت میں زبانی جمع خرچ تو کرتی ہیں لیکن ہر موڑ پر فلسطینیوں کو دھوکہ دے کر سامراج کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیتی ہیں۔
ان کرپٹ ریاستوں کے خاتمے کے ذریعے ہی مشرق وسطیٰ میں سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جو کہ فلسطین کی حقیقی آزادی کے لئے بنیادی شرط۔
حتمی تجزیے میں فلسطینی عوام اور اسرائیلی سماج کے محنت کشوں اور ترقی پسند پرتوں کے درمیان ایک اتحاد ہی اسرائیلی ریاست کو طبقاتی بنیادوں پر توڑ سکتا ہے اور فلسطینی سوال کو ہمیشہ کے لئے جمہوری بنیادوں پر حل کر سکتا ہے۔
یہ عرب انقلاب کا ایک شاخسانہ ہو گا جو اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے اگر یہ (عرب انقلاب) حتمی طور پر کامیاب و کامران ہو۔ کرپٹ ریاستوں کا خاتمہ آدھا حل ہے۔ عوام کی حقیقی آزادی صرف جاگیرداروں، بینکاروں اور سرمایہ داروں کے وسائل اور مال و دولت پر عوامی قبضے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
سوشلسٹ انقلاب ہی واحد حل!
ایک طویل عرصے تک مشرق وسطیٰ اپنے دیوہیکل امکانات، قدرتی وسائل اور غیر استعمال شدہ زائد قوت محن اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے رہا ہے، جو کہ نوآبادیاتی تاریخ کی مکروہ باقیات ہیں جس نے پورے خطے کو چھوٹی ریاستوں میں بانٹا ہوا ہے تاکہ ان پر آسانی سے تسلط قائم کر کے ان کو لوٹا جا سکے۔
یہ زہریلی وراثت لامتناہی جنگوں، قومی اور مذہبی منافرت اور دیگر تباہی و بربادی کی قوتوں کے لئے زرخیز زمین ہے۔ فلسطینی سوال اس حقیقت کا سب سے واضح اور دلخراش اظہار ہے۔
محنت کشوں کو بیرونی علاقہ جات کو فتح کرنے یا دیگر اقوام کو مطیع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جب تمام قوت محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں مرکوز ہو گی تو عرب دنیا کو درپیش تمام مسائل کو امن، جمہوریت اور یکجہتی کے ذریعے حل کیا جا سکے گا۔
ایک جمہوری سوشلسٹ فیڈریشن میں اقوام کے درمیان دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کرنا ممکن ہو گا ۔۔۔ عرب اور یہودی، شیعہ اور سنی، کرد اور آرمینی، دروز اور کاپٹک عیسائی۔ فلسطینی سوال کے حتمی اور جمہوری حل کا راستہ بالآخر سب کے لئے واضح اور قابل قبول ہو گا۔
اتنی زمین موجود ہے کہ ایک حقیقی آزاد، فعال اور خوشحال فلسطینی ریاست قائم کی جا سکتی ہے، عربوں اور یہودیوں کے لئے مکمل آزادی ہو سکتی ہے اور اس کی بنیاد سوویت جمہوریاؤں کا وہ ماڈل ہے جسے بالشویکوں نے اکتوبر انقلاب کے بعد تعمیر کیا تھا۔
چھوٹے ذہن کے بونے اعتراض کریں گے کہ یہ تو ناممکن ہے، یہ تو ایک خواب ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن انہی لوگوں نے ہمیشہ یہ موقف بھی رکھا ہے کہ سوشلزم ناممکن ہے۔ یہ نام نہاد ”حقیقت پسند“ سٹیٹس کو سے ڈھٹائی سے چمڑے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے مطابق یہی ممکن ہے، صرف اس بنیاد پر کہ فی الحال یہ موجود ہے۔
اس بانجھ اور دیوالیہ ”نظریے“ کے مطابق انقلاب ناممکن ہے۔ لیکن جو کچھ وجود میں ہے ایک دن ختم ہو جائے گا۔ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ انقلاب ممکن ہے بلکہ ناگزیر ہے۔ سرمایہ داری گل سڑ کر ختم ہو چکی ہے۔ اس کی بنیادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور یہ اپنے ہی بوجھ تلے ملبے کا ڈھیر بن رہی ہے۔
ایک چیز درکار ہے اور وہ ہے ایک طاقتور دھکا۔ اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا آغاز عرب دنیا میں ایک نئے انقلاب سے ہو سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی عوام کے لئے آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ فلسطینی انقلاب ایک سوشلسٹ انقلاب کے کلیدی حصے کے طور پر ہی کامیاب ہو گا، ورنہ ناکام رہے گا۔
لندن، 11 اکتوبر، 2023ء