|تحریر: راب سیول، ترجمہ: ولید خان|
چند دنوں بعد منعقد ہونے والے انتخابات کے دونوں امیدوار اس وقت برابر کھڑے ہیں اور آپ حکمران طبقے کی پریشانی کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں جن میں سے زیادہ تر بے لگام ٹرمپ کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ مخالف پیغام امریکی سماج کے ایک حصے میں مقبولیت کیوں حاصل کر رہا ہے؟
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
5نومبر امریکہ میں انتخابات کا دن ہے۔ اسی شام برطانیہ میں گھروں میں گائے فاکس رات (Guy Fawkes Night) کے لیے مشعلیں جلائی جائیں گی جس کا مقصد کیتھولک فاکس کی 1605ء میں ویسٹ منسٹر پیلس (بادشاہ اور ممبران پارلیمنٹ میں موجود تھے) کو دھماکے سے اڑانے کی ناکام کوشش کا جشن منانا ہے۔
واشنگٹن میں موجود نفرت زدہ سیاسی اشرافیہ کو تباہ و برباد کرنے کا خواب دیکھنے والے کئی حامیوں کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ فاکس کا پیروکار ہے۔ ریپبلیکن صدارتی امیدوار نے دارلحکومت کو مقبول لقب ”جوہڑ“ (The Swamp) دے رکھا ہے۔
ٹرمپ فاتح ہو گا یا مفتوح، اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ وہ اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کمالہ ہیرس اس وقت برابر کی ٹکر میں ہیں۔
لیکن انتخابات قریب آنے کے ساتھ آپ کو بورژوا لبرل پریس میں پریشانی واضح نظر آ رہی ہے۔
24اکتوبر کو فنانشل ٹائمز میگزین کے ایک مضمون میں ہیرس کی معاشی پالیسی پر افسوس کیا گیا کہ ”آخری لمحات میں اس کی ہوا نکل چکی ہے“۔ برطانوی نیو سٹیٹس مین میگزین نے سیدھا سوال پوچھا ہے کہ ”کیا کمالہ فارغ ہو چکی ہے؟“۔
زیادہ تر اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کے خلاف ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے اور ذرائع تلاش کر رہا ہے۔ پچھلی انتخابی مہموں کی طرح آج بھی وہ سرمایہ دارانہ بحرانوں کے متاثرین میں حمایت بنانے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر امریکی ”رسٹ بیلٹ“ کے محنت کشوں میں۔
اس لیے رجعتی سیاست کا علم بردار اور ذاتی طور پر ارب پتی ہونے کے باوجود ٹرمپ اپنے آپ کو ریڈیکل ”اسٹیبلشمنٹ مخالف“ امیدوار بنا کر پیش کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ہیرس اور ڈیموکریٹس کو وال سٹریٹ کا غلام سمجھا جاتا ہے۔
ہیرس یونینز کو سلام کرتے ہوئے فخر سے اعلان کرتی ہے کہ وہ ایک ”سرمایہ دار“ ہے جو ”آزاد اور منصفانہ“ منڈی پر یقین رکھتی ہے۔
در حقیقت ٹرمپ اور ہیرس دونوں امریکی محنت کشوں کے دشمن ہیں۔ یہی سچ ہے!
ایک نیا دھماکہ ہوا ہے کہ ٹیمسٹر یونین اپنے 13 لاکھ ممبران کے ساتھ فیصلہ کر چکی ہے کہ ڈیموکریٹک امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کرنا کیونکہ ایک رائے شماری میں انکشاف ہوا کہ 58 فیصد ممبران ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں۔
روایتی طور پر ٹیمسٹرز نے ہمیشہ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کی ہے۔ 2020ء میں یونین نے بائیڈن اور ہیرس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اب ممبران کے دباؤ میں 28 سالوں میں پہلی مرتبہ یونین نے کسی امیدوار کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ یہ صورتحال میں ایک قابل ذکر تبدیلی ہے۔
نیوز ویک میگزین نے ایک رائے شماری کا حوالہ دیا ہے کہ ٹرمپ پچھلے 40 سالوں میں کسی بھی ریپبلیکن امیدوار سے زیادہ محنت کشوں میں حمایت حاصل کرے گا۔
کنٹرول ختم ہو چکا ہے
یہ واضح ہے کہ امریکی حکمران طبقے کے حاوی حصے پُر انتشار ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ کمالہ (”مجھے سرمایہ داری سے عشق ہے!“) ہیرس کو صدر دیکھنا پسند کریں گے۔
ٹرمپ کو بے لگام سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا انسان جو شدید خود غرض ہے۔ اگر وہ فاتح ہوا تو امریکی سماج اور عالمی تعلقات کو لاحق انتشار اور بے یقینی مزید گہرے ہوں گے، جن سے بچنے کا ہر کوئی خواہش مند ہے۔ اس کی جگہ ہیرس کو ”محفوظ ہاتھ“ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن حکمران طبقہ اس وقت صورتحال کو کنٹرول نہیں کر رہا ہے۔ امریکی سیاست شدید پر انتشار ہو چکی ہے۔
2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ریپبلیکن پارٹی اور عمومی امریکی اسٹیبلشمنٹ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پچھلی ایک دہائی میں اس نے کامیابی سے پرانی پرتوں کو شکست فاش کیا ہے۔ ریپبلیکن پارٹی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی ہے۔
اس کے نتیجے میں امریکی حکمران طبقہ اپنی دونوں روایتی پارٹیوں میں سے ایک ریپبلیکن پارٹی کا کنٹرول کھو چکا ہے۔
برطانیہ میں بھی یہی صورتحال وقوع پذیر ہوئی ہے۔ کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کا کنٹرول حکمران طبقے کی گرفت سے عارضی طور پر نکل چکا تھا اور وہ ٹوری پارٹی پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی ابھی بھی کوشش کر رہا ہے۔
پچھڑی ہوئی پرتیں
پاپولسٹ ٹرمپ، کھلم کھلا واشنگٹن سے نفرت کرتا ہے۔ یہ سوچ کروڑوں امریکیوں کے دل کی آواز ہے جو اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نمائندوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ یہ افراد ٹرمپ کی حمایت کی بنیاد بناتے ہیں۔
اگرچہ کوئی شک نہیں کہ اس کی سیاست شدید رجعتی ہے لیکن وہ اتنا شاطر ہے کہ اس کا پروپیگنڈہ براہ راست مایوس امریکی مزدور کو نشانہ بناتا ہے۔
یہ چال بہت کارگر رہی ہے۔ کئی محنت کش موجودہ صورتحال سے شدید نالاں ہیں اور اشرافیہ سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ محنت کشوں کی پوری پوری کمیونٹیاں معاشی طور پر پچھڑ چکی ہیں۔ روایتی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں اور حقیقی اجرتیں تیز ترین گراوٹ کا شکار ہیں۔ کئی افراد ایک تنخواہ سے دوسری تنخواہ تک زندہ ہیں اور اخراجات پورے کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔
ان محنت کشوں اور ان کے خاندانوں کے لیے امریکی خواب ایک بھیانک خواب بن چکا ہے۔ مایوسی غم و غصے میں ڈھل چکی ہے۔
ٹرمپ نے کامیابی سے اس موڈ کو نشانہ بنایا ہے۔ ڈیموکریٹس کو سٹیٹس کو کا محض چوکیدار سمجھا جاتا ہے۔ اس صورتحال نے امریکی سیاست کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے۔
بڑے کاروبار بمقابلہ محنت کش
ٹرمپ کی انتخابی ریلیوں کا موازنہ مذہبی ریلیوں سے کیا جاتا ہے جہاں وہ ”امریکہ کو دوبارہ عظیم بنا دو“ (MAGA) کے وعدوں سے ہجوم کو پرجوش کر دیتا ہے۔ اس کی ”سب سے پہلے امریکہ“ پالیسیوں میں۔۔ اس میں معاشی قوم پرستی بھی شامل ہے۔۔ غیر ملکیوں سے نفرت اور نسل پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔
اس کا نائب صدر امیدوار، جے ڈی وینس، سابق وینچر سرمایہ دار ہونے کے باوجود اس اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کا شدید حامی ہے۔ ٹرمپ نے اسے منتخب ہی اس لیے کیا ہے تاکہ کلیدی ٹکر کی ریاستوں میں محنت کش ووٹ جیتا جا سکے۔
ریپبلیکن قومی کنونشن میں وینس نے بڑے کاروباروں اور ”وال سٹریٹ نوابوں“ پر شدید تنقید کی۔ اس نے ڈیموکریٹس کو کارپوریٹ اشرافیہ کا حصہ بتایا جو عالمی سرمائے کے چوکیدار ہیں۔ ساتھ میں اس نے ریپبلیکن پارٹی کی تشریح کی کہ یہ امریکہ کی ”بھلا دی گئی“ کمیونٹیوں اور محنت کشوں کی پارٹی ہے۔ اس نے کہا کہ ”ہم اب مزید وال سٹریٹ کی غلامی نہیں کریں گے۔ ہم محنت کشوں کا نمائندہ بنیں گے“۔
وینس ورمونٹ کے لیفٹ ونگ سینیٹر برنی سینڈرز کی طرح ریڈیکل لفاظی کرتا ہے:
”میرا نہیں خیال کہ ہم ان افراد کے ساتھ کوئی سمجھوتا کریں گے جو اس وقت حقیقی طور پر ملک کو کنٹرول کر رہے ہیں، اگر ہم ان کا کسی طرح سے خاتمہ نہیں کریں گے تو ہم مسلسل نقصان اٹھاتے رہیں گے۔“
”ہم غیر ملکی لیبر درآمد نہیں کریں گے۔ ہم امریکی شہریوں اور ان کی اجرتوں کے لیے لڑیں گے۔“
ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ”ہمیں ایک ایسا قائد چاہیے جو بڑے کاروباروں کی جیب میں نہیں ہے بلکہ محنت کش کو جوابدہ ہے، چاہے وہ یونین ممبر ہو یا نہ ہو، ایک ایسا قائد جو بین الاقوامی اجارہ داریوں سے سمجھوتا نہیں کرے گا۔“
کارپوریٹ مخالفت اور تنہائی پسند عقیدے نے۔۔ ریپبلیکن پارٹی روایتی طور پر کاروبار نواز ہے۔۔ وال سٹریٹ میں ہیجان برپاء کر دیا ہے۔ ایک سرمایہ کار نے فنانشل ٹائمز میگزین کو بتایا کہ ”ہمیں ایک ریپبلیکن برنی سینڈرز نہیں چاہیے۔“
محصولات اور نوکریاں
سیکرٹری برائے خزانہ جینٹ یلن نے اس سال اندازہ لگایا کہ 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین کی شمولیت کے بعد سے اب تک امریکہ میں 2 کروڑ صنعتی نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔
اس کے جواب میں ٹرمپ سب سے زیادہ شور مچا رہا ہے کہ امریکی مدمقابل ممالک پر محصولات لگائے جائیں۔۔ ان میں چین سرفہرست ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ غیر ملکی درآمدات پر 20 فیصد محصولات لگائی جائیں جبکہ چینی مصنوعات پر 60 فیصد محصولات لگائی جائیں۔
فنانشل ٹائمز کا تبصرہ ہے کہ ”اس مرتبہ ٹرمپ نے ایک زیادہ پاپلوسٹ معاشی پالیسی ایجنڈہ بنایا ہے جس کا مقصد اسے عام محنت کشوں اور اندرون ملک پیداوار کا محافظ بنا کر پیش کرنا ہے۔“
اپریل میں ٹرمپ نے ٹائم میگزین کو بتایا کہ ”جب وہ آ کر ہماری نوکریاں اور دولت چوری کرتے ہیں تو وہ ہمارا ملک چوری کرتے ہیں۔ میں اسے ملک کے گرد حصار بندی قرار دیتا ہوں۔“
وینس نے زور دیا ہے کہ ”ہم ان افراد کو اپنی منڈی تک رسائی نہیں دیں گے کیونکہ یہ امریکی اجرتوں کو کم کرنے اور امریکی فیکٹریوں کو چرانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔“
ایک عوامی سوشلسٹ متبادل کی عدم موجودگی میں ٹرمپ کی شعلہ بیانی نے کئی محنت کشوں کو متوجہ کیا ہے۔
ڈیٹرویٹ شہر کے قریب میکومب کاونٹی کے رہائشی اور فورڈ کمپنی میں ملازم نیلسن ویسٹرک کا کہنا ہے کہ ”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم چین سے آنے والی ہر چیز پر محصولات کیوں نہیں لگاتے۔ اس میں میکسیکو بھی شامل ہونا چاہیے۔“
تنہائی پسندی اور خوف و ہراس
ٹرمپ نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی خود کو ڈیموکریٹک پارٹی سے ممتاز کیا ہے۔ وہ زیادہ تنہائی پسند ہے۔۔ یوکرین کو مزید امریکی امداد دینے کا مخالف، NATO کا ناقد اور اشد ضرورت کے بغیر بیرون ملک جنگوں میں امریکی عسکری شمولیت کا مخالف۔
امریکی حکمران طبقے کے لیے یہ شعلہ بیانی بہت خطرناک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، وال سٹریٹ اور بڑے کاروباروں پر ٹرمپ کے حملے اس کی حمایت کو اور زیادہ مشتعل کر رہے ہیں۔
اس کی دولت کے باوجود اسے کئی افراد ”اسٹیبلشمنٹ مخالف“ امیدور سمجھتے ہیں۔ ایسا آدمی جو ان کا نمائندہ ہے۔۔ چھوٹے آدمی، سڑکوں پر پھرنے والے ایک عام شخص کا نمائندہ۔
سرمایہ دار اور ان کے معذرت خواہوں کے لیے یہ بہت خطرناک ہے۔
ٹرمپ کی محنت کش طبقے میں بڑھتی حمایت نے ڈیموکریٹک پارٹی کو پریشان کر رکھا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب محنت کشوں کو ڈیموکریٹک حمایت کا کلیدی ستون سمجھا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی ان کی قدر نہیں کی۔ اس وجہ سے ماضی کے مقابلے میں آج ووٹر زیادہ کھل کر ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔
2020 ء میں NBC کے مطابق بائیڈن کو ٹرمپ کے برعکس محنت کشوں میں 16 فیصد زیادہ حمایت حاصل تھی۔ آج یہ اعداد و شمار سکڑ کر 9 فیصد رہ گئے ہیں۔
کیا ٹرمپ ایک ”فاشسٹ“ ہے؟
ٹرمپ پر بائیڈن کا بنیادی حملہ یہ تھا کہ وہ جمہوریت کے لیے ایک خطرہ اور انتشار پسند ہے۔ لیکن آج کل ان دلیلوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
بہت سے افراد جو مایوس اور غصے میں ہیں، وہ ٹرمپ کو اس لیے وائٹ ہاؤس میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ نظام انتشار اور خطرات کا شکار ہو۔
ٹرمپ کو محض ”فاشسٹ“ کہہ کر اس کی حمایت ختم نہیں کی جا سکتی۔ ٹرمپ فاشسٹ نہیں ہے جس کا مقصد امریکی ٹریڈ یونین تحریک کو تباہ و برباد کرنا یا ایک سفاک آمریت قائم کرنا ہے۔
یقینا ٹرمپ کے پاس ایک جان نثار حامیوں کا ہجوم ہے جن میں کچھ فاشسٹ گروہ بھی شامل ہیں۔ اس کو کچھ رجعتی چھوٹے کاروباریوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
بنیادی طور پر وہ ایک رجعتی شعلہ بیان ہے جس کا پروگرام دائیں بازو، تنہائی پسند اور ”سب سے پہلے امریکہ“ ہے۔ لیکن اس میں وہ دانستہ طور پر وال سٹریٹ اور واشنگٹن اسٹیبلشمنٹ پر کڑے حملے کرتا ہے۔
یہ حکمت عملی محنت کشوں میں ٹرمپ کی بنیاد بنا رہی ہے جو ان چھوٹے فاشسٹ گروہوں اور پرتوں سے بہت مختلف ہیں۔
ان کے لیے ٹرمپ ایک بے باک انسان ہے جو پرانی پرتوں، استحقاق یافتہ اشرافیہ اور روایات کے خلاف کھڑا ہونے کو تیار ہے۔ وہ بے خوف ہے اور تمام روایتوں اور اقداروں کو پیروں تلے روند رہا ہے۔ وہ بورژوا جمہوریت کی آنکھوں کے تارے اداروں پر حملہ کرنے سے نہیں ڈرتا۔
اس سارے عمل میں وہ کئی افراد کے غصے کے اظہار کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اگر عام زبان میں کہا جائے تو اس کے حامی اسے ”آہنی مرد“ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
حملے اور الزامات
کئی افراد کی نظر میں ٹرمپ پر اسٹیبلشمنٹ کے حملے اسے برباد کرنے کی کوششیں ہیں۔ وہ غلط بھی نہیں ہیں۔ حکمران طبقہ اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکا ہے لیکن وہ ویسے کا ویسا ہی کھڑا ہے۔
کوئی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ جب وہ صدر تھا تو اس کی ساکھ روندنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ آپ نے جو سوچا انہوں نے وہ کیا۔۔ اس میں مواخذے کی دو کوششیں بھی شامل ہیں۔
2020ء کے انتخابات میں شکست کے بعد اسے دوبارہ نامزد ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسے مختلف ریاستوں میں انتخابات لڑنے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس پر 34 فردِ جرم عائد ہو چکی ہیں اور مزید 50 ابھی تیار کھڑی ہیں۔ اسے کاروبار میں دھوکہ بازی اور ایک ریپ الزام کے نتیجے میں ہتک آمیز دعوے کے مقدمات میں کئی سو ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
لیکن اس پر لگنے والی ہر فردِ جرم اپنے ساتھ عوامی حمایت میں مزید اضافہ لے کر آئی۔ ہر الزام اس پر سے ایسے پھسل جاتا ہے جیسے بطخ کے پروں سے پانی۔
در حقیقت ان حملوں کا الٹا اثر ہوا ہے۔ ٹرمپ کے حامی سمجھتے ہیں کہ یہ عوام دشمن ”خفیہ ریاست“ کی جانب سے جاری ہراسانی ہے۔
اسی طرح حالیہ قتل کی کوششوں نے اس یقین کو اور تقویت دی ہے کہ سفاک اسٹیبلشمنٹ اس کا پیچھا کر رہی ہے اور وہ نشانے پر ہے۔
امریکی تاریخ میں اتنی گہری اور سخت پولرائزیشن پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ اگر کوئی موازنہ ہے تو اس کے لیے دہائیوں پہلے 1860ء کی دہائی میں خانہ جنگی کے دور کو دیکھنا ہو گا۔ موجودہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جون 2021ء میں امریکی کانگریس پر دھاوا بولنے کی 45 فیصد ریپبلیکنز نے حمایت کی تھی۔
”پاپولزم“ کیا ہے؟
اس سب کے باوجود ٹرمپ شکست ماننے سے انکاری ہے۔ جب نومبر 2020ء میں وہ بائیڈن کے مقابلے میں ہار گیا تھا تو اس وقت بھی اس نے 7 کروڑ 30 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔۔ 2016ء انتخابات سے 1 کروڑ 10 لاکھ زیادہ۔
کچھ افراد کے تبصروں کے برعکس یہ سب رجعتی ہر گز نہیں ہیں۔ یہ وہ ووٹر ہیں جنہیں پرانے سیاست دانوں نے مسلسل دھوکہ دیا ہے۔ یہ کچھ نیا، کچھ ریڈیکل آزمانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ انہیں یہی سب پیش کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ٹرمپ کو ”پاپولسٹ“ گردانا جاتا ہے۔ ”پاپولزم“ ایک بہت ہی مبہم اصطلاح ہے جس کا مطلب صرف شعلہ بیانی ہے یعنی جب ایک قائد عوام کو اپیل کرتا ہے، ان کی جبلت کو اپیل کرتا ہے تاکہ اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے۔
یقینا یہ ایک بہت ہی لچکدار اصطلاح ہے۔ پاپولزم کی کئی قسمیں ہیں جو پورے سیاسی افق میں پائی جاتی ہیں۔۔ لیفٹ اور رائٹ دونوں جانب۔
لاطینی امریکہ میں اس کی مثال وینزویلا میں ہیوگو شاویز ہے جو ریڈیکل لیفٹ ہے اور ارجنٹائن میں ہاویئر میلے لبرٹیرین رائٹ کی مثال ہے۔
یقینا ٹرمپ رائٹ ونگ رجعتیت کی ایک قسم ہے۔۔ ایسا فرد جو سفاکی سے عوام کی ایک مایوس پرت کو اپنے خود غرض مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
لبرل تبصرہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسا پاگل رجعتی، اعلانیہ عورت مخالف اور نسل پرست کیسے اتنی حمایت حاصل کر رہا ہے۔
درحقیقت یہ لبرلز اور لبرلزم کی ناکامی ہے جس نے ٹرمپ کے ابھار کی راہ ہموار کی ہے۔ لبرلز سرمایہ داری اور وال سٹریٹ اشرافیہ کے نوکر ہیں۔ معیار زندگی میں گراوٹ اور امراء کی دولت میں ہوشرباء اضافہ ان کی سربراہی میں ہوا ہے۔
اس عمل میں انہوں نے کروڑوں افراد کو متنفر کر دیا ہے جس نے محنت کشوں کی ایک پرت میں ٹرمپ کی دلیلوں اور وال سٹریٹ مخالف شعلہ بیانی کو پیر جمانے کا موقع دیا ہے۔
برنی سینڈرز
یہ سوال کئی افراد کو مضطرب کر دے گا جو اسے ناقابل برداشت سمجھتے ہیں۔ لیکن اس ساری صورتحال سے آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
ٹرمپ میں وہ خوبیاں موجود ہیں جو مایوس افراد کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔ اس کا امیج ایک سخت گیر انسان کا ہے جو کسی بھی مشکل یا رکاوٹ سے نہیں گھبراتا۔ وہ ڈھٹائی کے ساتھ 2020ء کی شکست کو مسترد کرتا رہا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ انتخابات ”چرائے“ گئے ہیں۔ سیاسی ”روایات“ کے لیے اس کے پاس حقارت اور گالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں۔
اس لیے اس کے حامی سمجھتے ہیں کہ وہ سرمایہ داری کے تسلط میں کچلے ہوئے افراد کے لیے ایک بے باک علم بردار ہے، ایک ہیجان خیز انسان جو پورے نظام کے در و دیوار ہلا رہا ہے۔ وہ بے حیائی سے محنت کش طبقے کو اپیلیں کرتا ہے کہ وہ ان کا ثابت قدم سورماء ہے۔
ڈیموکریٹس اور لبرلز کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
ایک ہی شخص تھا جو ٹرمپ کو چیلنج کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر محنت کش طبقے کو جیت سکتا تھا اور اس کا نام برنی سینڈرز تھا۔
لفاظی میں سینڈرز نے ”ارب پتی طبقے“ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ درحقیقت اس نے ”ارب پتی طبقے کے خلاف ایک سیاسی انقلاب“ کا وعدہ کیا۔ اس نے ان کے پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ اسے بھی وال سٹریٹ کی امیدوار ہلری کلنٹن کے مقابلے میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھا جاتا تھا۔
سینڈرز کے ریڈیکل ازم نے ٹرمپ کے حامیوں کو متوجہ کیا۔ ایک ٹرمپ ریلی میں دیوہیکل اسکرین پر کلنٹن کے ویڈیو کلپس دکھائے گئے۔ اس پر ہجوم نے شدید نعرے بازی اور گالم گلوچ کی۔
لیکن جب سینڈرز کا ایک کلپ دکھایا گیا تو ٹرمپ کے حامیوں کا رویہ بالکل مختلف تھا۔ سب خاموش تھے، پورا ہجوم اس اسٹیبلشمنٹ مخالف فرد کی عزت میں سر جھکائے کھڑا تھا۔
واضح تھا کہ سینڈرز کا ”سیاسی انقلاب“ کا نعرہ ٹرمپ کے حامیوں کو متوجہ کر رہا تھا جو بنیادی تبدیلی کے خواہش مند تھے۔ اس کے برعکس ان پرتوں کو کلنٹن میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ درحقیقت وہ اپنی دوری اور غرور کے ذریعے انہیں شدید متنفر کر رہی تھی۔
سینڈرز اور ٹرمپ کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ ”اجنبی“ کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ لیکن یہی وہ خصوصیت تھی جو انہیں نظام سے متنفر کروڑوں افراد کی توجہ کا مرکز بنا رہی تھی۔
ٹرمپ کی طرح سینڈرز بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف ”پاپولزم“ کر رہا تھا۔ اس کے سامعین بنیادی تبدیلی کے خواہش مند کروڑوں افراد تھے جو ”سوشلزم“ کی جانب راغب تھے۔ ان میں وہ 43 فیصد افراد بھی شامل تھے جو اپنے آپ کو ”آزاد“ گردانتے ہیں۔
اس کی وجہ سے دیوہیکل طبقاتی قوتیں متحرک ہوئیں، خاص طور پر نوجوان جنہوں نے زندگیوں میں پہلے کبھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔
اپنی تمام محدودیت کے باوجود اس نے محنت کش طبقے کی سماج کو تبدیل کرنے کی لاشعوری خواہشات کو شعوری اظہار فراہم کیا۔
بدقسمتی سے حتمی طور پر سینڈرز نے ڈیموکریٹک پارٹی سے ناطہ توڑ کر ایک نئی سرمایہ داری مخالف پارٹی بنانے کے برعکس پہلے کلنٹن اور بعد میں بائیڈن کی حمایت کا اعلان کر کے تحریک کو دھوکہ دیا۔ اس نے جو امکانات ابھارے تھے، اس دھوکے نے ان کو ضائع کر دیا۔
نتیجتاً کئی افراد کی نظر میں سینڈرز اسٹیبلشمنٹ کا آدمی بن گیا، ڈیموکریٹک مشینری کا حصہ ہو گیا۔ اس ساری صورتحال سے ٹرمپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اب وہ واحد اسٹیبلشمنٹ مخالف امیدوار بن چکا تھا۔
لیفٹ کے لیے اسباق
آج سینڈرز، الیگزینڈریا اوکازیو کورٹیز اور دیگر ”لیفٹ“ ڈیموکریٹس کمالہ ہیرس کی حمایت کر رہے ہیں۔
”کم تر بدی“ کی دیوالیہ سیاست کا یہی انجام ہے۔ ان کے لیے ”فسطائیت“ کے خلاف ”جمہوریت“ کی حمایت ہی سب کچھ ہے۔
درحقیقت وہ ڈیموکریٹک پارٹی مشینری کے آگے سر نگوں ہو چکے ہیں۔ بالآخر یہ ان کی اصلاح پسند سیاست کا نتیجہ ہے۔
یہی سب کچھ برطانیہ میں ہوا ہے۔ کوربن قیادت سمجھتی تھی کہ وہ لیبر رائٹ ونگ کے ساتھ پرامن سمجھوتا کر سکتے ہیں۔۔ پارٹی میں سرمایہ داری کے چوکیدار۔ جب کوربن کے پاس موقع تھا تو اس وقت پارٹی سے بلیئرائٹ کچرے کا صفایا کر دینا چاہیے تھا۔ لیکن لیفٹ قائدین پارٹی ٹوٹ پھوٹ سے شدید خوفزدہ تھے۔
رائٹ ونگ تخریب کاروں کو پارٹی میں رہنے کی اجازت دی گئی اور نتیجتاً پارٹی اندرونی طور پر کمزور رہی۔ کمزوری جارحیت کو دعوت دینا ہے۔
آپ اس معاملے کا بورس جانسن سے موازنہ کریں۔ وزیر اعظم کو اپنی پارٹی میں کچھ ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے بریگزٹ سوال پر مخالفت کا سامنا تھا۔ اس نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر 21 ممبران کو معطل کر دیا۔
اس کے برعکس کوربن قیادت دیوہیکل عوامی حمایت کے باوجود رائٹ ونگ کے سامنے سرنگوں ہو گئی اور شرم و دکھ کے ساتھ عدم موجود ”یہودی مخالفت“ پر معافیاں مانگتی رہی۔ اس معاملے نے ان کی حتمی شکست کا فیصلہ کر دیا۔
ظاہر ہے جیسے ہی رائٹ ونگ نے واپس پارٹی کا کنٹرول سنبھالا تو اس نے لمحہ ضائع کیے بغیر لیفٹ کو لات مار کر باہر نکال دیا اور کوربن کو معطل کر دیا۔ اس سفاکی کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پیچھے پورا حکمران طبقہ، ان کا میڈیا اور بورژوا سماج کے تمام وسائل کھڑے تھے۔
اگر ہم ٹرمپ سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ اعلانیہ رجعتی ہونے کے باوجود وہ ثابت قدم ہے اور اپنے مخالفین کے سامنے گھٹنے ٹیکنے یا سمجھوتا کرنے کو کسی صورت تیار نہیں ہے۔ وہ سرنگوں کرنے سے انکاری ہے چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ہو۔ اس ڈھٹائی نے کروڑوں افراد کے دل جیت لیے ہیں۔
لیفٹ کو بھی اپنی آنکھیں کھولنی چاہییں اور یہی رویہ اپنانا چاہیے۔ انہیں آگ کا مقابلہ آگ سے کرنا ہو گا۔ سادہ الفاظ میں لیفٹ کو ریڑھ کی ہڈی پیدا کرنا ہو گی۔
اس کے لیے ایک انقلابی نظریہ اور پروگرام کی ضرورت ہے جو صد افسوس اصلاح پسند قائدین کے پاس نہیں ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عوام ان کی طرف قیادت کے لیے دیکھ رہی ہے اور ایک انقلاب سے کم اب وہ کسی صورت آمادہ نہیں ہیں۔۔ لفاظی نہیں، عمل۔
مستقبل کا امریکی انقلاب
حکمران طبقے نے (Guy Fawkes) گائے فاکس کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی تھی۔ اس کے برعکس امریکہ میں ٹرمپ انتشاری دوسری مرتبہ صدر بن سکتا ہے۔
لیکن ٹرمپ یا ہیرس میں سے کوئی بھی محنت کش طبقے کو درپیش ایک بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس، امریکی اور عالمی سرمایہ داری کے بحران۔۔ جسے ٹرمپ کی معاشی قومیت نے مزید گھمبیر کر دیا ہے۔۔ کا نتیجہ مزید جبری کٹوتیاں اور حملے ہیں۔
ڈیموکریٹس کے دیوالیہ پن اور ٹرمپ ازم کی ناکامی اس کے محنت کش حامیوں کو ایک نیا انقلابی راستہ تراشنے پر مجبور کر دیں گے۔
یہ قوتیں آنے والے امریکی انقلاب کا ہر اول دستہ بنیں گی۔۔ ارب پتی طبقے اور اس کے نظام کے خلاف ایک دھماکہ خیز انقلاب۔