|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|
تحریک بحالی بی ایم سی اور حکومت کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے، مذاکرات سے واپسی پر تحریک کی قیادت نے کل سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کردیاہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز سہ پہر کو تحریک بحالی بی ایم سی کے زیراہتمام مطالبات کے حق میں ریلی نکالی گئی جس کے بعد گورنرہاوس کے عقب میں واقع چوک پر مظاہرین نے دھرنا دیا۔ احتجاجی دھرنے میں بی ایم سی بحالی تحریک کے محنت کشوں اور طلبہ تنظیموں کے علاوہ ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے ساتھیوں نے بھرپور شرکت کی اور دھرنے میں مزدور اتحاد پر مبنی لیف لیٹ بھی تقسیم کیے۔
یاد رہے کہ تحریک بحالی بی ایم سی کے پلیٹ فارم سے بولان میڈیکل ہیلتھ یونیورسٹی کے ایکٹ میں ترمیم کے لیے طویل عرصے سے احتجاج کیاجارہاہے۔ گزشتہ دنوں بھی دھرنا دیاگیا جس کے نتیجے میں سردار نوراحمد بنگلزئی کی ضمانت پر مطالبات کو صوبائی کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن بعد میں صوبائی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے سے مطالبات کو نکال دیاگیا۔ اس کے بعد عید اور محرم کے بعد 3 ستمبرکو دھرنادینے کا اعلان کیاگیا۔ 3 ستمبر بروز جمعرات، جب صوبائی وزیر میراسدبلوچ، میرعبدالرؤف رند اور سردار نواحمدبنگلزئی پر مشتمل حکومتی وفد نے تحریک بحالی بی ایم سی کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کیے، جوکہ ناکام ہوئے، جس کے بعد احتجاجی دھرنے کے شرکاء نے 4 ستمبر بروز جمعہ سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ تحریک کے رہنماء عبداللہ صافی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے حوصلے بلندہیں، کل سے 50 افراد تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے اور جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہڑتال ختم نہیں کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ صوبائی حکومت کیوں ہمارے جائز مطالبات تسلیم نہیں کررہی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ روز اول سے اس احتجاجی تحریک کی جدوجہد میں محنت کشوں اور طلبہ کیساتھ فرنٹ لائن پر موجود رہا ہے اور اب بھی اس جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کرے گا۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پر جانے کی بجائے صوبے بھر کی مزدور تنظیموں، جوکہ پہلے ہی ایک الائنس میں موجود ہیں اور ملک گیر سطح پر کئی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں، سے یکجہتی کی اپیل کی جائے اور بالخصوص محکمہ صحت کے تمام ملازمین، جن میں ینگ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکس، نرسز اور دیگر فیکلٹی سٹاف کیساتھ اس مسئلے کے حوالے سے اُن کو ایک پیج پر لانے کی ازسر نو کوشش کی جائے۔ جبکہ دوسری طرف آل بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز الائنس سمیت محکمہ صحت کی تمام ایسوسی ایشنز کی قیادت کی طرف سے صرف الفاظ کی حد تک حمایت کو محدود رکھنے سے مشترکہ جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے اور شعبہ جاتی تعصب کو فروغ ملتا ہے۔ درحقیقت یہ مجوزہ نجکاری کے منصوبے کو درست انداز میں نہ سمجھنے کا عملی اظہار ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بی ایم سی بحالی تحریک کی قیادت پر اب بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کو عام عوام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں، اور اس مسئلے کی بنیادی وجوہات اور اُن اثرات سے عام عوام کو آگاہ کریں جو اس عمل کی وجہ سے لوگوں پر پڑینگے، کیونکہ ابھی بھی اس مسئلے کے حوالے سے عام عوام شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ عام لوگ صرف یہ جانتے ہیں کہ اس تحریک کا مقصد یونیورسٹی کو ختم کرنا ہے، جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس کے علاوہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ایکٹ کو نجکاری کیساتھ بلاواسطہ جوڑا جائے، کیونکہ بی ایم سی کالج کو یونیورسٹی اور خودمختار ادارہ بنانا صرف نجکاری کرنے کے حیلے اور بہانے ہیں۔ نجکاری کا مسئلہ اور جبری برطریوں کا سلسلہ نہ صرف بلوچستان میں جاری ہے بلکہ موجودہ آئی ایم ایف کی دلال حکومت کی ملک گیر پالیسی ہے۔ تمام اداروں کے محنت کشوں کو اس کے خلاف متحد اور منظم جدوجہد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔