|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ڈیرہ غازی خان|
محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک بھر کی طرح ڈیرہ غازی خان میں پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ نے ایک سیمینار بعنوان ”صنفی جبر، جنسی ہراسانی اور معاشی غلامی کے خلاف انقلابی جدوجہد“ کا انعقاد کیا۔ سیمینار میں لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ینگ نرسز ایسوسی ایشن ڈیرہ غازی خان کے وفود کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔
سٹیج سیکرٹری کے فرائض آصف لاشاری نے ادا کیے۔ پروگرام کا آغاز پروگریسو یوتھ الائنس اورریڈ ورکرز فرنٹ کے تعارف سے کیا گیا جس کے بعد فرحان عباس نے محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تاریخ اور اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔ سیمینار کے اگلے مقرر پروگریسو یوتھ الائنس ڈیرہ غازی خان کے آرگنائزر منصور ارحم تھے جنہوں نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طالبات کے فوری حل طلب مسائل اور دیہی محنت کش خواتین کو درپیش مسائل پر گفتگو رکی۔ منصور ارحم کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکرز ڈیرہ غازی خان کی جنرل سیکرٹری میڈم سلمی نواز نے سماج میں محنت کش خواتین کو درپیش مسائل اور محنت کش خواتین کے حالیہ عرصے میں ہونے والے دھرنوں میں انقلابی جدوجہد پر گفتگو کی اور کہا کہ محنت کش خواتین کی جدوجہد نے ثابت کیا ہے کہ وہ کمزور نہیں ہیں بلکہ لڑ کر اپنا حق لینا جانتی ہیں۔
سیمینار میں غازین سٹوڈنٹس الائنس کے رہنماؤں غلام مرتضی لغاری، منور گمب، عارف قیصرانی اور اسامہ نتکانی نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ غازین سٹوڈنٹس الائنس سے غلام مرتضی لغاری نے قبائلی خواتین کو درپیش مسائل پر تفصیل سے گفتگو کی اور قبائلی علاقوں میں بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے فقدان کی بات کی۔ سیمینار سے ینگ نرسز ایسوسی ایشن ڈیرہ غازی خان کی میڈم صائمہ نے بھی خطاب کیا اور خواتین کے حوالے سے پائی جانے والی تعصبانہ سوچ پر بات کی۔ میڈم صائمہ کا کہنا تھا کہ بچیوں کی پیدائش پر ماتم کرنا سماج میں پائی جانے والی خواتین کے بارے میں عمومی سوچ کا اظہارہے جسکو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد عابد بزدار نے جنوبی پنجاب کی دیہی محنت کش خواتین کے مسائل پر بات کی۔
پروگرام کے آخر میں آصف لاشاری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی تاریخی شکست اور غلامی کا آغاز سماج کے طبقات میں تقسیم ہو جانے سے ہوا۔ خواتین کی اس غلامی کا خاتمہ اور خواتین کے متعلق جاہلانہ نظریات و تعصبات کا خاتمہ طبقات کے خاتمے کے بغیر نا ممکن ہے۔ ملائیت اور لبرل ازم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں ہی کسی نا کسی شکل میں عورت کو غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ گھروں کے اندر عورت کی ذمہ داری سمجھے جانے والے کاموں کو سماجی کاموں میں تبدیل کئے بغیر عورتوں کی غلامی کے خاتمے کی طرف نہیں بڑھا جا سکتا۔