|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، جنوبی پنجاب|
بارشوں اور رود کوہیوں کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کے گرد و نواح میں ایک بہت بڑا علاقہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ رود کوہیوں اور بارشوں کا پانی کئی ایسے علاقوں میں جمع ہو چکا ہے جہاں سے پانی کی دریا تک نکاسی کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ ان علاقوں میں ماضی میں موجود سیلابی نہروں کا اب کہیں وجود نہیں ہے اور ان نہروں پر اب مارکیٹیں بنا دی گئی ہیں یا لوگوں نے گھر تعمیر کر لیے ہیں۔ کم از کم پچھلے 30 سالوں سے لوگوں کی جانب سے ان سیلابی نہروں پر گھر اور دکانیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے جسے ریاست کی جانب سے روکنے کی کبھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اسی طرح رود کوہیوں کے گزرنے کے قدرتی راستوں کو جدید بنیادوں پر مضبوط بنانے کی بجائے ان کے راستوں کو بند کیا گیا یا مقامی سرداروں اور طاقتور افراد نے اپنے زرعی و مچھلی فارموں اور کرش پلانٹوں وغیرہ کو محفوظ بنانے کے لیے ان کے قدرتی راستوں کو تبدیل کیا۔ اسی طرح حال ہی میں فوجی سیمنٹ فیکٹری کی تعمیر کے دوران بھی سیمنٹ فیکٹری کو محفوظ بنانے کے لیے رود کوہی کے قدرتی راستے میں خلل ڈالی گئی۔ سیلابی نہریں جو دریا تک سیلابی پانی کو لے جانے کا راستہ تھیں، کے ختم ہو جانے کی وجہ سے ڈی جی خان شہر سے شمال میں یارو کھوسہ سے پل شیخانی تک مانکہ کنال کے مشرقی کنارے پر بنے یارو روڈ کی مغربی طرف کا 20 کلومیٹر پر مبنی علاقہ مکمل طور پر پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور ڈیم کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ یارو روڈ سے مشرق کی طرف موجود لوگ پانی کو مشرق کی طرف نکالنے سے انکاری ہیں اور پولیس یا انتظامیہ کو اس طرف پانی چھوڑنے کی اجازت نہیں دے رہے کیونکہ یارو روڈ کے مشرق کا علاقہ اترائی میں ہے اور وہاں سے پھر آگے پانی نکالنے کا راستہ موجود نہیں ہے۔ دونوں اطراف کے لوگوں کے درمیان لڑائی کے امکانات موجود ہیں۔ حالات کشیدہ ہیں لیکن اس صورت حال کو حل کرنے کے لیے نہ ہی مقامی سردار اور نہ ہی انتظامیہ کو کوئی کردار ادا کر رہی ہے۔
یہی صورت حال ڈی جی خان سے جنوب کے علاقوں کی ہے۔ انڈس روڈ پر موجود قصبہ کالا کے مغرب میں موجود سارا علاقہ جن میں موضع کوچہ ککاری سمیت بہت سے موضعات شامل ہیں، سب سے پہلے سیلاب اور رود کوہیوں کا نشانہ بنے اور ابھی تک رود کوہیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان موضعات میں بھی ہزاروں کی تعداد میں گھر گر گئے ہیں۔ مویشیوں کی اموات ہوئی ہیں اور گھر میں موجود گندم یا دیگر بنیادی اشیائے ضرورت بھی پانی کی نظر ہو گئی ہیں۔
دو دن قبل ایک بہت بڑا سیلابی ریلا پل قمبر سے لے کر چوکی والا تک کے علاقے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ لوگوں نے سیلابی ریلے سے جان بچانے کے لیے انڈس روڈ کا رُخ کیا اور لوگوں کی بڑی تعداد سیلابی ریلے میں پھنس گئی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹریکٹر کی ٹیوبوں سے کشتیاں بنا کر لوگوں کو اور جانوروں کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ریاست عملی طور کہیں نظر نہیں آئی۔ اس سیلابی ریلے نے جہاں درجنوں بستیوں کو ملیا میٹ کر دیا وہیں کئی قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں اور جانور بھی بڑی تعداد میں سیلابی ریلے کی نظر ہو گئے۔ اموات کی مجموعی تعداد کے حوالے سے کوئی رپورٹ مرتب نہیں کی گئی لیکن کم از کم بھی لگ بھگ 30 کے قریب اموات ہوئی ہیں جن میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس ریاست پر براجمان لٹیرے حکمرانوں کو عوام کی جان و مال کی کوئی فکر نہیں ہے اور ان حکمرانوں کو زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کر کے صرف اور صرف اپنی دولت میں اضافہ کرنے اور اقتدار کی فکر ہے۔
پاکستانی کی گلی سڑی سرمایہ داری آج نہ کسی قسم کا استحکام پیدا کر سکتی ہے اور نہ ہی آج کے عہد میں درپیش انتہائی سنجیدہ مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ آج کے عہد کے تمام تر مسائل چاہے وہ غربت، بے روزگاری اور لاعلاجی یا ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والے مسائل ہوں، پاکستان کے موجودہ حکمران ان کو حل کرنے سے قاصر ہیں۔
انتہائی مشکل حالات میں بمشکل زندہ رہنے والے افراد کے لیے حالیہ سیلاب انتہائی مشکل معاشی مضمرات کو جنم دے گا لیکن یہ معاشی مضمرات ایک وقت آنے پر اپنا اظہار سیاسی مضمرات کی صورت میں بھی کریں گے اور لوگ ان تمام تر مسائل کے حل کے لیے بغاوت کا راستہ اختیار کریں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے عہد کے تمام تر مسائل کے حل کے لیے جس بڑے پیمانے کے وسائل درکار ہیں وہ وسائل صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پیدا کیے جا سکتے ہیں جس میں نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام تر دولت اور وسائل کو ایک فیصد حکمران طبقے سے چھین لیا جائے گا اور ان وسائل کو اجتماعی ملکیت قرار دیتے ہوئے مزدور طبقے کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے سماجی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسی صورت ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیلابوں رود کوہیوں کو آبادیوں کو برباد کرنے سے روکا جاسکے گا، اور پانی کی کمی کے مسائل سے لے کر غربت، بے روزگاری اور لاعلاجی جیسے مسائل کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا جائے گا۔