حالیہ بارشوں نے محنت کش عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے بوسیدہ انفرااسٹرکچر کی قلعی ایک مرتبہ پھر کھول دی ہے۔ ایک طرف حکمران سی پیک کے قصیدے پڑھ رہے ہیں اور اس کے تکمیل کے مراحل میں پہنچنے پر شادیانے بجاتے ہوئے ملک میں تعمیر و ترقی کے کئی باب روشن کرنے کے گیت گا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب محنت کش بارشوں سے اپنے خستہ حال گھروں کو محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن کی خبریں ہمیشہ کی طرح دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں جبکہ میڈیا حکومت کی دوسالہ کارکردگی کی جھوٹی تصویر پیش کرنے میں مصروف ہے۔
بارشوں کی تباہی نے واضح کر دیا ہے کہ موجودہ انفرااسٹرکچر کی مرمت نا ممکن ہو چکی ہے اور حکمرانوں کی لوٹ مار اور ریئل اسٹیٹ مافیاکے نوچنے کے باعث یہ تمام تر انفرااسٹرکچر اب از سر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جس کی صلاحیت موجودہ نظام میں نہیں اور عوام کو ان جان لیوا آفات سے نپٹنے کے لیے پورے سماجی معاشی نظام کو ہی انقلاب کے ذریعے اکھاڑکر نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا۔
اس دوران جہاں تمام بڑے شہر گندے پانی کے تعفن میں ڈوبے ہوئے ہیں وہاں کرونا وباء کے حوالے سے بھی مبہم، غیر واضح اور گوموگو کی کیفیت موجود ہے۔ بہت سے ممالک میں حالیہ سیلابوں کے باعث کرونا وباء مزید پھیلی ہے اور اس کی تباہی میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہاں اس حوالے سے کوئی خبر یا تجزیہ کرنا شجر ممنوعہ بن چکا ہے اور ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس وباء پر مکمل قابو پایا جا چکا ہے اور کسی بھی قسم کے لاک ڈاؤن کی ضرورت موجود نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیسٹ کروانا مشکل سے مشکل تر ہوتے ہوئے ناممکن کے قریب پہنچتا جا رہا ہے اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت ایسی ہے کہ یہ کرونا وبا کا علاج کرنے کی بجائے اسے پھیلانے کے مرکز بنتے گئے ہیں۔ دوسری جانب نجی ہسپتالوں نے بھی لوٹ مار کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جس کے باعث عوام کا صحت کے بنیادی انفرااسٹرکچر سے مکمل اعتماد ہی اٹھ چکا ہے۔ ایسے میں اگر آنے والے مہینوں میں دوسری لہر آتی ہے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی ہیں تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکمران طبقے کی نا اہلی، لوٹ مار اور منافع خوری پر عائد ہو گی۔ کرونا وباء کے دوران عوام کے لیے ٹیسٹوں کی سہولت ہر جگہ سے مفت مہیا کرنے، نجی ہسپتالوں کو مفت علاج فراہم کرنے کے لیے پابند کرنے اور تمام تر ادویات کی مفت فراہمی جیسے اقدامات کرنے کی بجائے حکمران عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کرنے میں مصروف تھے جبکہ سرمایہ دار تیل، آٹے، چینی اور دیگر بنیادی ضروریات کی گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹتے رہے۔
اس کے علاوہ لاک ڈاؤن کے دوران عوام کو ان کی دہلیز پر مفت راشن مہیا کرنے، کرائے ختم کرنے اور بیروزگاری الاؤنس جاری کرنے کی بجائے حکمرانوں نے بجلی سمیت استعمال کی تمام اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا جس سے لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ اس دوران ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل سمیت دیگر عوامی اداروں کی نجکاری کا عمل تیز تر کر دیا گیا اور شدید ترین بحرانی کیفیت میں لاکھوں افراد کے روزگار پر حملے کیے گئے۔ یہ تمام صورتحال حکمران طبقے کے حقیقی عوام دشمن بھیانک کردار کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے جس میں حکمران جماعت سمیت اپوزیشن کی تمام پارٹیاں بھی برابر کی شریک ہیں جنہوں نے عوامی مسائل کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور اقتدار کی بندر بانٹ میں ہر وقت مگن دکھائی دیتے ہیں۔ ریاستی اداروں کا کردار بھی مختلف نہیں اور ججوں اور جرنیلوں کی بدعنوانی کے قصے جہاں عام ہو چکے ہیں وہاں اداروں کا عوام پر جبر بھی بڑھتا جا رہا ہے جس کیخلاف عوامی نفرت کا لاوا پک کر پھٹنے کے لیے تیار ہے۔
موجودہ صورتحال میں واضح ہو چکا ہے کہ آنے والے عرصے میں محنت کشوں کے حالات زندگی میں کسی بھی قسم کی بہتری ممکن نہیں بلکہ حالات مزید بد تر ہوتے چلے جائیں گے۔ کرنسی کی قدر میں بھی تیز ترین گراوٹ آ رہی ہے اور غیر ملکی امداد میں مختصر سی رکاوٹ بھی اس قدر میں دیوہیکل گراوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح صنعتوں کی بندش پہلے ہی شدت اختیار کر چکی ہے اور برآمدات میں تاریخ کی بد ترین گراوٹ آ چکی ہے۔ تمام تر معاشی بحرا ن عوام کے نازک کندھوں پر منتقل کیا جا چکا ہے جو پہلے ہی معاشی حملوں سے اوندھے منہ پڑے تھے۔ ایسے میں کوئی بھی ایک سیاسی یا معاشی واقعہ سماج میں غیر معمولی تبدیلیوں کے ایک نہ رکنے والے سلسلے کا آغاز کر سکتا ہے۔ حکمرانوں کا کوئی بھی ایک حملہ مقداری تبدیلیوں کو معیاری تبدیلی کی جانب لے جا سکتا ہے اور پورے کا پورا سماج ایک تپتی ہوئی بھٹی میں ابلتے ہوئے لاوے کا منظر پیش کر سکتا ہے۔ آنے والا عرصہ بہت بڑی تبدیلیوں کا عرصہ ہے جس میں محنت کش طبقے کا شعور بھی اہم ترین تبدیلیوں سے گزرے گا۔ پہلے ہی ملک گیر سطح پر سرکاری ملازمین اپنی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے منظم ہو کر احتجاج کررہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس میں صنعتی مزدور، بیروزگار نوجوان، طلبہ اور کسان بھی شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ خواتین سمیت سماج کی تمام مظلوم پرتیں بھی اس تبدیلی کے عمل میں متحرک ہوتی چلی جائیں گی اور اوپر سے لے کر نیچے تک سماج دھماکہ خیز تبدیلیوں سے گزرے گا۔ اس صورتحال میں ماضی کے بنے ہوئے تمام بت گر کر پاش پاش ہو جائیں گے اور نیا سیاسی منظر نامہ طلوع ہوگا۔ یہ تمام تر صورتحال انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے اور محنت کش طبقہ اگر اس میں درست نظریات سے لیس انقلابی قوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے تو اس سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی منزل زیادہ دور نہیں رہے گی۔