|رپورٹ: آصف لاشاری|
ہم جس معاشرے میں موجود ہیں وہاں کسی غریب مرد یا خاتون یا کسی کمزور کا قتل ہو جانا ایک عام سی بات ہے اور بعض اوقات کسی مظلوم کے قتل ہونے کے لیے کسی خاص جواز کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ڈیرہ غازی خان میں پیش آیا جہاں مبینہ طور پر شوہر نے کاروکاری کا الزام لگانے کے بعد بیٹوں کے ساتھ مل کر بیوی کو کاری قرار دے کر قتل کر دیا۔ ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے رونگھن سے تعلق رکھنے والی ایک ساٹھ سالہ بزرگ خاتون راجو بی بی پر کاروکاری کا الزام لگایا گیا اور اسے کاری قرار دے دیا گیا۔ کاری قرار دی گئی اس بدقسمت عورت کو شوہر اور بیٹوں نے قتل کرنے کی بجائے بیچنے کا فیصلہ کیا جبکہ کارا قرار دیے جانے والے شخص کو سزا کے طور پر اپنی دس سالہ بیٹی کی شادی راجو بی بی کے شوہر سے کرانے کی سزا سنائی گئی۔
اطلاعات کے مطابق راجو بی بی نے ان الزامات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کو شوہر کی جانب سے دوسری شادی اور جائیداد کے لیے ڈرامہ قرار دیا۔ ملزمان اس خاتون کو بیچنے کے لیے بلوچستان لے جارہے تھے جب اس خاتون نے بھاگ کر بی ایم پی کی چیک پوسٹ پر پناہ لی اور وہاں پر موجود بی ایم پی کے اہلکاروں سے اپنی جان بچانے کی استدعا کی۔ یوٹیوب پر موجود ویڈیو انٹرویو میں راجو بی بی واضح طور پر کہہ رہی تھی کہ اسے اس کے گھر والوں کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ راجو بی بی نے جاہلانہ رسوم و رواج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے چپ چاپ بیچے جانے سے مزاحمت کرنے کو ترجیح دی۔ راجو بی بی کی استدعا اور فریاد کے باوجود بی ایم پی کے اہلکاروں نے بزرگ خاتون کی زندگی بچانے اور انہیں حفاظتی تحویل میں لینے کی بجائے اسے اس کے شوہر اور بیٹوں کے حوالے کر دیا۔ بعد میں اس خاتون کو اس کے شوہر اور بیٹوں نے بے دردی سے قتل کر ڈالا۔
یہ ایک واقعہ ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر ہونے والے ہزاروں قتل کے واقعات کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے جو کہیں بھی رپورٹ نہیں ہو پاتے۔ صرف دیہی یا قبائلی علاقوں میں بھی اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے معاشرے میں مذہبی اور اخلاقی منافقت کی آڑ میں خواتین سے جھوٹی ہمدردی اور عظمت کے استعارے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن درحقیقت طبقاتی محرومی، پسماندگی، ریاستی آشیر آباد سے پروان چڑھائی جانے والی مذہبی رجعتیت کی یلغار اور جاہلانہ رسوم و روایات نے خواتین کے خلاف ایک انتہائی زہریلے تعصب کو پروان چڑھایا ہے جس کا اظہار ہمیں ہر وقت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان رجعتی متعصب نظریات میں خواتین کو معاشرے میں موجود برائیوں کی جڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
طبقاتی سماج اور پسماندگی سے پیدا ہونے والے تمام تر مسائل جیسے جائیداد کی خاطر ہونے والے خاندانی جھگڑے یا دیگر ثقافتی مسائل کا تمام تر الزام خواتین پر ڈالا جاتا ہے اور انہیں ایک بے دماغ مخلوق یا فتنہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور کھلم کھلا ان کو جبر و تشدد کے ذریعے کنٹرول کرنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔ اس تمام تر تبلیغ کا سلسلہ ہمیں گھر کے سربراہ سے لے کر مسجد کے امام اور سکولوں، کالجوں کے رجعتی خواتین و حضرات تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمیں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد بھی اپنے خلاف کیے گئے اس پروپیگنڈے کو سچ تسلیم کرتی ہے اور اپنے آپ کو کم تر مخلوق تصور کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر رجعتی نظریات لوگوں کی غربت، طبقاتی محرومی، پسمانگی اور جہالت کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ان تمام تر حالات اور رجعتی نظریات کے ذمہ دار عوام نہیں بلکہ وہ حکمران اور ان کا نظام ہے جس نے کئی نسلوں سے عوام کی اکثریت کو غربت، پسماندگی اور جہالت میں رکھا ہوا ہے۔ اس سب کا ذمہ دار طبقاتی تفریق اور محنت کے استحصال اور وسائل کی لوٹ مار کرنے والا سرمایہ دارانہ نظام ہے جو سماج کو ترقی دینے میں ناکام رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے قبائلی علاقوں اور دیہاتوں کی غربت، پسماندگی اور جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ نظام اپنی زوال پذیری اور ٹوٹ پھوٹ کے عہدے میں اس قابل نہیں ہے کہ وہ دیہاتوں اور قبائلی علاقوں کو تو کجا وہ شہروں کو ہی ترقی دے سکے۔ ہم اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اصلاحات کے لیے جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پسماندہ خطوں کی محرومیاں کا خاتمہ اس طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہی ممکن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غربت، جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ ایک طبقات سے پاک سوشلسٹ معاشرے میں ہی ممکن ہو سکے گا، اس لیے آج ایک سوشلسٹ معاشرے کی تشکیل کے لیے جدوجہد ماضی کے کسی عہد سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ آئیں اس جدوجہد کا حصہ بنیں اور اس ظلم و استحصال کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کریں۔