عالمی سطح پر معیشت سے لے کر سیاست تک ہر شعبے میں ہیجان اور افرا تفری کی کیفیت ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کا بگل بج چکا ہے جو پوری دنیا کی معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ایک نیا مالیاتی بحران افق پر منڈلا رہا ہے جو 2008ء کے بحران کی نسبت زیادہ گہرا اور وسیع ہو گا۔ عالمی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ارب پتی جارج سورس نے خود ایک بیان میں اس کی پیش گوئی کی ہے اور عالمی طاقتوں کو انتباہ کیا ہے کہ اس سے بچاؤ کی تدابیر کریں۔ مالیاتی بحران سے بچاؤ کی کوششیں سیاسی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔
صرف گزشتہ ایک ہفتے میں اٹلی اور اسپین جیسے اہم یورپی ممالک میں سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر دکھائی دیا۔ اسپین میں دائیں بازو کی چھ سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا اور سوشلسٹ پارٹی بر سر اقتدار آئی۔ لیکن اسے بھی جلد ہی عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔ پہلے بھی پے در پے تین انتخابات کے بعد حکومت قائم ہو سکی تھی اس مرتبہ صورتحال پہلے سے زیادہ بد تر ہے اور کیٹالونیا کی آزادی کی تحریک بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔ اسی طرح اٹلی میں صدر نے منتخب حکومت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی اور اپنی مرضی کی نگران حکومت مسلط کرنے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں اسے یہ اقدام واپس تو لینا پڑ گیا لیکن سرمایہ دارطبقے کے عزائم کا واضح طور پر اظہار ہو گیا۔ یورپی ممالک میں بھی جمہوریت صرف اس طبقے کے ہاتھ میں ایک اوزار ہے۔ جب انہیں اپنی مرضی کے نتائج نہ ملیں تو یہ اس نقاب کو اتار کر براہ راست آمریت سے گریز نہیں کرتے۔ آنے والے عرصے میں اٹلی کی سیاسی کشمکش میں شدت آئے گی جبکہ مالیاتی بحران گہری کھائی کی جانب لڑھکتا رہے گا۔
فرانس میں تمام تجزیہ نگار موجودہ حالات کا 1968ء سے موازنہ کر رہے ہیں۔ ہر روز محنت کشوں اور نوجوانوں کی پولیس اور سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کی ویڈیوز اور تصاویر میڈیا پر گردش کرتی ہیں۔ نصف صدی قبل فرانس میں دنیا کی سب سے مضبوط ہڑتال ہوئی تھی جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آج بھی فرانس میں ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ برطانوی حکومت بد ترین بحران سے گزر رہی ہے اور دوبارہ عام انتخابات کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس دفعہ جیرمی کوربن کی قیادت میں لیبر پارٹی کے جیتنے کے امکانات بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ کوربن کی فتح برطانیہ سمیت پوری دنیا میں مزدور تحریک کو ایک نیا جذبہ اور ولولہ دے گی۔ آئرلینڈ میں اسقاط حمل کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں رجعتی قوتوں کی فیصلہ کن شکست نے ایک نئے روشن باب کا آغاز کیا ہے۔
یورپ کے علاوہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ برازیل میں گزشتہ ہفتے ایک شاندار عام ہڑتال نے محنت کشوں کی طاقت کا پھر پوری قوت سے اظہار دکھایا۔ کولمبیا میں خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ یہ ملک پورے براعظم میں چلنے والی بائیں بازو کی لہر سے ابھی تک دور تھا۔ شاویز کے دور میں جہاں بولیویا، ارجنٹینا، ایکواڈور اور دیگر ممالک میں بائیں بازو کی حکومتیں بنیں وہاں اس ملک میں گزشتہ ڈیڑھ صدی سے دائیں بازو کی حکومتوں کا تسلسل ہی جاری تھا۔ لیکن اس دفعہ پہلی بار ایک بائیں بازو کے صدارتی امیدوار کو بھاری حمایت ملی اور وہ انتخابات جیتنے کے قریب آگیا۔ میکسیکومیں بھی بائیں بازو کا امیدوار صدارتی انتخابات کی دوڑ میں واضح برتری کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جنوبی افریقہ سے لے ہندوستان تک ہر طرف عوامی تحریکیں اور بغاوتیں مروجہ سیاسی ڈھانچے اور سماجی نظام پر کاری ضربیں لگا رہی ہیں۔ سب سے بڑی تحریکیں امریکہ میں نظرآتی ہیں۔ اسلحے کی فروخت پر پابندی کے لیے نوجوانوں کے ملک گیر احتجاجی مظاہروں سے لے کر مختلف ریاستوں میں اساتذہ کی ہڑتالوں اور احتجاجوں تک واضح نظر آتا ہے کہ امریکہ میں مختلف ایشوز پر عوامی تحریکوں کا ابھرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ آنے والے عرصے میں ان تحریکوں میں مزید شدت آئے گی اور امریکی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
اس صورتحال میں ٹرمپ سمیت دنیا بھر کے حکمران مسلسل ہیجان کا شکار نظر آتے ہیں اور ان کے تمام فیصلے اس عدم استحکام میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ایران پر پابندیوں اور یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک پر تجارتی محصولات میں اضافے کے اعلان سے ٹرمپ نے ان ممالک سے مزید دوریاں پیدا کر لی ہیں۔ چین اور شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی مسلسل اونیچ نیچ کا شکار ہے اور پوری دنیا کی معیشتوں میں عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اضافے اور امریکہ میں شرح سود(پالیسی ریٹ)میں اضافے کے امکان سے دنیا بھر کی نام نہاد ابھرتی معیشتوں کو شدید دھچکے لگے ہیں۔ ارجنٹینا کی معیشت جہاں زوال کا شکار ہوئی ہے وہاں ترکی کی کرنسی کی قدر میں 20فیصد سے زیادہ گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ 25جون کو ترکی میں ہونے والے عام انتخابات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور عدم استحکام بڑھے گا۔
یہ تمام تر صورتحال واضح کرتی ہے کہ مسئلہ کسی ایک ملک کی سیاسی پارٹی یا معاشی پالیسی کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے۔ عالمی سطح پر موجود لبرل ورلڈ آرڈر کو شکست ہو چکی ہے اور وہ اپنی بقا کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ اس لڑائی میں جہاں وہ بہت سے ملکوں کو آگ اور خون میں دھکیل رہا ہے اور نئی جنگیں برپا کر رہا ہے وہاں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں مسلسل زہر گھولتا جا ر ہا ہے۔ اس کے خلاف بغاوتوں اور عوامی تحریکوں کا ابھرنا نا گزیر ہے جس میں اس لبرل آرڈر کو چیلنج کرنے والی قوتیں، خواہ دائیں بازو کی ہوں یا بائیں کی، مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ موجودہ ورلڈ آرڈر کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کے لیے اب اس زوال سے باہر نکلنا ممکن نہیں رہا۔ اس نظام کو اگر اکھاڑا نہ گیا تو یہ نظام اب ہر طرف بربریت میں اضافہ کرتا چلا جائے گا اور تباہی اور بربادی پھیلائے گا۔
پاکستان میں ہونے والی سیاسی کشمکش اور ریاستی اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کو اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اسی لبرل ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے اور اس کی مالیاتی بنیادیں اسی نظام میں پیوست ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لے کر امریکی سامراج کی قرضوں کی بھیک پر پلنے والی اس معیشت کا بد ترین بحران عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ کے متبادل جس چین سے مدد مانگی جا رہی ہے وہ بھی اسی لبرل آرڈر کا حصہ بن چکا ہے بلکہ آج اس کا ایک اہم ستون ہے۔ عالمی معیشت کا حصہ ہونے کے باعث چین اس عدم استحکام اور تجارتی جنگ کے اثرات سے بچ نہیں سکتا۔ معاشی بحران سیاسی عدم استحکام کو جنم دے گا۔ جلد یا بدیر چین میں بھی وسیع عوامی تحریکیں ابھریں گی جو وہاں موجود سیاسی ڈھانچے کو تہہ و بالا کر دیں گی۔ اس کے علاوہ چین کے لیے پاکستان کی معیشت کو بیل آؤٹ کرنا ناممکن ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عالمی معیشت کا بحران ہے جس سے تمام ممالک وابستہ ہیں۔ معاشی بحران کے ساتھ ساتھ پاکستان کا سیاسی و ریاستی بحران بھی آنے والے عرصے میں شدت اختیار کرے گا۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کے کسی بھی حصے کی حمایت نہیں رکھتی۔ ماضی کے تجزیے آج کی صورتحال پر مسلط کر کے کبھی بھی درست نتائج اخذ نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ان موجودہ سیاسی پارٹیوں کا موازنہ خود ان کے ماضی سے کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں ان کو ملنے والے ووٹ اور حمایت کسی دوسرے عہد کی داستان تھی آج کہانی بدل چکی ہے۔ اس کا اظہار آنے والے انتخابات میں بھی نظر آئے گا جہاں مصنوعی بنیادوں پر ان پارٹیوں کو دوبارہ عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مصنوعی نتائج کے حصول کی کوششیں ریاست کے مختلف دھڑوں کو ایک دوسرے کیخلاف مزید ابھاریں گی اور زیادہ خونریزی اور سیاسی غلاظت سطح پر نظر آئے گی۔ عمران خان، زرداری اور نواز شریف سمیت سبھی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں۔ ان کی لڑائی درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کی باہمی لڑائی ہے۔ انتخابات کے ذریعے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی یہ لڑائی ختم ہو گی اورنہ آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں مستحکم ہوں گی۔ انتشار اور عدم استحکام میں شدید اضافہ ہو گا جبکہ مالیاتی بحران تیزی سے گہرا ہوتاجائے گا اور دیوالیہ پن کا خطرہ زیادہ شدت سے منڈلائے گا۔ روپے کی قدر میں پہلے ہی تیز ترین گراوٹ ہو رہی ہے جو کسی بھی لمحے بے قابو ہو سکتی ہے۔ انتخابات سے فرار اور عبوری حکومت یا آمریت کے آپشن اس عمل میں کوئی رخنہ نہیں ڈال سکیں گے بلکہ اسے مہمیز دیں گے۔
اس تمام صورتحال میں نئی سیاسی تحریکوں کا ابھرنا نا گزیر ہے۔ پہلے ہی ملک میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بکھری ہوئی تحریکیں موجود ہیں جن کی تعداد اب سینکڑوں سے ہزاروں کا سفر طے کر رہی ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ لاکھوں کی جانب بڑھیں گی اور ساتھ ہی ایک دوسرے سے جڑتے ہوئے نئے سیاسی پلیٹ فارم بھی تخلیق کریں گی۔ یہ سیاست پرانے تمام مروجہ ڈھانچوں کی موت کا اعلان کرے گی اور اس ملک میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی تحریک کی بنیاد بنے گی۔ اس عرصے میں مارکسی قوتوں کا کردار انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں انہیں ریاستی حملوں اور جبر کا جرأت کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے وہاں موقع پرستی اور مفاد پرستی کے حملوں سے بھی لڑنا ہے۔ لبرل ازم پرمارکسزم کا لبادہ اوڑھنے والوں کا پردہ بھی چاک کرنا ہوگا۔ درست مارکسی نظریات سے لیس ایک مضبوط قوت ان تحریکوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے ظلم کی اس تاریک رات کا خاتمہ ایک سرخ سویرے سے کرنے کا باعث بنے گی۔