|تحریر: ایندریا پتانے، ترجمہ: یار یوسفزئی|
افغانستان سے امریکہ کا انخلاء امریکی سامراجیت کے لیے شدید ذلت ثابت ہوا ہے۔ اس سے نہ صرف ماضی کی نسبت عسکری و معاشی زوال کا اظہار ہوا ہے، بلکہ یہ امریکہ کے اندر جنگ سے بڑھتی ہوئی اکتاہٹ کا بھی اظہار ہے۔ امریکی ریاست کے محنت کش حکمران طبقے کی نہ ختم ہونے والی فوجی مہم جوئیوں سے تنگ آ چکے ہیں، جبکہ امریکی شہری بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں۔ یہ مضمون ایک ہفتہ قبل لکھا گیا تھا، جب طالبان نے ابھی کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ حالیہ واقعات پر گہرا تجزیہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
انگریزی زبان میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء نے خطے کے اندر دو دہائیوں پر محیط ان کی تعیناتی کو ختم کر دیا ہے۔ اس تباہ کن جنگ کو چھوڑ دینے کے فیصلے کو امریکی عوام کے بیچ وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے، جن میں اکانومسٹ کی رائے شماری کے مطابق 58 فیصد اس کے حق میں ہیں، جو جنگ سے امریکیوں کی شدید اکتاہٹ کا اظہار ہے۔ آج، امریکیوں کی محض ایک اقلیت (39 فیصد) یہ سمجھتی ہے کہ ”وار آن ٹیرر“ درست فیصلہ تھا۔ یہ اعداد و شمار مزید حیران کن ثابت ہوتے ہیں اگر ان کا موازنہ 2001ء میں افغانستان کے اوپر ہونے والی چڑھائی کے ساتھ کیا جائے، جس کے حق میں 88 فیصد لوگ تھے۔
جنگ کے حوالے سے موجود یہ اکتاہٹ امریکی فوج کے عام سپاہیوں کے بیچ بھی پائی جاتی ہے۔ ان امریکی سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو بے سود فوجی مہم جوئیوں کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ گھر واپس آنے پر، وہ جسمانی و ذہنی صدمے کا ورثہ بھی اپنے ساتھ لائے ہیں۔ جن حکومتوں کے پاس انہیں دور دراز علاقوں میں لڑائی کی غرض سے بھیجنے کے لیے درکار مادی ذرائع موجود تھے، بعد میں وہی حکومتیں ذہنی بیماریوں، بیروزگاری اور بے گھری کا شکار سابقہ فوجیوں کی امداد کرنے کے لیے وسائل سے محروم نظر آتی ہیں۔
عام امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد مہنگی اور بے اثر جنگوں میں امریکہ کی شمولیت مسترد کر رہی ہے، خاص کر اپنے ملک میں بے قابو ہوتی غربت اور عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے۔ امریکی حکمران طبقہ، شدید مجبوری کی حالت میں یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس کی طاقت کے نسبتاً زوال سمیت ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرانا کردار نبھانے سے قاصر ہے۔
امریکی فوجی طاقت کی محدودیت
طاقتور ترین سامراجی قوت ہونے کے باعث، پچھلی دہائیوں کے دوران امریکی ریاست دنیا بھر میں اپنی منڈیوں کا دفاع کرنے اور اپنے حلقہ ہائے اثر کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی فوجی طاقت کا استعمال کرتی رہی۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں امریکہ عالمی سطح پر سینکڑوں جنگوں میں ملوث رہا۔
مگر افغانستان سے انخلاء وہ ذلت آمیز ناکامی ہے جس نے ثابت کیا کہ امریکی سامراج اپنی حدود کو پہنچ چکا ہے۔ 2008ء میں جب دوبارہ سے ابھرتا ہوا روس جنوبی اوسیشیا میں جارجیا کے خلاف جنگ میں غلبہ پا رہا تھا، امریکی ریاست دور کھڑی مذمت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائی۔ اسی طرح جب 2014ء میں کریمیا کا ریفرینڈم کے ذریعے روس کے ساتھ الحاق ہوا تو امریکی حکمران طبقہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مذمتی بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا۔
عراق میں 4500 امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور 30 ہزار سے زائد زخمی ہونے، اور کئی ٹریلین ڈالر خرچ کر نے کے باوجود، امریکی سامراج کے بتائے ہوئے اہداف میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس مضحکہ خیز دعوے کے باوجود کہ عراقی جنگ ’وار آن ٹیرر‘ کا حصّہ تھی، عراق پر امریکی چڑھائی کے بعد ہی ملک میں القاعدہ نے قدم جما لیے، جو الفلوجۃ شہر اور دیگر علاقوں میں امریکی مظالم سے تنگ نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کرتے رہے۔ اس دوران، امریکی افواج کسی بھی صورت عراق کو ایرانی اثر و رسوخ میں جانے سے نہیں روک پائیں۔
اوباما کے دورِ اقتدار میں، امریکی ریاست کو لیبیا اور شام میں فضائی بمباری کے حوالے سے داخلی حمایت حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کا انحصار وہاں موجود نا قابلِ اعتماد پراکسیوں پر بڑھتا رہا۔ بالآخر، اوباما شام کو روس کے حوالے کرنے پر مجبور ہوا۔ امریکہ محض تماشائی بنا رہا جبکہ اس کی ’معتدل‘ اسلامی پراکسیاں شامی فوج، ایران کی زمینی فوج اور روسی فضائی تعاون کے اتحاد کے ہاتھوں شکست خوردہ ہوئیں۔
اس دوران، امریکہ کی جانب سے ایران، شمالی کوریا اور وینیزویلا کے اندر فوجی کارروائیوں کی دھمکیاں دینے کے باوجود کسی بھی طرح عملاً کچھ نہیں کیا جا سکا۔ سب سے اہم بات یہ کہ، عوام مزید خونی مہم جوئیوں کے حق میں نہیں ہیں اور وطن کے نام پر جنگ جوئی سے وہ اب مٹاثر نہیں ہوتے۔ ان حالات میں امریکی حکمران طبقے کا اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی طاقت پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اب ان پر معاشی پابندیاں لگا رہا ہے۔
2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ کے بارے میں موجود اکتاہٹ کو اپنی صدارتی کمپئین کے لیے ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے پروگرام کے تحت استعمال کیا، جس میں ”نہ ختم ہونے والی جنگوں“ پر پیسے ضائع کرنے کی بجائے ملک کے اندر روزگار پیدا کرنے اور خوشحالی لانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
افغانستان سے امریکہ کا انخلاء، جس کا آغاز ٹرمپ نے کیا، مزید اس بات کا اظہار ہے کہ آج امریکی حکمران طبقہ کہیں پر بھی ماضی کی طرح اپنے احکامات لاگو کرنے کا اہل نہیں ہے۔
دو دہائیوں کی جنگ سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکا، ما سوائے لاکھوں زندگیوں کی تباہی، کابل میں ریزہ ریزہ ہوتی کٹھ پتلی حکومت کا قیام، اور طالبان کا اس سطح پر طاقتور ہو کر سامنے آنا جیسا کہ وہ 2001ء میں جنگ شروع ہونے کے بعد بھی نہ تھے۔ آج امریکہ کے تمام فوجی اہداف کے چیتھڑے ہوئے پڑے ہیں۔
جنگ سے تنگ عوام
شام میں فوجی مداخلت کو محض 9 فیصد امریکی عوام کی حمایت حاصل تھی۔ ٹرمپ کی یہ تجویز کہ امریکہ فوجی مداخلت کر کے وینیزویلا کے صدر مادورو کو اقتدار سے بر طرف کرے گا، کو 20 فیصد کی قلیل حمایت حاصل تھی۔
اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نہ ختم ہونے والی جنگ جوئی سے کتنے کم اہداف حاصل کیے گئے ہیں، یہ امر حیران کن نہیں کہ امریکی عوام افغانستان کی تباہی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور حکمران طبقے کے ہاتھوں مزید مہم جوئیوں میں دکھیلے جانے کے خلاف ہیں۔ مگر جنگ کی عمومی مخالفت کی ایک وجہ ملک کے اندر معاشی بحران بھی ہے، جس نے لوگوں کی توجہ امریکہ کی نہ ختم ہونے والی جنگوں پر ہونے والی فضول خرچیوں کی جانب مبذول کرائی ہے۔ آخری تجزیے میں، امریکی فوجی قوت کے زوال کے پیچھے معاشی قوت کا زوال کار فرما ہے۔
ایک دہائی سے جاری آسٹیریٹی اور موجودہ عالمی وباء (جس کے باعث امریکہ میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے) نے لوگوں کی زندگیوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر فوج اور عمومی طور پر امریکی وطن پرستی کے حوالے سے عوام کے شعور میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
رونلڈ ریگن فاؤنڈیشن کی رائے شماری کے مطابق، محض 11 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ فوج کے اخراجات حکومت کے لیے اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ لوگ اس کی بجائے علاج اور تعلیم کی سہولیات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اسی رائے شماری کے مطابق، 2011ء میں جہاں محض 8 فیصد امریکیوں کا ماننا تھا کہ امریکہ سے بہتر ممالک وجود رکھتے ہیں، آج یہ تعداد 21 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ نوجوانوں کے بیچ یہ تعداد مزید زیادہ ہے، یعنی 36 فیصد۔
سیاسی اداروں کے مسترد ہونے کا عمل، جو پچھلے سال’بلیک لائیوز میٹر‘ احتجاجوں میں اور حتیٰ کہ 2016ء میں ٹرمپ کے منتخب ہونے (اگرچہ مسخ شدہ شکل میں) میں دیکھنے کو ملا، اس ’سٹیٹس کو‘ سے عوام کی آزردگی کا اظہار ہے جو مستقبل کی ضمانت نہیں دیتا، جبکہ سیاست دان بیرونِ ملک جنگیں ہارنے پر بے تحاشا خرچے کر رہے ہیں۔
’امیریکن ڈریم‘ ایک بھیانک خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ افغانستان میں ذلت آمیز تباہی پر خرچ ہونے والے 2 ٹریلین ڈالرز سے امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بہت سی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ دشمن گھر پر موجود ہے، بیرونِ ملک نہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ حکمران طبقے کے لیے پریشانی کا باعث ہے، جو نہ ختم ہونے والی مہنگی جنگوں میں مشغول رہنے کی وجہ سے مزید سماجی افراتفری کو اشتعال دینے کے خطرے کو سمجھتے ہیں، جبکہ زیادہ تر عام امریکی محنت کش زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
کروڑوں امریکیوں میں پائے جانے والے عدم اطمینان کے یہ جذبات فوج کی صفوں میں بھی داخل ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔ محض افغانستان کی جنگ میں 2448 سپاہی ہلاک اور 20 ہزار 700 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ انہیں تنخواہ اور امداد میں کٹوتیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
1 لاکھ 55 ہزار سپاہی ’وار آن ٹیرر‘ میں شرکت کرنے کے باعث شدید ڈپریشن اور پی ٹی ایس ڈی (صدمہ پہنچنے کے بعد ذہنی دباؤ) کا شکار ہیں، جو امریکی سماج میں موجود دماغی صحت کے عمومی بحران میں مزید اضافے کا باعث ہے۔
2013ء سے لے کر اب تک امریکی فوج سے وابستہ 45 ہزار افراد نے اپنی جانیں لے لی ہیں۔ روزگار کے متبادل مواقعوں کے فقدان کے باعث امریکہ کی سڑکوں پر 67 ہزار سابقہ فوجی بے گھری کی حالت میں موجود ہیں، جو ذہنی اور نفسیاتی مسائل کے حوالے سے امداد سے بھی محروم ہیں۔
’سپاہیوں کی امداد‘ کے حوالے سے بیان بازیاں کرنے کے باوجود، امریکی حکمران طبقہ اپنے سابقہ سپاہیوں کو مکمل طور پر تحقیر کا نشانہ بنا رہا ہے، جو اپنے ہی ملک کے اندر اذیتوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
یہ تمام عناصر، بشمول شکست کا تجربہ اور یہ ماننا کہ بے سود جنگوں پر زندگیاں ضائع کی جا رہی ہیں، سپاہیوں کے حوصلوں اور اعلیٰ عہدیداران کے اوپر اعتماد پر شدید اثر انداز ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2015ء کی رائے شماری کے مطابق 55 فیصد امریکی سپاہی ”فوج میں اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوس ہیں“، جبکہ محض 27 فیصد ”کا خیال تھا کہ ان کی قیادت ان کے لیے بہتر اقدامات اٹھائے گی“۔
افغانستان سے انخلاء پر ہونے والی فنانشل ٹائمز کی ایک حالیہ تحقیق حوصلوں کی پستگی پر روشنی ڈالتی ہے۔ ایک سابقہ فوجی نے اعتراف کیا کہ:”میری تربیت اس اعتقاد کے ساتھ کی گئی تھی کہ ہم ہمیشہ اچھے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔میں اس قومی فرضی کہانی پر مزید یقین نہیں رکھتا“۔
ایک اور کا کہنا تھا: ”ہم 20 سال سے ہاتھ میں ڈنڈا لیے بد معاشی کرتے گھوم رہے ہیں، مگر اس کا نتیجہ قرض کے دیوہیکل انبار اور بے تحاشا اموات کے سوا کیا نکلا ہے؟“
فنانشل ٹائمز مجموعی طور پر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ عام سپاہیوں کے مطابق ”فوجیوں کے مستقبل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے“۔
جیسا کہ سابقہ بحری فوجی نے فنانشل ٹائمز کے صحافی کو وضاحت پیش کی کہ:
”اگر آپ کے خیال میں آپ کا ملک بار بار آپ کو بے سود اور نا ممکن مشن پر بھیج رہا ہے۔۔۔پھر یہ طالبان یا القاعدہ یا داعش نہیں جو آپ کو مارنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ یہ امریکہ ہے۔“
اپنی قیادت کی جانب وفاداری اور ان پر اعتماد میں کمی کے باعث فوج پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور حکمران طبقہ کمزور ہوگا۔
ہر فوج لازمی طور پر اس سماج کی عکاسی کرتی ہے جس میں سے وہ ابھرتی ہے۔ فوجی قیادت کے اوپر اعتماد کی کمی ریاستی مشینری کے زوال کی عکاسی کرتی ہے اور سرمایہ دارانہ بحران کا نتیجہ ہے۔ صفوں میں موجود مایوسی سے سرکشی اور فوج کے بیچ ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو حکمران طبقے کے لیے انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔
سرکشی کے اس رجحان کی ایک مثال پچھلے مارچ کے مہینے میں دیکھنے کو ملی، جب امریکی ائیر کرافٹ کیرئیر کا کیپٹن تھیوڈور روزویلٹ نے کرونا وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے اعلیٰ حکام کی نافرمانی کرتے ہوئے بحری جہاز کو خالی کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے جرم میں کیپٹن کو ڈیوٹی سے بر طرف کیا گیا، مگر اس کے ماتحت عملے سے اسے ہمدردی حاصل ہوئی، جن کی صحت سنگدل افسروں کے ہاتھوں خطرے سے دوچار تھی۔
فوج کے اندر یہ دراڑیں محنت کش طبقے کے بیچ بالعموم اور سرمایہ داری کے مسلح جتھوں کے بیچ بالخصوص حکمران طبقے کے اوپر اعتماد کے حوالے سے بہت سنجیدہ بحران کا پیش خیمہ ہے۔
امریکی سامراج کا بحران
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا معاشی اور فوجی سپر پاور ہے۔ اس کے سالانہ فوجی اخراجات تقریباً دیگر 10 سرِ فہرست ممالک کے برابر ہیں۔ عالمی سطح پر کوئی بھی اس کی حیثیت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، مگر علاقائی سطح پر وہ اب امریکہ ہر جگہ طاقتور ترین قوت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ مشرقی ایشیا میں، آج چین طاقتور ترین فوجی قوت ہے۔ شام میں، روس اور ایران امریکی مداخلت کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔ مستقبل میں ہم دیکھیں گے کہ علاقائی قوتیں امریکی سامراج کے لیے رکاوٹ بنیں گی اور اس کی فوجی سرگرمیوں کو محدود کریں گی۔
ایک جانب ماضی کی نسبت بڑے معاشی زوال کا نتیجہ ملک کے اندر عدم اطمینان کی صورت میں نکلا ہے، جبکہ دوسری طرف بڑھتی ہوئی تحفظاتی پالیسیاں اور قومی اختلافات امریکہ کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مشترکہ محاذ برقرار رکھنا نہایت مشکل بنا رہے ہیں، جس کا سامنا بائیڈن کو کرنا پڑ رہا ہے۔
امریکی سامراج کی نسبتاً زوال پذیری اور جنگ کے حوالے سے امریکی آبادی کی بڑھتی ہوئی اکتاہٹ، عالمی تنازعات کا خود بخود خاتمہ نہیں کرے گی۔ امریکی سامراج کے پاس اب بھی اتنی طاقت ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں بربریت کے بیج بو سکے۔ آخری تجزیے میں، سامراجیت خود اسی سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح اگر امریکہ بحران کا شکار بھی ہو جائے، وہ محض اپنے سے کم تر قوت کے لیے خلا بھرنے کا موقع فراہم کرے گا۔ جس کے باعث افغانستان، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں میں پراکسی جنگوں کے امکانات موجود رہیں گے۔ محض سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر ہی اس بھیانک خواب کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ امریکی سامراج کرہِ ارض کی سب سے بڑی رجعتی قوت ہے، اسی طرح طاقتور امریکی محنت کش طبقے کے اندر انقلابی قوت پنہاں ہے، جن کے ہاتھوں میں تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشین کو مفلوج کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
امریکہ کے محنت کش اور نوجوان آج حکمران طبقے پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور مشترکہ ’قومی مفاد‘ کے سرابوں کا موازنہ حکمران طبقے کی قاتلانہ پالیسیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو جان رہے ہیں کہ ان کے مفاد زکربرگ اور بیزوس جیسوں کی بجائے کراچی یا بیجنگ کے محنت کشوں کے ساتھ زیادہ مشترک ہیں۔ ایک نہ ایک دن دنیا بھر میں موجود اپنے طبقاتی بہن بھائیوں کا مشترکہ مقصد ان کے سامنے عیاں ہوگا، یہی عالمی سوشلسٹ انقلاب کا فریضہ ہے، اور اس جدوجہد میں امریکی محنت کشوں کو کلیدی کردار نبھانا پڑے گا۔