|تحریر: ولید خان|
وزارت برائے معاشی امور نے پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جولائی 2018ء سے جون 2023ء تک ریاست نے 57.27 ارب ڈالر بیرونی قرضہ حاصل کیا۔ ابھی ان اعداد و شمار میں آئی ایم ایف کا کوئی قرضہ شامل نہیں۔ اس وقت پاکستان ان قرضوں کی سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کر رہا ہے جس میں سے زیادہ تر سود کی واپسی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان پچھلے پانچ سالوں میں آئی ایم ایف سے ایک تین سالہ 6 ارب ڈالر قرضہ اور ایک 3 ارب ڈالر ایمرجنسی قرضہ بھی حاصل کر چکا ہے اور اس وقت نئے تین سالہ 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا منتظر ہے جس کی شرائط میں نئے بھاری بھرکم بالواسطہ ٹیکسوں، سماجی اخراجات میں کٹوتیوں، بجلی، پانی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ اور بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ اور نجکاری جیسے عوام دشمن اقدامات شامل ہیں۔
بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے سے مہنگی ہونے والی اشیاء میں بلا تفریق دوائیوں سے لے کر بنیادی ضروریات زندگی کی تمام مصنوعات شامل ہیں۔ یہ تمام قرضہ جات پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگیوں، خساروں کو پورا کرنے اور حکمران طبقے کی عیاشیوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام قومی اثاثہ جات بیچے جا رہے ہیں اور ڈاؤن سائزنگ کے نام پر لاکھوں سرکاری نوکریاں ختم کی جا رہی ہیں۔
347.17ارب ڈالر جی ڈی پی کی معیشت پر کل اندرونی اور بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے 75 فیصد سے زائد ہو چکا ہے اور پاکستان کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر محض 9 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہیں۔ یہ غیر ملکی کرنسی ذخائر کے اعداد و شمار بھی گمراہ کن ہیں کیونکہ اس میں سے زیادہ تر مختلف سامراجی ممالک کی طرف سے ملنے والی وقتی بھیک ہے جس کا مقصد صرف اکاؤنٹ کو کھلا رکھنا ہے کیونکہ یہ پیسہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان اپنی تاریخ میں 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے قرضہ لے چکا ہے یعنی 23 مرتبہ دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے دو سالوں میں ملک کئی مرتبہ دیوالیے کے دہانے پر پہنچا ہے لیکن ہر مرتبہ کہیں سے ملنے والی بھیک نے اس بھکاری کو فاقوں سے مرنے سے بچایا ہے۔
اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ سارا وفاقی بجٹ اندرونی اور بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگیوں، دفاعی اخراجات اور دیگر ریاستی اخراجات (حکومت، سول افسر شاہی اور عدلیہ وغیرہ) میں خرچ ہو جاتا ہے اور عوام کے لیے ایک پیسہ نہیں بچتا۔ اس پر بھی ہولناک ظلم یہ ہے کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے مزید قرضہ لے کر محنت کش عوام، نوجوانوں اور مستقبل کی نسلوں پر مسلسل معاشی تباہی و بربادی کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ یہاں چند حقائق بالکل واضح ہیں۔
اول یہ کہ ملک کا قرضہ جس حد کو پہنچ چکا ہے اب سرمایہ دارانہ بنیادوں پر قرضوں کے حصول اور ادائیگیوں کے گرداب سے نکلنا ناممکن ہے، دوئم یہ کہ پاکستان امریکہ اور چین جیسی عالمی اور عرب ممالک جیسی علاقائی سامراجی قوتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض ہو چکا ہے یعنی اب ملک مختلف سامراجی قوتوں کے ہاتھوں میں ایک لٹی ہوئی پتنگ بن چکا ہے، سوئم یہ کہ پاکستانی حکمران طبقہ اور ریاست اپنی غلاظت، نااہلی، خصی پن اور گراوٹ کی جس حد کو پہنچ چکے ہیں وہاں ’دیہاڑی لگاؤ اور بھاگو‘کی پالیسی کے علاوہ اور کوئی دوسری پالیسی ناممکن ہے۔
پاکستان کے علاوہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں حکمران طبقات عرصہ دراز پہلے طبقاتی جنگ کا اعلان کر کے سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش عوام پر ڈال رہے ہیں۔ اس کے خلاف پوری دنیا میں عوامی تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔
پاکستان میں بھی محنت کش طبقہ ایک بڑی لڑائی کے لیے تیار ہو رہا ہے کیونکہ اب اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں ہمیں انقلابی محنت کشوں اور نوجوانوں کی ملک گیر تحریکیں اور ہڑتالیں ہوتی دکھائی دیں گی جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور ایک نئے سرخ سویرے کا اعلان کریں گی۔