|تحریر: ڈینیئل مورلے؛ ترجمہ: ولید خان|
2008ء کے معاشی بحران کی انتہا پر یہ چین تھا جس نے عالمی سرمایہ داری کو بچایا۔ بستر مرگ پر پڑی معیشت میں نئی روح پھونکنے کے لیے 500ارب پاؤنڈ کا مالیاتی ٹیکہ(Financial Stimulus) لگایا گیا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اگر یہ ٹیکہ نہ لگایا جاتا اور اس کے نتیجے میں چین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے عالمی طور پر خام مال اور دیگر مصنوعات کے لئے مانگ پیدا نہ ہوتی تو معاشی بحران ایک مکمل کساد بازاری میں تبدیل ہو جاتا۔ اس وقت ہمارے سامنے جو بحران پنپ رہا ہے وہ دس سال پہلے والے بحران سے زیادہ ہولناک ہے۔ لیکن اس مرتبہ چین عالمی معیشت تو کیا اپنی معیشت کو بھی نہیں بچا پائے گا۔
محض پانچ دن پہلے معیشت دان پیش گوئی کر رہے تھے کہ چینی معیشت کی پہلی سہہ ماہی میں شرح نمو منفی 2 فیصد اورمنفی 6.5فیصد کے درمیان رہے گی۔ آج UBS نے اعلان کیا ہے کہ اس سہہ ماہی میں شرح نمو منفی 30 فیصد تک پہنچ سکتی ہے!
بیجنگ پہلے ہی رپورٹ کر چکا ہے کہ سالانہ موازنے میں برآمدات دسمبر 2019ء میں 7.9 فیصد سے گر کر فروری 2020ء میں منفی 17.2 فیصد ہو چکی ہیں۔ غالب امکانات ہیں کہ یہ اعدادوشمار بھی پیداوار میں گراوٹ کی درست نشاندہی نہیں کرتے کیونکہ جبکہ مزدور رضاکارانہ قرنطینہ میں جا رہے تھے تو اس وقت ایکسپورٹروں نے سامان اپنے گوداموں سے نکال نکال کر برآمد کیا۔ ا س لئے پیداوار برآمدات کے اعدادوشمار سے زیادہ معنی خیز طور پر کم ہو سکتی ہے۔ درحقیقت ایکسپورٹر ٹرمپ کی شروع کردہ تجارتی جنگ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال میں زیادہ سے زیادہ سامان ذخیرہ کر رہے تھے اس لئے یہ خلیج اور بھی زیادہ وسیع ہو سکتی ہے۔
اس سے قطع نظر کہ چین ”معمول کی طرف واپس“ آتا ہے یا نہیں، اس کی برآمدات شدید گراوٹ کا شکار رہیں گی۔ برآمد کرنے کے لئے آپ کے پاس کوئی شئے موجود ہونی چاہیے۔ لیکن باقی ساری دنیا جس میں یورپ اور امریکہ قابلِ ذکر ہیں۔۔ چین کی سب سے بڑی منڈیاں۔۔ اس وقت ایک طویل لاک ڈاؤن میں داخل ہو رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے موجودہ معاشی صورتحال اور بھی گھمبیر شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس بحران کے خوفناک اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ چین کی برآمدات اب کئی سال تک گراوٹ کا شکار رہیں گی۔
2008ء کا ورثہ
فروری میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق شہری بیروزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی۔ اب تک حکومت کی طرف سے یہ سب سے بلند اعتراف کردہ شرح ہے۔ فنانشل ٹائمز جریدے کے مطابق
”رات کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سیٹلا ئٹ کی مدد سے مرتب کردہ ایک چینی مرچنٹ بینک انڈیکس کے مطابق پیر کے دن (9 مارچ) ملک کے 143 بڑے صنعتی علاقوں میں سے 60 فیصد سے کم نے دوبارہ کام شروع کیا ہے۔ ایک سٹارٹ اپ G7 Networks، جو چین کی تقریباً 20 فیصد کارگو گاڑیوں کا GPS ڈیٹا اکٹھا کرتاہے، روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا دے رہا ہے جس کے مطابق بڑی کمپنیوں میں فل ٹرک ڈلیوری شروع ہو چکی ہے لیکن حصہ داری کارگو ٹرکنگ جو زیادہ تر چھوٹے کاروبار استعمال کرتے ہیں ان میں بحالی سست رو ہے۔ اگر فروری کے آغاز سے موازنہ کیا جائے جب یہ اعدادوشمار ایک ”مکمل ویرانے“ ک امنظڑ پیش کرتے تھے، تو نومبر کی بلند ترین سطح کے مقابلے میں فیکٹریوں اور تعمیراتی جگہوں پر بڑی ڈلیوریوں میں 60 فیصد بحالی ہوئی ہے۔ لیکن چھوٹی ڈلیوریوں میں بحالی محض 26 فیصد ہے۔ G7 کے مارکیٹ ڈائریکٹر سَن فو یانگ کے مطابق ’اس لئے نہیں کہ ڈرائیوروں کی کمی ہے بلکہ اس لئے کہ کوئی آرڈر موجود نہیں“‘ (فنانشل ٹائمز 10 مارچ 2020ء )۔
اس بڑھتے بحران میں یہ بھی عیاں ہوا ہے کہ چین نے جو حربے 2008ء کے معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کئے تھے۔۔ مالیاتی ٹیکے۔۔ ان کی وجہ سے آج بحران زیادہ وسیع اور زیادہ تباہ کن بن کر نازل ہو رہا ہے۔ یعنی کمیونسٹ مینی فیسٹو کے مطابق ”۔۔(مستقبل کے) بحرانات کو روکنے کے ذرائع متروک ہو جاتے ہیں“۔
اس وقت مالیاتی ٹیکہ لگانے کے نتیجے میں جو قرضوں کا پہاڑ کھڑا کیا گیا وہ آج (بحران پر قابو پانے کی کوششوں میں) سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ چینی حکومت سستے قرضے فراہم کر رہی ہے لیکن اس ہفتے فراہم کردہ قرضے محض 78 ارب ڈالر تھے۔ اس کا موازنہ امریکی فیڈرل ریزرو سے کریں جس نے اس ہفتے ایک کھرب ڈالر بینکاری نظام میں ڈالے ہیں۔ پیپلز بینک آف چائنہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر چین یولو نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ مرکزی بینک کا پلان تھا کہ ”حسبِ معمول مانیٹری پالیسی“ کو جاری رکھا جائے“ یعنی ”منفی ریٹ متعارف نہیں کرائے جائیں گے“ (فنانشل ٹائمز 18 مارچ 2020ء)۔
امید کی جا رہی ہے کہ ایک مالیاتی ٹیکہ اس وقت لگایا جائے گا جب معیشت لاک ڈاؤن سے آزاد ہو جائے گی (یہ جب بھی ہو) لیکن اس کا حجم 2008ء کے مقابلے میں کافی کم ہو گا۔ کیوں؟
چین کا مجموعی قرضہ اس وقت GDP کے 310 فیصد کے برابر ہے۔ 2008ء میں پیسہ بہانے سے پہلے یہ آدھا تھا۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔۔2008ء سے لے کر اب تک ابھرتی معیشتوں کے کل قرضوں میں چین کا حصہ 80 فیصد ہے۔
2008ء کے مالیاتی ٹیکے نے معاشی شرحِ نمو کو بحا ل رکھا لیکن اس نے آنے والے دیو ہیکل بحران کی بنیادیں ڈال دیں۔ یہ ٹیکہ منصوبہ بند سوشلسٹ طریقہ کار کے مطابق ضرورت کو پورا کرنے کے لئے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ طور پر سٹہ بازی اور قرضوں کے لئے دیا گیا تھا۔ چینی ریاستی بینکوں نے مقامی حکومتوں اور دیگر کو قرضے دیے تاکہ زیادہ تر انفراسٹرکچر پراجیکٹس پر خرچہ کیا جائے۔ اس وجہ سے ناقابلِ واپسی قرضوں کا حجم دیو ہیکل ہو چکا ہے۔ 2019ء میں رائٹرز کے مطابق ”سرکاری طور پر چینی کمرشل بینکوں کے ذمے 1.5 ٹریلین ڈالر کا ناقابلِ واپسی قرضہ ہے۔ لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق ناقابلِ واپسی قرضہ 14 گنا زیادہ ہے کیونکہ قرض دہندہ مختلف طریقوں سے حقیقی اعدادوشمار چھپائے رکھتے ہیں“۔
اگر معیشت کو بحال کرنے کے لئے کوئی نیا مالیاتی ٹیکہ لگانا مقصود ہے تو اس کا حجم 2008ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑا ہو گا۔ لیکن چین کا مالیاتی سیکٹر ابھی سے ناقابلِ واپسی قرضوں سے بھرا پڑا ہے اور ایک اور دیو ہیکل ٹیکہ محض ناقابلِ واپسی قرضوں کے پہاڑ کو زیادہ ناقابلِ برداشت کرنے کا موجب ہی بنے گا۔
پھر 2008ء کے مالیاتی ٹیکے کے لئے سب سے اہم پراپرٹی سیکٹر تھا۔ 2008ء سے اب تک مقامی حکومتیں چینی ریاستی بینکوں سے دیو ہیکل قرضے لے کر انفراسٹرکچر پراجیکٹس پر خرچ کر چکی ہیں۔ اس طرح معیشت کو بحال کیا گیا۔ لیکن چینی قانون کے مطابق اس قرضے کی واپسی ٹیکس کے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنی فنڈنگ قومی زمینیں بیچ بیچ کر کی ہے (عام طور پر پہلے غیر قانونی طریقہ سے کسانوں سے یہ زمینیں خالی کرائی جاتی ہیں)۔ 2018ء میں چینی مقامی حکومتوں نے اپنی کل آمدنی کا 40 فیصد زمینوں کی فروخت سے حاصل کیا تھا۔
ریت کا گھروندا
اس لئے ان کی کمزور مالیاتی صورتحال نے انہیں مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ مسلسل پراپرٹی منڈی اور زمینوں کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ اگر یہ منہدم ہوتی ہیں تو اس کا نتیجہ پہلے مقامی چینی حکومتوں اور پھر بینکوں کا سلسلہ وار دیوالیہ پن ہو سکتا ہے۔ چین نئے معاشی بحران کا مرکز بن سکتا ہے۔
موجودہ بحران ابھی سے چینی پراپرٹی مارکیٹ کے انہدام کو جنم دے رہا ہے۔ ”پچھلے سال کے مقابلے میں فروری کے پہلے تین ہفتوں میں چین کے 30 سب سے بڑے شہروں میں گھروں کی فروخت میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی۔۔ اس وقت زمینوں کی فروخت عمومی سطح سے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے“(فنانشل ٹائمز 10 مارچ 2020ء)۔
چین میں پہلے ہی پراپرٹی ملکیت بہت زیادہ ہے۔ 90فیصد چینی گھرانے کم از کم ایک پراپرٹی کے مالک ہیں، 35 فیصد کے پاس دو یا اس سے زیادہ پراپرٹیاں ہیں۔ اس بحران سے پہلے ہی پراپرٹی غبارے میں مزید ہوا بھرنے کے امکانات کچھ زیادہ نہیں تھے۔ اس وقت ناممکن نظر آتا ہے کہ اب یہ رجحان کیسے جاری رکھا جا سکتا ہے۔
یہ ساری صورتحال واضح کرتی ہے کہ اب چین پوری دنیا کو معاشی کساد بازاری سے بچانے کے قابل نہیں رہا۔ 2008ء میں رونما ہونے والے کسی ایک بھی تضاد کو حل نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت اور اب کے عالمی قرضوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب اس میں عالمی تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ بھی شامل ہو چکی ہے۔ گلوبلائزیشن کے نئے قائد کے طور پر سامنے آ کر دنیا کو اس بحران سے نکالنے کے بجائے چین اس وقت سازشی تھیوریاں پھیلا رہا ہے کہ کرونا وائرس دراصل امریکی فوج کی سازش ہے۔ پوری دنیا میں کہیں پر بھی اس بحران سے بچا نہیں جا سکتا۔ اب جیسے چین کو ادراک ہو رہا ہے، اس بحران سے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر نکلنا ممکن نہیں۔ صرف ذرائع پیداوار کی قومی ملکیت میں ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی ہم اس بحران سے آزاد ہو سکتے ہیں۔