|تحریر: آدم پال|
امریکی سامراج کی زوال پذیری اور تاریخ کا بد ترین بحران کچھ عرصے سے جاری تھا لیکن حالیہ عرصے کے واقعات نے اس میں ایک معیاری جست لگا دی ہے جس کے بعد دنیا بھر میں امریکی سامراج کے مستقبل پر بحث کا آغاز ہو چکا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے رکھوالے کے طور پر ابھرنے والے امریکی سامراج نے دنیا کے ہر کونے پر اپنے خونی پنجے گاڑے اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کی حاکمیت کو مسلط کیا۔ خاص طور پر نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام اورچین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی کے بعد یہ عمل اپنی انتہاؤں کو پہنچ گیا اور امریکی سامراج کی حاکمیت کو دنیا میں چیلنج کرنے والا بظاہر کوئی بھی نہیں تھا۔ اسی طاقت کے نشے میں سرشار بد مست ہاتھی کی طرح اس سامراجی طاقت نے دنیا بھر میں تباہی اور بربادی کی نئی تاریخ رقم کرنے کا بھی آغاز کیا اور خود ساختہ جعلی بہانے بنا کر دنیا کے مختلف ممالک پر انتہائی خونریز جنگیں مسلط کیں۔ اس دوران سرمایہ دارانہ نظام نئی منڈیوں کے حصول، قرضوں کے بل پر منڈی کی قوتِ خرید میں ہونے والے مصنوعی اضافے اور تجارت کے حجم میں مسلسل اضافے کے باعث بڑے بحرانوں سے بچا رہا اور پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑے رکھا۔
یہ تمام عمل اتنا وسیع و عریض تھا اور پوری دنیا میں اس کا پھیلاؤ اور حجم اتنا بڑا تھا کہ سرمایہ داروں کے تنخواہ دار دانشوروں نے ”تاریخ کے خاتمے“ کا اعلان کر دیا اور یہ کہہ دیا کہ اب دنیا میں کوئی دوسرا سماجی، معاشی نظام نہیں آ سکتا اور نہ ہی اس دنیا میں موجود اسٹیٹس کو میں کوئی دراڑ یا دھچکا لگ سکتا ہے۔ اسی طرح سرمایہ د ار اور مزدور کی ناقابلِ مصالحت طبقاتی جدوجہد کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ اب اس کا فیصلہ اسی سرمایہ دارانہ نظام کی حدوداور قیود میں ہی ہوگا اور اس سے باہر کچھ بھی ممکن نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس عہد کو انسانی تاریخ کے لاکھوں سال کے طویل سفرکا انت قرار دے دیا گیا اور یہ حکم صادر کر دیا گیا کہ پوری دنیا اب اسی ورلڈ آرڈر کے تحت زندگی گزارے۔
ان معروضی حالات کے اثرات دنیا بھر کی مزدور تحریکوں پر بھی مرتب ہوئے جو سوویت یونین کے انہدام اور چین کی سرمایہ داری کی جانب واپسی کے باعث پہلے ہی پسپائی کا شکار تھیں۔ اس عمل میں سرمایہ دار طبقے نے محنت کش طبقے پر بد ترین حملوں کا آغاز کیا اور وہ حاصلات جو انہوں نے ماضی میں ایک طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھیں وہ بتدریج واپس لینے کے عمل کا آغاز ہوا۔ اجرتوں میں کٹوتیاں شروع ہو گئیں، مستقل روزگار کی جگہ عارضی ملازمتوں نے لے لی، کام کے اوقات کار میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا اور محنت کش طبقے کا معیارِ زندگی عمومی طور پر گرتا چلا گیا جبکہ دوسری جانب سرمایہ دار طبقے کی دولت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچتی چلی گئی۔ اس دوران دنیا بھر میں سرمایہ داری کی مذمت کرنے والے بہت سے دانشور، سیاستدان، مزدور لیڈر اور بائیں بازو کے بہت سے راہنما بھی گھٹنے ٹیک گئے اور اس خون آشام نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والی اور مارکسزم کے حقیقی نظریات سے لیس قوتیں انتہائی محدود ہوکر رہ گئیں۔
امیر اور غریب کی بڑھتی ہوئی خلیج کا یہ عمل گو کہ ابھی بھی جاری ہے اور پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پیدا کردہ سامراجی طاقتیں ابھی بھی تباہی اور بربادی پھیلا رہی ہیں لیکن اب واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ یہ نظام اپنے زوال کی جانب گامزن ہے اور امریکی سامراج سمیت دیگر سامراجی طاقتیں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو کر شکست و ریخت کا شکار ہو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھرمیں عوامی تحریکیں پوری شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں اور ان کی طاقت اور حجم میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بہت سی جگہ پر وہ اس نظام کو چیلنج کرنے یا پھر اکھاڑنے تک کی نہج تک بھی جا پہنچیں لیکن ایک بالشویک طرز کی انقلابی پارٹی نہ ہونے کے باعث انہیں کامیابی نہیں مل سکی۔ اس کے علاوہ، زوال پذیری کا یہ تمام عمل جلد اختتام پذیر ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا مالیاتی، سیاسی و سماجی بحران پوری دنیا میں گہرا ہوتا جارہا ہے اور اس نظام کے تحت بننے والے ریاستی ڈھانچے، مالیاتی ادارے اور عالمی تعلقات مسلسل زوال پذیر ہیں اور ان میں کسی بھی قسم کا استحکام، پائیداری یا بحالی دور دور تک ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
افغانستان سے انخلا
اگست کے مہینے میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا نے سامراجی طاقت کی زوال پذیری کے اس عمل میں ایک معیاری جست لگائی اور پوری دنیا کے سامنے امریکی سامراج کی طاقت کا جو ہوا بنا ہوا تھا اور جو دہشت طاری تھی وہ بکھرتی نظر آئی اور پوری دنیا کو ٹی وی سکرینوں پر دو دہائیوں کی جنگ مسلط کرنے اور کھربوں ڈالر اس جنگ میں جھونکنے کے بعد بھی یہ سامراجی طاقت دم دبا کر بھاگتی ہوئی نظر آئی اور اس کے پاس انخلا کے دوران اور بعد کی کوئی سنجیدہ حکمت عملی ہی موجود نہیں تھی۔
افغانستان سے انخلا پر منصوبہ بندی ایک طویل عرصے سے جاری تھی اور گزشتہ دو دہائیوں میں متعدد دفعہ ایسے مواقع آئے جب امریکی حکمرانوں نے یہاں سے نکلنے کے لیے سنجیدہ غور شروع کر دیا لیکن اس کے باوجود ان کے پاس کبھی بھی کوئی مضبوط متبادل موجود نہیں تھا اور انہیں اسی انہدام اور ذلت کا خطرہ تھا جس سے بچنے کی وہ کوششیں کرتے رہے لیکن آخر کار بچ نہیں پائے۔ دو دہائیاں قبل جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اس وقت امریکی معیشت خاصی مضبوط تھی اور کسی بھی گہرے مالیاتی بحران کے امکانات بظاہردور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس سے پچھلی دہائی میں امریکی سامرا ج نے بالخصوص اور سرمایہ دارانہ نظام نے بالعموم تاریخی فتوحات حاصل کی تھیں اور دنیا بھر سے منڈی کی معیشت کے متوازی موجود منصوبہ بند معیشت کاسٹالنزم کی غداریوں کے باعث انہدام ہو چکا تھا۔ اس عرصے میں سوویت یونین کے بعد چین بھی عالمی منڈی کا حصہ بن چکا تھا اور وہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی بحالی ہو رہی تھی۔ اس سارے عمل میں جہاں سرمایہ د اروں کو بہت سی نئی منڈیا ں ملی تھیں وہاں ان ممالک کی ہنر مند لیکن بدحال لیبر بھی میسر آئی تھی جس کے بد ترین استحصال سے وہ اپنی دولت میں بیش بہا اضافہ کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان ممالک میں جو جدیدانفرااسٹرکچر منصوبہ بند معیشت اور انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے بچھایا گیا تھا وہ بھی عالمی سطح پر موجود سرمایہ دار طبقے کی لوٹ مار کے لیے میسر آ گیا تھا۔ اس دوران مشرقی یورپ میں موجود خانہ جنگیوں میں بھی امریکی سامراج نے فیصلہ کن انداز میں مداخلت کر کے اس کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔ یہی وجوہات تھیں جن کی بنا پر امریکی سامراج کا اعتماد بلند ترین سطح پر تھا اور وہ دنیا میں کہیں بھی جارحیت کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس دوران نہ صرف افغانستان بلکہ عراق میں بھی انتہائی بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا کر جارحیت کی گئی جس کا خمیازہ ان ممالک کے محنت کش عوام نے بھگتا جنہیں نہ صرف لاکھوں کی تعداد میں گاجر مولی کی طرح قتل کر دیا گیا بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی بھوک، بیماری اور ذلت کو مقدر بنا دیا گیا۔ ان سامراجی جارحیتوں سے نہ صرف یہ مخصوص ممالک بلکہ پورے کے پورے خطے عدم استحکام کا شکار ہو گئے اور تباہی اور بربادی کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں سرایت کر گئی لیکن طاقت کے نشے میں بد مست یہ خونی سامراجی طاقت اپنے مذموم مقاصد کے لیے کہیں بھی رکنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس دوران ان سامراجی جنگوں کے خلاف امریکہ اور یورپ میں تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج ہوئے جن میں درجنوں ممالک کے لاکھوں افراد نے حصہ لیا اور اس خونریزی کی شدید مذمت کی۔ لیکن حکمران طبقے کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے ان مطالبات کی عملی طور پر حمایت نہیں کی بلکہ جمہوریت، انصاف اور انسانی حقوق کی بیہودہ لفاظی میں لپٹی خونریزی دنیا بھر میں مسلط کرتے رہے۔
لیکن دو دہائی بعد آج صورتحال بڑے پیمانے پر تبدیل ہو چکی ہے اورسرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بد ترین زوال سے گزر رہا ہے جس کا اظہار اس کی پیدا کردہ سامراجی طاقتوں کی زوال پذیری اور نامیاتی کمزوری میں بھی ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا بھر میں طاقتوں کا توازن مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔
2008ء کے مالیاتی بحران نے اس عمل پر کاری ضرب لگائی اور تمام بحرانوں پر قابو پالینے کا دعویٰ کرنے والے حکمرانوں کو عالمی سطح پر ایک انتہائی گہرے بحران کا سامنا کرنا پڑا جس نے ان کی بنیادوں پر لرزہ طاری کر دیا۔ امریکہ کے بڑے بینکوں سے شروع ہونے والا یہ بحران مالیاتی شعبے کے بعد صنعتی شعبے میں داخل ہوگیا جس کے باعث لاکھوں افراد بیروزگار اور دیوالیہ ہوگئے جبکہ دیوہیکل حجم کی مالیاتی کمپنیاں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ یہ بحران معیشت کے بعد سیاسی اور ریاستی بحرانوں کی بھی بنیاد بنا اور پوری دنیا ایک مختلف عہد میں داخل ہوگئی۔ وہ طبقاتی کشمکش جسے دانشوروں اور سیاسی راہنماؤں کی اکثریت نے فراموش کر دیا تھا دوبارہ زندہ ہوگئی اور عرب انقلابات سے لے کر امریکہ کی’آکوپائی وال سٹریٹ‘ تک لاکھوں لوگ دنیابھر میں اس نظام کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک یہ معاشی بحران سرمایہ داری کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتا رہا اور اپنے تمام تر دعووں کے بر عکس وہ کبھی بھی اس سے پوری طرح نکلنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور نہ ہی مغربی ممالک میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بنائی گئی فلاحی ریاست کی بحالی کا کوئی امکان تک ہی پیدا ہو سکا۔ اس دوران عوام کے معیارِ زندگی پر تاریخ کی بد ترین کٹوتیاں لگائی گئیں اور صحت، تعلیم سمیت بنیادی نوعیت کے تمام شعبے عوام کی پہنچ سے دور ہوتے گئے جبکہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا گیا۔
اس دوران امریکہ کے سماج میں بھی بے چینی بڑھتی چلی گئی جس کے اثرات امریکی سیاست پر مرتب ہونا ناگزیر تھے۔ اسی دوران جہاں دنیا بھر میں ماضی کی سیاست دفن ہوگئی اور نئی تحریکیں اور سیاسی پارٹیاں معرض وجود میں آنے لگیں وہاں امریکہ میں بھی دائیں جانب ٹرمپ اور بائیں جانب برنی سینڈرز مقبول عام ہوئے۔ ٹرمپ کے چا رسالہ دورِ اقتدار میں ہونے والے اقدامات کو اکثر اس کی مضحکہ خیز شخصیت کے نتیجے تک محدود کر دیا جاتا ہے اور امریکی سماج میں جاری عمومی عمل سے اسے بالکل کاٹ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ کا بر سر اقتدار آنا ممکن ہی اسی لیے ہوا تھا کیونکہ سماجی حالات تبدیل ہو چکے تھے اور عوام کا ایک بڑا حصہ کسی بڑی تبدیلی کا خواہش مند تھا جس کا وعدہ ان سے ٹرمپ کر رہا تھا۔ اس تمام عمل میں امریکہ میں جاری تحریکوں میں بھی شدت آتی گئی یہاں تک کہ کرونا وبا کی تباہیوں نے اسے انتہاؤں تک پہنچا دیا اور 2020ء میں ”بلیک لائیوز میٹر“ تحریک کے دوران امریکہ کی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے جب تین کروڑ سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کر حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ اس دوران پہلی دفعہ امریکی ریاست پر بھی اندر سے حملوں کا آغاز ہوا اور وائٹ ہاؤس اور امریکی کانگریس سمیت کوئی بھی مرکزی عمارت مشتعل مظاہرین کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکی۔
اس تمام صورتحال کے اثرات امریکی حکمران طبقے پر مرتب ہونا ناگزیر تھا اور انہوں نے سماجی امن خریدنے کے لیے تاریخ کے سب سے بڑے مالیاتی پیکجز کا اعلان کیا جس میں لوگوں کو گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر دیے جانے لگے جبکہ معیشت کی بحالی کے لیے سر توڑ کوششوں کا آغاز ہو ا۔ گوکہ معیشت ابھی تک شدید بحران کا شکار ہے اور ابھی بھی افراطِ زر اور معاشی جمود معیشت کوایک نئے بحران کی جانب دھکیل رہا ہے جس سے نبٹنے کے لیے حکمرانوں کے پاس زیادہ ہتھیار نہیں رہ گئے۔
امریکہ سمیت دیگر سرمایہ دارانہ ممالک کی بھی کم و بیش یہی حالت ہے اور ایک کے بعد دوسرا ملک شدید معاشی اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہو رہا ہے اور اس نظام کے تحت موجود تمام ریاستیں کمزور ہو رہی ہیں۔ اس کمزوری کا اظہار ان ممالک کی سامراجی طاقت میں ہونا ناگزیر تھا اور ایک طویل عرصے سے نظر آرہا تھا کہ یہ سامراجی طاقتیں کسی بھی بیرونی جنگ میں براہِ راست مداخلت سے کترا رہی ہیں یا اسے محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیبیا، شام اور یوکرائن سے لے کر وینزویلا تک، امریکی سامراج سمیت مغربی سامراجی طاقتوں نے کئی دفعہ براہِ راست مداخلت کی منصوبہ بندی بھی کی اور ارادے بھی ظاہر کیے لیکن واضح طور پر مداخلت نہیں کر سکیں۔ یہاں تک کہ ٹرمپ ایران اور شمالی کوریاپر حملے کرنے کا نہ صرف اعلان کرتا رہا بلکہ ایک موقع پر ایران کے ساتھ حالت جنگ کے بالکل قریب تر لے آیا جب بغداد میں ایران کے ایک مقبول ترین جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد دونوں ممالک میں تناؤ انتہا تک پہنچ گیا لیکن اس کے بعد ٹرمپ کو شرمناک انداز میں پسپائی اختیار کرنا پڑی اور براہ راست جنگ سے گریز کرنا پڑا۔ اس تمام عمل میں امریکی سامراج کی ساکھ بہرحال کسی نہ کسی طرح قائم رہی اور اس کی ایک ناقابل شکست عسکری قوت کے طور پر دھاک دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی۔
لیکن افغانستان سے ہونے والے ذلت آمیزانخلانے یہ بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑ دیا اور پوری دنیا میں لاکھوں افراد جو امریکی سامراج کو ناقابل تسخیر یا ناقابل شکست سمجھتے تھے دانتوں میں انگلیاں دبائے کابل سے امریکی سفارتی عملے کے انخلا کے مناظر دیکھ رہے تھے۔ خود امریکی حکمران صدر جو بائیڈن سمیت انتہائی ششدر اور حیران تھے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے اور ہمارے کسی تھنک ٹینک اور ریاستی ادارے نے ایسی کوئی بھی پیش گوئی نہیں کی تھی اور نہ ہی یہ کسی بھی طرح حکمت عملی کا حصہ تھی۔ جو بائیڈن سمیت تمام امریکی ریاستی مشینری کو یہ مکمل اعتماد تھا کہ افغانستان میں اشرف غنی کی قیادت میں جو حکومت انہوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں کھربوں ڈالر لگا کر قائم کی ہے وہ کم از کم ایک سال یا چھ ماہ تک امریکی فوجوں کے بغیر بھی قائم رہ سکے گی اور افغانستان کی مقامی افواج کسی بھی مزاحمت اور جارحیت کا مقابلہ کم از کم کچھ مہینوں تک کرتی رہیں گی۔ اس دوران وہ ماضی میں اپنے ہی پیدا کردہ طالبان کے ساتھ موجودہ حکومت کے ارکان کو ملا کر ایک مخلوط حکومت تشکیل دے دیں گے جس میں طالبان پر مخصوص حدود کا تعین کر دیا جائے گا اور اس طرح دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹ دیا جائے گا کہ افغانستان میں ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور امریکی سامراج ایک دفعہ پھر سرخرو ہو کر لوٹ آیا ہے۔ لیکن یہ تمام تر منصوبہ بندی جو عرصہ دراز سے جاری تھی اور جس پر سینکڑوں دفعہ بحث مباحثہ بھی کیا گیا تھا، دھری کی دھری رہ گئی اور امریکی سامراج کو تاریخی ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ امریکہ ہی تھا جس نے مظلوم عوام کے خون سے ہولی کھیلنے والے طالبان کو قطر میں سفارت خانہ کھول کر دیا اور انہیں عالمی سطح پر ایک فریق کے طور پر تسلیم کروا کر ان کے افغان عوام کے سر پر مسلط ہونے کی راہ ہموار کی۔ سامراجی مختلف طریقوں سے طالبان کو ایک فریق کے طور پر مذاکرات میں شامل کر رہے تھے اور مذاکرات کا ڈرامہ کر رہے تھے جس کا انجام ساری دنیا کے سامنے ہے۔ اسی دوران طالبان نے دیہی علاقوں کی پسماندہ پرتوں میں امریکی سامراج کے خلاف موجود عوامی نفرت اور غصے کو کسی حد تک اپنی جانب متوجہ کیا اور اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرتے ہوئے ایک طاقت کے طور پر خود کو مسلط کیا۔ لیکن کابل حکومت کا انہدام جس انداز اور جس تیزی سے ہوا اس کا اندازہ خود طالبان کو بھی نہیں تھا اور وہ بھی ایک مضبوط مزاحمت کی توقع کر رہے تھے جبکہ آخر میں بغیر کسی مزاحمت اور لڑائی کے کابل کا اقتدار طالبان کی جھولی میں آن گرا جس کی وہ نہ تو توقع کر رہے تھے اور نہ ہی اس کے لیے تیار تھے۔
امریکی سامراج کی مسلط کردہ کٹھ پتلی ریاست اتنی بوسیدہ اور بد عنوان تھی کہ امریکی انخلا کی تکمیل سے پہلے ہی تمام تر توقعات کے بر عکس منہدم ہو گئی۔ اس حکومت نے جتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کی اور عوام پرمظالم ڈھاتے ہوئے لوٹ مار کا بازار گرم کیا اس کے لیے ایک الگ سے تفصیلی مضمون درکار ہے لیکن اس کا اظہار صرف اسی ایک واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ بہت سے ”جمہوریت پسندوں“ کی امیدوں کا مرکز اشرف غنی کابل سے فرار ہوتے وقت کروڑوں ڈالر، ایک باڈی گارڈ کی رپورٹ کے مطابق سترہ کروڑ ڈالر، بکسوں میں بھر کر ساتھ لے گیا تھا جبکہ پیچھے رہ جانے والے لاکھوں مظلوم عوام کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔
اس دوران جب کابل ائرپورٹ سے غیر ملکیوں کے انخلا کا عمل شروع ہوا تو وہ بھی انتہائی ہیجان انگیز اور خونریزی سے بھرا ہوا تھا جس میں لوگ جہازوں سے لٹک کر مر رہے تھے یا پھر ر ن وے پر جہازوں کے پیچھے پیچھے بھاگ رہے تھے کہ انہیں کسی طرح اس میں سوار ہونے کا موقع مل سکے۔ لیکن امریکی فوجی اور سفارتی حکام جہازوں پرایسے فرار ہو رہے تھے جیسے بھاگتے چور کی لنگوٹی بچا رہے ہوں۔ بہت سے تجزیہ کاروں نے اس عمل کا موازنہ ویتنام کی شکست کے بعد امریکی فوجوں کے فرار سے کیا ہے۔ اس وقت بھی امریکہ کو ویت نام میں ذلت آمیز شکست ہوئی تھی اور امریکی سفارتخانے کی چھت پر سے امریکی فوجیوں سے بھرے آخری ہیلی کاپٹر کی اڑان بھرنے سے پہلے آخری امریکی فوجی نے اس سیڑھی کو دھکا دے کر پھینک دیا تھا جس پر امریکہ کی حمایت کرنے والے مقامی ویت نامی افراد لٹک رہے تھے اور اسی ہیلی کاپٹر سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ تصاویر کیمرے نے محفوظ کر لیں تھیں اور ایک طویل عرصے تک امریکہ کی ذلت او ررسوائی کا نشان بنتی رہیں۔ گو کہ ویت نام میں امریکی فوجوں کو شکست فاش دینے والے کمیونسٹ تھے اور عوامی نفرت اور غم و غصے کی قیادت کرتے ہوئے نہ صرف امریکی سامراج بلکہ اس کے عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی جدوجہد کر رہے تھے اور انہیں وسیع تر عوامی حمایت حاصل تھی۔ جبکہ افغانستان میں امریکہ کے مقابلے میں ایسی کوئی قوت نہیں تھی اور طالبان کا سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور امریکی انخلا کے بعد وہ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو پہلے کی طرزپر ہی چلانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ نجی ملکیت سے لے کر دیگر ذرائع پیداوار کوسرمایہ دارانہ انداز میں ملکیت میں رکھنے پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں اور وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی خوش آمدیدکہہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کے ایک بڑے حصے، خاص کر شہری آبادی میں ان کی عوامی حمایت انتہائی کم ہے جبکہ مظلوم قومیتوں میں ان کے خلاف شدید نفرت موجود ہے۔ ایسے میں ایک کمزور حریف اور نظریاتی حلیف سے اتنی ذلت آمیز شکست کھانا خود امریکی سامراج کے زوال کی گہرائی کی عکاسی کرتا ہے۔
افغانستان کے انخلا کے اعلان کے وقت جب جو بائیڈن سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا ویت نام جیسے مناظر دوبارہ کابل میں امریکی سفارت خانے میں وقوع پذیر ہو سکتے ہیں تو اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہو گا اور ہم نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے لیا ہے اور سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو گا۔ اس سے قبل بائیڈن اوراشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی جب وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی تو تینوں لیڈر قہقہے لگا رہے تھے اور یہ پیغام دے رہے تھے کہ سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن جب واقعات کے تسلسل کا آغاز ہوا تو سب منصوبے ہوا میں اڑتے ہوئے نظر آئے اور کسی کو کچھ بھی نہیں پتہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور ہر طرف بد حواسی کا عالم تھا۔ امریکی میڈیا اور سیاست دان بائیڈن کو کوس رہے تھے کہ اس نے انہیں دنیا بھر میں رسوا کروا دیا جبکہ بائیڈن تمام تر لعنت و ملامت کا رُخ ٹرمپ کی جانب موڑ رہا تھا اور تمام ذمہ داری اس پر عائد کر رہا تھا۔ اس دوران جرمنی، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کے حکمرانوں کو بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس ذلت آمیز شکست پر انہیں بھی لعن طعن کی گئی۔ خاص طور پر وہ فوجی جو اس سامراجی جنگ میں حصہ لے چکے تھے اور اپنے جسمانی اعضا کھو چکے تھے یا ہلاک ہوجانے والے فوجیوں کے اہل خانہ حکمرانوں کو جعلی جنگوں پر بد دعائیں دے رہے تھے اور ان سے سخت نفرت کا اظہار کر رہے تھے۔ یہ ذلت اور رسوائی درحقیقت صرف امریکی سامراج کی ہی نہیں بلکہ تمام مغربی سامراجی ممالک کی شکست ہے جنہوں نے اس جنگ میں اپنے فوجی بھیجے اور اس خونریزی میں براہ راست شریک ہوئے۔
بہت سے اتحادیوں نے بائیڈن پر یہ تنقید بھی کی کہ اس نے انخلا کا فیصلہ جلد بازی میں کیا تھا اور یہ کہ اگر مزید کچھ سال اسٹیٹس کو برقرار رکھا جاتا اور موجودہ سطح پر ہی فوجوں کو موجود رکھا جاتا تو یہ صورتحال مزید بہتر انداز میں کنٹرول کی جا سکتی تھی اور انخلا کی ذلت اور رسوائی سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ بھی محض خام خیالی ہی ہے کیونکہ امریکی فوجی جرنیل واضح کر چکے تھے کہ موجودہ تعداد میں فوجیوں کو برقراررکھ کر اپنا تسلط جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ فوجیوں کی تعداد میں یا تو خاطر خواہ اضافہ کیا جائے اور دس سے بارہ ہزار مزید فوجی بھیجے جائیں یا مکمل انخلا کر لیا جائے ورنہ بہت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورتحال میں اگر مزید فوجیں بھیجنے کے لیے اقدامات کیے جاتے تو خود امریکہ کے اندر سے بائیڈن اور دیگر مغربی ممالک کے حکمرانوں کوشدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا اور دوسرا یہ کہ فوجیوں میں اضافہ کر کے بھی حالات کو کنٹرول کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایسے میں واحد آپشن مذاکرات کا ڈرامہ رچا کر کنٹرولڈ انداز میں انخلا کا ہی تھا جس پر بائیڈن نے عملدرآمد کیا اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اس صورتحال کی بنیاد میں افغانستان کے سماج کا بد ترین بحران بھی ہے جہاں دو دہائیوں کی سامراجی جنگ نے غربت، ذلت اور سماجی ابتری کو انتہا تک پہنچا دیا تھا اور کابل حکومت کے مظالم اور طالبان کی دہشت گردی انتہاؤں تک پہنچ چکی تھی۔ ایسے میں پورے کا پورا سماج ویسے ہی ایک خونی دلدل میں دھنسا ہوا تھا اور ساتھ ہی اس پر براجمان حکمرانوں کو بھی اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ ایسے میں اسٹیٹس کو قائم رکھنے کا کوئی بھی اقدام ناکامی سے ہی دوچار ہونا تھا اور دہشت گردی، بد امنی، بے روزگاری میں کوئی کمی نہیں آنی تھی بلکہ اس میں اضافہ ہونا تھا۔ انخلا کے دوران ہونے والے واقعات نے ان تمام حالات کا ہی سطح پر اظہار کیاجس کے باعث ہر کوئی بوکھلایا ہوا تھا۔ کابل ائرپورٹ پر انخلا کے دوران ہونے والے بم دھماکے سے افرا تفری مزید شدت اختیار کر گئی تھی جس میں مزید بے گناہوں کا خون بہا جبکہ چند امریکی فوجی بھی مارے گئے۔ اس حملے کا بدلہ لے کر اپنی ساکھ بحال کرنے کی امریکی کوششیں بھی منہ کے بل گر پڑیں جب امریکہ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان کے انتقامی ڈرون حملے میں مارے جانے والے افراد عام شہری تھے اور ان کا ائرپورٹ پر بم دھماکہ کروانے والے دہشت گردوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسرے الفاظ میں امریکی سامراج اپنی ساکھ بحال کرنے کے چکر میں مزید بے گناہوں کا خون بہاتا ہوا فرار ہو گیا۔
سماجی، معاشی نظاموں کا اتار چڑھاؤ اور سامراج
اس شکست کے بعد یہ سوال ابھرنا یقینی ہے کہ امریکی سامراج کا مستقبل کیا ہوگا اور ساتھ میں مغربی دنیا کے سرمایہ دارانہ ممالک کے مفادات کی رکھوالی کون کرے گا۔ اس صورتحال میں چین کو ایک ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت کے روپ میں بھی دیکھا جا رہا ہے اور بہت سے تجزیہ کار اسے امریکی سامراج کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھی یہی پیش گوئی کی جارہی تھی کہ چین اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا اور اپنے قدم اس خطے میں مزید مضبوط کرے گا لیکن ابھی تک کے واقعات نے واضح کیا ہے کہ چین اتنے بڑے خلا کو پُر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔
درحقیقت امریکی سامراج کا زوال سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور آنے والے عرصے میں اس نظام کی بحالی کے بڑے پیمانے پر امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بد ترین زوال سے گزرتا ہوا نہدام کی جانب گامزن ہے اور اپنے ساتھ دنیا بھر کی تہذیب و تمدن کو بھی تباہی اور بربادی کے دہانے پر لے جائے گا۔ انسانی تاریخ میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں جب کسی بھی سماجی معاشی نظام کے زوال اور انہدام کے عرصے میں پوری انسانی تہذیب ہی داؤ پر لگ جاتی ہے اور انسانیت کے مستقبل پر سوال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں نئے ابھرنے والے انقلابات اور ان کے نتیجے میں ابھرنے والا ایک نیا سماجی معاشی نظام ہی اس عمل کا خاتمہ کرتا ہے اور انسانیت کو دوبارہ تعمیر و ترقی کی جانب لے جاتا ہے۔
قدیم دور میں سلطنتِ روم کا زوال اور انہدام اس حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔ دوہزار سال قبل یہ سلطنت دنیا کی سب سے بڑی قبضہ گیر قوت اور سب سے ترقی یافتہ تہذیب تھی۔ اس سلطنت کی بنیادیں درحقیقت غلام دارانہ طرز پیداوار پر رکھی گئی تھی اور اس سماجی معاشی نظام کی انتہا پر سلطنتِ روم نے دنیا کے ایک بڑے حصے پر اپنے پنجے گاڑے تھے اور بہت سے ایسے علاقے جہاں تک اس وقت کا جدید نظام نہیں پہنچا تھا انہیں اسی سماجی معاشی نظام کا حصہ بنایا تھا جس پر وہ خود قائم تھی۔ لیکن تیسری چوتھی صدی کے بعد اس دیو ہیکل سلطنت کے زوال اور انہدام کا آغاز ہوا جو کئی صدیوں پر محیط تھا۔ اس دوران سلطنت روم کے حکمرانوں کے باہمی تضادات ابھرنے کے ساتھ ساتھ پوری ریاست کا بھی شیرازہ بکھرنے کے عمل کا آغاز ہوا جس کے ساتھ ہی اس عہد کی پوری تہذیب اور انسانیت داؤ پر لگتی جا رہی تھی۔ اس کے زوال اور انہدام پر بہت سی تفصیلات مطالعے کے لیے موجود ہیں جس میں سینکڑوں ایسے واقعات درج ہیں جو اس تمام عرصے میں زوال کے اس سماجی عمل کے تضادات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن اپنی بنیاد میں یہ غلام دارانہ طرزِ پیداوار کے تاریخی طور پر خاتمے کا عہد تھا جبکہ جاگیر دارانہ طرزِ پیداوار ابھر رہا تھا لیکن فوری طور پر غلام داری کے انہدام سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس دوران یورپ کا بڑا حصہ تہذیب و تمدن میں آگے بڑھنے کی بجائے پسپائی کا شکار ہوتا گیا اور اس عہد کو آج بھی تاریک دور کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔
اسی طرح، یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کے عہد کا آغاز اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف انقلابات کے ابھرنے کا عمل بھی ایک سماجی معاشی نظام کے زوال اور ایک نئے نظام کے ابھار کو واضح کرتا ہے۔ یہ عمل بھی کئی صدیوں تک پھیلا ہوا تھا جس میں بہت سے اتار چڑھاؤ آتے رہے اور اور ماضی کی باقیات نے بہت سی جگہوں پر اپنے آپ کو سماج پر مسلط کرنے کی کوششوں کو جاری رکھا لیکن اس کے باوجود جب جاگیردارانہ طرزِ پیداوار کا تاریخی عہد اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اس وقت پرانے طریقوں سے حاکمیت کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا تھااور نیا عہد نئی سیاست، ریاست اور ایک پورے نئے سماجی ڈھانچے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ سرمایہ دارانہ انقلابات میں سب سے قابلِ ذکر فرانس میں 1789ء کا انقلاب ہے جب جاگیرادارانہ ریاست کا خاتمہ کر دیا گیا اور سرمایہ دارانہ ریاست، جدید قوم، پارلیمنٹ اور نئی طرز کی سیاست کے عہد کا آغاز ہوا۔ اس دوران ایک بادشاہ کا سر کاٹ کر نیزے پر رکھا گیا اور پورے پیرس شہر میں لوگ اسے لے کر گھومتے رہے جو پرانے عہد کے انجام کا انتہائی پر تشدد مگر فیصلہ کن اظہار تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی گزشتہ تین سو سال سے زائد کی تاریخ میں بھی ہمیں مختلف سامراجی طاقتوں کا عروج و زوال نظر آتا ہے جس میں برطانیہ اور فرانس سے لے کر امریکی سامراج تک، مختلف وقتوں میں مختلف طاقتیں دنیا کے مختلف خطوں پر غالب رہیں لیکن اب واضح طور پر یہ نظام اپنے بدترین زوال اور انہدام کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس میں پہلے جیسی طاقت کی کسی نئی سامراجی طاقت کا ابھرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اگر کوئی سماجی معاشی نظام انسانیت کو آگے لے کر جانے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اپنے باشندوں کی زندگیوں کو بہتر کرنے کاپوٹینشل رکھتا ہو تو اس میں ایک حکمران گروہ کی جگہ دوسرا آ بھی جائے تو وہ گروہ بھی نظام کو قائم رکھنے کی کوششوں میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اس نظام کے تحت بنائی گئی ریاست، سیاست اور دیگر سماجی ڈھانچوں کو برقرار رکھ پاتا ہے۔ لیکن اگر سماجی معاشی نظام ہی زوال پذیر ہو تو ایک حکمران گروہ کی جگہ خواہ کوئی بھی دوسراآجائے، وہ نہ تو عوام کی اکثریت کے حالات زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے خلاف ابھرنے والی بغاوتوں اور سرکشیوں کوہمیشہ کے لیے کچل سکتا ہے۔
نظام کا بحران ایک کے بعد دوسری بغاوت کو جنم دیتا رہتا ہے اور حکمران طبقہ مسلسل ہیجان اور افرا تفری کا شکار رہتا ہے اور مسلسل ٹوٹ پھوٹ اور باہمی کشمکش بھی اسے کمزور کیے رکھتی ہے جبکہ دوسری جانب محکوم طبقات کی نفرت اور غم و غصہ بھی انتہاؤں تک پہنچ جاتا ہے جو ناگزیر طور پر انقلابی صورتحال کو جنم دیتا ہے جو پرانے نظام کو اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک نیا نظام قائم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
آج کے عہد میں امریکی سامراج کی زوال پذیری کے بعد ا س کی جگہ لینے کے لیے کسی ہم پلہ یا زیادہ طاقتورقوت کاموجود نہ ہونا بھی اسی امر کی غمازی کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب برطانیہ اور فرانس جیسے سامراجی ممالک زوال پذیر ہوئے اور دنیا بھر سے اپنی نو آبادیات سے پسپا ہونے پر مجبور ہوئے تو اس وقت عالمی سطح پر امریکی سامراج کا ابھرنا سرمایہ دارانہ نظام کے احیا کی عکاسی کرتا تھا۔ اس وقت دنیا کی معیشت کا 40 فیصد امریکہ میں موجود تھااور دنیا کا دو تہائی سے زائد سونا امریکی بینکوں کے پاس محفوظ تھا۔ اس دوران عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کے ذریعے ذرائع پیداوار کو ترقی دینے کے ایک بڑے عمل کا آغاز ہو اجس نے نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی بقا میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ امریکی سامراج کی وسعت اور حجم کو انتہاؤں تک لے جانے میں اہم کر دار ادا کیا۔ ویت نام کی جنگ میں ذلت آمیز شکست اٹھانے کے باوجود امریکی سامراج کا کردار دنیا بھر میں محدود نہیں ہو سکا بلکہ وہ پھیلتا ہی رہا اور اس خونی دیو کے پنجے لاطینی امریکہ سے لے کر افریقہ کے درجنوں ممالک تک پیوست نظر آئے۔ اس دوران دنیا کے ایک بڑے حصے پر سرمایہ دارانہ نظام کی منڈی کی معیشت کے مقابلے میں منصوبہ بند معیشت بھی موجود تھی جو نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی عروج و زوال کے اثرات سے محفوظ تھی بلکہ وہاں پر ایک متبادل سماجی معاشی نظام موجود تھا گو کہ اسے سٹالنسٹ زوال پذیری کے باعث آمرانہ طرزِ حکومت میں جکڑ دیا گیا تھا اور مارکسزم کے اصولوں کے مطابق مزدور جمہوریت کو لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ متبادل انہی غداریوں کے باعث وقتی طور پر دم توڑ گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کو ایک نئی زندگی ملی۔
لیکن آج سرمایہ دارانہ نظام کے زوال میں ایسے کوئی امکانات موجود نہیں کہ اس نظام کے حکمران کسی نئے خطے کو اپنے زیر تسلط لے کر اس کی منڈی کا استحصال کرتے ہوئے اپنے منافعوں میں اضافہ کر سکیں یا کسی بھی دوسرے طریقہ کار سے اس نظام کی معیشت کو دوبارہ ماضی کی بلندیوں تک لے جا سکیں۔ اسی لیے امریکی سامراج کے زوال میں اس کی جگہ لینے کے لیے چین، روس یا یورپی یونین سمیت کسی بھی سامراجی طاقت کے پہلے سے بلند سطح پر ابھرنے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ گو کہ یہ تمام عمل سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا بلکہ اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے جیسا کہ ماضی کے نظاموں کے ساتھ بھی ہوا تھا لیکن عمومی سفر آنے والے عرصے میں زوال کی جانب ہی ہوگا جبکہ اس میں وقتی طو ر پر ایسے ادوار آ سکتے ہیں جب صورتحال بظاہر حکمران طبقے کے کنٹرول میں دکھائی دے لیکن حتمی طور پر عدم استحکام ہی اب اس نظام کا سب سے اہم خاصہ ہو گا۔
چین کا سامراجی کردار اور طاقت کا خلا
افغانستان سمیت اس پورے خطے میں چین کواپنی سامراجی مداخلت کو پھیلانے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشی عروج کے ایک طویل دور کی ضرورت ہے جس میں وہ ذرائع پیداوار کو مسلسل بڑھوتری دیتا رہے اور اپنے داخلی بحرانوں پر قابو پاتا ہوا تیزی سے اس طاقت اور معیشت کے خلا کو پُر کرے جو امریکی سامراج کے زوال کے باعث بہت سے خطوں میں پیدا ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں واضح ہو چکا ہے کہ اب امریکہ کسی بھی خطے میں بڑے پیمانے پر براہِ راست مداخلت نہیں کر سکتا گو کہ ابھی بھی محدود پیمانے پر مداخلت اور چھوٹی جنگوں اور تنازعات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن جس طرح کی سامراجی غنڈہ گردی گزشتہ دو دہائیوں میں عراق، افغانستان اور دیگر خطوں میں نظر آئی اس سطح کی مداخلت آنے والے عرصے میں ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن دنیاکے مالیاتی نظام پر فیصلہ کن کنٹرول رکھنے کے باعث وہ معاشی ناکہ بندیو ں، تجارتی پابندیوں اور دوسرے ایسے ہی ہتھیاروں کے ذریعے دنیا پر اپنی حاکمیت کو مسلط کرنے کی کوشش جاری رکھے گا اور صورتحال کو اپنے کنٹرول میں کرنے کی سعی کرتا رہے گا اور کبھی بھی رضاکارانہ طور پر دنیا کی تھانیداری سے دستبردار نہیں ہوگا بلکہ زیادہ بڑے پیمانے پر بربادی پھیلانے کا خوف پھیلائے گااور اس کا حکم تسلیم نہ کرنے والوں کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہے گا۔
اس کے مقابلے میں چین کے پاس نہ تو عالمی مالیاتی اداروں میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے جس کے ذریعے وہ مقروض ممالک کو انتہائی اقدام کی دھمکی دے سکے اور نہ ابھی تک وہ کسی بھی خطے میں بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت کر سکاہے۔ اسی طرح نہ ہی وہ ابھی تک اپنی فوجیں کسی بھی بیرونی سرزمین پر اتار کر وہاں پر اپنا تسلط جما کر اپنی دھاک بٹھا سکا ہے گوکہ آنے والے عرصے میں ایسی کسی جارحیت کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ چین ابھی تک تائیوان کے تنازعے کو بھی بزور طاقت حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا گوکہ اس کو اپنے زیرِ تسلط لانے کی دھمکیاں مسلسل دے رہا ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ تائیوان کے مسئلے پر چین کو مسلسل تنبیہہ جاری کر رہا ہے اور اسے اس طرح کی کسی بھی جارحیت سے باز رہنے کا کہہ رہا ہے۔ اسی طرح جاپان، جنوبی کوریا اور مشرقی ایشیا کے مختلف تنازعات میں چین واضح برتری حاصل نہیں کر پایا۔ جبکہ سری لنکا سمیت افریقہ کے مختلف ممالک میں اپنی سرمایہ کاری کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے عسکری جارحیت کی آپشن کا استعمال نظر نہیں آیا۔ چین ابھی تک اپنے مالیاتی سرمائے کے پھیلاؤ کے ذریعے ہی اپنے سامراجی عزائم کا اظہار کر رہا ہے اور سرمائے کی اسی جکڑ بندی کے ذریعے ان ممالک کا استحصال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس میں پاکستان میں سی پیک کا منصوبہ بھی شامل ہے۔
لیکن اس سارے عرصے میں چین کی مالیاتی بنیادیں مضبوط ہونے کی بجائے مسلسل کمزور ہوئی ہیں اور عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران چین کی معیشت کو بھی کمزور کرتا جا رہا ہے جس کے باعث اس کا سامراجی کردار پھیل نہیں پا رہا۔ اس وقت چین کا عالمی معیشت میں حصہ 17 فیصد ہے جبکہ امریکہ اس وقت 24 فیصد حصے پر براجمان ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد کم ترین سطح پر ہے۔ ان دو اعداد و شمار سے ہی سامراجی طاقتوں کے توازن کا اندازہ لگانے کا موقع ملتا ہے گو کہ گزشتہ سات دہائیوں میں امریکی سامراج جس قدر عسکری قوت اور دنیا بھر میں مالیاتی اثر و رسوخ قائم کر چکا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے چین کو ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ لیکن ایک تو چین میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں امریکہ سے مختلف ہیں اور دوسرا وہ سرمایہ داری کے نامیاتی زوال کے عہد میں ابھرنے والی سامراجی قوت ہے، لہٰذا آنے والے عرصے میں بھی یہ مقام حاصل نہیں کر پائے گا۔
چین میں سرمایہ دارانہ معیشت کی بڑھوتری کی بنیاد مغربی سرمایہ د ارانہ ممالک کی کمپنیوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری تھی۔ انہوں نے سستی محنت کے حصول کے لیے اپنی صنعتوں کو تیزی کے ساتھ چین میں منتقل کیا جس کے باعث گزشتہ دو سے تین دہائیوں میں چین میں تیز ترین معاشی نمو دیکھنے میں آئی۔ لیکن اس عمل میں جدید ٹیکنالوجی کی ملکیت انہی کمپنیوں کی پاس موجود رہی اور چین کا سرمایہ دار وہ جدید ٹیکنالوجی مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکا اور اس کے لیے ابھی تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پرانحصار کرتا ہے۔ گوکہ اس انحصار میں بتدریج کمی آ رہی ہے اور چینی سرمایہ دار بھی ٹیکنالوجی کے حصول کی دوڑ میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ابھی بھی انہیں مغربی کمپنیوں سے فیصلہ کن برتری حاصل کرنے کے لیے طویل عرصہ درکار ہے۔ اس دوران چین کی معیشت بھی عالمی سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام سے جڑ چکی ہے اور عالمی سطح پر آنے والے بحران اس کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ چین میں ہونے والی اشیا کی تمام تر پیداوارکا بڑاحصہ بیرونی منڈی میں فروخت ہوتا ہے اور چین کی داخلی منڈی میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ تمام تر پیداوار کو جذب کر سکے۔ اسی لیے چین کی معیشت عالمی معیشت کے استحکام اور ترقی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے اور کوئی بھی بحران اور مانگ میں کمی اس کی معیشت کو بحران میں لے جانے کا باعث بنتی ہے۔
اس کے بر عکس امریکی سامراج کی بنیاد امریکی صنعت اور تکنیک میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پرتیز ترین ترقی کے باعث ممکن ہوئی تھی اور اس دوران امریکہ کی داخلی منڈی میں بہت تیزی کے ساتھ پھیلاؤ ہوا تھا جس کے باعث یہ منڈی نہ صرف امریکہ میں ہونے والی پیداوارکا بڑا حصہ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی بلکہ پوری دنیا کی پیداوار کا ایک خاطر خواہ حصہ بھی امریکی منڈی کی مانگ کا مرہون منت تھا۔ اپنی منڈی کی مانگ اور اس باعث درآمدات کی ضرورت نے بھی امریکی سامراج کے کردار کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کی اجارہ داری بڑھانے میں اہم پیش رفت کی تھی۔ جبکہ آج چین کے پاس یہ فوقیت موجود نہیں اور وہ دنیا بھر میں مختلف ممالک سے خام مال کے حصول کے لیے تو سرگرداں ہے لیکن ساتھ ہی تیار اشیا کو دنیا بھر میں فروخت بھی کرنا چاہتا ہے کیونکہ چین کی معیشت کی بنیاد ہی ایکسپورٹ پر ہے۔ ایسے میں جہاں بھی چین کی کمپنیاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتی ہیں وہاں اپنی زائد پیداوار کے بحران کو بھی منتقل کرتی ہیں اور دوسرے ملک کی مقامی صنعت کو برباد کرتی چلی جاتی ہیں اور اس عمل میں چین کی اپنی معیشت بھی زیادہ طویل عرصے تک اس ملک میں سرمایہ کاری کے عمل کو جاری نہیں رکھ پاتی اور قرضوں کے ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔
اس کے علاوہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے بحران اور مانگ میں کمی کے باعث چین کی شرحِ نمو میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور چین میں بہت بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس میں لاکھوں روزگار ختم ہو رہے ہیں۔ پیداواری شعبے میں بحران کے باعث گزشتہ دہائی میں چین کے اندر سرمائے کی غیر پیداواری شعبوں کی جانب پیش رفت کا رجحان نظر آیا جس کے باعث رئیل اسٹیٹ اور اس سے جڑے دیگر شعبوں میں پھیلاؤ نظر آیا لیکن وہ عمل بھی اب اپنے انجام تک پہنچ رہا ہے اور چین کی معیشت میں اندازاً 30 فیصد تک حصے کے حامل رئیل اسٹیٹ کے شعبے کے بحران کا آغاز ہو رہا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ایور گرینڈ دیوالیہ ہونے جا رہی ہے جس پر 300 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے موجود ہیں۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق قرضوں کا اصل حجم اس سے دوگنا یا اس سے بھی زیادہ ہے اور اس کمپنی کے ڈوبنے کے ساتھ ہی بہت سی دیگر تعمیراتی کمپنیاں اور بینک بھی دیوالیہ ہو جائیں گے اور ہزاروں ارب ڈالر پر مشتمل رئیل اسٹیٹ کا پورا شعبہ ہی بحران کا شکار ہو کر انہدام کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دیوالیہ پن کے اثرات دنیا بھر کی معیشت پر بھی مرتب ہو رہے اور جب یہ خبر عالمی میڈیا پر آئی تو امریکی اسٹاک ایکسچینجوں میں دو فیصد تک گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ بہت سے امریکی بینکوں اور اہم سرمایہ کاروں نے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس کے ڈوبنے کے ساتھ ہی بہت سے امریکی بینک بھی شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگار اس کا موازنہ امریکی کمپنی لہمن برادرز سے کر رہے ہیں جس کے ڈوبنے کے بعد 2008ء کے مالیاتی بحران کا آغاز ہوا تھا جو پوری دنیا کی معیشت میں پھیل گیا تھا۔ اس امریکی بینک کے ذمے 600 ارب ڈالر کے قرضے تھے اور اس کے ڈوبنے کے بعد امریکہ کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ شدید مندے کا شکار ہو گئی تھی اور کہا جا رہا ہے کہ یہ عمل اب چین میں بڑے پیمانے پر دہرائے جانے کے امکانات موجود ہیں۔
اس وقت چین کی ریاست اس دیوالیہ پن کو بچانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے اور سرکاری کمپنیوں اور بینکوں کو ایور گرانڈ کمپنی کے واجب الادا قرضے اپنے ذمے لینے کے احکامات صادر کئے جا رہی ہے۔ لیکن اس دیوالیہ پن کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اگر کوئی بھی بینک اس کو مکمل طور پراپنے ذمے لیتا ہے تو وہ خود بھی دیوالیہ ہو سکتا ہے اور ناگزیر طور پر یہ بحران بینکوں اور پورے مالیاتی شعبے میں سرایت کر جائے گا اور نتیجے کے طور پر چین کی پوری معیشت کو بحران زدہ کر دے گا جس کے باعث پیدواری شعبہ بھی ناگزیر طور پر متاثر ہو گا اور کروڑوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ صرف ایورگرانڈ کے دیوالیہ سے بیس لاکھ سے زائد روزگار ختم ہو جائیں گے جبکہ لاکھوں عام افراد جنہوں نے اس کمپنی پر اعتماد کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی تھی وہ اپنی تمام تر جمع پونجی کھو بیٹھیں گے۔
اس تمام تر عمل میں چین کی شرحِ نمو بھی کرونا وبا کے باعث کمی کا شکار ہوئی تھی اور پورے ملک میں صنعتوں کی بندش کے باعث ایک وقت میں معیشت تیس فیصد سکڑ گئی تھی لیکن یہ توقع کی جارہی تھی کہ لاک ڈاؤن کے بعد صورتحال پہلے والی سطح پر بحال ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اب 2021ء کی تیسری سہ ماہی میں شرحِ نمو 4.9 فیصد تک آچکی ہے اور چھ فیصد کی شرحِ نمو کا حصول ابھی بھی بہت دور دکھائی دے رہا ہے۔ بارکلیز بینک کے تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سال کی چوتھی سہ ماہی میں یہ 3.5 فیصد تک گر سکتی ہے جو چین سمیت عالمی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ اس عمل میں نہ صرف لاکھوں افراد بے روزگار ہو رہے ہیں بلکہ محنت کی منڈی میں ہر سال شامل ہونے والے کروڑوں نئے افرادبھی روزگار کے حصول میں مشکلات کا شکار ہیں جبکہ دوسری جانب غربت بڑھتی جا رہی ہے اور کام کے اوقات کار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
دوسری جانب حکمران طبقے کی دولت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث چین میں بھی طبقاتی کشمکش شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور امیرترین افراد کی پرتعیش زندگیوں کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ دیوالیہ پن کا شکار ایور گرینڈ کمپنی کے مالک اور چین کے امیر ترین شخص ہوئی۔کا۔یان کا پر تعیش طرزِ زندگی اس وقت بحث کا مرکز بنا ہوا ہے جس کے پاس دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں، بحری اور ہوائی جہاز سمیت دنیا بھر کے مہنگے ترین مقامات پر جائیدادیں موجود ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کے حکمران طبقات سے اس کی قریبی دوستی بھی ہے۔ اس کے علاوہ علی بابا گروپ کے مالک اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن جیک ما کے متعلق خبریں گردش کرتی رہتی تھیں اور اس کے اربوں ڈالر کے اثا ثوں کا ذکر اکثر دنیا بھر کے اخبارات میں کیا جاتا تھا۔ چین کا حکمران طبقہ عوام کی اس اُبلتی ہوئی نفرت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بیان بازی کرتا رہتا ہے اور یہ بھی دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کرپشن کے خلاف اقدامات کیے جارہے ہیں اور امیر ترین لوگوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں لیکن یہ سب زیادہ تر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے اور ایسی کسی مہم کا حتمی مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو خاموش کروانا ہوتا ہے۔ اس دوران سرمایہ دار طبقے کا غلبہ بڑھتا چلا جا رہا ہے جبکہ محنت کش طبقہ غربت اور ذلت کی چکی میں پس رہا ہے۔ ایسے میں کسی بھی نکتے پر یہ لاوا آتش فشاں کا روپ بھی دھار سکتا ہے اور چین میں محنت کش طبقے کی وسیع عوامی تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ سال ہانگ کانگ میں یہ عمل واضح طور پر نظر آ چکا ہے جس کے باعث حکمرانوں کے ایوان لرزنے لگے تھے گو کہ درست قیادت اور پروگرام نہ ہونے کے باعث یہ وسیع تر عوامی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی لیکن یہ ابھی بھی سلگ رہی ہے۔
ایسی صورتحال میں چین سے یہ توقع کرنا کہ وہ عالمی سطح پر ایک مضبوط سامراجی طاقت بن کر ابھرے اور افغانستان جیسے بدحال ملک میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس کو جدید ملک بنا دے محض ایک دیوانے کا خواب ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت دنیا کے مختلف خطوں کی طرح وسطی ایشیائی ممالک میں بھی بڑے منصوبے شروع کیے گئے ہیں اور ان ممالک میں چین کی صنعتوں کا تیار مال پہنچانے اور انہیں ایک تجارتی گزر گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ یہاں تک کہ افغانستان کے کچھ شمالی حصوں میں بھی چین نے ریلوے لائن بچھانے کی کوششیں کی تھیں۔ لیکن یہ سارا عمل چین کے مالیاتی بحران کے باعث سست روی اورتعطل کا شکار ہے اوراس میں زیادہ تیزی آنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔ اس عمل کو افغانستان تک پھیلانے کے لیے اس وقت چین کے پاس بھرپور مواقع موجود ہیں اور وہ ایران تک تجارتی گزرگاہ قائم کر کے اس پورے خطے پر اپنا سامراجی تسلط بچھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے حکمران طبقات سی پیک کو بھی افغانستان تک وسعت دینے کے لیے چین کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اگر چین ان تمام منصوبوں پر عملدرآمد کرنے کی جانب بڑھا تو ایک بہت بڑے خطے پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے اور خاص طور پر روس کے ساتھ مل کر وہ اپنا سامراجی تسلط بڑے پیمانے پر بڑھا سکتا ہے۔ لیکن یہیں پر ہمیں چین کے سامراجی کردار اور بطور ایک سرمایہ دارانہ معیشت اس کی حدود واضح طور پر نظر آتی ہیں اور یہ کھل کر اظہار ہوتا ہے کہ وہ یہ تمام تر صلاحیت ہی نہیں رکھتا اور افغانستان کی خونی دلدل میں قدم رکھنے سے کترا رہا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی سامراج افغانستان میں جس بڑے پیمانے پر سرمایہ انڈیل رہا تھا چین یہ عمل ایک سال یا ایک مہینے بھی نہیں کر سکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سامراج افغانستان میں روزانہ اوسطاً 290 ملین ڈالر خرچ کر رہا تھاجو دو دہائیوں کے عرصے پر محیط ہے۔ اس میں جنگی ساز و سامان اور ہتھیاروں پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلی حکومت بنانے اور چلانے کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ لیکن اتنے بڑے پیمانے پر اخراجات اس کو ذلت آمیز شکست سے نہیں بچا سکے۔ اس سارے عمل میں امریکہ یہاں کسی بھی پیداواری صنعت کو فروغ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا اور نہ ہی افغانستان کے پسماندہ قبائلی سماج کو مکمل طور پر تبدیل کر کے وہاں ایک جدید سرمایہ دارانہ سماج تعمیر کر سکا۔ یہ درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کا بھی اظہار ہے۔ اس سے دو صدی قبل جب سرمایہ دارانہ نظام ترقی کی جانب گامزن تھا اس وقت برطانوی سامراج کی ہندوستان آمد کے بعد یہاں کے پیداواری رشتوں میں ایک بنیادی تبدیلی آئی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام کو یہاں سامراجی سنگینوں تلے مسلط کرنے میں برطانوی حکمران بڑی حد تک کامیاب ہوئے تھے جو ان کے جانے کے بعد بھی موجود رہا اور اسی باعث وہ بالواسطہ انداز میں امریکی سامراج کی شراکت میں یہاں حکمرانی بھی کرتے رہے۔
لیکن امریکی سامراج کے جانے کے بعد نہ تو اس کا قائم کردہ کوئی ادارہ موجود ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی کوئی بھی ٹھوس بنیادیں افغانستان کے سماج میں نظر آتی ہیں۔ پسماندگی، قبائلیت، قدیم تعصبات اور قومی مسئلہ پہلے سے زیادہ شدت سے یہاں موجود ہے اور کوئی بھی جدید طرز کے سماجی رشتے پنپتے دکھائی نہیں دیتے اور نہ ہی جدید قوم یا جدید صنعت کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تمام امریکی سامراج کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے جو سماج کو آگے لے جانے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا ہے اور اب اس کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔
ثور انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ریاست سے موازنہ
بہت سے تجزیہ نگار امریکہ کی قائم کردہ افغان حکومت کا موازنہ 1978ء کے ثور انقلاب کے بعد قائم ہونے والی حکومت سے بھی کرتے ہیں جس کی قیادت خلق پارٹی کے لیڈرنور محمد ترکئی نے کی تھی۔ اس انقلاب کے بعد سماج کی پسماندگی کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں اور قدیم طرز پر موجود سماجی رشتوں کو از سر نو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے جس میں عورتوں کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی گئی، غریب کسانوں پر سے سودی قرضوں کے بوجھ کا یکسر خاتمہ کر دیا گیا جبکہ علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات مفت فراہم کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ اس انقلاب کی قیادت کرنے والے افراد سوویت یونین یا کسی بھی دوسری سٹالنسٹ ریاست سے آزادانہ اپنے فیصلے کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود نظریاتی طور پر ان قائدین پر سٹالنسٹ زوال پذیری کے اثرات موجود تھے جن سے وہ درست نظریات تک رسائی نہ ہونے کے باعث چھٹکارا نہ پا سکے اور انقلاب کو جغرافیائی سرحدوں کے اندر مقیدر کرنے کی وہی غلطیاں کرتے رہے جس کے باعث بعد ازاں خود سوویت یونین منہد م ہو گیا تھا۔ اگر اس وقت خطے سمیت دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص ایران اور پا کستان کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کی جاتی اور ”دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جاؤ“ کے نعرے پر عملی طور پر آگے بڑھا جاتا تو صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔ اسی طرح سماج کے پسماندہ حصوں کی جانب سے سماج کی انقلابی تبدیلی اور قدیم سماجی تعصبات سے باہر نکلنے کی کوششوں کے خلاف ہونے والی مزاحمت سے لڑنے کے لیے بھی دنیا بھر کے محنت کش طبقے سے یکجہتی کی اپیل ضروری تھی جس میں اس وقت کے سامراجی ممالک کا محنت کش طبقہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سٹالنسٹ روس کی جانب سے صورتحال کو کنٹرول کرنے اور مداخلت نے بھی انقلابی تبدیلی کو آگے بڑھنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس کے باوجود اس دور میں قائم ہونے والے ادارے اور سماجی تبدیلی کے اقدامات سماج میں گہرائی تک سرایت کر گئے اور آج بھی ان کے بچے کھچے اثرات موجود ہیں۔ جبکہ امریکی سامراج کا تسلط سماج کو آگے لے جانے میں اور بنیادی تبدیلی لانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ اس سارے عمل کے بعد چین جیسی بحران زدہ سرمایہ دارانہ سامراجی ریاست کی مداخلت افغانستان میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لا سکتی اور نہ ہی اس مداخلت کا حجم دو دہائی سے امریکہ کی ہونے والی مداخلت جتنا ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور خطے پر اثرات
امریکی سامراج کے زیر اثر پاکستانی ریاست بھی خطے میں سامراجی کردار کی حامل رہی ہے۔ رسمی منطق کے تحت معروض کا تجزیہ کرنے والے اس حقیقت کو شاید کبھی بھی نہ سمجھ پائیں کہ ایک عالمی سامراجی طاقت کا گماشتہ خود کیسے ایک سامراجی کردار کا حامل ہو سکتا ہے لیکن جدلیاتی انداز فکر اس تضاد کو واضح طور پر دیکھ سکتا ہے۔ اس حوالے سے افغانستان میں پاکستان کی ”سٹریٹجک ڈیپتھ“ کی سامراجی پالیسی کا ذکر اب کسی سے بھی مخفی نہیں۔ اس سامراجی پالیسی کے تحت پاکستان افغانستان میں شروع سے ہی ایک مطیع حکومت بنانے کے لیے کوشاں رہا ہے اور اس کے لیے فوجی مداخلت سے لے کر پراکسی وارکے ذریعے کوششیں گزشتہ پانچ دہائیوں سے جاری رہی ہیں۔ اس تمام عمل میں مختلف اوقات میں پاکستا ن کی ریاست کو وقتی کامیابیاں بھی ملی ہیں لیکن یہ کبھی بھی دیر پار نہیں رہ سکیں اور ایک یا دوسری وجہ کے باعث پاکستان کے سامراجی عزائم پھر ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد یہ کوششیں تیز کر دی گئیں تھیں اور چند سالوں میں ہی نجیب حکومت کا خاتمہ کر کے اپنے کٹھ پتلیوں کو اقتدار دلوایا گیا جو خانہ جنگی پر منتج ہوا۔ اس کے بعد طالبان کا اقتدار پر قبضہ اور پھر امریکی سامراج کی جارحیت اور شمالی اتحاد کی حکومت میں شمولیت کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اب ایک دفعہ پھر پاکستان کو اپنے سامراجی عزائم میں ظاہری کامیابی ملی ہے جو پہلے کی طرح دیر تک قائم رہنا مشکل ہے اور نہ ہی آنے والے عرصے میں کسی بھی قسم کا استحکام ممکن ہے۔ لیکن اس سامراجی کردار میں بھی ایک تبدیلی آ چکی ہے اور امریکی سامراج کی آشیر باد سے بڑی حد تک محروم ہونے کے بعد ریاست پاکستان اپنی کھوکھلی کامیابی اور سامراجی عزائم کے حصول کے بوجھ تلے خود دبتی چلی جا رہی ہے اوراس نام نہاد فتح کے بعد پاکستان کی ریاست کا اپنا کردار مزید تضادات کا شکار ہو کر اس کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ کر رہا ہے۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ کشمیر کی آزادی سے لے کر کابل میں اپنی کٹھ پتلی حکومت بنانے کے عزائم کے تحت کئی نسلوں کو سامراجی جنگوں میں جھونکا گیا لیکن ان تمام تر تنازعات کی حقیقت مقبوضہ کشمیر کے عوام سے لے کر سابقہ فاٹا کے مظلوم عوام تک سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنازعات اب معیاری طور پر ایک مختلف کیفیت میں داخل ہو چکے ہیں جو عالمی سطح پر تبدیل ہوتے ہوئے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔
یوں امریکی سامراج کے زوال کے باعث پاکستا ن جیسے ممالک بھی شدید ہیجان اور افرا تفری کا شکار ہیں اور عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں ہونے والی تبدیلی ان ریاستوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی ذلت آمیزشکست کا ذمہ امریکی حکمران طبقے کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا جارہا ہے اور اس پر شدید پابندیاں اور معاشی ناکہ بندی کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ یہ ریاست اپنے جنم سے لے کر آج تک امریکی سامراج کے احکامات ایک تابعدار غلام کی طرح تسلیم کرتی رہی ہے اور اس پورے خطے میں اس کے سامراجی مفادات کا دفاع کرتی رہی ہے۔ لیکن اب اپنی ٹوٹ پھوٹ اور کمزوری کے باعث جب وہ حکم کی تعمیل پوری طرح کرنے کے قابل نہیں رہی اور اس نے اپنے آقا سے کچھ غداریاں بھی کی ہیں تو اسے سزا دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حقیقت میں اس تمام عمل کی سزا پہلے بھی اس ملک کے حکمرانوں کی بجائے محنت کش ہی بھگتتے رہے ہیں جنہیں مختلف سامراجی جنگوں میں جھونکا جاتا رہا ہے اور اسلحے کی خریداری اور دفاعی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں بھوک اوربیماری کی دلدل میں دھکا دیا جا تا رہا ہے۔ اب ان سامراجی پالیسیوں میں تبدیلی کا خمیازہ بھی عوام ہی بھگت رہے ہیں اور معاشی قتل عام کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ لیکن اس تمام عمل میں امریکہ کے پاس افغانستان اور دیگر وسطی ایشیا کے خطے تک بالواسطہ مداخلت کے لیے اس ریاست کی تھوڑی بہت ضرورت اب بھی ہے۔ امریکہ اس وقت چین کو دنیا میں اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دے چکا ہے اور اس کے تحت اپنے سامراجی مفادات کو از سرنو ترتیب دے رہا ہے اور چین کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ گو کہ موجودہ تضاد کی نوعیت ماضی میں سوویت یونین یا منصوبہ بند معیشت والے چین کے امریکہ کے تنازعے سے یکسر مختلف ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کی حامل دو سامراجی طاقتوں کی لڑائی ہے جس میں ان کے بہت سے مفادات بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ اس نظام کو ہر قیمت پرقائم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ماضی میں یہ دو مختلف سماجی معاشی نظاموں کی لڑائی تھی۔
امریکہ اور چین کی موجودہ لڑائی میں بحرالکاہل اور بحر ہند میں تنازعات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور سیاسی و عسکری درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے حال ہی میں آسٹریلیا کے ساتھ نیوکلیئر آبدوزوں کا ایک بہت اہم معاہدہ بھی کیا ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ سٹریٹجک اور دفاعی نوعیت کا تعاون تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو چین کے ساتھ ماضی میں دوستانہ تعلقات کی جانب دھکیلنے والاامریکہ خود اب اسے یہ تعلق مکمل طور پر ختم کرنے کا حکم دے رہا ہے جبکہ انڈیا جیسے ازلی دشمن کے ساتھ دوستی قائم کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ یہ تمام عمل خود پاکستان کی ریاست کی بنیادوں پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
اسی طرح پاکستان کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے ایک جدید اسلحے سے لیس ایک بڑی فوج کی حامل ریاست بنانا ایک وقت میں امریکی سامراج کے مفادات میں تھا لیکن آج وہ اسے آئی ایم ایف کے ذریعے فوجی بجٹ کم کرنے کا حکم دے رہا ہے اور خطے میں اس کا کردار محدود کرتے ہوئے اسے انڈیا کے زیر اثر کام کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس دوران پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ بھی افغانستان کی جنگ پر انحصار کر رہا تھا اور صنعت اور زراعت دو دہائیوں میں سکڑنے کی جانب گئی ہیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے امریکہ کی آشیر باد پر ملنے والے قرضے بھی معیشت کو وقتی سہارا دیتے رہے ہیں لیکن اب یہ قرضے واپس کرنے کا وقت آن پہنچا ہے جبکہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اس جنگ سے جڑاپاکستانی معیشت کا ایک بڑا حصہ اچانک مفلوج ہو کر عضو معطل بن چکا ہے۔ اس دوران عالمی معیشت کا بحران اورتیل سمیت درآمدی اشیا کی قیمتوں میں بڑاا ضافہ اس کی معیشت کو دیوالیہ پن کی جانب دھکیل رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن میں تبدیلی بہت سی ریاستوں کو دیوالیہ کر سکتی ہے یا ان کی بنیادوں کو یکسر تبدیل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اتنی بڑی تبدیلی ناگزیر طور پر محنت کش طبقے کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اور سماج کو کسی بھی طور پرانے طریقوں سے چلانا ممکن نہیں رہتا اور عوامی بغاوتوں اور انقلاب کے لیے حالات تیار ہوتے ہیں۔
اس تمام عمل میں حکمران طبقے کے باہمی تضادات ناگزیر طور پر شدت اختیار کرتے ہیں جس میں ایک حصہ پرانی طرز پر حاکمیت کو جاری رکھنا چاہتا ہے جبکہ ایک حصہ نئی حقیقتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس عمل میں ان کا باہمی تناؤ بھی شدت اختیار کرتا ہے جبکہ عوام کے سامنے ان کا حقیقی کردار بھی عیاں ہوتا چلا جاتا ہے اور انہیں ان حکمرانوں اور ان کے مسلط کردہ ریاستی اداروں کو اکھاڑ پھینکنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ صورتحال افغانستان میں پاکستان کوملنے والی بظاہر کامیابی کے کھوکھلے پن کو بھی واضح کرتی ہے جس کا بہت زیادہ ڈھنڈورا پیٹا گیا اور اپنی ناکامی اور خفت کو مٹانے کے لیے ضرورت سے زیادہ واویلا کر دیا گیا۔ یہ ایسی کامیابی تھی جس کے بعد دنیا بھر سے امداد کی بھیک مانگی جا رہی ہے اور عالمی سطح پر حالات خراب کرنے کی دھمکیاں بھی لگائی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود شنوائی نہیں ہو رہی۔ تاریخی کامیابی قرار دی جانے والی اس تبدیلی کے بعد عوام کو انصاف اور خوشحالی فراہم کرنے کے تمام دعووں کی قلعی بھی کھل گئی ہے اور پہلے سے موجود امریکی سامراج کی بربریت کا زیادہ پر تشدد تسلسل نظر آتا ہے جس میں بھوک اور بیماری وہاں رہنے والے کروڑوں افراد کا مقدر بن چکی ہے۔
افغانستان کا یہ بحران پاکستان کی معیشت اور ریاست میں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے اور جعلی کامیابی کے مصنوعی نشے میں بد مست ریاستی دھڑا زمینی حقائق کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق خود کوڈھالنے والے دھڑے کے ساتھ برسر پیکار ہے جس کے نتیجے میں ریاست کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک طرف ایسی کامیابی کا نشہ ہے جس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے بد تر ہوئے ہیں لاکھوں افراد انتہائی کسمپرسی میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ نئے حکمران اقتدار میں آتے ہی عوامی نفرت اور احتجاجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسی کامیابی جو کسی لڑائی کے بعد حاصل نہیں ہوئی بلکہ سامراجی طاقت کی پسپائی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کے بعد جھولی میں آن گری کیونکہ کوئی بھی دوسری قوت اسے پُر کرنے کے لیے موجود نہیں تھی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے امریکی سامراج اور کٹھ پتلی حکمرانوں سے نفرت کے باعث جو تھوڑی بہت سماجی حمایت تھی وہ بھی تیزی سے ختم ہو گئی اور نئے حکمران جو پہلے سامراج مخالف قوت ہونے کے باعث اخلاقی برتری کا دعویٰ کر رہے تھے اب اسی سامراجی قوت کا آلہ کار بننے کی بھیک مانگ رہے ہیں اور بے اعتنائی برتنے پر دوسری سامراجی قوتوں کی کٹھ پتلی بننے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی ابھی تک ان کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہاں تک کہ امریکی سامراج کے مخالف روس اور ایران بھی اب امریکی انخلا کے بعد ان کی حمایت نہیں کر رہے بلکہ ان کی مخالف قوتوں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ یہی صورتحال جھوٹی کامیابی کا پراپیگنڈہ کرنے والوں کو مشکلات میں مبتلا کر رہی ہے جبکہ امریکی سامراج کی آشیر باد دوبارہ حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف دھڑا اس نئی کیفیت میں ایک جانب خود کو کمزور محسوس کر رہا ہے اوردوسری جانب رجعتی قوتوں کے استعمال سے بھی چھٹکارا نہیں حاصل کرنا چاہتا۔ انہیں سب سے زیادہ خوف عوامی بغاوت کا ہے جس کے لیے وہ دفاعی ضروریات اور رجعتی قوتوں جیسے اہم ہتھیاروں کو کمزور کرنے کی بجائے مزید مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اسی باعث حکمران طبقے کے تضادات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال آنے والے عرصے میں دھماکہ خیز واقعات کا باعث بنے گی جو اس پورے نظام اور اس کی بنیادوں پر سوالیہ نشان ثبت کرے گی۔ ایسی صورتحال میں حکمران طبقے کے خونی کھلواڑ کے خلاف عوامی تحریکوں کا ابھرنا اور انقلابی کردار کا حامل ہو جانابھی ممکن ہے اور نظام کی تبدیلی کے عمل کا آغاز ہو گا۔
اس تمام تر عمل میں مارکسزم کے جدید سائنسی نظریات سے لیس ایک قوت ایک کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے اور کسی بھی ایک ملک میں ابھرنے والی تحریک میں منظم انداز میں ایک خاطر خواہ مقداری قوت کے ساتھ مداخلت کرتے ہوئے عوام کی وسیع تر حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ 1917ء کے انقلابِ روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے یہی کردار ادا کیا تھا اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر ایک نئے سماجی معاشی نظام کی بنیاد رکھی تھی جس کا تقاضا خود معروضی حالات کر رہے تھے۔ آج بھی اس عمل کو بلند پیمانے پر دہرایا جا سکتا ہے اور سامراجی طاقتوں کی وحشت اور خونریزی کے ساتھ ساتھ زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد نہ صرف پرانے نظام کا خاتمہ ہو گا بلکہ ہزاروں سالوں سے موجود امیر اور غریب، حاکم اور محکوم پر مبنی طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوگا اور ذرائع پیداوار کی جو ترقی انسانی تہذیب نے اس سارے عرصے میں حاصل کی ہے اور اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت سے پوری دنیا میں قلت اور مانگ کا خاتمہ کیا جائے گا اور اس کرہ ارض سے بھوک، بیماری، محرومی اور ذلت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرتے ہوئے تسخیر کائنات کے عمل کافیصلہ کن انداز میں آغاز کیا جائے گا۔