|تحریر: اولیور برادرٹن، ترجمہ: یار یوسفزئی|
اس مہینے کے اوائل میں، عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے زیرِ نگرانی قائم انڈیپنڈنٹ پینل نے عالمی سطح پر کرونا وباء کے حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی۔ حیران کن طور پر اس رپورٹ میں بحران کا الزام انہی لوگوں پر لگایا گیا جو حقیقت میں اس کے ذمہ دار ہیں یعنی سرمایہ دار سیاستدانوں اور مالکان پر۔ ہر جگہ پر موجود بربریت اور بے تحاشا تکالیف کے اس دور میں، ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے کرونا وباء کے حوالے سے حکمران طبقے کی سفاکیت کا اندازہ ہوتا ہے، جس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اس وباء کو آسانی سے روکا جا سکتا تھا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ کا سب سے قابلِ غور حصّہ شاید اس میں دیے جانے والے اعداد و شمار ہیں۔ جس کے مطابق پچھلے سال کے دوران 12 کروڑ پچاس لاکھ افراد شدید غربت میں دکھیلے جا چکے ہیں؛ کرونا کے باعث شعبۂ صحت کے کم از کم 17 ہزار محنت کشوں کی موت واقع ہوئی ہے؛ خواتین پر تشدد سے متعلق سپورٹ سروسز کی مانگ پانچ گنا بڑھ چکی ہے، اور لاک ڈاؤنز کی دوران مخصوص اوقات میں تو تقریباً 90 فیصد تک بچے سکول جانے سے محروم رہے۔
البتہ رپورٹ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ، سرمایہ دار طبقے کی بیان بازی کہ ’ہم سب ایک کشتی میں سوار ہیں‘ کے بر عکس ہم الگ الگ کشتیوں میں سوار ہیں:
”وائرس نے سماج کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے، عالمی آبادی کو شدید خطرے سے دوچار کیا ہے اور بڑے پیمانے پر موجود نا برابری کا پردہ چاک کیا ہے۔ ممالک کے بیچ بیرونی اور اندرونی طور پر تقسیم اور نا برابری نے شدت اختیار کی ہے، اور پہلے سے محروم اور پستے چلے آ رہے لوگوں پر اس کے شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔۔۔سب سے مایوس کن حالت ان افراد کی ہے جو وباء سے پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار تھے اور اب ان کے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے۔“
بلاشبہ سرمایہ داری کی بنیادیں نا برابری پر قائم ہیں مگر وباء نے ان لوگوں کی زندگی کو مزید شدت کے ساتھ متاثر کیا ہے جو پہلے سے اس نظام میں کچلے جا رہے تھے۔
ان بھیانک انکشافات سے زیادہ خوفناک ’دی اکانامسٹ‘ کی حالیہ رپورٹ ہے جس کے مطابق وباء کے دوران 70 لاکھ اور 1 کروڑ 30 لاکھ کے درمیان اموات واقع ہوئی ہیں، جو اوسط اندازے کے مطابق 1 کروڑ 2 لاکھ ہیں۔ اس سے مزید بری خبر یہ ہے کہ تحقیقات کے مطابق کرونا کی وجہ سے اب بھی روزانہ 33 ہزار اموات سامنے آ رہی ہیں (جو قومی حکومتوں کی جانب سے دی گئی تعداد سے تین گنا زیادہ ہے)، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال کے اندر اندر مجموعی اموات کی تعداد 2 کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔
یہاں تک کہ سب سے کم ترین سطح کے اندازوں کے مطابق بھی کرونا کی مجموعی اموات کی تعداد پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کی اموات کی شرح جیسی ہے۔ جہاں ایک طرف مالکان اور سرمایہ دار سیاستدان ایک دوسرے کو شاباشیاں دے کر معاشی بحالی کا انتظار کر رہے ہیں، وہاں محنت کش طبقہ نا قابلِ یقین حد تک مصائب و آلام کا شکار ہے۔
مگر کیا وباء کا پھیلنا نا گزیر نہیں تھا؟ کیا واقعی ہمارے پاس اس کے بد ترین اثرات کو روک کر لاکھوں جانیں بچانے کا کوئی راستہ موجود تھا؟ رپورٹ میں الفاظ کی ہیرا پھیری نہیں کی گئی ہے:
”یہ واضح ہے۔۔۔کہ دنیا وباء کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور ان تنبیہات کو نظر انداز کیا گیا جو دیوہیکل تباہی کا باعث بنے؛ SARS-COV-2 (کووِڈ 19) کا پھیلاؤ ایک تباہ کن وباء میں تبدیل ہو گیا۔۔۔2009ء میں H1N1 انفلوئنزا (سوائن فلُو) وباء کے بعد، کم از کم 11 بڑے پینلز اور کمیشنز نے 16 رپورٹس کے اندر عالمی وباء سے نمٹنے کی تیاری کے لیے خصوصی تجاویز پیش کی ہیں۔۔۔عالمی وباء کے خطرات سے تحفظ یقینی بنانے کی خاطر اہم اقدامات لینے کی ضرورت کے حوالے سے مسلسل تجاویز پیش کی گئیں، مگر اس کے باوجود ان کی اکثریت پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔“
وائرس کا سامنے آنا نا گزیر تھا، مگر اس قسم کی وباء کو روکا جا سکتا تھا۔ دنیا بھر میں جان لیوا وائرس کے بے قابو پھیلاؤ، اور اس کی وجہ سے اذیتوں اور لاکھوں اموات کے شروع ہونے والے سلسلے کی ذمہ دار وہ حکومتیں اور سیاستدان تھے جنہوں نے بار بار تنبیہات کو نظر انداز کیا۔ 2016ء میں ’جی ایچ آر ایف کمیشن‘ نے اندازہ لگایا کہ کسی بھی وباء کے اثرات کو کم کرنے کے انتظامات کے منصوبے پر امریکی ریاست کا سالانہ 4.5 ارب خرچ آئے گا۔ یہ امریکی فوج کے سالانہ بجٹ کا محض 0.5 فیصد بنتا ہے۔ پھر بھی ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومتوں کو وباء سے نمٹنے کے انتظامات کرنے کا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ دنیا بھر کے سرمایہ دار سیاستدانوں اور حکومتوں نے اپنے بجٹ کا چھوٹا سا حصہ لاکھوں جانیں بچانے کے لیے مختص نہ کرنے کا فیصلہ جان بوجھ کر کیا۔
حتیٰ کہ جب وباء دنیا بھر میں شدت اختیار کر گئی، تب بھی حکومتوں نے انسانی جانوں پر منافعوں کو ترجیح دی۔ بڑی دوا ساز کمپنیاں تب تک تحقیقات شروع کرنے میں سُستی دکھا رہی تھیں جب تک ریاستی خزانوں نے ان پر اربوں روپوں کی بارش نہ کر دی۔ ویکسین کے حوالے سے تحقیقات کے ثمرات، جو ریاستی سرمایہ کاری کی وجہ سے ممکن ہوئے تھے، کو دوا ساز کمپنیوں نے نجی دانشورانہ ملکیت کے طور پر محفوظ کر لیا۔ مئی 2020ء میں، ڈبلیو ایچ او نے کووِڈ 19 ٹیکنالوجی ایکسیس پُول کو متعارف کروایا، جس کا مقصد امیر ممالک کا آپس میں اور خاص کر غریب ممالک کے ساتھ ڈیٹا اور وسائل بانٹنا تھا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود اس پلیٹ فارم کے ذریعے کچھ بھی حاصل نہیں کیا گیا ہے۔
جب دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے نے ویکسین کی پیداوار میں تیز ی لانے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا گیا، تو ہمیں مختلف ممالک کی جانب سے پہلے ویکسین خریدنے کیلئے شدید مقابلہ نظر آیا، جس میں امیر ممالک غریب ممالک کو پیچھے چھوڑتے چلے گئے۔ وائرس کے خاتمے کے لیے ایک بین الاقوامی منصوبے کی بجائے، سرمایہ داروں کے قومی ٹولے ”اپنی“ آبادیوں کی ویکسینیشن کرانے کے لیے مقابلہ بازی کر رہے ہیں تاکہ معیشت کو معمول پر لایا جا سکے، جو اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ یہ وائرس قومی حدود کا لحاظ نہیں کرتا۔
پچھلے سال کی تباہ کاریوں کا موردِ الزام محض سرمایہ دار سیاستدانوں کو ہی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق ان کمپنیوں نے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے جو انتہائی ضروری طبی آلات اور سامان کی پیداوار کرتی ہیں۔ مارچ 2020ء میں طبی ساز و سامان کی پیداوار کی جتنی ضرورت تھی، اس سے 40 فیصد کم پیداوار کی جا رہی تھی۔ یہ سرمایہ دارانہ پیداوار کی مجرمانہ ناکامی تھی، جس کا مالکان نے ”ذخیرہ اندوزی، قیمتیں بڑھانے اور دھوکہ دہی“ کے ذریعے فائدہ اٹھایا۔ مالکان کی منافع کی ہوس، جو سماج کی سب سے زیادہ متاثرہ پرتوں کا ہر ممکن طریقے سے استحصال کرتے ہوئے سستی پیداوار کرتے رہے، سے سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت کا خاکہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔
مزید برآں، رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کاروبار اور منافعوں کو جاری رکھنے کی کوشش نہ صرف وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنی بلکہ اس کی وجہ سے محنت کش طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا:
”دنیا بھر میں محنت کشوں کو جس سطح پر خطرے کا سامنا رہا، اس سے اجرتوں کی تفریق کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ ایک جانب ایسے لوگ تھے جو بحران کے دوران گھروں کے اندر رہ کر کام کر رہے تھے، جبکہ دوسری طرف بڑے پیمانے پر کم تنخواہوں پر کام کرنے والے محنت کش خوراک، ٹرانسپورٹ اور ڈلیوری سروسز کو جاری رکھے ہوئے تھے، جن کی وجہ سے وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی تھا۔“
ان ممالک میں جہاں چھوٹے پیمانے کے کام کاج کی تعداد زیادہ ہے، وہاں ملکی سطح کے لاک ڈاؤنز بھی وباء کے پھیلاؤ کو روکنے میں اتنا موئژ ثابت نہیں ہوئے۔ وائرس کے پھیلاؤ کی کمی یقینی بنانے کے لیے بہتر اجرتیں، روزگار کے مواقع، بیماروں کی تنخواہ میں کٹوتی کیے بغیر ان کو چھٹی دینا اور محنت کشوں کے دیگر بنیادی حقوق کا ہونا لازمی ہے۔ مگر ان سارے عناصر پر ہمیشہ منافعوں کو ترجیح دی جاتی رہی ہے اور اگر ہم یہ سوچیں کہ لاکھوں کی تعداد میں محنت کشوں کی اموات سرمایہ داروں کا رویہ تبدیل کریں گی تو یہ حماقت کے سوا کچھ نہیں، کیونکہ یہ ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔ جہاں مالکان اپنی پُر تعیش تفریحی کشتیوں اور مہنگے مکانوں میں باہر کی دنیا سے محفوظ ہو کر بیٹھے رہے، وہاں دوسری جانب محنت کش طبقے کو بحران کا بوجھ اٹھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا، جن کی جانوں کو درپیش خطرات کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی۔
بے شمار اموات، لاکھوں افراد کا غربت میں دھکیلا جانا، امیروں کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز جبکہ عوام محرومی کا شکار ہیں؛ یہ سب کچھ یقینا روکا جا سکتا تھا۔ وباء محض بد قسمت ناکامیوں اور نا اہلی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ یہ ان اقدامات کا نتیجہ تھی جو حکمران طبقے نے قیمتی جانوں کے بدلے منافعوں کا دفاع کرنے کی خاطر جان بوجھ کر لیے تھے۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں متعدد مطالبات بھی کیے گئے ہیں جن میں وباء کو روکنے کے لیے فنڈ کا بڑھانا اور ویکسین اور طبی آلات کی پیداوار میں بین الاقوامی تعاون میں اضافہ کرنا شامل ہیں۔ بہرحال، ہمیں پوچھنا پڑے گا کہ جس نظام نے یہ انتشار پھیلایا ہے، اسی کے اوپر اس کے حل کے لیے کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں جن غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ بنیادی طور پر سیاستدانوں کی نا اہلی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سرمایہ داری کی وہ دو رکاوٹیں ہیں جو کرونا کا خاتمہ کرنے کی راہ میں حائل ہیں؛ یعنی نجی ملکیت اور قومی ریاست۔
جب تک ان کو سامنے سے ہٹایا نہیں جاتا، دوا ساز کمپنیاں ویکسین کے ذریعے بڑے پیمانے پر منافع خوری کرتی رہیں گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کرونا وائرس کا مستقل طور پر موجودگی کے امکانات کا سوچ کر ابھی سے رال ٹپکا رہے ہیں، تاکہ ہمیشہ کے لیے ویکسین بنا کر منافعے کماتے رہیں۔
اس کے علاوہ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے اندر وائرس کی تباہ کاریاں روکنے کے لیے سامراجی ممالک نہ ہونے کے برابر اقدامات لے رہے ہیں، اس کے باوجود کہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی ممالک میں اضافی ویکسین کے ذخائر موجود ہیں جبکہ متعدد ممالک میں ویکسینیشن کا پروگرام کئی سالوں تک مکمل نہیں ہو پائے گا۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ حکمران طبقے کے مجرمانہ رویے کا پردہ چاک کرتی ہے، جس میں المناک طریقے سے ثابت کیا گیا ہے کہ اس سب سے بچنا ممکن تھا۔ مگر ڈبلیو ایچ او اپنی رپورٹ سے ضروری نتائج اخذ نہیں کر پایا۔ وہ یہ کہ؛ ’وباؤں کا خاتمہ‘، سرمایہ داری کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔