|تحریر: خالد جمالی|
طبقاتی سماج میں فطرت کی طرف سے آنے والی تبدیلیاں بھی طبقاتی تقسیم میں بٹ چکی ہیں۔ حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے خوشیاں، آسائشیں، راحتیں، تفریحیں، مواقع، زندگی وغیرہ پہ زیادہ حصہ رکھتے ہیں اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے حصے میں محنت، لاچاری، مصیبتیں، بیماری، خاندانی نفاق، بے گھری، دربدری، تڑی پاری، ظلم، جبر، عصمت دری، تھکن اور انیک قسم کے عذاب آتے ہیں۔محنت کشوں کی طرف سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ”بارش آئی ہے اور زندگی میں نکھار لائی ہے“۔ جب بارش کا ”موسم“ آتا ہے تو ان کے لئے اپنے ساتھ طرح طرح کے عذاب لاتا ہے۔ کوئی کام پر نہیں جا سکتا تو کسی کی ریڑھی نہیں نکل سکتی۔ کسی کو کام میسر ہوگا تو پیچھے گھر اور خاندان کی زندگیوں میں بارش کی وجہ سے آنے والی تکالیف پریشان کر دیتی ہیں۔ اس طرح محنت کش جو کوئی بھی کام کر رہا ہوتا ہے اس کو ان بارشوں سے ماسوائے مصیبتوں اور تکالیف کے کچھ نہیں ملتا۔ 2010 اور 2011 میں جوطغیانی اور سیلاب شہروں اور دریاؤں میں آئے تھے اس نے بھی طبقاتی تفریق رکھی۔ اس سے امیر مزید امیر بنا اور خود کو محفوظ کر لیا۔ جہاں پہ شہر اور دیہات زیرآب تھے وہیں پہ آب پاشی کے لئے بنائی گئی نہروں کی شاخیں پانی سے محروم تھیں۔ جب فصل اگانے کا وقت آیا تو پانی میسر نہیں تھا۔ یہ یہاں کا معمومل ہے جو سالوں سے چلا آ رہا ہے، مگر ایک وضاحت ضروری ہے کہ اس صورتحال میں ہر دن اور ہر سال پیچیدگی اور شدت بڑھتی گئی ہے۔ حکومتیں ناکام تھیں اور ناکام ہیں۔ چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو، ریاست کی بنائی ہوئی مسلم لیگیں ہوں یا براہ راست فوجی حکومت ہو۔ ان کیلئے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرنا غیر ضروری اور فضول ہے، ماسوائے اپنے فائدے اور حفاظت کے لئے۔ ہر وہ خرچہ جو ان کے طبقے کے فائدے میں ہے وہ درست ہے اور جو محنت کش اور غریب عوام کے لئے کرنے کو کہا جائے وہ فضول ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے پر خرچ کرنے کی جب بات آتی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ”خزانہ خالی ہے“۔
اس سال بھی مون سون کا موسم اپنے ساتھ طبقاتی تفریق کو واضح کر رہا ہے۔یہ مون سون بھی کچھ کیلئے راحتیں، نغمے، محبت لایا ہے اور کچھ کیلئے عذاب، مرثیے، تکرار لایا ہے۔ غرض یہ کے سماج میں جہاں تک ممکن ہو نظر دوڑائی جائے تو یہ موسم کی طرف سے یہ تفریق ہمیں ہر جگہ نظر آئے گی۔
جہاں کراچی اور لاہور زیر آب ہیں تو وہیں پہ دادو ضلع کی ایک تحصیل ’جوہی‘ بھی زیر آب ہے۔ جوہی ایک چھوٹی سی تحصیل ہے۔ یہ تحصیل شاید ہی کبھی آسودہ کار اور خوشحال رہی ہو ماسوائے بارشوں کے بعد فصل اگنے پہ۔
یہ تحصیل دریائے سندھ اور دادو شہر کے مغرب میں واقع ہے۔ سندھ اور بلوچستان کو جو ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ یہاں پہ علحدہ کرتا ہے وہ ”کھیرتھر“ کہلاتا ہے۔ کھیر کے معنی سندھی زبان میں دودھ کے ہیں اور تھر ریگستان کو کہتے ہیں۔ یہاں کی غریب آبادی اس علاقے کو ”کاچھو“ کے نام سے پکارتی ہے جس طرح ”رن کچھ“ ہے اسی طرح اس ”کچھ“ سے لفظ ”کاچھو“ بنا ہوا ہے۔ اس علاقے کا سب سے اہم شہر جوہی ہے جو دادو سے 15 کلو میٹر مغرب میں واقع ہے اس کے بعد جو چھوٹے چھوٹے قصبے اور دیہات آتے ہیں ان میں واہی، پاندھی پٹ، گل محمد، ہیروخان اور چھنی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ قصبے اور گاؤں کھیر تھر پہاڑوں کے پاؤں میں ہیں۔ یہاں پہ زرعی آبادی اکثر طور پہ بارش پہ کی جاتی ہے یا جب پہاڑوں سے ندیاں اور نالے بہہ آتے ہیں۔ سالوں تک یہاں پہ عموما طغیانی اور سیلاب نہیں آتے، مگر جب بھی آتے ہیں انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے 1995 میں ”بھت جبل“ کے گرنے پہ بہت بڑی تباہی آئی تھی اور 2010 میں مون سون کی بہت زیادہ بارشوں سے دریائے سندھ میں طغیانی آنے پہ سکھر سے پانی کے بڑے بہاو کو کم کرنے کے لئے، جس سے سکھر شہر کو شدید خطرہ تھا، سیلاب کے ریلے کو بہا کر منچھر ڈھنڈھ (منچھر لیک) میں لانے کے لئے کاچھو سے گزارہ گیا جس کی وجہ سے بہت بڑی تباہی آئی تھی۔
2010 کے اس سیلابی ریلے کی وجہ سے ایک شہر خیرپورناتھ شاہ کو انتظامی لاپرواہی کی وجہ سے زیر آب کر دیا گیا اور لوگوں کی زندگیاں مشکل میں ڈال دی گئیں اور گھروں کو مسمار ہونے دیا گیا۔ اس سے سارہ شہر خالی ہو گیا۔ اس وقت بھی جوہی کے ڈوبنے کا بے تحاشہ خطرات موجود تھے مگر کسی طرح بچ گیا۔ اس سارے معاملے پر کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ پیپلز پارٹی یا حکمران طبقے کی دوسری پارٹیاں اور اسٹیبلشمنٹ میں سے کوئی بھی کبھی جوہی واسیوں کے اس کارنامے کو حال احوال میں نہیں لاتے۔ ان دنوں جوہی کی عوام اور ہماری تنظیم (عالمی مارکسی رجحان) کے کارکنان کی اپنی مدد آپ کی پالیسی کی وجہ سے اس بار ”رنگ بند“ پانی کے آنے سے پہلے ہی بنا دیا تھا۔ اب کبھی بھی حکمران طبقے یا اس کے پالتو میڈیا کی جانب سے جوہی کی عوام کے اس کارنامے کا ذکر نہیں کیا جائے گا کیونکہ جہاں ایک طرف اس سے انکی انسان دشمنی واضح ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محنت کش عوام خود سارے نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
2010 کی بارشیں کھیر تھر جبل اور کاچھو کے اکثر علاقوں میں سیلاب نہیں لائی تھیں۔ صرف وہی سیلابی ریلا زیریں سطح پر سے بہتا ہوا دریائے سندھ اور منچھر لیک میں چھوڑ دیا گیا تھا جو گڈو براج کے مقام سے کٹ لگا کر کاچھو کی طرف بہایا گیا تھا۔
اب کی بار 2020 میں جو سیلاب آیا ہے یہ ان بارشوں کی وجہ سے آیا ہے جو کھیر تھر جبل پہ پڑی ہیں۔ گو کہ جوہی میں بھی بارشیں پڑی ہیں مگر یہ سیلاب جس نے گھر، مال ومتاع اور انسانوں کو سماجی اور معاشی مشکل میں ڈال دیا ہے، اس پانی کی وجہ سے آیا جو پہاڑوں سے نکل کے آیا ہے۔ جن کو سندھی زبان میں ”نئیں“ یا ”نئیوں“ کہا جاتا ہے جس کے معنی ندی نالے کے ہیں۔ سینکڑوں گاؤں زیر آب آئے اور خاندان سیلاب میں پھنسے۔ ان کی زندگی کے ساز وسامان پانی میں بہہ گئے، مال و متاع اور زمینوں کو بہت نقصان ہوا۔ اس نقصان کا کوئی تدارک نہیں کیا جائے گا۔ لوگ اپنی محنت اور جفاکشی سے پھر زندہ رہنے کے وسائل تلاش کریں گے۔ یہ لوگ حکمران طبقے کے جھوٹے وعدوں کو جانتے ہیں۔ چند دنوں کی مدد کے بعد انہیں پھر بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے گا۔
اس سیلاب سے پہلے یہاں پہ کچھ نقطوں کو لے کر سیاسی شعبدہ گری کی جا رہی تھی۔ ان لوگوں اور اس پارٹی کو مخالفت اور نقصان دینے کی کوشش کی جا رہی تھی جو ان سے بھی بڑی شعبدہ گر ہے یعنی پیپلز پارٹی سے مخالفت کی جا رہی تھی۔ یہ چپکلش پانی پہ جاری تھی۔ پینے کے پانی کا مسئلہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن یہاں سندھ میں دو شہر ایسے ہیں جو سب سے زیادہ متاثر ہیں، ایک جیکب آباد اور دوسرا جوہی۔ اس کی بنیاد پہ سندھ اسمبلی میں بھی اپنی سیاست چمکانے کے لئے اس مسئلہ کو اٹھایا جاتا رہا ہے۔ چند دن پہلے بھی ”جوہی کو پانی دو“ کے نعروں کے گرد بدعنوان لوگوں کی قیادت میں حکمران طبقے کے ایک گروہ کی جانب سے ایک نام نہاد تحریک شروع کی گئی تھی۔ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی ضلعی قیادت پریشان ہو گئی۔ جیسے کہتے ہیں نا کہ ”چور کی داڑھی میں تنکا“، ایسے ہی پیپلز پارٹی بھی اپنے دفاع میں متحرک ہو گئی اور پانی کے اس مسئلے کو دبانے کی کوشش کرنے لگی۔ شاید، اب پانی کے مسئلے کو دبانے کے لئے وہ لوگ بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں جو اس مسئلے کو اٹھانے والے تھے۔ وہ اس طرح کہ اب ”پانی دو“ کا رخ تبدیل کرتے ہوئے ”زرعی پانی“ دلوانے کی بات کی جا رہی ہے اور شہر کو پینے کا پانی ملنے پہ کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ اس طرح مسئلے کو اس طرف موڑا جا رہا ہے جس سے حکمران اپنے مفادات کا بھی تحفظ کریں اور محنت کش طبقے کو بھی گمراہ کریں۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے رفیق جمالی قومی اسملبی میں بات کر کے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی کوشش کرتے دکھے۔
جوہی تحصیل کو زرعی حوالے سے آباد کرنے کے لئے دریائے سندھ کے پانے کو وہاں تک پہنچانا مشکل اور مہنگا ہوگا۔ حقیقی طور پہ جوہی کو پینے کا پانی اور زرعی آبادی کے لئے پانی انہیں ”نئیوں“ میں سے دے کر آباد اور ذرخیز کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لئے نئیں گاج ڈیم کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا، جو غیر مکمل ہے اور تعطل کا شکار کر دیا گیا ہے۔ کاچھو میں ایک نئیں ایسی ہے جو سارا سال بہتی رہتی ہے اس کا نام ”نئیں گاج“ ہے۔ یہ نئیں پورے کاچھو کو آباد کر سکتی ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کے ہوتے ہوئے ایسا نہیں کیا جائے گا۔ جوہی اور کاچھو کی عوام کی قسمت محنت کشوں کے اس اتحاد سے ہے جو سوشلسٹ انقلاب کے لئے ہے۔ یہی وہ جدوجہد ہے جس سے اپنی تقدیریں بدلی جا سکتی ہیں۔
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!
عالمی مزدور اتحاد زندہ باد!