|رپورٹ: خالد جمالی|
دادو میں 16 اکتوبر بروز اتوار پروگریسو یوتھ الائنس(PYA) اور ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کی جانب سے لیکچر پروگرام منعقد کیا گیا جس کا موضوع ’’موجودہ ملکی صورتحال اور تعلیم کا مستقبل‘‘ تھاجس پر بات کرنے کے لئے لاہور سے کامریڈ آفتاب اشرف کو دعوت دی گئی تھی ۔ اس پروگرام میں دادو سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں، سرکاری اداروں کے ملازمین، اور مزدوروں سمیت کل 44افراد نے شرکت کی۔
آفتاب نے موضوع پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی زندگی اور سماج علم سے آسان اور ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ یہ سماجی نظام ہمیں علم دیتا ہے جس میں فطری سائنس کا علم ہے جیسا کہ فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی، علم حساب جیسے علوم ہیں مگر ایسا علم بھی ہے جس سے سماج کو بدلا جا سکتا ہے اور وہ علم سوشلزم کا علم ہے۔ آفتاب نے اس سرمایہ دارانہ سماج اور نظام کی حقیقی تفریق ’’طبقاتی تفریق‘‘ کی وضاحت کی کہ یہ جو کارپوریٹ میڈیا نسلوں کے بیچ تفریق اور تضاد، قوموں کے بیچ تفریق اور تضاد، رنگوں اور جنسوں کے بیچ تفریق اور تضاد، مذہبوں اور فرقوں کے بیچ تفریق اور تضاد کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ آفتاب نے اصل تفریق اور تضاد امیر اور غریب، سرمایہ دار اور مزدور، جاگیردار اور مزارع کی تفریق یعنی طبقاتی تفریق کو قرار دیا۔ اور کہا کہ دنیا کی 1 فیصد آبادی کے پاس 99 فیصد دولت ہے اور 90 فیصد وسائل ہیں۔ ایسی غیر منصفانہ تقسیم سماج میں انتشار اور تحریکوں کو جنم دیتی ہے اور جس کی وجہ سے سماج انقلابی دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ آفتاب نے مثال دیتے ہوئے مصر، تیونس اور پوری عرب دنیا کے ممالک کا نام لیا اور آکوپائی وال اسٹریٹ موومنٹ، یورپ میں معاشی، ریاستی اور سیاسی بحرانوں اور انڈیا میں 2 ستمبر کی عام ہڑتال کا ذکر بھی کیا۔ اس نے کہا کہ ایسا ہی انتشار اور تحریکیں اپنے شروعاتی روپ میں ہمیں اپنے سماج اور ملک میں نظر آتیں ہیں۔ کامریڈ آفتاب نے کہا کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبہ کے احتجاج سے لیکر حالیہ پورے پنجاب میں بوگس رزلٹ پر ہونے والے نوجوانوں کے احتجاجوں اور پی آئی اے، واپڈا، او جی ڈی سی ایل، ریلوے، اسٹیل مل کراچی اور مختلف پرائیویٹ اداروں کے احتجاج اس کی غمازی کرتے ہیں۔
کامریڈ آفتاب نے صحت کے شعبے اور اداروں کی خستہ حالی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے قابل علاج امراض میں مبتلالاکھوں ،ریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آفتاب نے کہا کہ کہ 50 ہزار عورتیں دوران زچگی فوت ہو جاتی ہیں اور بچوں کی اموات اس سے کئی زیادہ ہے۔25 روپے کی لاگت سے بننے والی دوا برانڈ کا نام دے کر 450 روپے کی بیچی جا رہی ہے۔ کامریڈ آفتاب نے ادویات بنانے والی کمپنیوں کے ہوشربا منافعوں اور ان کمپنیوں کے حکمران پارٹیوں سے محبوبانہ تعلق پر شدید تنقید کی۔
تعلیم کے شعبے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ فیس کے نام پر اربوں روپے طلبہ سے بٹورے جا رہے ہیں اور اس کاروبار میں فی الوقت کوئی خسارہ نہیں۔ تعلیم کے یہ بیوپاری سرکاری اداروں کی تعلیم کا معیار بڑھنے نہیں دیتے اور نئے تعلیمی ادارے تعمیر نہیں ہو رہے۔ 1990ء کے بعد صرف ایک یونیورسٹی بنائی گئی ہے جب کہ آبادی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ بجٹ پر بات کرتے ہوئے فوجی اخراجات اور قرضوں پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ایٹم بم ملک کے دفاع کے لئے بنایا گیا تھا مگر اب ہم سب اس ایٹم بم کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس فوج نے کوئی جنگ جیتی تو نہیں لیکن ان فوجی افسران کے سینے تمغوں سے سجے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد عنایت لغاری نے احمد فراز کی نظم ’’مت قتل کرو آوازوں کو ‘‘ گا کر سنائی۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے استاد سائیں گلشیر سہتو، واپڈا کے ملازم عبدالستار شیخ، ڈاکٹر امین چانڈیو، مخدوم اظہار نے مختلف مسائل کے حوالے سے بات رکھی۔ اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع کیا گیا جس میں شرکا نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔شرکا نے تعلیمی نظام، حکمران پارٹیوں، سرکاری اداروں کی تباہی، سامراجی مداخلت اور سوشلسٹ انقلاب کے حوالے سے متعدد سوالات اٹھائے۔ پروگرام کے اختتام سے پہلے کشمیر میں جاری حالیہ تحریک کے تناظر میں ساحر لدھانوی کی نظم ’’ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘ پیش کی گئی۔ آفتاب نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے بحث کو سمیٹا۔