|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: یار یوسفزئی|
2008 ء میں شروع ہونے والے بحران سے سرمایہ داری کا اصلی چہرہ سامنے آ گیا۔ اس بحران سے ایک ایسے سلسلے نے جنم لیا جس میں لاکھوں نوجوانوں اور محنت کشوں نے محض نام نہاد ’نیو لبرلزم‘ کو ہی نہیں بلکہ سرمایہ داری کو بھی للکارنا شروع کر دیا۔ سرمایہ داری کے اس بحران کے نتیجے میں بائیں بازو کے اقتدار میں آجانے کی بجائے الٹا بائیاں بازو ہی شدید بحران کا شکار ہو گیا۔ سطحی نظر ڈالنے پر یہ عمل ایک تضاد معلوم ہوگا، مگر سطح کے نیچے دیکھنے پر ہمیں اس کی وجہ نظر آئے گی، اور وہ دورِ حاضر میں اصلاح پسندانہ سیاست کی محدودیت ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اصلاح پسندی کیا ہے؟ اصلاح پسندی کی سب سے پہلی اور اہم خاصیت یہ ہے کہ اس کے حامی سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس کی بجائے ان کا یہ ماننا ہے کہ نظام میں اصلاحات کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے مسائل کو کسی نہ کسی طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ وہ انقلاب کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔
بطورِ مارکس وادی ہم اصلاحات کے مخالف نہیں، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ محض اصلاحات کے ذریعے سرمایہ دار طبقے کی جگہ محنت کش طبقہ اقتدار حاصل نہیں کر سکتا۔ جب تک معیشت سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے، وہ اُن اصلاحات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے جس سے ان کا اقتدار خطرے میں پڑتا ہو، خصوصاً ایک ایسے دور میں جب وہ میں اپنے منافعوں میں کمی بالکل بھی برداشت نہ کر سکتے ہوں۔
سرمایہ داری میں رائج قوانین و ضوابط عالمی منڈی اور سرمایہ دارانہ معیشت کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ چنانچہ اصلاح پسندوں کے منشور، جس میں بہت سے اچھے اقدامات لینے کا وعدہ کیا جاتا ہے، سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں۔ مختلف قسم کے اصلاح پسند رجحانات اور مارکسزم میں بنیادی فرق یہی ہے، یعنی نظام کی تبدیلی کا سوال۔
نظریے کی تحقیر
120 سال قبل روزا لکسمبرگ نے ترمیم پسند ایڈورڈ برنسٹائن کے ساتھ بحث مباحثے کیے، جس کے ذریعے روزا کو اندازہ ہوا کہ برنسٹائن اور جرمن سوشل ڈیموکریسی میں موجود اس کے ہم خیال اصلاح پسندوں میں جو بات مشترک ہے، وہ نظریے کی جانب ہتک آمیز رویہ ہے۔ اپنی کتاب ”اصلاحات یا انقلاب“ میں روزا کچھ یوں رقم طراز ہے:
”اس عملیت پسندی کی بنیادی خاصیت کیا ہے؟ ’نظریے‘ سے مکمل طور پر منہ موڑ لینا۔ یہ ایک فطری بات ہے، کیونکہ ہمارا ’نظریہ‘، یعنی سائنسی سوشلزم کے اصول، عملی نوعیت کی سرگرمیوں کی واضح حدود متعین کرتا ہے۔۔۔وہ لوگ جو فوری ’عملی‘ نتائج کے پیچھے بھاگ رہے ہوں، ان کا ایسی حدود سے خود کو آزاد کرنا اور اپنی عملی سرگرمیوں کو ہمارے ’نظریے‘ کے بغیر جاری رکھنے کی خواہش ایک فطری بات ہے۔“
اُس دور میں جرمنی کے ’عملیت پسند‘ سوشل ڈیموکریٹک نمائندے لبرل بجٹ کے حق میں ووٹ ڈالنے کی خواہش رکھتے تھے۔ البتہ مارکسزم کا نظریہ اس قسم کی حرکات کے لیے رکاوٹ بن گیا۔ مارکسزم کا نظریہ کہیں خلا سے نہیں اترا، بلکہ اس کا جنم محنت کش طبقے کی تحریک کی تاریخ کے مطالعے کے نتیجے میں ہوا۔ محنت کش طبقے کی جدوجہدوں کے تجربات کی بنیاد پر مارکس وادیوں نے کچھ حتمی نتائج اخذ کیے ہیں۔
1871ء کے پیرس کمیون سے مارکس اور اینگلز نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ محنت کش طبقہ بنی بنائی ریاستی مشینری کو قبضے میں لے کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا۔ مزدور، بورژوا ریاست پر قبضہ کر کے اسے سوشلزم تعمیر کرنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔ مارکس اور اینگلز نے دیکھا کہ جب پیرس کے مزدوروں نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ضرورت پڑنے پر انہوں نے اپنی ایک ریاست قائم کی۔ اس کے بعد کئی مواقعوں پر یہ بات درست ثابت ہوئی ہے مگر اصلاح پسند سرمایہ دارانہ ریاست کو برقرار رکھنے کے خیال کو ترک نہیں کرتے، جس کے اکثر اوقات تباہ کن نتائج نکلے ہیں۔ ٹراٹسکی کے مطابق:
”ریاست کس طرح کی ہونی چاہیئے؟ یہی وہ سوال ہے جو اقتدار حاصل کرنے سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی مزدور تحریک میں موجود باقی تمام رجحانات اور مارکسزم کے بیچ فیصلہ کن تفریق کا باعث بنتا ہے۔“
نظریہ اصلاح پسندوں کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے، مگر ہمارے لیے اس کا یہ فائدہ ہے کہ یہ ہمیں بار بار پرانی غلطیاں دہرانے سے روکتا ہے۔ اصلاح پسندوں کو ماضی کی جدوجہدوں کے اسباق سننے میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی سیاسی سرگرمی واضح طور پر محدود ہو کر رہ جائے گی۔
اصلاح پسندی کے پورے نقطہ نظر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ مختصر راستہ اپنایا جائے۔ اصلاح پسند محض وہ کام کرنے کے لیے تیار ہو پاتے ہیں جو مختصر وقت میں اور سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ہو سکیں۔ چنانچہ سوشلزم کو مستقبل پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ مختلف قسم کی اصلاحات ڈھونڈ نکالنے میں لگے رہتے ہیں جن کو سرمایہ دار کسی نہ کسی طریقے سے قبول کر سکیں۔ اس عمل سے طبقاتی جدوجہد کو محض وہاں تک محدود کیا جاتا ہے جہاں تک سرمایہ داری اسے برداشت کر سکے۔ مگر سرمایہ داری کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ محنت کشوں کو بہتر معیارِ زندگی دینے کی اہل نہیں ہے، خصوصاً آج کے دور میں۔
اصلاح پسندی کے طریقے سے فوری طور پر حل کی جانب بڑھنا بظاہر آسان نظر آتا ہے۔ اسی لیے زیادہ تر محنت کش عملیت پسند ہونے کے ناتے مشکل راستہ چننے سے پہلے آسان راستہ چنتے ہیں۔ اصلاح پسندوں کی بنیاد اسی نکتے پر کھڑی ہے؛ یہ حقیقت کہ محنت کش طبقے میں ایسی پرتیں موجود ہیں جنہوں نے ابھی سماج کو تبدیل کرنے کی ضرورت کو نہیں سمجھا ہے۔ محنت کش طبقے کے اندر شعوری تبدیلی لانے کی کوشش کرنے کی بجائے وہ انہیں آسان راستوں کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ آخر میں یہ محنت کش ہی ہوتے ہیں جنہیں اس عمل کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں۔
مارکس وادیوں کا نقطہ نظر اس سے الگ ہے۔ ہم وہی کہتے ہیں جو حقیقت ہے۔ جب کوئی کام سرمایہ داری کے اندر کرنا ممکن نہ ہو تو ہم خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں وضاحت کی تھی:
”کمیونسٹ اپنا نقطہ نظر اور مقاصد چھپانے کو تحقیر آمیز سمجھتے ہیں۔ وہ کھلے عام اعلان کرتے ہیں کہ منزلِ مقصود تک صرف اس صورت پہنچا جا سکتا ہے جب تمام موجودہ سماجی ڈھانچے بزورِ قوت گرا دیے جائیں۔“
بلاشبہ اس آخری نکتے کو اصلاح پسند تسلیم کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سوشلسٹ انقلاب ناممکن اور غیر ضروری ہے، تو اگلا منطقی نتیجہ یہ نکالا جائے گا کہ سوشلسٹ انقلاب کوئی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ عقل کے اندھے اصلاح پسندوں کے خیال میں انقلاب کے معنی تشدد، ہنگامہ اور تباہی کے ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے بہتر یہی ہے کہ اپنی قیادت پر اعتبار کیا جائے جو ہمیں بحران کی تلاطم خیز موجوں سے نکال پائیں گے۔ اصلاح پسند انقلاب کی وجوہات کو نہیں سمجھ پاتے، اور اسی لیے جب انقلاب برپا ہو رہا ہوتا ہے تو وہ اس کی مکمل مخالفت میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ تب بھی نہیں بدلتا جب وہ کسی انقلاب کے نتیجے میں اقتدار حاصل کر لیتے ہیں۔
یہ نام نہاد قائدین انقلاب کی کمان سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں، تحریک کو جتنا ممکن ہو پیچھے دھکیلتے ہیں، اور اُس پُر سکون اور ’حسبِ معمول‘ دور کا انتظار کرتے ہیں جب سیاست کاروباری سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کی بلا شرکت غیرے ملکیت بن جاتی ہے۔
سرمایہ داری کے محافظ
اصلاح پسندوں میں اس سوچ کا رجحان پایا جاتا ہے کہ ریاست سرمایہ دارانہ نظام کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ تو پھر یہ حیرت کی بات نہیں کہ ان کا پسندیدہ معاشی نظریہ کینشین ازم ہے۔ البتہ کینشین ازم کا اصل مقصد سوشلزم کو روکنا تھا۔ اگر آپ کینز کی تحریروں کو پڑھیں تو آپ کو واضح طور پر یہی مقصد نظر آئے گا (مثال کے طور پر اس کی کتاب ”امن کے معاشی نتائج“ – Economic Consequences of the Peace)۔
اصلاح پسندوں کی کوششوں کا آخر میں بالکل یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ یونان کی سائریزا حکومت کا سابقہ وزیرِ خزانہ یانس واروفاکس کے الفاظ میں:
”موجودہ دور میں یہ بائیں بازو کا تاریخی فریضہ ہے کہ سرمایہ داری کو مستحکم کریں؛ یعنی یورپی سرمایہ داری کی حفاظت کریں اور اسے اُن احمقوں سے بچائیں جو یوروزون کے ناگزیر بحران کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔“
(گمراہ مارکس وادی کے اعترافات – Confessions of an erratic Marxist)
بنیادی طور پر وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ بورژوا سیاستدان سرمایہ داری کے برے منتظمین ہیں مگر اصلاح پسند، خاص کر بائیں بازو کے اصلاح پسند، سرمایہ داری کو اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں۔ یہ اصلاح پسند اپنے آپ کو اس فن کا سمجھتے ہیں کہ کیسے محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے مطالبات میں توازن قائم رکھنا ہے، اور اسی طرح سماج کو سرمایہ داروں اور محنت کشوں دونوں کے لیے کیسے بہتر بنانا ہے۔
یونان میں انقلاب ناممکن ہو جانے سے واروفاکس یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سرمایہ داری کی حفاظت کرے۔ اس کے دلائل انیسویں صدی کے اختتام پر دیے جانے والے برنسٹائن کے دلائل سے کافی مشابہت رکھتے ہیں۔
کاربن ازم کی کمزوری
کاربن کو لیبر پارٹی میں ایک انتہائی بائیں بازو کے سیاستدان کے طور پر مقبولیت حاصل ہوئی، جس کی وجہ سالوں سے جاری سخت معاشی حالات کے نتیجے میں محنت کش طبقے کا بڑے پیمانے پر انقلابی رجحانات کی طرف جھکاؤ ہو نا تھا۔ بہرحال کاربن نہ تو مارکس وادی تھا اور نہ ہی ایک انقلابی۔ پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد ایک اچھے اور دوستانہ شخص ہونے کے ناتے وہ بار بار پارٹی کے دائیں بازو سے صلح کرنے کی کوششیں کرتا رہا، اگرچہ میڈیا نے اس کا یہ چہرہ نہیں دکھایا۔ یہ ایک مہلک غلطی ثابت ہوئی۔
درحقیقت، یہ عمل ہم نے بارہا دیکھا ہے جب بائیں بازو کے اصلاح پسند دائیں بازو کے اصلاح پسندوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، جو بدلے میں لبرلز اور قدامت پسندوں کے یعنی مالکان کی پارٹیوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اسکے نتیجے میں ہمیں مسلسل دائیں بازو کی طرف جھکاؤ میں اضافہ ہوتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی تصدیق آج بہت سے ممالک کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے۔
بائیں بازو کی قیادت کی ناکامی کی وجہ اس بات کو نہ سمجھنا تھا کہ لیبر پارٹی کا دایاں بازو بنیادی طور پر حکمران طبقے کے مفاد کی نمائندگی کرتا ہے، اور کاربن کا وزیراعظم بن جانا حکمران طبقے کے مفاد کا یکسر مخالف تھا۔ اسی لیے پارٹی کا دایاں بازو کاربن کے وزیراعظم بننے کی سختی سے مخالفت کر رہا تھا۔
کاربن اس صورتحال سے نمٹنے کا اہل نہیں تھا۔ وہ اور اس کے اتحادی، پارٹی کے دائیں بازو کے خلاف آخر تک لڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسے بہت سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا اور، یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ، کئی دیگر قائدین کی نسبت کاربن دباؤ کا بہتر انداز میں سامنا کرتا رہا۔ مگر آخر میں پارٹی کی چار سالہ قیادت کے بعد، پارٹی اور ٹریڈ یونین کے عام ممبران کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت کے باوجود، وہ دائیں بازو کے خلاف فیصلہ کن لڑائی نہیں لڑ سکا۔
آج لیبر پارٹی کے دائیں بازو کی صورتحال کافی مختلف ہے۔ وہ بہت پُر اعتماد ہیں کیونکہ انہیں سارے حکمران طبقے کی حمایت حاصل ہے، جس سے وہ اچھی طرح واقف ہیں۔ جارحانہ حملوں کا سامنا کرنے کے باوجود پارٹی کے بعض بائیں بازو کے کارکن اب بھی اس بات پر مصر ہیں کہ کیر سٹارمر کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہو سکے، جس کے لیے وہ اسے ”اتحاد“ کا درس دیتے رہتے ہیں۔
سرمایہ دار طبقے اور سرمایہ دارانہ معیشت کے معاملے میں بھی کاربن تحریک کو انہی جیسے سیاسی مسائل کا سامنا تھا۔ پارٹی کا 2017ء میں دیا گیا منشور بہت حوالوں سے ایک اچھا منشور تھا۔ اس میں کئی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا تھا، یہاں تک کہ اداروں کو قومیانے اور مزدوروں کو اختیار دینے کے حوالے سے بھی بات کی گئی تھی، اگرچہ بہت نرم انداز میں۔
اس کے باوجود جان مکڈونل، جو اس وقت شیڈو چانسلر (اپوزیشن کابینہ کا سربراہ) تھا، ٹی وی پر بیٹھ کر کہہ رہا تھا کہ ”دولت پیدا کرنے والا“ سرمایہ دار طبقہ ہوتا ہے! برطانوی سرمایہ دار دنیا بھر کے سرمایہ داروں میں سب سے زیادہ خونخوار ہیں۔ خود کو دیگر مواقعوں پر ’مارکس وادی‘ کہنے کے باوجود اس نے اس طرح کے بیانات دیے۔ مارکس کی تحریروں کو ذرا سا بھی پڑھنے سے یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ محنت کش ہی ہیں جو دولت پیدا کرتے ہیں۔
چنانچہ ایک لمحے میں دولت پیدا کرنے والے سرمایہ دار ہوتے ہیں، اور اگلے لمحے میں محنت کش۔ جان مکڈونل کے معاملے میں بظاہر یہ نا سمجھی دراصل سب کو خوش کرنے کی ایک سوچی سمجھی چال تھی۔ مگر ایسی چال سے دائیں بازو کو شکست دینا تو دور، کاربن تحریک خود سیاسی الجھاؤ اور شکست کا شکار ہو کر رہ گئی۔
آخر میں یورپی یونین کے حوالے سے دائیں بازو کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر تحریک کا بیڑا غرق ہو گیا۔ کاربن نے برسوں تک درست طور پر یورپی یونین کی مخالفت کی تھی جو اسے مالکان کی انجمن سمجھتا تھا۔ مگر پارٹی قیادت سنبھالنے کے بعد اس نے شروع کے مہینوں میں ہی اس معاملے میں ایسا سمجھوتہ کیا جو اس وقت کوئی بڑی بات معلوم نہیں ہوتی تھی، یعنی لیبر پارٹی کے یورپی یونین میں رہنے کی حمایت پر سوال نہیں اٹھایا۔ یہ بظاہر ایک چھوٹا سمجھوتہ تھا، جو اس نے پارٹی کے اندر اختلافات سے بچنے کے لیے کیا تھا، مگر بعد میں اس کے تباہ کن نتائج نکلے۔
انتخابات کے نتائج ویسے نہیں نکلے جس طرح لیبر قیادت اور حکومت نے سوچا تھا۔ آخر میں بریگزٹ کا نکتہ پوری کاربن تحریک کے اوپر آخری وار ثابت ہوا، جب لیبر پارٹی کا پورا بایاں بازو یورپی یونین کی حمایت کرنے لگا جس کی ایک بڑی وجہ کاربن کا اپنا مؤقف تھا۔ ریفرنڈم کے نتائج کے بعد دائیں بازو کے ہاتھ موقع لگا کہ یورپی یونین کی حمایت کرنے کی وجہ سے کاربن پر بے شمار حملوں کا آغاز کریں۔ معاملہ اس حد تک جا پہنچا کہ پارٹی کے بائیں بازو نے دوسرے ریفرنڈم کے لیے مہم شروع کر دی جس سے کاربن کی قیادت کی رہی سہی ساکھ بھی برباد ہو گئی۔
برطانیہ میں دو سال قبل سرمایہ دار براہِ راست دوسرے ریفرنڈم کی حمایت کر رہے تھے، مگر اس کے لیے مدد وہ کاربن کے ساتھیوں کی لے رہے تھے! یہ سارا عمل سوچ سمجھ کر کیا جا رہا تھا تاکہ کاربن تحریک میں پھوٹ پڑ سکے، جس میں دائیں بازو کے ٹونی بلیئر اور السٹیر کیمپ بل کو خصوصی طور پر استعمال کیا گیا۔
سائریزا سے سینڈرز تک
بائیں بازو کے دیگر رجحانات کو بھی انہی رکاوٹوں کا سامنا رہا ہے۔ مثال کے طور پر برنی سینڈرز، جس نے ڈیموکریٹک پارٹی کو جیتنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ماضی کے تجربات سے واضح تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔
اپنی مہم کے دوران سینڈرز بار بار ڈیموکریٹک پارٹی کی روایتی قیادت کے ساتھ تعلقات بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ ان کے اصولوں کے مطابق چلتا رہا جن کو اسی کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا۔
جہاں پر مرتب شدہ اصول اس کو روکنے کے لیے ناکافی ہو گئے، تو وہاں پر ڈیموکریٹک پارٹی کی روایتی قیادت نے اس مقصد کے لیے نئے اصول بنا دیے۔ ’کم تر برائی‘ کا بہانہ بناتے ہوئے برنی سینڈرز نے ہتھیار ڈال دیے اور پہلے ہیلری کلنٹن کے سامنے سجدہ ریز ہوا، اور بعد ازاں بائیڈن کے سامنے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کلنٹن اور بائیڈن کسی صورت بھی محنت کش طبقے کے نمائندے نہیں ہیں، بلکہ شعوری طور پر سرمایہ دار طبقے کے کارندے ہیں۔
امریکی شہریوں پر یہ بات دن بہ دن واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔ سینڈرز کے اقدامات کی وجہ سے ان کو منہ کی کھانی پڑی، اور اس کی تحریک۔۔۔اور اس کا پیدا کیا ہوا سارا جوش و ولولہ۔۔۔بالکل ختم ہو گیا۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی دلدل میں سے گزر کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
واروفاکس کے خیالات پر بھی اوپر بات کی جا چکی ہے۔ جب یونان میں سائریزا بر سرِ اقتدار آئی تو واروفاکس کو بائیں بازو کے نمائندے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جب ٹرائیکا (یورپی کمیشن، یورپی مرکزی بینک اور آئی ایم ایف کا بنایا ہوا فیصلہ ساز گروہ) نے حکومت سے ملک کے اندر کٹوتیوں کی پالیسی اپنانے کا مطالبہ کیا تو واروفاکس نے اس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔ مگر اس حوالے سے سائریزا کے دیگر قائدین کا الگ نقطہ نظر تھا جو ان اقدامات کے حامی تھے۔
جیسا کہ سپرس کا خیال تھا کہ وہ بات چیت کے ذریعے موجودہ کی نسبت بہتر سودا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت بری سودے باز تھی اور اسی لیے انہیں جرمن سرمایہ داری کے ہاتھوں سزا کے طور پر سنگین کٹوتیاں بھگتنی پڑیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ بات چیت میں ذرا بڑھ کر پختگی کا مظاہرہ کریں تو یونانی لوگوں کے لیے بہتر سودا کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ خیال مکمل طور پر غلط ثابت ہوا۔
سائریزا قیادت کا خیال تھا کہ سرمایہ دار طبقے کی ہٹ دھرمی اور دشمنی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے سرمایہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی اور ان کے پیسے لوٹانے اور تمام قرضے چکانے کے وعدے کیے۔ مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ امیر ترین افراد تب ہی ٹیکسوں سے مکمل طور پر بچ پاتے جب یا تو یونان کے محنت کش اور غریب کٹوتیوں کے ذریعے اس کی قیمت چکاتے، یا پھر سرمایہ داروں اور قرض دہندگان کو سمجھوتہ کرنا پڑتا۔ اسی لیے حکومت کا سرمایہ دارانہ ملکیت کے سامنے ڈھیر ہو جانے کا واضح مطلب یہ قبول کرنا تھا کہ آخر میں محنت کشوں کو ہی قیمت چکانا پڑے گی۔
نہ تو تعلقات استوار کرنے کی کوشش کا کچھ اثر پڑا اور نہ ہی بات چیت کی حکمتِ عملی کا۔ یورپی یونین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش میں انہوں نے ریفرنڈم کا اہتمام کیا۔ یونانی عوام نے بڑے پیمانے پر اس کے خلاف ووٹ ڈالا مگر یورپی یونین پیچھے نہیں ہٹی۔ اس کے برعکس جب سپرس دوبارہ بات چیت کے لیے گیا تو اسے پچھلے سے بد تر سودے کی پیشکش کی گئی۔
ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ سرمایہ داروں نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ یونانی عوام کو یورپی یونین کے خلاف بھڑکانے کی پاداش میں سپرس کو سزا دینی چاہیئے۔ ان کے خیال میں اگر محنت کش طبقے کو ایسے معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت دی جائے تو اس کا تاریخی طور پر بہت برا اثر پڑے گا۔ یورپی یونین بالکل بھی نہیں چاہتا کہ یونان، اسپین اور اٹلی کے محنت کشوں کو مذاکرات کا موقع دے۔
اور یوں سائریزا نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ اصلاح پسند نقطہ نظر تھا کہ سرمایہ داری کا کوئی متبادل نہیں۔ اگر آپ سرمایہ دارانہ نظام کو تسلیم کریں، تو آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قرضے لازماً چکانے پڑیں گے۔ نتیجتاً آپ کو سرمایہ دارانہ کٹوتیاں، سرمایہ دارانہ آسٹیریٹی، اور اس کے دیگر سارے مظالم قبول کرنے پڑیں گے۔ سائریزا حکومت کے چند مہینوں کے اندر ہی یہ مبینہ حقیقت آشکار ہو گئی۔
قومی سوال اور پوڈیموس
اسپین کے معاملے میں ہمارے پاس پوڈیموس کی مثال ہے، جسے دیگر بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ انضمام کے بعد یونیداس پوڈیموس کہا جاتا ہے۔ شروع میں انہوں نے بڑا انقلابی مؤقف اپنایا اور بعض مواقعوں پر انتہائی بائیں بازو کی جانب بڑھے۔ مگر جب حکومت میں شمولیت کا امکان نظر آیا، تو قیادت بہت جلد دائیں بازو کی جانب جھک گئی اور بہت سے معاملات میں اپنا مؤقف کافی نرم رکھنے کی کوشش کی۔
اس سلسلے میں کیٹالان کی خود مختاری کا سوال بہت اہمیت کا حامل تھا۔ پہلے تو انہوں نے کھل کر خود مختاری کا دفاع کیا، جس کے نتیجے میں کیٹالونیا اور باسک لوگوں میں انہیں عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ مگر 2017ء کے ریفرنڈم کے موقع پر پوڈیموس قیادت اپنے مؤقف پر کھڑی نہ رہ سکی اور 1978ء سے چلتے آئے ہسپانوی نظامِ حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا، جس کی وہ شروع میں مخالفت کر رہی تھی۔ ہسپانوی سوشلسٹ پارٹی نے 1970ء کی دہائی میں حکمران طبقے کے ساتھ ایسا ہی سمجھوتہ کیا تھا، جس میں متحدہ اسپین کی غیر مشروط حمایت شامل تھی۔
قومی سوال تمام اصلاح پسندوں کی ایک بڑی کمزروی ہے۔ جب فیصلہ کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ اسکاٹ لینڈ اور کیٹالونیا کی قومی جدوجہد اور برطانوی و ہسپانوی سرمایہ داری کی قوم پرست رجعت کے بیچ تفریق کرنے کے بالکل بھی اہل نہیں ہوتے۔ اسکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کی بائیں بازو کی قیادت تو کہتی ہے کہ یہ ایک ہی چیز ہے۔ اسکاٹ لینڈ اور انگلستان میں بڑھتی ہوئی قوم پرستی کو دیکھ کر وہ اسے ایک جیسا سمجھ لیتے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کا حق خود ارادیت، اور بورس جانسن اور بریگزٹ کے حامیوں کا رجعتی پروگرام انہیں ایک سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔
اصلاح پسندی کا بحران
یہ بائیں بازو کی قیادت کی سیاسی اور نظریاتی کمزوری ہی ہے جس کی وجہ سے بائیں بازو کی پارٹیاں سرمایہ داری کے بحران کا سامنا نہیں کر پا رہیں۔ اصلاح پسندی کے لیے نظام کو بڑے پیمانے پر للکارنے کا نتیجہ اس کی بڑھوتری کی نہیں، بلکہ اس کے خاتمے کی صورت میں نکلے گا۔ اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں ہو سکتا۔ ٹراٹسکی نے بہت پہلے اس کی وضاحت کی تھی:
”تاریخی طور پر دیکھا جائے تو اصلاح پسندی اپنی سماجی بنیادیں مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ اصلاحات کے بغیر اصلاح پسندی کا وجود قائم نہیں رہ سکتا، اور ترقی کرتی ہوئی سرمایہ داری کے بغیر اصلاحات ممکن نہیں۔“
یونان کی پاسوک پارٹی نئی معاشی پالیسی کی حمایت کرنے کی وجہ سے مکمل طور پر برباد ہو گئی۔ آج اس کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ سائریزا کو اس طرح کی سخت سزا نہیں دی گئی مگر اس کی حمایت میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ یہ عمل آپ فرانسیسی سوشلسٹ پارٹی میں بھی ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں، جس کو سرمایہ دار طبقے کی دلالی کرنے کی وجہ سے ایسے ہی مقدر کا سامنا ہے۔
در حقیقت بائیں بازو کے اصلاح پسند بھی بنیادی طور پر کچھ زیادہ مختلف پروگرام پیش نہیں کرتے۔ وہ اصل میں دائیں بازو کے اصلاح پسندوں کا ہی پروگرام لے کر بائیں بازو کے رنگوں میں رنگ دیتے ہیں، جس کے اوپر اکثر اوقات بائیں بازو اور حتیٰ کہ مارکس وادی دکھنے والا مہر ثبت کیا جاتا ہے۔ البتہ اصلاحات کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اصلاح پسندی اپنی تمام تر اشکال میں غیر منطقی لگتی ہے۔ مگر اس کے باوجود محنت کش ان پارٹیوں کو بار بار آزماتے رہیں گے، جس سے ان کی حقیقت واضح ہوتی جائے گی۔
مزدور تحریک میں مارکس وادیوں نے ہمیشہ انقلابی اور طبقاتی مؤقف اپنانے کی بات کی ہے، اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ لیبر پارٹی کے اندر ہم نے دہائیوں سے مارکس وادی خیالات کا پرچار کیا ہے۔ ایسا کرنے سے ہماری بہت ساری دوستیاں ختم ہونے کا امکان ہوتا ہے مگر کھلے عام یہ وضاحت کرنا ہمارا فریضہ ہے کہ اصلاح پسندی کے راستے پر چل کر محض شکست اور تباہی ہی ہمارا مقدر ہوگا، اور اس وضاحت کے ساتھ ہم تحریک کے ہر اس قدم کا دفاع کرتے رہیں گے جو حقیقی معنوں میں آگے کا قدم ہوگا۔ محنت کش اور نوجوان ذاتی تجربات کے ذریعے ہمارے نتائج پر پہنچ رہے ہیں۔ انسانیت کے پاس آگے جانے کا محض ایک ہی راستہ ہے؛ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا راستہ۔