|تحریر: فضیل اصغر|
عالمی سطح پر پرانا طریقہ تعلیم متروک ہو چکا ہے اور کورونا وباء کے عرصے میں عالمی سطح پر تعلیم کے شعبے میں مجبورا کئی ایسے اقدامات اٹھائے گئے جو پہلے متعدد وجوہات کی بنیاد پر ممکن نہیں ہو پا رہے تھے۔ مثلا آن لائن تعلیم نے تعلیمی اداروں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی پابندی کا خاتمہ کر ڈالا ہے۔ اسی طرح آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)، وی آر (Virtual Reality) اور مستقبل میں ممکنہ 5G کے اضافے کی بدولت تعلیم کے شعبے میں بہت سے نئے امکانات کا پوٹینشیل پیدا ہو چکا ہے جو مستقبل میں سامنے آئیں گے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کی عمارتوں سمیت دیگر لوازمات اور اخراجات کا بھی خاتمہ ممکن ہو گیا ہے۔ مستقبل میں ہمیں بے شمار تعلیمی اداروں کے کام کرنے کے طریقہ کار میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
اگرچہ اس نئے طریقہ تعلیم کا جنم مادی نا گزیریت کے نتیجے میں موجود سرمایہ دارانہ نظام میں ہی ہو چکا ہے مگر اس کے پھلنے پھولنے اور سماج کی اکثریت کو فوائد مہیا کرنے کیلئے جو سماجی و معاشی بنیادیں درکار ہیں وہ موجودہ منڈی کے نظام میں موجود نہیں۔ مثلا آن لائن تعلیم نے طلبہ کی اکثریت کو یہ سہولت مہیا کر دی ہے کہ وہ جو چاہیں اور جس سے چاہیں انٹرنیٹ پر پڑھ اور سیکھ سکتے ہیں۔ مگر جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے مفت تعلیم دینا اور حاصل کرنا ممکن نہیں وہیں دوسری جانب اپنی دلچسپی کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنا بھی کئی مواقعوں پر انتہائی گھاٹے کا سودا ہے بالخصوص جب آپ کا تعلق محنت کش طبقے سے ہو اور تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد ہی زندہ رہنے کیلئے نوکری حاصل کرنا ہو۔ لہٰذا اس طریقہ نظام تعلیم کو پھلنے پھولنے کیلئے منصوبہ بند معیشت درکار ہے جس میں ہر شہری کو نوکری مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہو۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں تو الٹا یہ نیا طریقہ تعلیم بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری ساتھ لے کر آرہا ہے۔ اسی طرح موجودہ نظام میں رہتے ہوئے آن لائن تعلیم کے نتیجے میں کئی تعلیمی اداروں کے دیوالیہ ہونے کے خدشات موجود ہیں، مثلا یورپ کی کئی یونیورسٹیوں میں چینی طلبہ کی کثیر تعداد زیر تعلیم ہے جو اب واپس گھر آگئے ہیں اور ان یونیورسٹیوں کی کافی زیادہ آمدن ان طلبہ کی فیسوں سے ہوتی تھی۔
طریقہ تعلیم میں یہ نئی پیش رفت پاکستان جیسے پسماندہ ممالک کے نظام تعلیم کیلئے تو موت کی خبر بن کر آئی اور پہلے سے خستہ نظام تعلیم کو ہی نیست و نابود کر گئی۔ ویسے تو سال 2020ء پوری دنیا کیلئے ہی بہت بڑے پیمانے پر تباہی لے کر آیا۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر پسماندہ ممالک تک ہر جگہ بڑے پیمانے پر عوام کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تباہی کی ظاہری وجہ کورونا وباء ہے مگردرحقیقت یہ 2020ء کے سال سے پہلے سے ہی جاری عالمی معاشی بحران ہے جس میں شدت بہر حال کورونا وباء نے ضرور پیدا کی ہے۔ اس تباہی نے یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ خطوں کے سماجی انفراسٹرکچر، بالخصوص صحت کے نظام کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ بلکہ درحقیقت کورونا وباء نے پچھلے عرصے سے جاری صحت کے نظام کی خستگی کو ننگا کر ڈالا۔ اسی طرح عالمی سطح پر پرانا طریقہ تعلیم اپنی جڑوں سے ہل چکا ہے اور اسکی جگہ ایک نیا طریقہ تعلیم ہماری آنکھوں کے سامنے وقوع پزیر ہو چکا ہے جو یقینا سماج کیلئے آگے کا قدم ہے۔ مگر پسماندہ ممالک میں، جہاں صحت اور تعلیم کے شعبوں کو ریاست کی جانب سے کبھی بھی اہمیت نہیں دی گئی، وہاں اس نئے طریقہ تعلیم نے بہت سے نئے تضادات کو بھی جنم دیا ہے۔ بالخصوص اگر پاکستا ن کی بات کی جائے تو یہ دو ٹوک الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ جو اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، اب مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا ہے۔
سرکاری سکولوں کا بیڑا تو پہلے ہی غرق ہو چکا تھا اور ابتدائی تعلیم کے حوالے سے ریاست پہلے ہی اپنے آپ کو بری الذمہ کرتے ہوئے اسے ’پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘ کے نام پر تقریبا کلی طور پر این جی اوز کے ہاتھ سونپ چکی تھی۔ بہر حال سرکاری کالج اور یونیورسٹیاں دھکے کے ساتھ چل رہی تھیں۔ پچھلے چند سالوں میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یونیورسٹیوں کو خود اپنے خراجات اٹھانے کا کہا گیا اور 2019ء کے اوائل میں ایچ ای سی کے بجٹ میں 50 فیصد کٹوتی کر دی گئی تھی۔ اس طرح سرکاری یونیورسٹیوں اور ان سے ملحقہ سرکاری کالجوں کی ذمہ داری سے بھی ریاست نے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینا شروع کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف طلبہ کی جانب سے شدید رد عمل بھی دیکھنے کو ملا۔ مگر کورونا وباء نے اس تابوت میں آخری کیل ٹھونک ڈالی۔
کورونا وباء کے نتیجے میں لاک ڈاؤن لگایا گیا اور آن لائن تعلیم کے سلسلے کا آغاز کیا گیا۔ چونکہ ریاست پہلے ہی اپنے آپ کو تعلیم کے شعبے سے بری الذمہ کر چکی تھی، لہٰذا ایسی ہنگامی صورتحال میں کوئی بھی واضح اور کارآمد حکمت عملی سامنے لانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی، اور بغیر سہولیات مہیا کیے آن لائن تعلیم کا آغاز کر دیا گیا۔ پہلے سے تباہ شدہ تعلیمی نظام کو جب اچانک اس ہنگامی صورت حال سے نبرد آزما ہونا پڑا تو پورے کا پورا نظام تعلیم ہی دھڑام سے زمین بوس ہو گیا۔ سکولوں کے حوالے سے سرے سے کوئی حکمت عملی ہی موجود نہیں تھی اور لاک ڈاؤن میں اس حوالے سے بس ایک سرکاری ٹی وی چینل بنا دیا گیا اور بچوں سے آن لائن تعلیم کے نام پر فیسیں بٹوری گئیں۔ اسی طرح کالجوں اور بالخصوص یونیورسٹیوں میں کہیں واٹس ایپ پر آڈیو ریکارڈنگز تو کہیں زوم ایپ پر وڈیو کانفرنسنگ (جس میں بغیر تربیت کے اساتذہ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا) کے ذریعے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کا ڈرامہ کیا گیا۔ اس عمل میں طلبہ کی اکثریت کے پاس تیز رفتار اور مستقل انٹرنیٹ کی فراہمی سے لے کر سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپس تک کچھ بھی نہ تھا اور جیسے تیسے کر کے طلبہ نے بس اپنی حاضریاں ہی لگوائیں۔ بلوچستان کے کئی علاقوں اور سابقہ فاٹا میں تو ویسے ہی انٹرنیٹ پر ریاستی پابندیوں کے کارن طلبہ بالکل ہی آن لائن کلاسز لینے سے محروم رہ گئے۔ درحقیقت کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی آن لائن تعلیم صرف طلبہ سے فیسیں بٹورنے کیلئے ہی جاری رکھی گئی۔
اسی طرح تعلیمی نظام کی تباہی کے براہ راست اثرات صرف طلبہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اساتذہ کی بہت بڑی تعداد بھی اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ حکومت کی 2018ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ووکیشنل اداروں میں کل ملا کر 18 لاکھ اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ کورونا وباء کے عرصے میں نظام تعلیم کے زمین بوس ہونے کے نتیجے میں اساتذہ کی بہت بڑی تعداد بے روزگار ہو ئی ہے۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 60 لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہیں (جو در حقیقت بہت ہی کم تعداد بتائی گئی ہے، حقیقت میں یہ تعداد کروڑوں میں ہے) اور ان میں سے بہت بڑی تعداد ڈگری یافتہ افراد کی ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 3000 کے قریب پی ایچ ڈی رکھنے والے نوجوان بے روزگار پھر رہے ہیں، اور یہ بھی کہا گیا کہ درست اعداد و شمار بہر حال موجود نہیں ہیں، لہٰذا اس تعداد کے بھی زیادہ ہونے کے کافی امکانات ہیں۔ اساتذہ کے روزگار کو تحفظ دینے کے حوالے سے بھی حکومت کی جانب سے کوئی حکمت عملی تشکیل نہیں دی گئی۔ تحفظ دینا تو ایک طرف الٹا بڑے پیمانے پر انکی تنخواہوں میں کٹوتیاں کی گئیں۔
ایسے میں جب عالمی سطح پر دیوہیکل تبدیلی رونما ہو چکی ہے تو کیا پاکستان جیسا پسماندہ ملک بھی تعلیم کے شعبے کو جدید تقاضوں پر چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ واضح ہے کہ جدید تقاضوں پر تعلیم کے شعبے کو چلانا تو بہت دور کی بات یہاں کا حکمران طبقہ اس حوالے سے کوئی ابتدائی منصوبہ بندی کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ الٹا یہاں کے حکمرانوں کی جانب سے ’یکساں نصاب‘ کے نام پر عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق کیا گیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ نظام تعلیم میں کوئی بہت بڑی تبدیلی رونما ہونے جا رہی ہے۔ در حقیقت موجودہ معاشی بحران میں یہاں کے حکمران طبقے کی منصوبہ بندی صرف ایک چیز کے متعلق ہی ہو رہی ہے، وہ یہ کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال کیسے بنایا جا سکتا ہے! تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی عوامی ضروریات کی طرف یہاں کے حکمرانوں کا رویہ حقارت سے بھرپور ہے۔ عام عوام کو یہ لوگ بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں، جن سے انہیں بس ٹیکس کا پیسہ اور ووٹ چاہئیں۔ انکی اپنی اولادیں بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور یہاں کے غریب عوام کی تعلیم کیلئے بجٹ میں دینے کیلئے ان کے پاس کبھی کچھ نہیں ہوتا۔
تو پھر پاکستان کے شعبہ تعلیم کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے؟ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے تو بھاری رقم درکار ہے، یعنی تعلیم کے بجٹ کو جی ڈی پی کا کم از کم 10فیصد کیا جانا۔ اس کیساتھ ہی باقی پالیسیاں بھی ترتیب دی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو آج اگر کوئی بچا سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف یہاں کے طلبہ اور محنت کش ہیں۔ یہاں کے حکمرانوں سے کسی بھی قسم کی کوئی امید رکھنا انتہا درجے کی حماقت ہوگی۔ اگر پورے ملک کے طلبہ منظم ہو کر ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کریں تو نا صرف یہ کہ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کروایا جا سکتا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ نظام تعلیم کو درپیش جدید تقاضوں و چیلنجز کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کی تعمیر کیلئے انقلابی جدوجہد کو بھی تیز کیا جا سکتا ہے۔