|تحریر: ابن حسن|
’’موضوعی عینیّت اور اس کی فیشن ایبل اشکال ’’ اصلی اور انسان دوست فلسفے کی سب سے بڑی دشمن ہیں چونکہ یہ خود شعوری یا روح کو اصلی انسان کا بدل بتاتی ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ غیر مرئی روح صرف تصور میں ہی موجود ہوتی ہے۔ ‘‘ (کارل مارکس، دیباچہ، مقدس خاندان)
موجودہ عینیّتی فلسفہ، خاص طور پر اس کی موضوعی اشکال میں شعور کا سوال بحرانی کیفیت سے دو چار ہے۔ فلسفے میں یہ بحران موجودہ سماج کی بحرانی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔ اس قبیل کے فلسفہ کے کچھ رجحانات اس انحطاط یا بحران کو تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات، ماخذ، علامات اور اصلیت کے بارے بے شمار آراء رکھتے ہیں جو بعض اوقات ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور متضاد ہوتی ہیں۔ آج کے دور میں انہیں منطقی یا لسانی ثبوتیت( Logical and linguistic positivism)، نیم تجربیت(Neo-pragmatism)، مظہریت(Phenomenology)، تنقیدی تعقل(Critical rationalism)، تشریحاتی عینیت(Hermeneutic Idealism)، وغیرہ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جب کہ کچھ عرصہ پہلے یہ وجودیت کی مختلف اشکال کے حوالے سے جانا جاتا تھا۔ ادب میں اس کی فیشن ایبل اشکال Semiotics، ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت، پس جدیدیت، وغیرہ ہیں۔ اتنے سارے نام جنہیں دبستان کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کا نہ تو فلسفیانہ طریق کار ہے نہ ہی یہ نظریۂ علم (Epistomology) اور نظریۂ وجود (Ontology) کے بارے کوئی مربوط فلسفہ پیش کر سکے ہیں۔ تاہم یہ واضح کرنا ٖضروری ہے کہ ماضی میں عظیم فلسفیوں نے عینیتی فلسفہ کی موضوعی شکل پرتفصیلاً بحث کی اور بعد ازاں ان کی پیروی میں اور ان کی مخالفت میں کئی فلسفے وجود میں آئے۔ سب سے بڑی مثال خود کانٹ ہے جس کے نظریۂ علم اور نظریۂ وجود میں تضاد ہوتے ہوئے بھی (یعنی شئے فی الذات(Thing in itself) کا وجود بھی ہے لیکن اسے جانا نہیں جا سکتا، جو کچھ ہم جانتے ہیں خود ہمارے ذہن کی ساختیں ہیں) آگے چل کر فلسفے کی دو شاخوں کا سبب بنا۔ ایک تو ہیگل، فیورباخ اور مارکس دوسرے موضوعی عینیت اور اس کی مختلف شاخیں۔
لیکن آج کے دور میں اس قسم کے فکر میں تسلسل یا ربط کا فقدان ہے۔ ماضی میں کئی فلسفیانہ مکاتیب کے شارحین اپنے اپنے فلسفے کی مختلف انداز سے تشریح کرتے رہے اور اپنے دور کے حوالے سے اس میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ لیکن جس فلسفے کی ہم بات کر رہے ہیں اس میں تو دو فلسفیوں کے مابین ارادے کی ہم آہنگی بھی مفقود ہے۔ چونکہ موضوعی عینیّت کی جدید اقسام کا کوئی فلسفیانہ طریق کار (Method)نہیں اس لئے ان کی مختلف شاخوں میں بعض اوقات ایک دوسرے سے یکسر متضاد نظریات بھی نظر آتے ہیں۔ وجودیت کی مثال لیں۔ اس کی جڑیں تو انیسویں صدی کے غیر عقلی فلسفے(Irrationalist) کے رجحانات میں نظر آتی ہے جس کی مثالیں نطشے اور کیرکے گارہیں۔ لیکن بیسویں صدی میں اس کی مختلف شکلیں ظاہر ہوئیں جنہیں سیاسی طور پر نئے نئے رنگ چڑھائے گئے۔ Marcel، Jaspers، Bedyayev اور Buber کے مذہبی رجحانات Heidigger، Sartre اورCamus کے غیر مذہبی نظریات اور سیاسی طور پر فسطائیت کی حمایت اور اس کی مخالفت، جبکہ سارترے نے مزاحمت میں بائیں بازو کی حمایت کی۔ لیکن ان رجحانات کی مشترک خوبی ان کی انتہائی درجے کی موضوعیت ہے جو کہ بغیر لمبی چوڑی بحث کئے ان کی اصطلاحات میں نظر آجاتی ہے، جیسا کہ، ’’being towards death‘‘، ’’care‘‘، ’’being in the world‘‘، وغیرہ۔
فلسفے میں اس افراتفری کی وجہ نابغہ روزگار ہستیوں کا ناپید ہونا نہیں۔ یہ فلسفہ جدید دور کے ثقافتی بھنور میں بری طرح پھنس کر چکر کھا رہا ہے۔ اس کے لئے یہ دور قابل قبول بھی نہیں کیونکہ یہ انسانی آزادی اور ثقافت اور اندرونی روحانی وجود سے متصادم ہے۔ (اگرچہ پس جدیدیت نے اس صورت حال کو آخری تسلیم کر لیا ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں)لیکن یہ اس میں سے نکلنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کا سارا زور خود اس سے باہر نکلنے کی جدوجہد کی مخالفت پر ہے۔ چونکہ یہ فلسفہ خارجی حقیقت کو واہمے یا سائے جیسی کیفیت گردانتا ہے اور سماجی حقیقتیں اس کے تمام تجزیوں میں بریکٹ ہو جاتی ہیں گویا کہ ان کا وجود ہی نہ ہو، یہ اس بحرانی شعور کو ہی انسان کی اصل صورت بنا کر اسے تسلیم کر لیتا ہے۔ علم کی لازمی حدود کو فقط ظاہرات تک محدود کرنا جن کی ماہیت ہی نہ ہو، انسانی علم کی تذلیل ہے۔ اس طرح یہ فلسفہ تواہم اور مافوق الفطرت خیالات کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ انسانی علم کے لازمی جزو انسانی عمل (Human Praxis) کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی اور تبدیلی کا عمل غیر ضروری ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر علاوہ ثبوتیت (Positivism) کے مابعدالطبعیات ’’خود سے اپنے علم‘‘ کو ہی اصل علم سمجھتی ہے (کیونکہ خیال کی تشکیل خود میرے وجود سے شروع ہوتی ہے اور یہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔ ) تو دوسری طرف ثبوتیت تمام علم کو خارجی ڈاٹا کے اجتماع تک محدود کر دیتی ہے۔ مزید براں یہ معلوم حقیقت کو مابعدالطبعیاتی تشریح کی وجہ سے فقط ظاہرات اور۔ ۔ ۔ (یہ مضمون مصنف کی وفات کے وقت ادھورا تھا اور یہ جملہ نامکمل ہے۔ ایڈیٹر کا نوٹ)
دوسرے پہلو سے ہیگل کی جدلیات کے اہم نکتے ’’شعورکنندہ‘‘ اور ’’شئے کی ہم آہنگی‘‘(Identity of consciousness and being) کی نفی ہو جاتی ہے۔ یعنی جب ہم اپنی موضوعیت کو معروضی شکل دیتے ہیں، تو اس وقت نظریے کو عمل میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہم معروضی شعور کنندہ کے تنہا، لا تعلق افراد نہیں رہتے بلکہ ٹھوس حقیقی افراد بن جاتے ہیں جو معاشرے کی کلیت کا حصہ ہیں۔ اس معاشرتی عمل میں ہم دوسروں کے خیالات میں شراکت کرتے ہیں اور تجربیت کی خود شعوری(Empirical self) سے آگے چلے جاتے ہیں۔ ہیگل کے خیال میں معاشرتی زندگی جسے وہ ’’Ethical life‘‘ کا نام دیتا ہے خاندان سے شروع ہوتی ہے جس کے بغیر سیلف کا وجود ممکن نہیں۔ یعنی ہیگل کا دورِ روشن خیالی پر جو اعتراض تھا وہ ثبوتیت پر بھی موزوں ہے۔ ہیگل نے علم یا سچائی کو زمینی سے علیحدہ نہ کیا۔ اس کے برعکس اس نے زمینی کو بطور زمینی فلسفے کا مافیہ بنایا۔ یہی اس کی بڑائی ہے۔ اس کا فلسفۂ عینیت اس بات میں ہے کہ ’’ کسی شئے کو محدود (Finite) کہنے کا یہ مطلب ہے کہ لامحدود (Infinite) موجود ہے۔ اور یہ کہ محدود کا علم تب ہی ہو سکتا ہے جب لامحدود شعور کے اس طرف (یعنی ہمارے علم کا حصہ ہو)‘‘ (Phenomenology of the Mind)۔ دوسری طرف ثبوتیت کا نام ہی ہیگل کی ’’جدلیاتی نفی‘‘ (Negation) کوتسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ کامتے کاکہنا ہے کہ ’’عمدہ فلسفہ لازمی طور پر نا قابلِ حل مسائل کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور اس طرح اپنے مخالفین کی نسبت زیادہ غیر جانب دار رہتا ہے۔ یہ ان عوامل کی چھان بین کرتا ہے جو ماضی کے اعتقادات کے سسٹم کے دورانیے اور زوال کی وجہ بنے لیکن یہ کبھی بھی مطلق تنسیخ نہیں کرتا۔ ۔ ۔ ‘‘ اپنے اعتراضات کے باوجود ہیگل ثبوتیت کی نسبت دورِ روشن خیالی کے زیادہ قریب تھا کیونکہ اس کے خیال میں کوئی بھی چیز انسانی علم کی پہنچ سے باہر نہیں، نہ ہی علم فقط اندازے پر مبنی ہے یا ایسی تشکیک ہے جس میں خارجی دنیا کا علم ممکن ہی نہیں۔
آج کے دور میں فلسفۂ موضوعی عینیت کی جو شکل ہمیں نظر آتی ہے اس کا اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ظہور پذیر ہونا لازمی تھا۔ یہ فلسفہ آج کے دور کے مسئلے کو تجریدی زبان میں بیان کرتا ہے لیکن اس کے پاس اس کا کوئی حل نہیں اور یہی اس کی ناکامی ہے۔ فلسفے میں اس بحرانی کیفیت کی دو بحرانی علامات ہیں۔ ایک تو کلاسیکی عینیتی فلسفے کی تباہی جس کا بتدریج ارتقا جدید حالات میں ممکن نہ ہو سکا جیسا کہ ماضی میں ہوا۔ دوسرے اس تنزل کا شعور جو نئی نئی فلسفیانہ اختراعات کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہ کر سکا۔ یہ اس فلسفے کا کھوکھلا پن ہے جس کے اصول سچائی کے بارے قوی شبہات رکھتے ہیں۔ یہ ایسی جادوئی بلندی پر کھڑا ہے جس سے حقیقی دنیا کے واقعات کو محسوس تو کیا گیا لیکن اس کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ جبکہ نطشے کے بعد سے جرمن فلسفہ اس بحرانی کیفیت کے زیر اثر ہے، آج کے دور میں یہ عینیتی فلسفے کی خاص خوبی یا خامی بن چکی ہے۔ سوچ کا یہ بحران ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے وجود کی برائیوں کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن اس سے باہر نکلنے کا رستہ صرف یہی ہے کہ ہم اس بحرانی کیفیت کو جانیں اور سمجھیں۔ لیکن اسے ممکن نہیں سمجھا جاتا۔ انحطاطی صورت حال کا نتیجہ تجریدی اور مطلق نظری فلسفہ ہے جو اس طرح کی اصطلاحات کے گورکھ دھندے میں پڑا ہوا ہے جن کا کوئی مطلب ہی نہیں بلکہ خود ان کو گھڑنے والے بھی ان کی تفہیم سے قاصر ہیں۔
بقول جارج لوکاش: ابھی تک کوئی بھی ایسا فلسفیانہ مکتب وجود میں نہیں آیا جس کے پاس اپنا طریق کار نہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی کے تمام عظیم فلسفیوں افلاطون، ارسطو، ڈیکارٹ، سپائی نوزا، کانٹ اور ہیگل وغیرہ میں یہ وصف موجود تھا (Existentialism or Marxism)۔ عموماً وجودیت جیسے فلسفوں کو ہسرل کی شاخ کہا جاتا ہے اور جس کا سرا کانٹ سے جا ملتا ہے۔ ادب میں بھی موضوعی عینیت کی شکلوں کو کانٹ سے جوڑا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر Coffa اپنی کتاب The Semantic from Kant to Carnap میں لکھتاہے ’’ نظریۂ علم کے حوالے سے دیکھا جائے تو انیسویں صدی میں فلسفے کے تین رجحانات نظر آتے ہیں، ایک تو ثبوتیت، دوسرا Kantianism اور تیسرا جسے میں Semantic traditionکا نام دیتا ہوں‘‘۔ ان تینوں کو جو چیز ایک دوسرے سے ممیّز کرتی ہے وہ ان کا کانٹ کی عقل مجرد سے ردعمل ہے۔ ثبوتیت نے اس سے یکسر انکار کیا، Kantians نے اس کی تشریح کوپرنیکس کے حوالے سے کی اور Semantic روایت میں عقل مجرد کو تسلیم کیا گیا لیکن عقل مجرد کے ساختیاتی کردار سے انکار کیا گیا‘‘۔ اگر تاریخ فلسفہ کو ایک تسلسل کے ساتھ پڑھا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ثبوتیت کے بنیادی اصول مظہریت (Phenomenology) پر انحصار کرتے ہیں جس کی رُو سے سائنس کا کام صرف اور صرف حقائق کو بیان کرنا ہے ان کی تشریح نہیں۔ اس کے لئے Neutralism اور ’Non-partnership‘ کی اصطلاحات استعمال کی گئیں۔ اس رویے کی ٹھوس سماجی وجوہات ہیں اور ہمیں ثبوتیت کے سائنس کے بارے متضاد رویے کاعلم ہوتا ہے۔ ایک طرف تو یہ سائنس کے ارتقاء جو کہ جدید دور کا خاصہ ہے، سے پیچھا نہیں چھڑا سکتی، دوسرے یہ ان حالات و واقعات کو ماننے سے بھی ہچکچاتی ہے جس سے خود جدید معاشرہ تباہی کا شکار ہے، یعنی یہ فلسفہ ان نتائج کی بات کرنے سے گھبراتا ہے جو فطرتی سائنسی نتائج سے آگے جا کر اس معاشرے کے کھوکھلے پن کو واضح کرتے ہیں۔ اگر ثبوتیت کے پہلے مرحلے میں کامتے، جے ایس مل اور سپنسر ہیں تو دوسرے میں ماخ (Mach) اور ایوینیریس (Avenarius) جنہوں نے اشیا کے معروضی وجود ہی سے انکار کر دیا۔
تیسرے مرحلے میں Frank، Schlick، Camp، Neurath اورکئی دوسرے دانشور ہیں جن میں بیک وقت کئی رجحانات نظر آتے ہیں، خاص طور پر لسانی (نشانیاتی- Semiotical) مسائل، علامتی منطق، سائنسی چھان بین کی ساخت وغیرہ۔ سائنس کی منطق کو ریاضی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں انہوں نے نظریۂ علم کے مسائل کو انتہائی تجریدی اور فقط بنتری شکل دے دی۔ Carnapاور Reichenabach کا مکتبہ یعنی منطقی تجربیت(Logical Empiricism) جزوی طور پر منطقی ثبوتیت کے عمومی اصولوں کے مطابق ہے۔ اس کا اظہار فلسفے کو زبان کے (سکولی قسم کے) منطقی تجزیے تک محدود کرنا ہے۔ جن لوگوں نے تاریخ فلسفہ کو پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ 1930ء کی دہائی میں یہ تجزیہ Syntactical تھا جب کہ ان کے Semanticکے حوالے سے اس تجزیے کے پیچھے یہ بات ہے کہ مادی دنیا کے وجود کا معروضی ثبوت دینا نا ممکن ہے۔ ان کا مقصد خود ان کے الفاظ میں ’’Empirical language of science‘‘ ہے لیکن اس سے مراد معروضی دنیا کے وجود کا اقرار نہیں، بلکہ مقصدیاتی (Purposive) بنتروں کا جو اس ڈاٹا کو ترتیب دیتی ہیں، جنہیں حسیات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر بات ذرا پیچھے سے شروع کرین تو بقول آئیر (Ayer) یہ نکتہ سادہ لفظوں میں کچھ یوں ہے:
’There’s glory for you!‘
‘I don’t know what you mean by “glory,”‘ Alice said.
Humpty Dumpty smiled contemptuously. ‘Of course you don’t-till I tell you. I meant “there’s a nice knock-down argument for you!”‘
‘But “glory” doesn’t mean “a nice knock-down argument,”‘ Alice objected.
‘When I use a word,’ Humpty Dumpty said in rather a scornful tone, ‘it means just what I choose it to mean-neither more nor less.’
(Lewis Carrol, Alice’s Adventures in Wonderland, Through the looking Glass)
شروع کے دور میں اس مکتبہ فکر میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا A.J. Ayer تھا جبکہ Wittgenstein کی تحریریں انتہائی ناقابل فہم ہیں، اس نے وسیع تر قارئین کے لئے اپنی کتاب ’’Truth and Logic‘‘ لکھی، بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ سوائے تجربی علوم (method of the empirical science) کے کچھ بھی نہیں جانا جا سکتا۔ اس فقرے میں جان لاک کے خیالات کی گونج نظر آتی ہے کہ ’’I interpret the world through my senses‘‘ اس فقرے کا جان لاک کے اس مشہور فقرے سے موازنہ کیجئے۔
“Nothing is in the mind which was not first in the senses”
آئیر (Ayer) یہ بحث کرتا ہے کہ ہم صرف حسیاتی مافیہ (Sense-content) جان سکتے ہیں، جس کے لئے ماخ (Mach)نے Sense-impressions استعمال کیا، اس لئے ہم خارجی دنیا کی حقیقت کو ثابت نہیں کر سکتے۔ فلسفہ کے بطور ایک طالب علم میں نے محسوس کیا ہے کہ آئیر ماخ کی پوری طرح سے نقل مارتا ہے بلکہ لینن کے ساتھ بحث میں اس نے حرف بہ حرف اسے نقل کیا۔ جدلیاتی مادیت کے لئے اس نے ’’Naive realism) کے الفاظ استعمال کئے۔ اسے لینن نے ’’Materialism and Emperio Criticism‘‘ میں یہ جواب دیا تھا کہ ’’سادہ لوح حقیقت پسندی جس کا یہ فلسفہ مخالفت کرتا ہے سوائے گھٹیا درجے کے لفظی بکھیڑوں (Sophistry) کے کچھ نہیں۔ کسی بھی صحت مند دماغ والے شخص کی ’’سادہ لوح حقیقت پسندی‘‘ جو کسی پاگل خانے کی ہوا کھا کر نہیں آیا، یا کسی عینیت پسند فلسفی کاشاگرد نہیں، یہ نظریہ ہے کہ اشیاء، ہمارے اردگرد کا ماحول اور دنیا ہماری حسیات سے، ہمارے شعور سے، خود ہمارے اپنے آپ اور عمومی طور پر انسان سے علاوہ وجود رکھتی ہیں۔ اس بات کو انسانی معنوں میں لیا جائے کہ ہمارا تجربہ ہی ہم میں یہ نظریہ پیدا کرتا ہے کہ ہم سے علاوہ اور آزاد، اور بھی انسان وجود رکھتے ہیں جو کہ صرف میری حسیات کا مجموعہ (Complex of senses) نہیں۔ یعنی یہ انسان زرد، پیلا، بلند، چھوٹا، جیسی حسیات کا مجموعہ نہیں۔ اور یہ کہ دنیا ہمارے شعور سے آزاد وجود رکھتی ہے۔ اور یہ حسیات اور شعور خارجی دنیا کی نقل (image) ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی، حسیاتی ادراک سے تجزیاتی تفہیم (Understanding) اور خیال (Notion/Concept)تک کا سفر ایک لمبا سلسلہ ہے اور فلسفے کا اہم ترین موضوع ہے۔ ۔ ۔ مادیت کا فلسفہ ارادتاً انسان کے اس ’’سادہ لوح‘‘ یقین کو فلسفے میں نظریہ علم کی بنیاد بناتا ہے۔‘‘ (صفحہ 60-70)
منطقی ثبوتیت کی منطقی بازی گریاں ذیل میں دی گئی بحث سے واضح ہو جائیں گی جو آئیر کی ’’Problem of Knowledge‘‘ میں ہیں جہاں وہ اس گورکھ دھندے میں الجھ جاتا ہے کہ آیا یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کی حسیات دوسرے افراد اور ان کے اذہان واقعتاً موجود ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی دوسرے شخص کو دانت کا درد ہے تو مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ اسے درد ہے بھی یا نہیں۔ ’’مقصود یہ ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ مجھے دانت درد ہے تو میں صرف اس احساس کی بات کررہا ہوں جس سے صرف اور صرف میں آگاہ ہوں۔ اگر میرا بیان درست ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں دانت درد میں درد کی ظاہری علامتیں دکھا رہا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مجھے واقعی دانت درد ہے۔ یہ میرے بیان کا حصہ نہیں۔ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ کسی اور کو درد ہے تو میرے بیان کا یہ مطلب فرض ہو گا کہ وہ درد کی علامات ظاہر کر رہا ہے، کہ اس کا جسم ایک خاص حالت میں ہے۔ ۔ ۔ جس کا میں مشاہدہ کر سکتا ہوں۔ اس منطق پر واضح اعتراض یہ ہو گا کہ اپنے احساسات کے بارے میں میرا بیان دوسروں کے لئے وہی معنی نہیں رکھتا جو کسی دوسرے کے لئے ہیں۔ اس لئے اگر کوئی مجھ سے یہ سوال کرے کہ کیا تمہیں درد ہے؟ اور میں ہاں میں جواب دیتا ہوں، تو یہ اس سوال کا جواب نہ ہوگا، چونکہ میں اب ایک خاص احساس کی بات کر رہا ہوں۔ جبکہ سوال پوچھنے کا مقصد میری جسمانی حالت جاننا ہے۔ لہٰذا اگر وہ کہے کہ میرا جواب غلط ہے تو وہ میری نفی کر رہا ہو گا کیونکہ وہ اس بات سے انکار کر رہا ہوگا کہ میں نے درد کی ظاہری علامات دکھائیں اور جو کچھ میں نے کہا وہ یہ نہیں ہے۔ ‘‘
یہ ذہنی جمناسٹک اس نتیجے کی طرف لے کر جاتی ہے کہ صرف میں وجود رکھتا ہوں۔ اس کو فلسفے کی زبان میں ’’Solipsism‘‘ کہا جاتا ہے اور یہ موضوعی عینیت کی سب سے اعلیٰ یا سب سے گھٹیا شکل ہے، یعنی مادی دنیا کے معروضی وجود سے انکار۔ ماخ اور آئیر دونوں ’Scepticism‘ کی اس شکل جس میں حقیقت کو جانا نہیں جا سکتا کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے آپ کو مادیت سے دور لے جاتے ہیں۔ ’Scepticism‘ کی اس قسم کی مخالفت کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے ’’ اگر یہ نظریہ درست ہے توذہنی اور جسمانی، ذاتی اور پبلک، صرف اس صورت میں ممکن ہے جب یہ صرف ایک فرد تک محدود ہو۔ ۔ ۔ یہ نظریہ جو تصویر پیش کرتا ہے وہ کچھ ایسا ہے کہ کچھ لوگ اپنے تجربے کے قلعے میں پوری طرح سے بند ہیں اور وہ دوسرے قلعوں کا مشاہدہ تو کر سکتے ہیں لیکن وہ ان کو اندر سے جان نہیں سکتے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ یہ مشاہدہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے پیچھے کیا ہے۔ ‘‘ (صفحہ 215, 216) لیکن اس کے پاس ان کے خلاف کوئی ٹھوس دلائل نہیں۔ آخر میں وہ ’’کامن سنس‘‘ کے درجے تک آجاتا ہے، جیسا کہ جسمانی وجود، دوسرے لوگوں میں یقین، یا یہ دلیل کہ اس کے یا کسی دوسرے فرد سے پہلے بھی دنیا موجود تھی۔ اصل مسئلہ فلسفیانہ دلیل سے کسی بھی بات کو ثابت کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اینگلز نے ٹھیک ٹھیک اس مسئلے کو جان لیا: ’’ہمارا Agnostic دوست (اینگلز اور مارکس کی تحریروں میں موضوعی عینیت کے لئے زیادہ تر یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے)یہ تسلیم کرتا ہے کہ تمام علم کی بنیاد وہ معلومات ہیں جو ہماری حسیات ہمیں مہیا کرتی ہیں۔ لیکن وہ (اس سوال کی شکل میں) یہ اضافہ بھی کرتا ہے کہ ہمیں کیسے علم ہوتا ہے کہ ہماری حسیات اشیاء کی درست نمائندگی (Representation) ہیں؟‘‘ (فطرت کی جدلیات)
جدید Phenomenology نے اس سوال کا جواب دینے کی جو کوشش کی اس میں اہم نام Husserlکا ہے۔ اس کا فلسفہ افلاطون، Brentano، Leibniz پر انحصارکرتاہے لیکن اس نے فلسفے کو کُلی طور پر defined علم بنانے اور سائنسی علم کا مجرد (pure) شکل میں منطق اختراع کرنے کی کوشش کی۔ اس کا شعورِ محض (pure consciousness) کا نظریہ وجود سے اور شعور کنندہ سے غیر متعلق ہے۔ اس کے خیال میں افلاطون کی pure essence تک پہنچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ہسرل کی مثال دو وجوہات کی بنا پر ضروری ہے، ایک تو وجودیت کی تمام شاخیں اس کے فلسفہ کی اشکال ہیں۔ دوسرے جہاں تک ’’مطلب‘‘ کے بارے اس کے نظریات ہیں، اس نے سب سے پہلے اس کی مظہریات (Phenomenology) کا مطالعہ کیا۔ یعنی وہ نویکلا (نیا) انداز جس میں الفاظ اگرچہ بولے اور لکھے بلکہ سنے اور دیکھے جاتے ہیں، ہمارے وجدان میں دیے گئے (give in intuition) ہیں، اشیاء سے ان کا تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ ان کا کام اشیاء کو یا ان کے درمیان تعلق کو ظاہر کرنا ہے جو ان (الفاظ) کے علاوہ ہے۔ یعنی اس تعلق کا الفاظ سے کوئی تعلق نہیں۔ بعد کی نشانیات اور دوسرے لسانی فلسفوں میں اس قسم کی باتیں کچھ نئی، کچھ پرانی منطقی جادوگری کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
جگہ کی کمی کے باعث یہاں صرف مظہریات کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے جو جارج لوکاش کے الفاظ میں ہے۔ وہ ہیڈگر اور ہسرل کے شاگرد Szilasi کا حوالہ دیتا ہے جس نے کسی لیکچر کے دوران اپنے اور سامعین کے مشترک طور پر حاضر ہونے کی مثال دی ہے۔ اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ ہال، بینچ وغیرہ یعنی خارجی دنیا میرے سامنے ہے۔ سزیلاسی کا کہنا ہے ’’وہ جگہ جس میں بہت سی چوبی اشیاء ہیں صرف اس لئے لیکچر ہال ہے کہ ہم آغاز سے ہی چوبی اشیاء کے ڈھیر کو اس طرح جانتے ہیں کہ یہ کسی مشترکہ مقصد کے لئے ہے یعنی لیکچر دینے اور سننے کے لئے‘‘۔ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ ایک جگہ اکٹھے ہونا ہی اس بات کا تعین کرتا ہے کہ یہ شئے کیا ہے‘‘۔ (لوکاش۔ وجودیت)
آیئے ہم ماہیت کے وجدان (intuition of essence)کا جائزہ لیں۔ الفاظ کا استعمال ’’چوبی اشیاء‘‘ اس لکڑی کو ایک خاص شکل دینے کا انکار ہے جو اسے انسانی محنت نے دی ہے۔ یہ چھوٹی سی بات انسانی معاشرہ اور صنعتی ترقی کے ارتقا کی نشان دہی کرتی ہے۔ ’’ بینچ‘‘، ’’ڈیسک‘‘ کو اس طرح ایک تجریدی شکل دے دی گئی۔ لیکن مظہریات کے لئے یہ ضروری ہے کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ہال لیکچر دینے کے لئے ہے تو ارادیتی تجربے کا کچھ نہیں بچتا جس کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ یہ شے کو وہ کچھ بناتا ہے جو کچھ کہ یہ ہے۔ لوکاش کا کہنا ہے کہ ’’دوسری اہم باتیں جو سزیلاسی نے حذف کر دیں او ر بھی زیادہ اہم ہیں، یعنی اس کا زیورچ میں لیکچر دینااور یہ کہ لیکچر 1940ء میں دیا گیا۔ اس بات کے اہم سماجی پہلو ہیں کیونکہ ہٹلر کے اقتدار میں آنے سے پہلے سزیلاسی فریبرگ میں لیکچر دیتا تھااور 1933ء میں اس کی ممانعت کر دی گئی، بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ لیکچرر کو جرمنی چھوڑنا پڑا کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا‘‘۔
مظہریات (Phenomenology)کا خاص وصف تاریخی اور سماجی عوامل کو نظر انداز کرنا ہے۔ اور انسانی علم اور تجربے کو بے معنی چیز بنانا ہے۔ ہسرل (Husserl) کے بعد آنے والے فلسفوں، چاہے یہ وجودیت کی کوئی شکل ہے یا ادب میں کوئی نام نہاد مکتبہ، میں ایک قدر مشترک ضرور ہے کہ انہوں نے علم کا ایسا طریقہ اختراع کر لیا ہے جو خارجی دنیا کی ماہیت (essence) کو ’’انفرادی‘‘ شعور سے آگے جائے بغیر جان سکتا ہے۔ لیکن اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جس میں phenomenological intuition حقیقت کو پاتا ہے؟ ایک طریقہ تو انہوں نے یہ بتایا کہ حقیقت کو بریکٹ کر دیا جائے۔ اس کی ایک عام مثال ہمارے ہاں ’’انفرادیت‘‘ پر گفتگو ہے۔ جس پر گفتگو کرتے ہوئے خارجی حقیقت بریکٹ کر دی جاتی ہے گویا کہ یہ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب اس بریکٹ کو کھولا جاتا ہے حقیقت ایک طوفان بن کر آن پہنچتی ہے جو تمام خس و خاشاک کو اُڑا کر لے جاتی ہے کہ اُن کا پتا بھی نہیں چلتا یہ کدھر گئے۔ ہم اپنی بات کو ایک اور مثال سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مظہراتی وجدان چونکہ ’’آفاقی‘‘ ہے اس لیے ہم کسی بھی چیز پر بات کر سکتے ہیں، جیسا کہ شیطان، لیکن پہلے شیطان کی حقیقت کو بریکٹ کرنا پڑے گا۔ ’’جب شیطان کی تصویر جو مظہراتی وجدان بنائے گا مکمل ہو جائے گی، تو ہمیں اِس بریکٹ کو کھولنا پڑے گا۔ جونہی بریکٹ کھلے گی شیطان ہمارے سامنے موجود ہو گا۔‘‘
کچھ اس قسم کی باتیں گوپی چند نارنگ کی ہیں لیکن چونکہ وہ یہ نظریات کہیں سے ماخوذ کر رہے ہیں اِس کی فلسفیانہ اساس کے بارے بات نہیں کر سکے۔ اپنی کتاب ساختیات، پس ساختیات وغیرہ میں لکھتے ہیں، ’’ساختیات بنیادی طور پر ادراکِ حقیقت کا اُصول ہے، یعنی حقیقت یا کائنات ہمارے شعور و ادراک کا حصہ کس طرح بنتی ہے، ہم اشیاء کی حقیقت کو انگیز کس طرح کرتے ہیں، یا معنی خیزی کن بنیادوں پر ہے اور معنی خیزی کا عمل کیونکر ممکن ہوتا ہے اور کیونکر جاری رہتاہے۔ ‘‘(صفحہ 40) اس فقرے کے بعد عظیم نقاد semiotics وغیرہ پر بات شروع کر دیتا ہے۔ اگر ساختیات بنیادی طور پر ادراکِ حقیقت کا اُصول ہے یعنی اس کے پاس کوئی نظریۂ علم اور نظریۂ وجود ہے تو مصنف اِسے بیان کیوں نہیں کر پا رہا یعنی فلسفے کے بنیادی مسئلہ شعور اور وجود کا کیا تعلق ہے؟ لیکن اس سے اسے کوئی سرو کار نہیں۔ مسئلہ اشیاء کی حقیقت کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ ’’حقیقت انگیز‘‘ کیسے ہوتی ہیں۔ ان کے وجود کا اور اِس وجود کی بنا پر پیدا ہونے والی حسیات اور اِس سے آگے ’’خیال‘‘ (Notion)کی تشکیل کا کیا عمل ہے، اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ ’’حقیقت انگیز‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے اشیاء کا اصلی وجود بریکٹ کر دیا گیا ہے۔ ہم یہ بات دوہرائیں گے کہ اس طرح کی بحرانی کیفیت ماضی کے عظیم فلسفیوں میں نہ تھی، جن کا تعلق موضوعی عینیت کے کسی مکتبہ سے بھی تھا۔ ساخت کے ’’تجریدی تصور‘‘ کو دلائل سے ثابت کرنے کے لیے وہ ایک analogy بناتا ہے۔ اس مثال کے علاوہ مصنف کے پاس ’’کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ ‘‘ یہ مثال سگنل یا ٹریفک بتی کی ہے۔ ’’ٹریفک بتی میں تین رنگ ہوتے ہیں: سبز، سرخ اور زرد۔ ‘‘ اس کے بعد عظیم فلسفی یہ بتاتا ہے کہ بطور ٹریفک سگنل اُن سے کیا مراد لی جاتی ہے۔ ’’یہ ان رنگوں کا عام مفہوم نہیں ہے۔ مختلف ثقافتوں میں مختلف رنگوں کے مختلف معنی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ٹریفک بتی میں اِن رنگوں سے جو کچھ مراد لیا جاتا ہے وہ اُن معنی سے بالکل ہٹ کر ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو سرخ رنگ کا کوئی فطری یا لازمی رشتہ ’رُکیے‘ سے یا سبز رنگ کا کوئی فطری یا لازمی رشتہ ’جائیے‘ سے نہیں ہے۔ گویا سرخ یا سبز یا زرد رنگ فی نفسہٖ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ معنی دراصل اِس رشتے سے پیدا ہوئے ہیں جو یہ رنگ ٹریفک بتی میں آپس میں رکھتے ہیں، اور یہ رشتہ ربط کا بھی ہے اور تضاد کا بھی۔ لہٰذا سبز سے مراد ’جائیے‘ اس لیے ممکن ہے کہ سبز، سرخ یا زرد نہیں، اور زرد سے مراد ’محتاط‘ اسی لیے ممکن ہے کہ زرد، سبز یا سرخ نہیں۔ ٹریفک بتی کے اِن تینوں رنگوں میں آپس میں جو رشتہ ہے، اور اس رشتے کے نظم کی جو تجریدی فارم ہے، رشتوں کا یہ نظم یا ان کی تجریدی فارم ساخت (structure) ہے۔ پس ثابت ہوا کہ رنگوں کے معنی ساخت سے پیدا ہوتے ہیں جس میں وہ واقع ہیں، وگرنہ کوئی رنگ فی نفسہٖ معنی نہیں رکھتا۔‘‘ (صفحہ42)
اگلے صفحے پر عظیم فلسفی اور نقاد یہ نتیجہ نکالتا ہے: ’’دوسرے لفظوں میں کوئی بھی نشان آزادانہ معنی نہیں رکھتا بلکہ وہی معنی دیتا ہے جو اس معنیاتی نظام کے اندر اس کو حاصل ہے، لہٰذا نشان اور معنی من مانا یا خود ساختہ (arbitrary)ہے کیوں کہ نشان، سرخ اور اس کے معنی رکیے میں کوئی فطری رشتہ نہیں، خواہ یہ رشتہ کتنا ہی فطری کیوں نہ معلوم ہو۔ یہی معاملہ زبان کے جامع لسانی نظام اور اس کے اندر لفظوں کے عمل کا ہے۔ زبان دنیا کے نظامِ نشانات میں سے محض ایک نظام ہے (اکثر مفکرین کا کہنا ہے کہ زبان بنیادی نظام نشانات ہے) پس واضح ہوا کہ ساختیات اور سیمیالوگی کی نظریاتی بنیاد ایک ہے، یعنی نشان فی نفسہٖ معنی نہیں رکھتا، بلکہ جامع نظام میں رشتوں کی وجہ سے با معنی بنتا ہے۔‘‘
عظیم فلسفی کو ثابت کرنے کی بہت جلدی ہے! کیا فلسفے یا منطق میں analogyبطور دلیل یا ثبوت کے تسلیم کی جاتی ہے؟ اس طرح کی مثال آپ کو اکثر ساختیات وغیرہ کے مصنفین کے ہاں نظر آئے گی۔ کہیں پہاڑ کی مثال ہے تو کہیں پنجوں کی، کہیں رنگوں کی۔ ویسے رنگوں کی بتی کی مثال Saussure نے دی تھی۔ 1916ء میں دیے گئے لیکچروں میں اُس نے نشانیوں یا sign کے عمومی علم کا نظریہ پیش کیا۔ اسے Semiology کا نام دیا گیا اور لسانیات (Linguistics)اس کا چھوٹا سا حصہ تھا۔ نشانیات (Semiology)کا مقصد کسی بھی نشانیوں کے سسٹم کا مطالعہ تھا، جن کا تعلق چاہے امیجز، حرکات و سکنات، موسیقی کی آوازوں، اشیاء، سے ہو، اور ان کے پیچیدہ (کثیر پہلو نہیں) [تعلق] سے ہے جو کسی بھی رسم (ritual)، روایت یا عوام کے لیے تفریح سے متعلقہ ہو۔ اگر یہ زبانیں نہیں بھی تو نشانیوں کا سسٹم ہیں (System of signification)۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید ذرائع ابلاغ و اطلاعات میں علامتوں کے استعمال کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ کچھ علماء کے بے معنی نظریات تک محدود نہیں، بلکہ جدید دور کی ضرورت ہے جس میں عام طور پر بولی جانے والے زبان کے علاوہ باقاعدہ علامات کی عمومی سائنس وجود میں آ چکی ہے۔ Band Barthes اپنی کتاب Elements of Semiology (1964) میں Sassureپر یوں رائے زنی کرتا ہے: ’’نشانیات نے اب تک صرف ان علامتوں تک تعلق رکھا ہے جن کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں، جیسا کہ سڑکوں کے کوڈ، لیکن جب ہم سماجی اہمیت کے کوڈ (code) کی بات کرتے ہیں، ہمارا واسطہ حقیقی زبان سے پڑتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اشیاء، امیجز اور رویوں کے سانچے کسی چیز کی نشانی ہو سکتے ہیں، لیکن یہ عمل خود بخود رونما نہیں ہو جاتا۔ ہر نشانیاتی ساخت کے پیچھے کوئی نہ کوئی لسانی پہلو ضرور ہوتا ہے۔ ‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی بصری مواد ہو، اس کا مطلب لسانی زبان میں ادا ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں صرف ٹریفک کی بتیاں ہی نہیں، سینما، اشتہارات، مزاحیہ ٹکڑے، پریس فوٹو گرافی بھی اس کی مثالیں ہیں۔ لہٰذا آئیکونک پیغام کی ساختیاتی تشکیل یا تو تکرار ہے یا اس کا لسانی تعلقات میں رکھ کر ہی کوئی مطلب بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ لسانی تعلق کسی معاشرتی وجود کا مرہونِ منت ہے، اس لیے امیجز کے ایسے سسٹم کا وجود ناقابلِ تصور ہے جس میں اشیاء کا وجود تو واہمہ یا سایہ یا غیر حقیقی ہو لیکن (ان کی بنیاد پر) حسیات یا خیالات کا تانا بانا بنایا جا سکے۔ یعنی signifiedزبان کے بغیر وجود رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے نشانیات ایک ماورائی linguisticsتک محدود ہو گئی۔
اس بات سے ساختیات وغیرہ کے مداحین کو صدمہ پہنچے [گا] کہ Saussur’s Third Course of Lectures on General Linguistics (1910-1911), publ. Pergamon press, 1933.کے اکثر نکات بحث کا تقاضا کرتے ہیں لیکن اُس نے کم از کم زبان کے سماجی عنصر سے انکار نہیں کیا۔ مثلاً چوتھے لیکچر میں وہ کہتا ہے کہ
“Having identified the language as a social product to be studied in linguistics, one must ask that language in humanity as a whole is manifested in an infinite diversity of language: a language is the product of a society, but different societies do not have the same language.”
اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ اس کا زبان کے سماجی پیداوار ہونے کا نظریہ انتہائی تجریدی ہے۔ وہ مارگن، وائیگوٹسکی، ہیگل، مارکس کی طرح اس کے معاشرتی ارتقا کے بارے کچھ نہیں کہہ سکا۔
مارکس اور اینگلز اپنی تحریروں میں پہلے ہی اس قسم کے فلسفوں کو واضح طور پر بیان کر چکے تھے۔ اینٹی ڈہرنگ میں اینگلز کا کہنا ہے ’’یقیناً جہاں ہمارے مشاہدے کا دائرہ کار ختم ہو جاتا ہے وہاں سے وجود ایک کھلا سوال ہے۔ دنیا کی اصلی وحدت اس کی مادیت سے ہے۔ اس کا ثبوت کوئی لفظی بازی گری نہیں بلکہ فلسفے اور فطرتی سائنس کا لمبا ارتقا اس کو واضح کرتا ہے۔‘‘ (صفحہ 54) اس سے پہلے ہیگل بھی موضوعی عینیت کو کھول کر بیان کر چکا تھا۔ اس کا کہنا ہے: ’’عام زبان میں معروضی سے مراد ہم وہ کچھ لیتے ہیں جو ہمارے خارج میں ہے اور ہم تک ہماری حسیات کے ذریعے پہنچتا ہے۔ ‘‘ (Hegel, Logic, p. 67) موضوعی عینیت میں یہ عمومی غلطی پائی جاتی ہے، جو کہ ہیوم اور کانٹ کے فلسفے کی دین ہے کہ حسیات کو ایسی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے جو فرد یعنی شعور کنندہ اور مادی دنیا کے مابین حائل رکاوٹ ہیں۔ حسیات انسانی اعصابی نظام، دماغ اور مادی گرد و پیش کے بغیر وجود نہیں رکھ سکتیں۔ حسیات کو اس طرح سے پیش کرنا کہ وہ انسانی جسم سے علیحدہ کوئی چیز ہے جو ماورائی طور پر وجود رکھتی ہیں بے ہودگی اور یاوہ گوئی کے علاوہ کچھ نہیں۔
موضوعی عینیت کی ایک اور بڑی خامی انسانی عمل (human praxis) کی نفی ہے۔ ہیگل نے بتایا کہ جاننے کا عمل صرف اشیاء کو جاننا ہی نہیں بلکہ اُن کو تبدیل کرنا بھی ہے۔ انسانی ضروریات اس عمل کو حرکت دیتی ہیں۔ خارج میں چیزوں کو تبدیل کرنا اُن کی لازمیت کو جاننا اور پھر مطلوبہ شکل دینا ہے۔ سادہ سی مثال یہ ہے کہ چوزے نکالنے کے لیے انڈے استعمال ہوں گے اور ان کو خاص درجہ حرارت دینا پڑے گا۔ اگر مرغی کے نیچے پتھر رکھ دیے جائیں تو کوئی چوزے برآمد نہ ہوں گے۔ معاشرتی تبدیلی کا عمل انفرادی نہیں ہے بلکہ سماجی-تاریخی ہونا اس کا خاصہ ہے۔ جب موضوعی عینیت خارج میں موجود حقیقت کو ماننے یا اس کے علم سے ہی انکاری ہے اور انسانی علم کو سائے کے موافق گردانتی ہے، انسانی معاشرے اور اِس کی صورتِ حال کے بارے میں اس کے پاس کہنے کو کوئی ٹھوس بات نہیں۔ نتیجتاً انسانی عمل کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اس [لیے] ان کے موضوعات واہمے، سائے، جادوئی (occult)، دیو مالا رہے۔ اس ادب میں قبروں، مُردوں اور نام نہاد روحانیت کی بھرمار رہی۔ اس قسم کے ادب میں ہر طرف قبریں، مردے نظر آتے ہیں جن کے درمیان چند بِجّو چلتے نظر آتے ہیں۔ یا انفرادیت کے انتہائی تجریدی نظریے کے تحت ایسا ادب اختراع کیا گیا جس میں زندہ، چلتے پھرتے انسانوں کی کوئی بات نہ تھی۔
عینیت صرف اُسی وقت پنپتی ہے جب حالات پُرسکون ہوں۔ بیسویں صدی میں ہلچل پیدا کر دینے والے واقعات رونما ہوئے اور پھر زندگی کی شکل ایسی بن گئی کہ اس میں بے عمل فلسفے کی کوئی جگہ نہ رہی جسے حقیقت پر لاگو ہی نہ کیا جا سکے۔ دوسری طرف سائنس کی ترقی کے ساتھ کائنات کی تسخیر انتہائی تیز رفتاری سے جاری تھی۔ ایسے وقت کسی ایسے فلسفے کو کوئی بھی تسلیم نہ کر سکتا تھا جو تصورات اور تجرید کی دنیاتک محدود رہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ phenomenolgical method خاص طور پر ہسرل (Husserl) کے بعد علم کے ایسے طریق کار کی بات کرتا ہے جس میں معروضی حقیقت کی ماہیت کے لیے انفرادی شعور سے آگے جانا ناممکن ہے۔ ماہیت کا علم نہیں بلکہ intuition ممکن ہے۔ یہ ذہن کے اپنے عمل کا نتیجہ نہیں، نہ ہی اس کا اجتماعیت سے تعلق ہے۔ یا ایک فرد کا شعور اور اجتماعی شعور مل کر کلیت بناتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں ہم یہ کہیں گے کہ یہ اپنے آپ میں مکمل ہے۔ یہ اپنے آپ کی نفی (negation) کر کے خارج میں نہیں جاتا اور پھر واپس آ کر نئی نفی کا نکتۂ آغاز نہیں بنتا۔ ہسرل کے لیے تو اس طرح کی گفتگو ممکن تھی کیونکہ اُس کا زیادہ مسئلہ منطقی سوالات تھے یعنی سوچ کے مجرد موضوعات یا اُصول۔ لیکن سارترے اور ہیڈگر کے دور میں اصلی اور حقیقی حالات ایسے تھے کہ اس طرح کی منطقی بحث سے آگے کے فلسفے کی ضرورت پڑی۔ تاریخی حقائق نے عینیتی فلسفہ خاص کر موضوعی عینیت کو اپنی [بے] عملی کی وجہ سے بے کار ثابت کر دیا تھا لیکن یہ لوگ جدلیاتی فلسفے میں انسانی شعور اور تبدیلی کے نظریات کو ماننے سے ہچکچاتے تھے۔ دوسری طرف بعض طبقوں کو ابھی بھی فلسفۂ عینیت کے بعض نتائج کی ضرورت تھی۔ یہ وہ تاریخی صورتِ حال ہے جس کی بنا پر ’’تیسرا راستہ‘‘ وجود میں آتا۔ تاہم دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ جدید phenomenology نے بشمول اپنی تمام اشکال، فلسفہ ہائے عینیت اور مادیت سے علاوہ کسی تیسرے رستے کی تلاش میں وجدان (intuition) کو بطور علم کے سچے رویے کے اپنایا۔ ثبوتیت نے سب سے پہلے اس رستے کی تلاش شروع کی۔ ثبوتیت (Positivism)نے اس بات سے انکار کیا کہ فلسفہ دنیا کو دیکھنے کا طریقہ (world outlook) ہے اور فلسفے کی بنیادی سوال یعنی وجود اور شعور کو ’’مابعد الطبیعیاتی‘‘ اور تجربے کے حوالے ناقابلِ عمل گردانا۔ اس طرح اس نے ایسا طریق کار (methodology of science) وضع کرنے کی کوشش کی جو مادیت اور عینیت سے بالا ہو۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو خیالات میں اتنا زیادہ اختلاف نہ صرف اس کے فلسفیانہ طریق کار کی وجہ سے ہے بلکہ اس کی ایک وجہ بقول جارج نوویک (Novak) یہ ہے: ’’یورپ کا درمیانہ طبقہ اپنے پاؤں سے اُکھڑ چکا تھا اور حکمران طبقے اور عام پبلک کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ وہ نظریاتی اعتبار سے مادیت اور عینیت کے درمیان کوئی تیسرا رستہ اپنانا چاہتا تھا اور سیاست میں سرمایہ داری اور سوشلزم کے مابین۔ ‘‘ اس تیسرے رستے سے مراد سادہ لفظوں میں یہ تھا کہ فلسفے کے بنیادی سوال یعنی وجود اور شعور کا تیسرے طریق سے تعلق بنایا جائے۔ یعنی اگر ہم وجود کو بنیادی کہیں تو یہ مادیت کا فلسفہ ہو گا اور اگر شعور کو بنیادی حیثیت دیں تو یہ عینیت پسندی ہو گی۔ بقول جارج لوکاش کوئی تیسرا رستہ ممکن نہ تھا۔ وہ لکھتا ہے: ’’کیا تیسرے رستے کی گنجائش ہے؟ اگر ہم اس سوال پر سنجیدگی سے غور کریں جیسا کہ ماضی کے عظیم فلسفیوں نے کیا اور صرف فیشن ایبل لفاظی پر انحصار نہ کریں تو جواب ہو گا نہیں۔ یعنی عینیت کے فلسفہ میں شعور بنیادی ہے اور مادیت میں وجود۔ لیکن اس فلسفے کی تمام فیشن ایبل اقسام میں وجود اور شعور کے درمیان اس طرح سے باہمی ربط بنانے کی کوشش کی گئی جو کہ تیسرے رستے کی نشاندہی کرتا ہے کہ کوئی بھی وجود نہیں بغیر شعور کے، اور شعور نہیں بغیر وجود کے۔ اس کے پیچھے کوئی مربوط دلائل نہیں جیسا کہ ہم موضوعی عینیت کے ماضی کے فلسفیوں کے ہاں دیکھتے ہیں، یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس کا سادہ لفظوں میں یہ مفہوم ہے کہ وجود شعور پر منحصر ہے اور یہ ایک طرح کی عینیت ہے۔ ‘‘ (Existentialism or Marxism) فلسفے کے مکمل موضوعی نکتۂ نظر کے اپنے وصف ہیں۔ کسی بھی بُنتری طریقۂ کار کی طرح formal methodمیں یہ مصنوعی صورتیں اور شرائط مسلط کر کے ممکن بنایا جاتا ہے اور اس کے ذریعے اُٹھائے گئے سوالات، اور موضوعات اور اس کا مافیہ صرف اتنا ہی رہتا ہے جتنا اس کی منطق کے بس میں ہو۔ لیکن اس طریق کار کو دوسرے علوم کے طریق کار سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ یوں ایک عمومی طریق کار وضع ہوتا ہے۔ ماورائی مظہریات (Transcendental Phenomenology) اپنی تمام اقسام کے ساتھ ایک فلسفیانہ نظم و ضبط کی دعویدار ہیں جو تمام علوم کے لیے ہے۔ لیکن چونکہ یہ شعورِ محض یا کانٹ کی عقلِ محض (Pure Reason) کو ہی علم کا ذریعہ مانتی ہے اور اس کی کچھ شکلیں تو معروضی حقیقتوں کا یکسر انکار کر دیتی ہیں، اور جیسا کہ کانٹ میں نظریۂ وجود اور نظریۂ شعور کا تضاد موجود رہتا ہے، اس لیے اس کا یہ دعویٰ بے معنی ہو جاتا ہے۔
مختصراً، مظہریات (Phenomenology) کا نعرہ ’’بذاتِ خود اشیاء کی طرف واپسی‘‘ قطعی طور پر اشیاء فی الذات سے متعلق نہ تھا۔ اشیاء، سماج، انسان کے ساتھ حقیقی تعلق تب ہی بن پاتا ہے اگر ان کو ایسی زندگی میں رکھ کر جانا جائے جو ایک تسلسل اور معاشرتی ارتقا کا نتیجہ ہے۔ یعنی یہ دنیا حقیقی ہے اور فقط ساکن (pregiven) نہیں۔ حقیقی دنیا میں لوگ تبدیلی لاتے ہیں، یہ تبدیلی ان کی ضروریات یا دلچسپیوں کی وجہ سے ہے اور اس میں معروضی وجود کی لازمیت بھی شامل ہے، یعنی اشیا کی اصلی نوعیت کو جاننا اور اجتماعی علم جو سائنس اور عمومی تجربہ کی دین ہے، کی مدد سے اس میں تبدیلی لانا۔
راجر گیراڈی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ’’سوچ سے عمل کا مفقود ہو جانا بیمار حالت کا غماز ہے۔ کبھی تو اس مرض کو دیومالا، کبھی تصور اور کبھی عینیت کہا جاتا ہے۔ آج کے دور میں اسے وجودیت کے نام سے پکارتے ہیں۔ ‘‘ ہم اس بات میں اضافہ کر سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں اس کو نئے نئے ناموں جیسا کہ روحانیت، ساختیات، پس ساختیات اور جدیدیت وغیرہ کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ [line missing]۔ سماجی انحطاط کا کراہت انگیز عکس تھے۔ موجودہ دور میں حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ درست سوچ کی بالادستی قائم نہ ہو۔ درست سوچ موجودہ دور کی خامیوں کی سمجھ میسر کرے گی اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ سوچ کا خلا بنا رہے۔ ثقافتی پستی کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ سوچ تجرید (abstraction) کے اندھیرے میں جلا وطن رہے۔ جب تک دانشور مابعد الطبیعیاتی دھند میں گم رہتا ہے سماجی نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔ ہر ایک مطمئن ہے۔ مثلاً ایسی ولگر سماجیات وجود میں آئی جو کچھ اس طرح کے مشورے فراہم کرتی ہے کہ اگر آپ مقروض ہو گئے ہیں اور آپ کو پریشانی لاحق رہتی ہے تو صبح سویرے جاگنگ کریں۔ آپ کا قرض ادا ہو نہ ہو آپ کی پریشانی رفع ہو جائے گی۔ آپ کی زندگی اکتاہٹ اور بیزاری سے بھری ہوئی ہے۔ آپ پیر صاحب سے جلیبی لے کر کھائیں، ذہن میں روشنی ہو جائے گی۔ اس قسم کے فکر ساز افراد اپنی بے سرو پا گفتگو میں اور روحانیت کا پراپیگنڈا کرنے والی اپنی جہالت میں بہت خوش ہیں۔ ولگر نفسیات کے پاس سوائے لفظی بکھیڑوں کے کچھ نہیں۔ بجائے کسی مسئلے کی تہہ تک جانے اور اُس کی اصلی اور حقیقی وجوہات جاننے کے یہ اسے بڑے رکھ رکھاؤ سے پیش کرتے ہیں۔ پھر کوئی اصطلاح گھڑ کے اس کے مخفف بنائے جاتے ہیں۔ جدید عینیت کے ہر مفکر کے ہاں بے شمار خود ساختہ اصطلاحات نظر آئیں گی جو یا تو لفظی بکھیڑے ہوں گے یا ذہنی بازی گری۔ جب کہ ماضی کے خود عینیت پسند فلسفیوں کی اصطلاحات با معنی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روایت کا حصہ ہوتی ہیں۔ مثلاً تضاد، جدلیات، توصیفات، خیال، جیسی بے شمار اصطلاحات ہیں جو جرمن کلاسیکل فلسفہ میں ہر فلسفی کے ہاں نظر آتی ہیں لیکن ہر ایک نے ان کی اپنی اپنی تشریح کی۔ آج کے دور میں لکھا جانے والا ادب آج کے بحرانی معاشرے اور اِس کی وجہ سے شعور کے سوال پر کنفیوژن کی صورتِ حال کا ٹھیک ٹھیک عکس ہے۔ اگرچہ ’’انفرادیت‘‘ اور ’’آزادی‘‘ اور ’’اندرونی کیفیات‘‘ جیسے الفاظ کا جتنا آج استعمال ہوتا ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ یہ لازمی تھا کہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ اور انحطاط ایسے رویوں کو جنم دیتے جو بلا واسطہ یا بالواسطہ اس کا عکس ہوتے۔ آج ادیب پیشہ ور سپیشلسٹ ہے۔ یہ اسپیشلائزیشن جدید سرمایہ داری دور کی دین ہے۔ فن کار کے لیے اپنے ارد گرد کی حقیقی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور معاشرتی زندگی کی وحدت یا کلیت بکھر کر تنگ، علیحدہ اور تنہا شعبوں میں بٹ چکی ہے۔ اس طرح سے منجمد سماجی بخرے یا تو انفرادی شعور میں کوئی وحدت پاتے ہیں یا ان کو تجریدی اور موضوعی طریقوں سے جوڑا جاتا ہے۔ جدید عینیت نے نظریہ اور اجتماعی حقیقت (جس میں سیاست اور معیشت بھی شامل ہیں) کو علیحدہ علیحدہ کرتے ہوئے اس سماج پر تنقید کے دروازے بند کرنے کی کوشش کی۔ اس قبیل کے تمام فن کارانہ نظریوں کا ’’تخلیقی طریق کار‘‘ ماہیت (essence)کی تلاش تھا جسے اُنہوں نے مصنوعی اُسلوب نگاری اور تجرید کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جب کہ ان کا دعویٰ یہی تھا کہ وہ حقیقت کو بیان کر رہے ہیں لیکن اُنہوں نے اس ’’حقیقت‘‘ کو ذاتی جذبات یا موضوعیت تک محدود کر دیا جو اکثر اوقات خارجی حقیقت کے یکسر انکار تک چلا جاتا ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے فریڈرک جیمسن (Fredric Jameson) لکھتا ہے کہ ’’سیاسی طور پر تاثریت نگار (Expressionist) جنگ (عظیم اول) کے مخالف تھے۔ اُنہوں نے بورژوازی کی عمومی طور پر مخالفت کی لیکن وہ بورژوا برائیوں کی کسی ایک طبقے میں نشان دہی نہ کر سکے۔ نتیجتاً اُنہیں پرولتاریہ میں بھی سرمایہ دارانہ وصف نظر آئے اور اُنہوں نے ایک ’’ابدی‘‘ کش مکش کی بات شروع کر دی جس کا طبقاتی کش مکش یا تاریخی تجزیے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بورژوازی کو اُنہوں نے elite کا درجہ دے دیا۔ یہ خام خیالی اُنہیں فسطائیت کی حمایت کی طرف لے گئی۔ ‘‘(Literature and Politics)ہمارے ہاں ساختیات وغیرہ بہت بعد کی چیزیں ہیں۔ ستر کی دہائی میں وجودیت سے متاثر لوگوں نے (جو بیک وقت مارکسزم کے حوالے سے معاشرتی اور ثقافتی تجزیوں کو بھی درست فلسفہ مانتے تھے) یہ موقف اپنایا کہ پہلے تو فارسی کی اجارہ داری اور بعد ازاں اردو اور اِس سے منسلکہ ثقافت کے غالب رہنے کی وجہ سے یہاں کی مقامی ثقافت ایک محکوم شکل میں وجود رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح اُنہوں نے لوک ادب اور ثقافت کی ترویج کو اگر معاشرتی نہیں تو کم از ذہنی تبدیلی کا وسیلہ جانا۔ اُنہوں نے موضوعی ادبی رویوں Subjectivism اور Nihilism کے الزامات کو مسترد کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی ایک ملے جلے فلسفۂ انسانیت کو لوک فن کے ذریعے اُبھارنے کی کوشش کی۔ لوک فن کو قوم یا قومیت کے حقیقی اور ترقی پسندانہ تجربے کے بطور لیا گیا۔ اسے بطور حقیقت نگاری کی شکل کے ایسا جمالیاتی تجربہ کہا گیا جو لوکائی (عوام) کی پہنچ میں تھا۔ تاریخِ ادب مربوط اجتماعی تجربہ ہے جو وسیع تر تاریخی-سماجی حالات میں جنم لیتا ہے اور عمومی طور پر اپنے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یہ روایت اپنی لازمیت کے ساتھ ’’انفرادی تخلیق‘‘ میں اہم عنصر ہوتی ہے۔ فن ہمیشہ انفرادی تخلیق ہی ہوتی ہے لیکن ’’انفرادی‘‘ کے معنی اجتماعیت ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔ (اس پر تفصیلاً بحث فی الحال ہمارا موضوع نہیں) لیکن جن لوگوں کی ہم بات کر رہے ہیں اُنہوں نے اس تاریخی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ادبی روایت کو ایسے ذخیرے کی مانند لیا جس سے کسی وقت بھی کچھ لیا جا سکتا ہے۔ نتیجہ انفرادی اور بگڑی شکل میں محض ذاتی ادب کی تشکیل تھا۔ اس کا مصنوعی اُسلوب نگاری سے فرق کرنا ضروری ہے جس میں ہیئت میں تجربے کیے گئے اور انٹ شنٹ قسم کا ادب وجود میں آیا۔
ہمارے ہاں موضوعی عینیت کے ادبی رویوں کو صرف فیشن کے تحت اپنایا گیا۔ یہ عوام کے کسی بھی طبقے کو متاثر نہ کر سکی نہ ہی کوئی اس کے زیرِ اثر اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق ہو سکا۔ اعلیٰ درجے کے ادب سے مراد کم از کم اس دور میں عوام کی اس حالت کو بیان کرنا ہے جس میں وہ اپنے آپ سے بیگانہ ہے اور انسانیت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان کا ادب ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے ہی کوئی اہمیت بنا سکا۔ ان کا ہر افسانہ اُردو کے ’’بہترین افسانوں‘‘ میں سے ہوتا ہے۔ ہر شاعری ’’ہیئت میں تجربہ‘‘ ہوتا ہے، یا ’’نئی جہت‘‘ قائم کرتا ہے۔ اس طرح کی تنقید منجمد شعبہ ہے۔ نظریہ گر وہ ہے جو یا تو فیشن میں آئے ہوئے جملے مختلف ادب پاروں میں منطبق کردیتا ہے یا اگر وہ تنخواہ دار ہے تو حکمرانوں کی مرضی کے ادیبوں فنکاروں کے گن گاتا ہے۔ تنقید ایک اجتماعی سماجی عمل نہیں جو بیک وقت لوکائی سے تعلق کی بنیاد پر وجود میں آئے۔ ہمارے معاشرے کا انحطاط اور اس میں مثبت اقدار کا فقدان اِسے تقویت دیتا رہا لیکن عوام کو سچائی سے دور رکھنے کے اور بھی طریقے موجود ہیں۔ جن کی مثالیں فلمی، اور کھیل کے ستارے، ایک فقرے پر مبنی فلمیں اور ڈرامے، لفظی جادو گری سے بھرپور مقالے اور ان سے بڑھ کر عجیب و غریب ’’روحانیت ‘‘ کا پرچار۔ اس وقت دور ساختیات وغیرہ کا نہیں بلکہ روحانیت کا ہے۔ ہمارے سماج میں موجود ہر طبقے کو متاثر کرنے کے لیے علیحدہ علیحدہ قسموں کے گروہ وجود میں آ چکے ہیں۔ مثلاً شہری درمیانہ طبقے کی روحانی بالیدگی کے لیے بے شمار پتلونوں والے روحانیت پرست نمودار ہو چکے ہیں۔ ہر طبقے کے لیے علیحدہ قسم کا گروہ ہے۔ ایسے میں ساختیات وغیرہ کو کون پوچھتا ہے؟
یہاں میں نے صرف اور صرف نظریۂ علم کے حوالے سے مختصر سی بحث کی ہے۔ بہت سے نکات جیسے، اقسام، انفرادیت، ظاہر اور اصلیت (appearance and essence)، نشانیات اور اِس کی مختلف سائنسی علوم کے بارے میں موضوعی عینیت کے رویے، فلسفے کا خاتمہ، اور کئی دوسرے عنوانات زیرِ بحث نہ لائے جا سکے۔ نطشے کے بعد وجود[میں] آنے والے غیر عقلی (irrational) پر بھی بات نہ ہو سکی۔ فلسفے اور جمالیات کے طالب علم کی حیثیت سے میرے عینیت پسندوں سے چند سوالات ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی ان کا جواب نہ دے گا کیونکہ جو لوگ ضعفِ ذہنی، اور علمی ہڈ حرامی کا شکار ہوں وہ نہ تو زندگی کے بارے سنجیدگی سے سوچتے ہیں نہ ہی ان کے ذہن میں اسے انسان لائق بنانے کا کوئی پروگرام ہوتا ہے۔ لیکن یہ سوالات ضروری ہیں تاکہ لوگ ان کی پھیلائی ہوئی گرد سے باہر آ سکیں اور حقیقت جان سکیں۔
1۔ کیا ساختیات وغیرہ کی نظریاتی، فلسفیانہ اساس موضوعی عینیت نہیں؟ اگر یہ نہیں تو کیا ہے یا اس کی کوئی نظری اساس ہی نہیں؟
2۔ ماضی کے تمام فلسفیوں نے اپنے اپنے فلسفے کی بنیاد پر فن و ادب کو جاننے اور اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی، جیسا کہ افلاطون، ارسطو، کانٹ، شلر، ہیگل اور کئی دوسرے۔ چونکہ ان کے فلسفہ ہائے جمالیات اُن کے فلسفے پر اُستوار ہیں تو کیا ان کو ادب و فن اور جمالیات جاننے والوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے تا کہ بہت سے وغیروں وغیروں کی نقادی قائم رہے جو نہ صرف کہ فلسفے کے بارے کچھ نہیں جانتے بلکہ اس کا مذاق اُڑاتے ہیں؟
3۔ فلسفیانہ سچائی اورجمالیاتی [سچائی] میں کیا فرق ہے؟
4۔ کیا انسانی علم کو واہمے، جادوئی، سائے، تک محدود کرنا انسانی علم کی توہین نہیں؟
5۔ (الف)کیا عینیت پسندوں کے پاس موجود سماج کی خرابیوں کو جاننے کا کوئی طریق کار ہے؟
(ب) اگر ان خرابیوں کو جانا جا سکتا ہے، تو کیا ان کو ختم کرنے کا کوئی طریق کار ہے؟
(ج) اگر خارجی حقیقت کو جانا نہیں جا سکتا، یا اِسے بریکٹ کر دیا جاتا ہے تو ادب، فلسفہ اور دوسرے سائنسی اور سماجی علوم کی کیا حیثیت ہے؟