|تحریر: جلیل منگلا|
زراعت کا شعبہ اس ملک میں آج بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آبادی کا سب سے بڑا حصہ اس شعبے سے وابستہ ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے یہ شعبہ تباہی اور بربادی کا شکار ہے اور اس سے جڑے چھوٹے کسان، کھیت مزدور اور دیگر افراد انتہائی کسمپرسی اور بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حالیہ سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے اور بڑے پیمانے پر زرعی انفرااسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 9 سو ارب روپے سے زائد ہے۔ رواں سیزن میں ملک میں تین سے پانچ گنا زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ گندم کی بوائی میں تاخیر کے امکانات ہیں جبکہ کپاس اور چاول کی فصل کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب کے باعث رواں سیزن میں برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہونگی۔ زمین کو سوکھنے میں دو سے تین ماہ لگیں گے جس کے باعث گندم کی بوائی میں تاخیر ہوگی۔ گندم کی بوائی میں تاخیر کے باعث گندم کی فصل متاثر ہوگی اورنتیجے میں 1 ارب 70 کروڑ ڈالر تک یا اس سے بھی زیادہ کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یہاں سے ڈھائی ارب ڈالرز کے چاول ایکسپورٹ کیے تھے جس میں کمی کا امکان ہے۔ کپاس کی درآمد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مویشیوں کی اموات کے باعث گوشت کی قیمت اور فصلوں اور باغات تباہ ہونے سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کے باعث ملک میں مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ جائے گی۔
صوبوں سے سیلاب کے نقصانات کی ابتدائی رپورٹ وفاقی حکومت کو موصول ہوگئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فصلوں اور لائیو سٹاک کے نقصانات 350 ارب روپے سے زائد ہیں۔ حکومت سندھ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ میں ساڑھے 28 لاکھ ایکڑ پر کھڑی خریف کی فصل تباہ ہوگئی ہے۔ زرعی شعبے کو 297 ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ صوبہ سندھ کے متاثرہ علاقوں میں کپاس کی فصل مکمل تباہ ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق کپاس کے کاشتکاروں کو 205 ارب روپے کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا۔ سندھ کی کھجور کی فصل مکمل تباہ ہوچکی ہے جس کے نقصان کا تخمینہ نقصان 7 ارب روپے ہے۔ چاول کے کاشتکاروں کو 51 ارب، پیاز 10 ارب، مرچ کے 7.7 ارب روپے کے نقصانات کا تخمینہ لگایا گیا۔ ذرائع کے مطابق سندھ حکومت نے سیلابی پانی کو نکالنے کیلئے 36 یونٹس بھی مانگ لیے، سیلابی پانی کو فوری طور پر نہ نکالا گیا تو ربیع کی فصلوں کی بوائی مشکل ہو جائے گی۔
پختونخواہ حکومت کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے خیبرپختونخوا میں کھجور کی فصل 91 فیصد تباہ ہوگئی ہے، جس سے کسانوں کو 2 ارب 75 کروڑ روپے کا نقصان پہنچا۔ مکئی کے کاشتکاروں کو 36 کروڑ جبکہ تمباکو کے کاشتکاروں کو ساڑھے 22 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ بلوچستان حکومت کی رپورٹ کے مطابق صوبہ کے کاشتکاروں کو 30 ارب روپے سے زائد کے نقصانات کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے کاشتکاروں کو 10 ارب روپے، باغوں کو 5 ارب روپے جبکہ سبزیوں کے 5 ارب روپے کے نقصانات ہوئے۔ ذرائع کے مطابق سیلابی پانی زیادہ ہونے کے باعث صوبائی حکومتوں نے ابھی مکانات، کاروبار اور لائیو سٹاک کے نقصانات کا تعین نہیں کیا۔ ان سرکاری اعداد و شمار میں بہت کچھ غلط بھی ہے۔
فصلوں کو نقصان کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ٹماٹر اور پیاز کا ہے کیونکہ سندھ سے خصوصاً ان دنوں میں ٹماٹر اور پیاز کی فصل تیار ہوتی ہے، جبکہ کا فی مقدار ٹماٹر کی بلو چستان اور خیبر پختون خواہ سے آتی ہے۔ اس وقت ایمر جنسی کی صورت صرف پیاز اور ٹماٹر کے حوالے سے پاکستان کی ضرورت کو نہ تو ایران پوری کرسکتا ہے نہ ہی افغانستان۔ صحیح معنی میں یہ انڈیا ہی پوری کرسکتا ہے جس کے بارے میں وزیر خزانہ نے عندیہ دیا ہے۔ لیکن انڈیا سے امپورٹ سے جہاں آڑھتی اور عام صارف کو فائدہ ہوگا وہاں کسان تباہ ہو جائے گا۔ انڈیا میں کسانوں کو زرعی ضروریات پاکستان سے ارزاں نرخوں پر ملتی ہیں۔ پھر پاکستان کی نسبت وہاں زرعی ٹیکنالو جی بہتر ہے کیمیکل اور بجلی سستی ہے، جس کی وجہ سے انڈیا کے کسانوں کے فی ایکڑ اخراجات بہت کم ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں کا تاجر حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے تاکہ وہ مقامی کسان سے زرعی اجناس مہنگے داموں خریدنے کی بجائے سستی اجناس انڈیا سے خریدے۔ اس کا حل یہی ہے کہ حکمران یہاں کے مقامی کسانوں کو انڈیا کے کسان کے برابر سہولیات اور ٹیکنالوجی فراہم کریں اور بجلی کے ریٹ بھی انڈیا کے کسان کے برابر کریں۔ فوری طور پر اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو اس امپورٹ کے حجم کے برابر کسانوں کو سبسڈی دی جائے۔ اس کے بعد اگر تجارت کھول دی جاتی ہے تو صارفین کا بھی فائدہ ہوگا اور کسانوں کا بھی۔
گندم کی فصل کے بحران پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے کیونکہ جن علاقوں میں سیلاب آیا ہے ان میں سے بہت کم پر گندم کی زیادہ کاشت ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ شور مچا کر گندم کی سمگلنگ اور پھر امپورٹ کی راہ ہموار کی جاتی ہے اور حکمران اپنی نالائقی چھپانے کے ساتھ ساتھ سیلاب کی بربادی کا بہانہ بنا کر منافعوں اور لوٹ مار کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
کپاس کی فصل کو دیکھا جائے وہ تو پہلے ہی تباہ حال تھی، خصوصاً چھوٹے اور درمیانے کسان فصل کی لاگت پوری کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ اس کی بڑی وجہ ریاست کی زراعت میں عدم دلچسپی ہے۔ کیونکہ گزشتہ کئی سالوں سے جس وسیع رقبے پر کپاس کاشت ہوتی تھی اس میں زیادہ تر رقبے پر اب گنا کاشت ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر حکومت میں وڈیرے اور شوگر مل مافیا کے ارکان موجود ہوتے ہیں، جو اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ کاٹن بیلٹ صرف کپاس کیلئے مخصوص تھی اور ان علاقوں میں شوگر ملز لگا نے پر پابندی تھی، مگر ان وڈیروں نے شوگر ملیں لگائیں خصوصاً کاٹن ایریاز مثلاً ڈسٹرکٹ رحیم یارخان، خانیوال، وہاڑی، بہاولنگر، بہاولپور، لیہ، مظفر گڑھ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکپتن وغیرہ میں، جس میں ریاست کے ساتھ ساتھ کھاد بیج اور زرعی ادویات بنانے والی کمپنیوں نے بھر پور ساتھ دیا۔ اور جو علاقے سیلاب سے بچ گئے وہاں تو کپاس پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ کیو نکہ وائرس (پتے مروڑ بیماری) یہ فصل ختم کر چکی ہے، جو کپاس وائرس سے بچ گئی ہے اس کو سفید مکھی کھا گئی۔ جو کسان سیلاب سے بچ گئے ہیں ان کو فصلوں کے نقصانات نے تباہ کردیا ہے۔ اس وقت فی ایکڑ لاگت دیکھی جائے تو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس میں کسان اوران کے خاندان کی مزدوری شامل نہیں۔ اس وقت کپاس کی اوسط پیداوار پانچ سے دس من فی ایکڑآرہی ہے۔ یہ کسان کی لاگت سے بھی نصف آمدن ہے۔
ایک اورالمیہ ناکافی سہولیات ہیں، اس جدید دور میں بھی پاکستان کا کسان فرسودہ اور پرانے طریقوں سے کاشتکاری کرنے پر مجبور ہے۔ زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ مہنگی ہونے کے ساتھ، جعلی زرعی ادویات بھی، سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرح سود پر، غریب کسان کاایک سنگین مسئلہ ہے۔ کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی کیونکہ کسان کو سود خورسنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ ہر فصل کے لیے غریب کسان نے سود پر کھاد، بیج اور سپرے لینی ہو تی ہے۔ فصل کٹنے سے پہلے قرض لینے والے پہنچ جاتے ہیں اور کسان بے عزتی کے ڈر سے اونے پو نے فصل دے دیتا ہے۔
موجودہ حالات میں خصوصاً سیلاب زدہ علاقوں میں کسان تو اب کسان رہا نہیں، وہ اس وقت محض ایک ضرورت مند ہے۔ جس کو ایک وقت کھانے کیلئے مخیر حضرات کی طرف دیکھنا پڑرہا ہے۔ پوری دنیا کیلئے خوراک پیدا کرنے والے آج خود دوسروں کی طرف لاچاری سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کیلئے اس وقت پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہیں۔ جس کا گھر ختم ہوگیا، سب کچھ ختم ہوگیا، صرف جا ن ہی بچی ہے۔ اس حالت میں تباہ حال رقبے کو قابل کاشت بنانا ممکن نہیں۔ اس وقت زراعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انفرادی طور پر کسان کے بس میں نہیں کیونکہ سیلاب زدہ علاقوں میں پورا زرعی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ زرعی مشینری ختم ہو گئی، ٹیوب ویل ختم ہو گئے۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ زمین کے لیول کا ہے۔ اس میں اگر ریاستی مشینری استعمال ہو تی ہے تو سیلاب زدہ علاقوں سے بمپر کراپ حاصل کی جاسکتی ہے، جوصرف سر پلس نہیں ہو گی بلکہ بہت زیادہ سر پلس ہو گی۔
لیکن موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کی بہتری کہیں بھی نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی بھی ایسی توقع کرنی چاہیے۔ یہ نظام آنے والے عرصے میں کسانوں کو مزید بربادی میں دھکیلے گا۔ مختلف اجناس کے مافیا، آڑھتی، ادویات، مشینری اور کھاد کی کمپنیوں کے مالکان کسانوں کو یونہی لوٹتے رہیں گے اور انہی جونکوں کے مفادات کے لیے ہی تمام پالیسیاں بنتی رہیں گی۔ اس کو حل کرنے کے لیے تمام وسائل پر عوام کو اجتماعی کنٹرول حاصل کرنا ہوگا۔ اجتماعی کاشتکاری کو فروغ دینا ہوگا، جس میں مشینری، ادویات اور دیگر ضروریات سرکاری طور پر مہیا کی جائیں اور تمام پیداوار کو براہ راست حکومت خریدنے کی پابند ہو۔ تمام بڑی جاگیروں کو مزارعوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ بجلی سمیت دیگر ضروریات پر ٹیکسوں کا خاتمہ کرنا ہوگا اور جدید ترین طریقہ کار سرکاری طور پر مہیا کرنے ہوں گے۔ سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی روک تھام کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرنی ہوگی اور اس کے لیے تمام وسائل مہیا کرنے ہوں گے۔ لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ سب کچھ ممکن نہیں اور نہ ہی موجودہ حکمران یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ درحقیقت موجودہ صوررتحال سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا نتیجہ ہے، جس کے گلنے سڑنے کی وجہ سے ایک تعفن اُٹھ رہا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کی غلاظتوں کی وجہ سے عام محنت کش اور کسان اور اس کے بچے سیلاب جیسی کئی مصیبتوں کا شکار بنتے ہیں۔ اس غلیظ نظام کے اندر کبھی آپ کو وڈیرہ یاسرمایہ دار شکار بنتا نظر نہیں آئے گا۔ اس طرح کے طوفان کا شکار صرف عام محنت کش کسان ہی ہو تا ہے۔ ہمیشہ اس میں عام آدمی اور اس کے بچے ہی مرتے نظر آتے ہیں۔ قدرتی آفات میں بھی طبقاتی تفریق واضح نظر آتی ہے۔ اس طبقاتی نظام کی غلاظت کا خاتمہ صرف سوشلسٹ انقلا ب ہی کر سکتا ہے۔