|تحریر: ریسمس جیپیسن|
|ترجمہ: طالب بشردوست|
جنوبی کوریا میں ہفتے کے روز دو لاکھ سے زائد افراد صدر پارک گونے کے استعفے کا مطالبہ لیکر سڑکوں پر نکل آئے۔ حالیہ احتجاج پچھلے کئی سالوں کا سب سے بڑا احتجاج تھا جو کہ پارک حکومت کو درپیش شدید بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔
موجودہ بحران اس خبر کے افشا ہونے کے بعد شروع ہوا کہ صدر پارک کی پرانی دوست، رازدار اور روحانی مشیر، چوسون سِل ممکنہ طور پر ملک کو چلانے میں انتہائی کلیدی کردارادا کرتی رہی ہے۔ چوسون سِل پالیسی سازی میں نہایت اہم اثرورسوخ کی حامل رہی ہے۔ اسے نہایت خفیہ سرکاری دستاویزات تک مکمل رسائی حاصل رہی ہے اور حکومت سے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے بدعنوانی میں بھی ملوث رہی ہے۔ چو، اختیارات کے ناجائز استعمال اور ممکنہ دھوکہ دہی کے الزام میں ابھی زیر حراست ہے۔ صدر پارک کے ان دیگر سابقہ مشیران کے خلاف بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں جو اس سکینڈل میں ملوث مانے جاتے ہیں۔
لیکن یہ تمام معاملات اس قدر سادہ ہرگز نہیں۔ چو سون سِل کا باپ، چو تیمین، صدر پارک کی نوجوانی کے دنوں میں، اس کا سرپرست اور ایک نہایت قریبی دوست تھا۔ چو تیمین کو ایک شامانی مسلک کا سربراہ مانا جاتا تھا۔ موصوف، صدر پارک کے والد اور جنوبی کوریا کے سابق آمر، پارک چنگ ہی کا بھی قریبی دوست تھا۔
امریکی سفارت خانے سے افشاء ہونے والی دستاویزات کے مطابق، مرحوم چو تیمین، راسپوٹین کی طرح کی شخصیت کا مالک تھا۔ یہ موازنہ تصور سے بھی زیادہ حقیقی ہوسکتا ہے۔ خیال رہے کہ راسپوٹین ایک پراسرار تانترک تھا جو روس میں زارینہ کا مشیر تھا۔ راسپوٹین، زارِ شاہی کے انہدام اور روسی انقلاب کے آغاز سے کچھ عرصہ پہلے قتل کردیا گیا۔ زارِ شاہی کی طرح، پارک حکومت بھی سقوط کے دہانے پر ہوسکتی ہے۔
صدر پارک اب تک نہ صرف جنوبی کوریائی عوام سے معافی مانگ چکی ہے بلکہ خود کو بچانے کی ایک لاحاصل کوشش میں اپنے وزیر اعظم، وزیر خزانہ، اور قومی سلامتی اور سیفٹی کے وزیر کو برطرف کرکے، حکومت میں نئے چہروں کی جگہ دی ہے۔ اس کی اپروول ریٹنگ 30-50 فیصد سے سر کے بل گر کر 41 فیصد ہوگئی تھی اور اب 5 فیصد بتائی جاتی ہے، جو کہ 1988ء میں جب انتخابات کا آغاز ہوا تھا، سے لے کر اب تک کی کم ترین ریٹنگ ہے۔ یہ صورت حال سرمایہ دارانہ جمہوریت کو خوبصورتی سے بے نقاب کرتی ہے جس میں ایک ایسے صدر کو بھی حکومت کرنے کی اجازت ہے جس کی عوامی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہڑتالوں کی لہر
ایسے وقت میں جب پارک حکومت شدید بحران کا شکار ہے، محنت کش طبقہ بھی تحرک میں ہے۔ نہایت ریڈیکل مزدور انجمنوں کا اتحاد، کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز، نئے ہڑتالوں کے تسلسل کی راہنمائی کررہی ہے۔ ایک لمبے عرصے سے لڑاکا ٹریڈ یونینوں کی قیادت میں مزدور دشمن حکومت کے خلاف وقت کے ساتھ بڑھتی ہڑتالوں کا نتیجہ کئی جزوی ہڑتالوں اور لاکھوں لوگوں کی سڑکوں پر آمد کی صورت میں نکلا ہے۔
موسم بہار کی چھوٹی ہڑتالوں کی نسبت، موسم گرما میں ہڑتالوں کے تسلسل کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا، جو کہ حالیہ بحران تک جاری رہا ہیں۔ 26 ستمبر کو ہیونڈائی، جو کہ جنوبی کوریا کی بڑی اجارہ داریوں میں سے ایک ہے، کے 50 ہزار مزدور ایک روزہ ہڑتال پر چلے گئے۔ یہ ہڑتال، ہیونڈائی کی تاریخ کی سب سے بڑی اور 2016ء کی اکیسویں قومی سطح کی ہڑتال تھی، جو کہ ایک ریکارڈ کا درجہ رکھتی ہے۔ کئی موقعوں پر دوسری صنعتوں کے لاکھوں مزدور ہیونڈائی کے مزدوروں کی جدوجہد میں شامل ہوئے۔ 27 ستمبر کو60 ہزار پبلک سیکٹر کارکنوں کی نمائندگی کرنے والی مختلف انجمنیں، کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کی سرپرستی میں، غیر معینہ مدّت کے لئے ہڑتال پر چلے گئے۔ ہڑتال کرنے والوں میں میٹل ورکر، صحت اور پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے کے محنت کش شامل تھے۔
حالیہ ہڑتال حکومت کی جابرانہ لیبر اصلاحات، پبلک سیکٹر کی حاصلات پر حملوں، مزدور تنظیموں پر جبر اور ایک عمر رسیدہ کسان کے جاں بحق ہونے کے خلاف کی گئی جو کہ گزشتہ سال ایک مظاہرے کے دوران پولیس کی واٹر کینن کی زد میں آکر کوما میں چلا گیا تھا اور اس سال ستمبر میں جاں بحق ہوگیا ۔ ٹھیکے پر کام کرنے والے محنت کش بھی کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کی قیادت میں مستقل روزگار کے حصول کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔
میٹرو اور ریلوے کے ہزاروں محنت کش، جو پبلک سیکٹر کی ہڑتال کا حصہ ہیں، پچھلے 43 دنوں سے ہڑتال پر ہیں، اور یہ ہڑتال جاری و ساری ہے۔ ہڑتال کے آغاز کے ساتھ ہی حکومت نے محنت کشوں کے اس قدم کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ مزدور انجمنوں کے بہت سارے کارکنوں کو اس جدوجہد کا حصہ ہونے پر یا توملازمتوں سے معطّل کردیا گیا ہے، یا نکال دیا گیا ہیں، یا پھر جیل بھیج دیا گیا ہے۔ حالیہ جدوجہد محنت کشوں کے لئے کئی چھوٹی حاصلات کا نتیجہ بنی ہیں، لیکن ریلوے کے محنت کشوں کی ہڑتال اب تک کوریا کی تاریخ کی سب سے بڑی ریل ہڑتال ہے۔ کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے صدر پارک کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
بحران کی شدت
ہڑتالوں کی اس تحریک کی بڑھتی ہوئی شدت نے پارک حکومت کے بحران میں اور اضافہ کردیا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہوگا کہ موجودہ حکومتی اسکینڈل اور کیا کچھ افشاء کرے گا اور مزید کتنی گندگی ابھی ظاہر ہونے کو ہے۔ تاہم، اس بحران نے جنوبی کوریا کے حکمران طبقے کی بوسیدگی اور کرپشن کو روزِ روشن کی طرح عیاں کردیا ہے۔ جہاں محنت کش انتہائی مشکل حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں، وہاں چابولز(Chaebolsبڑی اجارہ داریوں کا مالک خاندان) اور اس کے صدر پارک جیسے کٹھ پتلی سیاستدان ریاست کا استعمال کرکے اپنی دولت میں اضافہ کررہے ہیں۔۔۔ ہاں، یہ سب وہ ایسے وقت میں کررہے ہوتے ہیں جب وہ بھوت پریت کی عبادت میں مصروف نہیں ہوتے۔
صدر پارک اپنے باپ کے نقش قدم پر عمل پیرا رہی ہے اورانتہائی آمرانہ ہتھکنڈوں اختیار کر رہی ہے۔ مزدوروں یونینوں کے خلاف حکومتی کی جانب سے کئے جانے والے جابرانہ اقدامات سے اس عمل کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے صدر، حین سنگ گیون کو جولائی میں 5 سال قید کی سزا دینا اس بات کی واضح مثال ہے۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ریلیوں کو ’’منظم‘‘ کرتا تھا۔ حین کا جواب تھا، ’’ جب تک آپ کامریڈز ایسا نہیں مانتے، میں بالکل بھی مجرم نہیں ہوں۔ موجودہ حکومت کا جبر انتہائی شدید اور ارادتاً ہے۔ ہمیں اس جبر سے لڑنے کے لئے تیاری کرنی ہوگی۔‘‘
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ حکمران طبقہ صدر پارک کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردے تاکہ نظام میں استحکام برقرار رکھ سکے۔ لیکن کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہے۔ صدر پارک کے استعفے کی صورت میں عوام کو اپنی طاقت کا احساس ہوگا اور وہ مزید دوررس مطالبات کے ساتھ اپنی تحریک جاری رکھ سکتے ہیں۔ مزید برآں، اس بات کا امکان بھی ہے کہ پارک، ریاست اور حکمران طبقے میں موجود اپنے طاقتور اثرورسوخ کی وجہ سے اتنی آسانی سے اپنا عہدہ نہیں چھوڑے گی بلکہ اپنی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے ریاستی جبر میں مزید اضافہ کرے گی۔ یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی کہ نتیجتاً، سماج میں پولرائزیشن مزید بڑھے گی۔ نکتہ یہ ہے کہ یہ بحران پارک کی شخصیت یا اس کے حکومتی حواریوں تک محدود نہیں بلکہ یہ سماج میں موجود نہایت گہرے بحران کی علامات ہیں۔ اور یہ بحران فقط ایک شخص کو صدارت سے الگ کرنے یا ریاستی جبر زیادہ کرنے سے حل نہیں ہوگا۔
جنوبی کوریا کی معیشت کے لئے حالات کچھ حوصلہ افزاء نہیں۔ عالمی تجارت سکڑ رہی ہے اور اس کے انتہائی اہم حلیف چین کی اقتصادی نمو سست روی کا شکار ہے۔ حالانکہ جنوی کوریا ایک ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک ہے، جس کے پاس دنیا کی جدید ٹیکنالوجی بھی موجود ہے، لیکن ملک میں پیداوار گراوت کا شکار ہے۔ اور یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب کوریا کے محنت کشوں سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جارہا ہیں۔
چونکہ ملک میں بائیں بازو کی کوئی ایک بھی مضبوط تنظیم موجود نہیں، اس لئے سماج نے دوسرے رستوں سے، جیسا کہ یونینوں اور چند اور سماجی تنظیموں کے زریعے اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، اگر جدوجہد کو ایک نئی بلندی تک لے جانا مقصود ہے تو محنت کشوں کے ایک پارٹی کی ضرورت ناگزیر ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو تمام بکھری ہوئی تحریکوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے، سماج کی انقلابی تبدیلی کا واضح منشور دے سکے۔ اگر ایک ایسی پارٹی کا قیام ہوسکے تو جنوبی کوریا میں مستقبل کے انقلاب میں اس پارٹی کا کردار نہایت کلیدی ہوگا۔