|تحریر: آدم پال|
گوادر کی بندرگاہ پر چین کے ممکنہ بحری اڈے کے متعلق خبروں نے کھلبلی مچائی ہوئی ہے۔ پاکستانی بری اور بحری افواج کی جانب سے مختلف بیانات میں واضح کیا گیا ہے کہ چین گوادر کے ذریعے جانے والے تجارتی سامان کی حفاظت کے لیے بحری افواج اور جنگی بحری جہازوں کو مستقل بنیادوں پر تعینات کرے گا۔ یہ جہاز پاکستان کی بحری افواج کے ساتھ مل کر اس تجارتی سامان کی حفاظت کریں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بندر گاہ پر چین کی آبدوز بھی تعینات کی جائے گی جبکہ ان جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے بری اڈہ بھی بنایا جائے گا۔ پاکستان کا گماشتہ حکمران طبقہ چین کی سامراجی غلامی کا طوق فخر سے پہن رہا ہے جبکہ ان قرضوں کے ذریعے عوام کی نسلوں کو بھی گروی رکھ دیا گیا ہے۔ امریکہ سے بند ہونے والی امداد کے بعد چین سے آنے والی رقوم کو ہڑپ کیا جارہا ہے جس میں چینی اور پاکستانی حکمران دونوں مل کر کرپشن کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ ایسے میں چین ایک سامراجی طاقت کی حیثیت سے بھی اپنے پنجے گاڑ رہا ہے۔
30نومبر کو جب بیجنگ میں چینی افواج کے نمائندے کرنل یانگ یوجون سے اس حوالے سے پاکستانی افواج کے بیانات کے متعلق سوالات کیے گئے تووہ کوئی مناسب جواب نہیں دے سکا۔ لیکن عمومی صورتحال سے نظر آتا ہے کہ چین پاکستان میں ہونے والی اتنی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری اور پھر اس کے ذریعے ہونے والی اربوں ڈالر کی ممکنہ تجارت کی حفاظت کے لیے بحری اڈہ بنانے کی جانب بڑھے گا۔ اس کے علاوہ چین کے اس خطے میں سامراجی مفادات موجود ہیں جن کے تحفظ کے لیے وہ بڑے پیمانے پر اپنا فوجی تسلط بڑھانے کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ بحر ہند کے دوسری جانب افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک جبوتی میں پہلے ہی ایک بحری اڈہ قائم کیا جا رہا ہے جبکہ یہاں سے افریقہ کے بہت سے ممالک تک تجارتی سامان پہنچائے جانے کا ارادہ ہے۔ کرنل یانگ نے بتایا کہ اس اڈے کا مقصد افریقہ میں امن کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ چین دنیا بھر میں اپنی سرمایہ کاری کو تحفظ دینے کے لیے فوجی اڈے بنارہا ہے۔ لیکن اس اثر ورسوخ کا براہِ راست ٹکراؤ امریکی سامراج کے مفادات کے ساتھ بن رہا ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ کشیدگی نظر آتی ہے۔
گوادر کی بندر گاہ کے قریب ہی خلیج فارس میں بحرین کے قریب امریکہ کا بحری بیڑہ موجود ہے جبکہ اس پورے خطے میں امریکہ کا اثر ورسوخ موجود ہے۔ بحر ہند میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے ہندوستان کے سامراجی عزائم کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور دلی میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ ہندوستان پہلے ہی ایران اور افغانستان کے ساتھ چاہ بہارکی بندرگاہ کو تعمیرکرنے کا کام شروع کر چکا ہے۔ جس کی امریکہ نے حوصلہ افزائی کی ہے۔ لیکن جس تیزی کے ساتھ گزشتہ دو سال میں گوادر کی بندر گاہ پر کام ہو ا ہے اور اس کو آپریشنل کیا گیا ہے اس کا مقابلہ کرنا شاید ایران اور ہندوستان کے لیے مشکل ہو۔
بہت سے تجزیہ نگار پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ تجارتی مقاصد کے لیے سی پیک ایک گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں پر سے ٹرکوں کے ذریعے سامان لیجانا کہیں مہنگا پڑتا ہے جبکہ سمندری رستہ خواہ طویل ہے لیکن وہاں سے آنا نسبتاً آسان ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے اصل محرکات کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور چین کے سامراجی مقاصد عیاں ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے بھی سی پیک کے لیے مختص 46ارب ڈالر میں سے صرف 12ارب ڈالر سڑکوں وغیرہ کے لیے تھے جبکہ باقی کی رقم بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے تھی جس میں سے اکثریت کرپشن کی نذر ہونے کا خدشہ ہے۔
ایسے میں سی پیک کی جانب روس کے رجحان نے دیگر عالمی سامراجی طاقتوں کے لیے مزید خطرے کے الارم بجا دیے ہیں۔ پاکستانی اخباروں میں واضح طور پر رپورٹ کیا گیا کہ روسی خفیہ ادارے، سابقہ کے جی بی کے سربراہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور سی پیک کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسے گوادر کا بھی دورہ کرایا گیا جس پر اس نے اطمینان کا اظہار کیا۔ اخبارات کے مطابق روس سی پیک میں شمولیت کا خواہشمند ہے اور پاکستان نے اسے خوش آمدید کہا ہے اور گوادر بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ جبکہ اگلے ہی دن روسی وزارت خارجہ نے اس کی تردید کر دی اور کہا کہ روس کا اس قسم کا ابھی کوئی ارادہ نہیں۔
دوسری جانب وزیر اعظم نوا زشریف نے ترکمانستان کا دورہ کیا اور لاپس لازولی (Lapis Lazuli)معاہدے میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس معاہدے میں افغانستان، ترکمانستان، آذربائجان، جارجیا اور ترکی شامل ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق ان ممالک میں تجارتی راہداریاں بنائی جائیں گی اور ان ممالک کوسڑکوں اور ریلوے لائنوں کے ذریعے جوڑا جائے گا۔ ترکمانستان سے افغانستان ریلوے لائن کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ دیگر منصوبوں پر پیش رفت جاری ہے۔ اس معاہدے سے ان ممالک میں موجود قدرتی ذخائر کو سمندر تک پہنچانے کے لیے پاکستان رستہ فراہم کرے گا۔ ان ممالک کی اکثریت روس کے دائرہ اثر میں آتی ہے اور امریکہ کی یوکرائن میں پسپائی کے بعد سے روس کا اثر رسوخ اس خطے میں مزید بڑھا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری سمت میں وسطی ایشیائی ممالک کو روس اپنا پچھواڑا تصور کرتا ہے ۔ لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے چین بھی وسطی ایشیا میں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہا ہے اور سنکیانگ سے ان ممالک تک سڑکیں اور ریلوے لائن بنانے کے منصوبے بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ تجارت کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ جبکہ افغانستان میں چین کی بہت بڑی سرمایہ کاری موجود ہے اور بڑے پیمانے پر قدرتی وسائل کی لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ ایسے میں خطے میں چین اور روس کے تضادات ابھر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی چین اور روس کے بہت سی جگہوں پر مفادات بھی وابستہ ہیں۔ خاص طور پر شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے دونوں مل کر امریکی مداخلت کا مقابلہ کررہے ہیں اور اقوام متحدہ میں امریکی قراردادوں کا مشترکہ طور پر سامنا کررہے ہیں۔
دوسری جانب ہندوستان امریکی پشت پناہی سے افغانستان میں بڑے پیمانے پر مداخلت کر رہا ہے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے۔ چاہ بہار کی بندر گاہ بنانے کا مقصد بھی افغانستان اور وسطی ایشیا تک ایسا تجارتی رستہ بنانے کی ضرورت تھی جس میں پاکستان سے گزرنا نہ پڑتا ہو۔ اس میں ایران اور ہندوستان کے تعلقات میں بھی قربت آئی ہے اور دونوں کو اس وقت امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔
لیکن حال ہی میں چین اور ایران کے تعلقات میں بھی بڑے پیمانے پر قربت آئی ہے۔ چین کے وزیر دفاع نے گزشتہ ہفتے ایران کا تین روزہ دورہ کیا جو خطے کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی بحریہ کھلے سمندر میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کی خواہشمند ہے اور چین کے وزیر دفاع نے اس کی مدد کرنے کا اعلان کیا ۔ اس مقصد کے لیے چین جہاں ایران کو جنگی بحری جہاز اور دیگر اسلحہ فروخت کرے گا وہاں انٹیلی جنس ٹریننگ بھی دے گا۔ اس سے پہلے ایران سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش کا بھی اظہار کر چکا ہے جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا۔ اسی حوالے سے کچھ تجزیہ نگاروں کی جانب سے سی پیک کو برکس(BRICS)کا متبادل بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
چین کا خطے میں بڑھتا ہوا غلبہ ہندوستان تک بھی موجود ہے جس سے اس کی تجارت کا حجم سو ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ چین بنگلہ دیش کو تیس ارب ڈالر کی خطیر رقم دینے کا اعلان بھی کر چکا ہے جس میں میانمار (برما) اور ہندوستان کے ذریعے ایک معاشی راہداری کا قیام ہے جو چینی صوبے یونان تک پہنچے گی۔ اس کے علاوہ سری لنکا میں پہلے ہی ایک بندر گاہ چین کے تعاون سے تکمیل کے مراحل میں ہے۔ ایسے میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بحر ہند میں چین تیزی سے اپنے سامراجی مفادات کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔
اس حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ جہاں امریکی سامراج کے مفادات ہیں وہاں ان ممالک کے حکمرانوں کا چین کے سامراجی کردار سے خوف بھی ہے۔ وہ بھی کسی ایک سامراجی طاقت کے مکمل غلبے سے بچنے کے لیے دیگر سامراجی قوتوں سے تعلقات مستقل بنیادوں پر خراب نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد حالات مختلف رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ بظاہر ٹرمپ کی پالیسی تنہائی پسندی کی ہے اور وہ دنیا کے مختلف خطوں میں جاری تنازعوں سے بچنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ گو کہ حالات امریکی مداخلت کو مسلسل مدعو کرتے رہیں گے جبکہ خود امریکہ کے سامراجی مفادات بھی ان تنازعوں سے پہلو تہی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
دوسری اہم رکاوٹ عالمی معاشی بحران ہے جو تیزی سے ایک بڑی کھائی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسیوں سے یہ سفر مختصر ہو سکتا ہے۔ ایسے میں چین کا معاشی بحران ان تمام منصوبوں کے لیے زہر قاتل ہو گا اور یہ منصوبے ایک سامراجی طاقت کا ادھورا خواب بن کر ہی رہ جائیں گے ۔ اس وقت بھی چینی معیشت سست روی کا شکار ہے اور زوال کی جانب بڑھ رہی ہے جبکہ محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن اگر یہ منصوبے مکمل بھی ہو جاتے ہیں تو بھی یہاں کے عوام کے لیے خوشحالی کا کوئی پیغام نہیں لائیں گے بلکہ انہیں نئی خونی جنگوں اور تنازعوں میں دھکیلیں گے۔ جبکہ حکمران طبقات کرپشن اور محنت کشوں کے استحصال کے ذریعے اپنی دولت میں تیزی سے اضافہ کریں گے۔ گڈانی کے حالیہ واقعہ نے محنت کشوں کی زندگیوں پر کسی حد تک روشنی ڈالی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ اور دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے محنت کش بھی اسی جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ بلوچستان کے عوام پہلے ہی فوجی جبر اور سامراجی غلامی کا شکار ہیں اور ان منصوبوں سے وہاں غربت اور بیماری کم ہونے کی بجائے بڑھی ہے جبکہ قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال دیگر علاقوں میں رہنے والے محنت کشوں کا ہے جو ان منصوبوں کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے عوام ان منصوبوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جہاں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیاں بھی ان کی زندگیوں پر برا ہ راست اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ وہاں بھی اس منصوبے کے خلاف احتجاج اور حقیقی تحریکیں موجود ہیں۔
دوسری جانب کچھ اپوزیشن راہنما اورفوجی جرنیل ٹھیکوں اور کمیشن کے لالچ میں اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں جس کے باعث سیاست میں انتشار بڑھ رہا ہے جبکہ ریاست کی داخلی لڑائی کے باعث اس ظالمانہ ریاست کے ادارے خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ آنے والے عرصے میں یہاں سامراجی قوتوں کی لڑائی اور خونریزی میں اضافہ ہو گا۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی بڑی وجہ جہاں وادی کشمیر میں ابھرنے والی نوجوانوں کی بے مثال تحریک ہے وہاں خطے کی بدلتی صورتحال بھی ایک وجہ ہے۔ چین کے لیے ان دو ممالک کی جنگ تجارت کے لیے نقصان دہ ہو گی اس لیے وہ ان کو کشیدگی کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے گا۔ بلکہ چین کی خواہش ہو گی کہ ہندوستان بھی سی پیک کا حصہ بنے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مزید تضادات پیدا ہوں گے جو سماج پر مزید گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
آنے والا وقت اس خطے کو جہاں حکمران طبقے کی آپسی لڑائی میں دھکیلے گا وہاں اس خطے کے محنت کش طبقے کو بھی جڑت کے مواقع فراہم کرے گا۔ ایک حقیقی مارکسی قوت کی موجودگی میں اس سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر اکھاڑنے کے مواقع بھی ملیں گے جو جنوبی ایشیا کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جانب تیزی سے بڑھے گا۔ یہی تمام سامراجی مظالم کا حقیقی انتقام ہو گا!