|تحریر: ثنا زہری|
چائناپاکستان اکنامک کوریڈور۔سی پیک کے متعلق ملک کے طول وعرض میں کافی عرصے سے بحث ومباحثہ بڑے زور و شور سے جاری ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں عسکری اداروں کے نمائندے اور ملکی کاپوریٹ میڈیا اسے گیم چینجر منصوبے سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس منصوبے سے پاکستان کے تمام مسائل حل ہونگے اور یہاں شہد اور دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ غربت، بیروزگاری، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی مسائل ہمیشہ کے لئے حل ہوں گے۔ یاد رہے سی پیک میں خنجراب سے گوادر تک روڈ اور ریلوے لائن کے علاوہ اور بھی بہت سارے چھوٹے بڑے منصوبے شامل ہیں جن میں بیشتر توانائی یعنی بجلی پیدا کرنے کے ہیں۔ ایسا ہی ایک منصوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقہ گڈانی میں 1320 میگا واٹ کا کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا منصوبہ ہے جو کہ چائنا پاور انٹر نیشنل ہولڈنگ لمیٹڈ اور دی حب پاور کمپنی لمیٹڈ کے اشتراک سے چائنا پاور حب جنریشن کمپنی نام سے زیر تکمیل ہے اس منصوبے کے حوالے سے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں مگر ان میں چند اہم کو زیر بحث لانا چاہوں گا
1۔ اس منصوبے کے لئے گڈانی کے ساحلی علاقے کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟
2۔ جو ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے کیا وہ ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کی اہل ہے؟
3۔ متروک اور پرانی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
4۔ کیا پاکستان میں سستی بجلی پیدا کرنے کے دیگر ذرائع موجود نہیں ہیں؟
5۔ صرف اور صرف کوئلے کے پاور پلانٹس کوکیوں ترجیح دی جا رہی ہے؟
گڈانی کے ساحلی علاقے کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ اس پاور پلانٹ کیلئے فیول یعنی کوئلہ جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا سے درآمد کیا جائے گا جو براہ راست جیٹی کے ذریعے پلانٹ کے اند فائر پوائنٹ تک پہنچے گا۔ اس طرح ٹرانسپورٹ اور لیبر کے اخراجات میں کمی اور کمپنی کامنافع زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ پاور پلانٹ کے تمام فضلہ کو با آسانی سمندر برد کردیا جائے گا جس سے سمندری آلودگی میں اضافہ ہوگا اور سمندری حیات ناپید ہوگی اور مقامی ماہی گیر بیروزگار ہوں گے جن پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں ہیں کہ وہ سمند میں دور گہرے پانیوں میں شکار کرسکیں۔
اس منصوبے میں 1960ء کی پرانی متروک سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی استعمال میں لائی جارہی ہے جس میں ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ سپر کریٹیکل پاور پلانٹ میں کم و بیش 10000 ٹن کوئلہ جلایا جائے گا۔حالانکہ کول فائر پاور پلانٹس کی جدید ٹیکنالوجیز بھی ہیں جن کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً الٹرا سپر کریٹیکل ٹیکنالوجی میں کاربن ڈائی آکسائید اور سلفر کی آلودگی کا بندوبست ہے۔(Carbon Capture Storage-CCS) یونٹ کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈکو اکٹھا کرکے ایسی جگہ منتقل کیا جاتا ہے جہاں یہ ماحول کونقصان نہ پہنچائے اور انٹگریٹڈ گیسی فیکیشن کمبائن سائیکل کے ذریعے کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔
کوئلہ جلانے کے سبب کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، زہریلا پارہ، کاربن کے ذرات، جو مسلسل اخراج ہونے سے دور دور تک ماحول میں پھیل جاتے ہیں جس کی وجہ سے سانس لینا عذاب بن جاتا ہے۔ پھیپھڑوں اور دل کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ تیزابی بارش کا بی باعث بنتے ہیں۔ ہیلتھ ایفیکیٹس انسٹی ٹیوٹ(HEI) اور بیجنگ میں قائم Tsingha University کی جانب سے جاری کی جانے والے ریسرچ کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے سبب چین میں 2013ء کے دوران 1.35 بلین کی آبادی میں سے 366,000 قبل از وقت ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے بیشمار دیگر ذرائع ہیں مگر ان میں سے ہائیڈل پاور، وِنڈ پاوراور سولر پاور انتہائی سستی اور محفوظ توانائی کے ذرائع ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل ایک وسیع ہوا کی راہداری(Wind Corridor) ہے اور اس کے ذریعے 50ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔شمالی علاقہ جات ہائیڈل پاور منصوبوں سے 1960ء میں ہونے والی ڈیسک اسٹڈیز کے مطابق قریباً 60ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پوٹینشل موجود ہے۔ اسی طرح ملکی آب وہوا کو دیکھتے ہوئے شمسی توانائی سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی ہے۔ شمسی توانائی کو چھوڑ کر صرف ہوا اور پانی کے ذرائع استعمال میں لائے جائیں تو نہ صرف ملکی ضرورت پوری ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان جیسے 10اور ممالک کو بجلی برآمد کی جاسکتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف کوئلے کے پاور پلانٹس کو دیگر ذرائع پر کیوں ترجیح دی جا رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع بنایا جاسکتا ہے۔ ان توانائی کے منصوبوں سے مہنگی بجلی پیدا کرکے صارفین کو مہیا کی جائے گی جو کہ حکومت پاکستان خریدنے کی پابند ہوگی تاکہ چینی سرمایہ کاری کا تحفظ کیا جاسکے۔ اس پورے منصوبے میں پاکستانی حکمران طبقہ چینی حکمران طبقے کے گماشتے کا کردار ادا کررہا ہے اور اپنے کمیشنوں کے چکر میں غریب عوام کی زندگیاں داؤ پر لگا چکا ہے۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی مگر بجلی کے بل بڑھتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ سی پیک کی سیکیورٹی کے اخراجات بھی بجلی کے بلوں میں شامل کرکے عام لوگوں پر سارا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پاور پلانٹس سے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا مگر سرمایہ داروں کو صرف اور صرف اپنے منافعوں سے غرض ہے انسانی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ حکمران طبقات انسانی جانوں کی قیمت پر اپناسرمایہ بڑھانے کے چکر میں سر گرداں ہیں چاہے اس کی قیمت انسانی جانوں کے ضیاع اور کرۂ ارض کی تباہی و بربادی کی صورت میں اداکرنا پڑے۔