|تحریر: بین مورکن، ترجمہ: یار یوسفزئی|
بھارت کرونا وباء کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات برّ اعظم افریقہ پر بھی پڑیں گے۔ افریقہ میں ویکسین دستیابی کا انحصار بڑے پیمانے پر بھارت کے سیرم انسٹیٹیوٹ پر ہے، جو عالمی کوویکس (COVAX) پراجیکٹ کے تحت غریب ممالک تک ایسٹرا زینیکا ویکسین فراہم کرتا ہے۔ بھارت میں ویکسین کی بر آمدات پر پابندی لگنے کی وجہ سے یہ پراجیکٹ بری طرح متاثر ہوا ہے اور کئی ہفتوں تک، حتیٰ کہ شاید کئی مہینوں تک اسی طرح متاثر رہے گا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
افریقہ میں موجود بے شمار مسائل کے ساتھ ایسٹرا زینیکا ویکسین کی فراہمی رُک جانے کا مزید ایک مسئلہ شامل ہو چکا ہے، اور یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ اس کے پورے برّ اعظم پر کیا تباہ کن اثرات پڑ سکتے ہیں۔ جنوبی افریقہ نے جانسن اینڈ جانسن ویکسین کے ساتھ فائزر ویکسین بھی متعارف کروائی ہے، مگر فائزر کو سٹور کرنے کے لیے درکار مخصوص ٹیکنالوجی زیادہ تر افریقی ممالک کے پاس نہیں ہے۔
افریقہ میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے نے اس تاخیر کو ”سب کے لیے کافی تباہ کن“ قرار دیا اور کہا کہ جن افریقی ممالک نے کوویکس کے تحت پہلے ڈوز حاصل کر لیے ہیں، انہیں دوسرے ڈوز کا انتظار کرتے ہوئے ویکسین کی کمی کا سامنا ہوگا۔
’افریقہ سنٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن‘ (سی ڈی سی) کے ڈائریکٹر جان کینگاسونگ نے کہا کہ اس کے عہدیداران ”مکمل بے یقینی کی کیفیت میں ہیں۔۔۔ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو اب انتہائی غیر یقینی کا شکار ہے۔“
بھارت کی جانب سے ویکسین کی فراہمی میں ایک ایسے وقت میں خلل پڑا ہے کہ جب افریقہ بھر میں وباء شدت اختیار کر رہی ہے۔ اگرچہ چند مہینے پہلے افریقہ نسبتاً کم سطح پر متاثر ہوا تھا، ایک نئی لہر کی وجہ سے پورے برّ اعظم میں صحت کے کمزور انفراسٹرکچر کے منہدم ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ ابھی ہسپتالوں میں گنجائش اور آکسیجن ختم ہو رہی ہے جبکہ پورے برّ اعظم میں اموات کی شرح پہلی دفعہ عالمی اوسط شرح سے اوپر چلی گئی ہے۔ عالمی سطح پر اموات کی اوسط شرح 2.2 فیصد ہے جبکہ بیس افریقی ممالک میں یہ اس سے تجاوز کر گئی ہے۔
افریقہ کو نظر انداز کرنے کا نقصان
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افریقہ میں کرونا کے کیس 30 لاکھ اور اموات 80 ہزار ہیں، مگر ان اعداد و شمار پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا 50 سے زائد افریقی ممالک میں سے محض 8 ممالک میں ہی سرکاری طور پر اموات کو رجسٹر کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے، باقیوں میں نہیں۔ رجسٹر کرنے والے ممالک بھی درست تعداد رجسٹر نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ میں کرونا سے ہونے والی اموات سرکاری طور پر 50 ہزار کی تعداد میں ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ سرکاری طور پر ہی یہاں متوقع اموات 1 لاکھ 50 ہزار ہیں، جو ریکارڈ نہیں کی گئیں!
اگر یہاں کرونا کی زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اقسام (بھارت، برطانیہ یا برازیل وغیرہ سے) پہنچ گئیں تو اس کے تباہ کن اثرات پڑ سکتے ہیں۔
افریقہ میں وائرس کے خلاف لڑنے میں سب سے بڑی رکاوٹ اہلیت اور وسائل کا فقدان ہے۔ افریقہ سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی اے) کے مطابق، پورے افریقی برّ اعظم میں ویکسین کی محض 1 کروڑ 70 لاکھ ڈوزز کا ہی اہتمام کیا جا سکا ہے، جہاں کی مجموعی آبادی 1.3 ارب ہے۔ وباء شروع ہونے کے بعد افریقہ بھر میں سرکاری طور پر صرف 4 کروڑ 30 لاکھ ٹیسٹ گئے ہیں، جس کا ایک چوتھائی حصہ اکیلے جنوبی افریقہ میں ہوئے ہیں۔
مطلب یہ کہ حقیقی صورتحال کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ درست اعداد و شمار کا نہ ہونا بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ اس کی عدم موجودگی میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ باقی ممالک کی نسبت افریقی ممالک کو ویکسین کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ اس وجہ سے وائرس کے مزید بڑے پیمانے پر پھیلاؤ، اور ویکسین کی فراہمی اور استعمال میں رکاوٹ کا خطرہ رہے گا۔
بر وقت تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے افریقی ممالک میں نئی اقسام پھیلنے کا خطرہ موجود ہے، کیونکہ اس کے بغیر انہیں نہیں روکا جا سکتا۔ حتمی تجزیے میں اس صورتحال سے عالمی سطح پر وباء کو قابو کرنے کی کوششیں بے کار ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس سال کے شروع میں، کوویکس کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہم اس سال کے آخر تک اس پروگرام میں شامل ممالک کی 20 فیصد آبادی کو ویکسین فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بات اس نے حالیہ عرصے میں بھارت کی تباہی سے پہلے کہی تھی۔ بہ الفاظِ دیگر، افریقہ کی پوری آبادی تک ویکسین کی فراہمی کرنا ابھی بہت دور ہے۔ اس سے نئی اقسام سامنے آنے کا خطرہ مزید بڑھے گا جب وائرس کو پورے افریقہ کی آبادی تک بلا روکے پھیلنے دیا جائے گا۔ دنیا بھر میں بیک وقت ویکسی نیشن کے بغیر وائرس کا پھیلاؤ جاری رہے گا۔ جب تک سارے ممالک محفوظ نہیں ہو جاتے، کوئی بھی ملک اکیلے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ویکسین نیشنلزم
قومی سرحدوں تک محدود رہ کر وباء کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سرمایہ داری کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جس میں حکمران طبقات کی پالیسیوں کا تعین منافعے اور تنگ نظر ذاتی مفادات کرتے ہیں۔ امیر ممالک ویکسین کے زیادہ تر حصّے کو ہڑپ رہے ہیں جبکہ غریب ممالک کی ان تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بعض ممالک اپنی آبادی کی بڑی اکثریت کو ویکسین فراہم کر چکے ہیں، جبکہ بہت سے ممالک نے ابھی تک ویکسین کی ایک ڈوز بھی حاصل نہیں کی۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا ویکسین کے 70 کروڑ سے زائد ڈوز تقسیم کیے جا چکے ہیں، مگر اس کا زیادہ تر حصّہ امیر ممالک کے پاس گیا ہے۔ اپریل کے مہینے تک، 87 فیصد سے زائد ویکسینیں امیر ممالک کے پاس گئی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل، ٹیڈروس گبریسس نے اپریل میں کہا کہ ”امیر ممالک کے اندر اوسطاً، تقریباً چار میں سے ایک کو ویکسین فراہم ہو چکی ہے۔ غریب ممالک میں یہ تعداد 500 میں سے ایک ہے۔“
ڈیوک یونیورسٹی کے گلوبل ہیلتھ اِنویشن سنٹر کے مطابق، جو پوری دنیا میں ویکسین کی فراہمی کا حساب رکھ رہا ہے، امیر ترین اور اپر مڈل ممالک نے مجموعی طور پر ویکسین کے تقریباً 5 ارب ڈوز آرڈر کیے ہیں۔ زیادہ تر یہ حکومتوں اور ویکسین بنانے والوں کے بیچ دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے ہوا ہے، جسے ’ایڈوانس مارکیٹ کمٹمنٹ‘ کہا جاتا ہے، جس میں امیر ممالک کی حکومتیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ جب وکیسین تیار ہو جائے تو اس کی ترسیل میں انہیں تریضیح دی جائے۔ بہ الفاظِ دیگر، وہ در اصل قطار میں سب سے آگے کھڑے ہونے کیلئے تگ و دو کر رہی ہیں۔
مثال کے طور پر، امریکی ریاست نے کم از کم اس قسم کے چھے دو طرفہ معاہدے کیے ہیں، جس میں ویکسین کی مجموعی تعداد ایک ارب سے زیادہ بنتی ہے، جو تمام امریکی آبادی کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا نے الگ الگ سات دو طرفہ معاہدے کیے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنی آبادی کے دو گنا، چار گنا اور چھے گنا تک لوگوں کو ویکسین فراہم کرنے کے اہل ہوں گے۔
ڈیوک کے مطابق امریکی ریاست نے اپنی آبادی کی ضرورت سے زیادہ ویکسینیں آرڈر کی ہیں۔ اس کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر ان ویکسینوں کو شمار نہ کیا جائے جو امریکی ریاست کو دوسری ڈوز (Booster Shot) اور اہل ہو جانے کے بعد بچوں کے لیے درکار ہوں گی، تو جولائی کے آخر تک اس کے پاس تقریباً 30 کروڑ ویکسینیں زائد بچیں گی۔
دوسری جانب افریقہ بد ترین صورتحال سے دوچار ہے۔ افریقہ سی ڈی سی نے جانسن اینڈ جانسن کی 22 کروڑ ویکسینیں آرڈر کی ہیں، جس کے پاس اس کے علاوہ بھی 18 کروڑ کا آپشن موجود ہے۔ اس ویکسین کا صرف ایک ٹیکا لگوانا پڑتا ہے، چنانچہ اس سے برّ اعظم کے 40 کروڑ لوگوں تک ویکسین فراہم کی جا سکے گی۔ مگر یہ ویکسین افریقہ میں مدافعت حاصل کرنے کا ہدف پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، جس کے لیے 2022ء کے آخر تک 75 کروڑ یا 60 فیصد آبادی کو ویکسین فراہم کرنا پڑے گی۔ ابھی تک افریقی ممالک محض 1 کروڑ 39 لاکھ ویکسینوں کا اہتمام کر پائے ہیں۔
دوا ساز کمپنیوں کے دیوہیکل منافعے
اس دوران، بڑی دوا ساز کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس میں رونق لگی ہوئی ہے۔ فائزر، جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا، جو کرونا ویکسین بنانے والی دنیا کی تین سب سے بڑی کمپنیاں ہیں، نے پچھلے سال کے دوران اپنے شیئر ہولڈرز کو سالانہ منافعوں اور سٹاک واپس خریدنے کی مد میں مجموعی طور پر 26 ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔
پیپلز ویکسین الائنس جو آکسفیم اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں کا اتحاد ہے، کے مطابق اس رقم سے افریقہ کی پوری 1.3 ارب آبادی کو آسانی سے ویکسین فراہم کی جا سکتی ہے۔ یہ رپورٹ فائزر اور جانسن اینڈ جانسن کے سالانہ شیئر ہولڈر اجلاسوں سے کچھ ہی وقت پہلے جاری کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ فائزر اور موڈیرنا اپنی mRNA ویکسین کے ذریعے اس سال 33.5 ارب ڈالر کمائیں گی، جس کی اکثریت امیر ممالک کو فروخت کی جا چکی ہے۔
ویکسین الائنس نے اندازہ لگایا ہے کہ فائزر نے شیئر ہولڈرز کو سالانہ منافعوں کی مد میں 8.44 ارب ڈالر ادا کیے ہیں، جانسن اینڈ جانسن نے سالانہ منافعوں کی مد میں 10.5 ارب ڈالر جبکہ شیئرز واپس خریدنے کے لیے 3.2 ارب ڈالر ادا کیے ہیں، اور ایسٹرا زینیکا نے سالانہ منافعوں کی مد میں شیئر ہولڈرز کو 3.6 ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت منجمد ہو کر رہ گئی ہے، ویکسین کی طلب نے نئے ارب پتیوں کے ابھرنے کی راہ ہموار کی ہے۔ بائیو این ٹیک کا بانی اوگر ساہن اب 5.9 ارب ڈالر کے شیئرز کا مالک ہے، جس نے فائزر کے ساتھ مل کر اپنے اور اپنی بیوی کی فرم کی جانب سے ایجاد کی گئی ویکسین کی پیداوار شروع کی، جس میں جرمن رئیسوں نے بھی بڑی امداد فراہم کی ہے۔ موڈیرنا کا سی ای او سٹیفین بانسل، جس نے mRNA ٹیکنالوجی کے ذریعے ویکسین بنائی، 5.2 ارب ڈالر کا مالک بن چکا ہے۔ ایک طرف افریقہ کا زیادہ تر حصّہ اور دنیا کے دیگر کئی غریب ممالک درکار ویکسینوں سے محروم ہیں جبکہ دوسری جانب بڑی دوا ساز کمپنیاں منافعوں میں ڈبکیاں لگا رہی ہیں۔
فائزر کی آمدن اس سال کے پہلے تین مہینوں میں 3.5 ارب ڈالر رہی ہے، جو اس کی مجموعی آمدنی کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔ 20 فیصد مجموعی آمدن کے ساتھ پہلی سہ ماہی میں اس نے ویکسین کے ذریعے 90 کروڑ ڈالر کمائے ہیں۔
کرونا ویکسین کا ایک اور پہلو دانشورانہ ملکیت کے حقوق کا مسئلہ ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کے اتنے بڑے منافعے کمانے کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دانشورانہ ملکیت کے قوانین کے تحت ویکسین کی پیداوار مٹھی بھر کمپنیوں تک محدود ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان ویکسین کی پیداوار عوامی پیسوں کی مدد سے ہوئی تھی مگر اب ویکسین بنانے کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت کارپوریشنز کے ایک چھوٹے سے گروہ کے پاس ہے، جو محدود ویکسین کو سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کو فروخت کر رہے ہیں جبکہ غریب ممالک کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
بھارت اور جنوبی افریقہ عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیو ٹی او) کے اوپر بین الاقوامی سطح پر دوا سازی سے متعلق دانشورانہ ملکیت کے قوانین میں نرمی پیدا کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ بھارت اور جنوبی افریقہ کی تجویز منظور ہونے کی صورت میں ڈبلیو ٹی او کے رکن ممالک کو دوا ساز اجارہ داریاں قائم کرنے یا اس قسم کے قوانین لاگو کرنے سے روک دیا جائے گا جو ’تجارت سے متعلق دانشورانہ ملکیت کے حقوق‘ (TRIPS) کے تحت نافذ ہیں۔ اس کا مقصد دیگر ممالک کی دوا ساز کمپنیوں کو ویکسین کی سستی نقل تیار کرنے اور انہیں بر آمد کرنے کی آزادی دینا ہوگا۔
اس تجویز کو منظور کرانا کافی معقول قدم ہوتا مگر ابھی تک امریکی ریاست، برطانیہ اور یورپی یونین نے اس کا راستہ روکا ہوا ہے۔
5 مئی کو بائیڈن حکومت نے اپنا مؤقف تبدیل کرتے ہوئے بعض تحفظاتی پالیسیاں ہٹانے کی حمایت کی۔ ظاہر ہے کہ دوا ساز کمپنیاں اس کے لیے بالکل تیار نہیں، اور بائیڈن کو کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ’فارماسوٹیکل ریسرچ اینڈ مینوفیکچررز آف امیریکہ‘ (دوا ساز کمپنیوں کی ایسوسی ایشن) نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ وہ پوچھ رہے ہیں کہ اگر کرونا سے متعلق دوائیوں کے دانشورانہ ملکیت کے حقوق ختم کر دیے جائیں تو پھر کینسر یا دل کے امراض کی دوائیوں کے حقوق ختم کرنے میں کونسی دیر لگے گی؟ مگر بائیڈن نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔
اس کی حکومت در اصل امریکی کارپوریشنز کے مفادات کی نمائندہ ہے، اور اسے بڑی دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے عوام کی اذیتوں پر منافعے کمانے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر اس لمحے، بائیڈن کو دوا ساز کمپنیوں کے مخصوص مفادات کے ساتھ امریکی سرمایہ داری کے مجموعی مفادات کو بھی مدنظر رکھنا پڑ رہا ہے۔ البتہ امریکی سرمایہ داری کے عمومی مفادات میں مداخلت کر کے وہ ایک دفعہ پھر منڈی کے ’غیر مرئی ہاتھ‘ کا دقیانوسی خیال ترک کرنے کا مظاہرہ کریں گے۔
دنیا بھر میں کرونا کا جاری پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں امریکی ریاست کے اندر وائرس کی ایک نئی قسم کے سامنے آنے کا خطرہ امریکی سرمایہ داری کے لیے کافی پریشان کن ہے۔ ویکسین کے حوالے سے روس اور چین کی سفارت کاری کی کچھ حد تک کامیابی بھی بائیڈن کے اس اقدام کی ایک وجہ ہے، جس کے ذریعے وہ امریکی سرمایہ داری کے مخالفین کو شکست دینا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس اقدام کے پیشِ نظر بڑی دوا ساز کمپنیوں کے منافعوں میں اگر کوئی کمی آئی تو بائیڈن حکومت اس کا برابر ہرجانہ ضرور ادا کرے گی۔
بہرحال، محض اس اعلان سے صورتحال میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ جب تک یورپی یونین جیسے ڈبلیو ٹی او کے دیگر اراکین اس تجویز کو مسترد کرتے رہیں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، جیسا کہ ڈبلیو ٹی او میں امریکی ریاست کی نمائندہ کیتھرین ٹائی نے تسلیم کیا: ”مسائل کی پیچیدگی کے باعث (ڈبلیو ٹی او میں) مذاکرات کے دوران کسی نتیجے پر پہنچنے میں وقت لگے گا۔“ بہ الفاظِ دیگر، ابھی کے لیے زیادہ کچھ نہیں بدلے گا۔ مزید برآں، صرف قوانین کا خاتمہ کرنا کافی نہیں۔ وائرس کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کے لیے ویکسین بنانے کی ٹیکنالوجی کو ہر جگہ عام کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ بڑی دوا ساز کمپنیاں ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتیں۔
پیسوں میں تیرتے سرمایہ دار، قرض میں ڈوبی عوام
ایک جانب مغربی ممالک کی بڑی دوا ساز اجارہ داریوں پر پیسوں کی بارش ہو رہی ہے، جبکہ افریقی ممالک قرض کے بحران میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے پہلے ہی سے موجود بھیانک صورتحال مزید بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ وباء شروع ہونے سے پہلے افریقہ میں اوسطاً کسی شخص کو اپنی آمدن دوگنا کرنے میں تقریباً 45 سال لگ جایا کرتے تھے۔ وباء کے بعد اس میں تقریباً 15 سال کا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ افریقہ کے وہ ممالک جو ’صحارا‘ کے شمال میں واقع ہیں، 2021ء کے دوران ان کی فی کس آمدن کی بڑھوتری عالمی سطح پر سب سے کم ترین سطح، یعنی محض 1 فیصد پر ہوگی۔
غربت کے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ اگر عالمی سطح پر استعمال ہونے والے کلیے کے حساب سے دیکھا جائے، جس کے مطابق غربت کی آخری حد 1.90 ڈالر یومیہ ہے، تو پچھلے سال کے دوران خطے میں 5 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ یہ کبھی پہلے نہ دیکھی تبدیلی ہے۔ تقریباً 35 کروڑ بچے سکول نہیں گئے ہیں۔ بھوک اور غذائی قلت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تقریباً آدھی آبادی خوراک کے حوالے سے غیر یقینی پن کا شکار ہے۔
حتیٰ کہ مقامی معاشی امداد اور تمام قسم کی بیرونی امداد کے باوجود بھی، بحران شروع ہونے کے بعد اوسطاً ایک شخص کو امداد کی صورت میں تقریباً صرف 40 ڈالر ملے ہیں۔ اس کا موازنہ G20 ممالک کے شہریوں کو دی جانے والی 2400 ڈالر کی امداد کے ساتھ ذرا کیجئے اب! اس کے علاوہ، قرض کے ذریعے بھی افریقی ممالک کا بچا کھچا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ کرونا وباء سے پہلے ہی، ’سب صحارن افریقہ‘ کے 16 غریب ترین ممالک تمام شعبہ جات سے زیادہ پیسہ قرض پر خرچ کر رہی تھیں۔
اخراجات کا یہ فرق چاڈ اور گیمبیا میں تین گنا، اور شمالی سوڈان میں گیارہ گنا تھا۔ G20 کے ’ڈیٹ سروس سسپنشن اِنیشی ایٹیو‘ (ڈی ایس اسی آئی) کے باوجود، افریقہ کے باہر موجود قرض دہندگان کو اب بھی تقریباً 2.5 ارب ڈالر جا رہے ہیں۔ ’قرض کا منڈلاتا بحران‘ کے عنوان سے چھپنے والی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق، قرض کی ادائیگی میں خرچ ہونے والے ہر ایک روپے کے نتیجے میں شعبہ صحت، سماجی تحفظ، تعلیم اور دیگر ضروری سروسز پر خرچ ہونے والی رقم میں سے ایک روپیہ کم ہو جاتا ہے۔
افریقہ میں قرض کا بحران کرونا کے بحران کی طرح نیا نہیں ہے۔ یہ ان سامراجی ہتھیاروں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے برّ اعظم کو غلامی میں رکھ کر اس کی ترقی کو روک دیا گیا ہے۔ یہ قرض اوسطاً در حقیقت پچھلی دہائی کے اندر تقریباً دوگنا ہوا ہے۔ ابھی وباء کے باعث چھائی عالمی کساد بازاری اور عوامی آمدن میں نا قابلِ یقین گراوٹ کی وجہ سے یہ صورتحال مزید بگڑنے کی طرف گئی ہے۔
سامراجیت کی زنجیریں توڑ دو!
یہ حالات سامراجیت کا براہِ راست نتیجہ ہیں۔ سامراجی ممالک کی جانب سے افریقہ پر نو آبادیاتی قبضہ اور صدیوں تک پورے برّ اعظم کے وسائل کی بھرپور لوٹ مار ہی وہ وجوہات ہیں، جو یہاں کی پسماندگی کے ذمے دار ہیں۔ چنانچہ افریقہ میں کرونا وباء کے خاتمے کی خاطر سامراجیت کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ صدیوں تک سامراجی غلبے کی تباہ کاریوں کا شکار رہنے کی وجہ سے افریقی برّ اعظم کی اذیتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
سامراجیت کے تباہ کن غلبے کے باعث افریقہ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ کے ممالک کے استحصال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ وباؤں، جنگوں، ماحولیاتی تباہیوں اور قحطوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ پھر بھی یہ ممالک سامراجی اقوام کے سرمائے کے ایک بڑے حصے کا ذریعہ ہیں۔
افریقہ کی کمزور اور پسماندہ بورژوازی بیرونی سرمائے اور سامراجیت پر اتنے منحصر ہے کہ وہ سماج کو ترقی دینے کی اہل نہیں۔ وہ نہ صرف بیرونی سرمائے کی قیدی ہے، بلکہ زمینداروں کی بھی، جس کے ساتھ وہ رجعتی جڑت قائم کر کے ترقی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ افریقہ کے 1.3 ارب لوگوں کو جس بھیانک خواب کا سامنا ہے، اس کا خاتمہ محض سامراجیت کے خلاف جدوجہد کے ذریعے ممکن ہے۔ مگر سامراجیت کے خلاف جدوجہد سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کا ہی حصہ ہے۔ افریقہ سمیت کسی بھی سابقہ نو آبادیاتی خطے کے اندر ہمیں موجودہ نظام کا حقیقی چہرہ نظر آتا ہے۔ اس نظام کا تختہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے الٹنا پڑے گا۔