آکسفیم کی تہلکہ خیز رپورٹ۔۔کورونا وباء میں ارب پتی سرمایہ داروں کی ہوشرباء لوٹ مار

|تحریر: دیجان کوکچ؛ ترجمہ: ولید خان|

9 ستمبر کو آکسفیم نے ”Power, Profits and Pandemic“ کے نام سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح سرمایہ دار طبقے نے کورونا وباء کے دوران ہوشربا لوٹ کھسوٹ کی ہے۔

اس رپورٹ میں تباہ کن حقائق پیش کیے گئے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے گہرے معاشی و سماجی تاریخی بحران کے دوران۔۔جب کروڑوں زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی تھیں، 40 کروڑ نوکریاں ختم ہو چکی تھیں، 43 کروڑ چھوٹے کاروبار ڈوب رہے تھے اور غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد 26.5 کروڑ تک جا پہنچی تھی۔۔سماج کے یہ امیر ترین افراد دیو ہیکل منافع خوری کر رہے تھے حتیٰ کہ انہوں نے اس گھمبیر صورتحال کو اپنے مفادات کے لئے انتہائی سفاکی سے استعمال بھی کیا۔

انگریزی زبان مٰں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

ان ارب پتی مالکان اور اجارہ داریوں کا شرمناک کردار کوئی انہونی نہیں ہے۔ اپنی پچھلی تحریروں میں ہم پہلے ہی اس رپورٹ میں شائع کردہ حقائق کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کر چکے ہیں۔۔جیسے انڈیا سے امریکہ تک محنت کشوں کو کس تباہی کا سامنا ہے، امیروں اور غریبوں کے لئے وباء مختلف ہے، دیو ہیکل دوا ساز صنعت کی لوٹ مار اور سٹاک مارکیٹ میں ہوشرباء جوا۔ ہر ذی ہوش یہ واضح طور پر محسوس کر سکتا ہے کہ موجودہ بحران نے دائمی عدم مساوات کو مزید ننگا کرکے رکھ دیا ہے۔ لیکن پھر بھی آکسفیم کے مرتب کردہ اعدادوشمار ناقابلِ یقین ہیں۔ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ اس گلے سڑے نظام میں عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے حکمران طبقہ کس قدر سفاک اور درندہ صفت ہے۔

غربت میں منافعوں کے انبار

آکسفیم رپورٹ کا سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ دنیا کی 32 سب سے بڑی کمپنیاں سال 2020ء میں 109 ارب ڈالر منافع کمائیں گی۔ دوسری طرف 50 کروڑ افراد وباء کی وجہ سے غربت کی لکیر سے نیچے جا گریں گے۔

’GAFAM‘ (گوگل، ایپل، فیس بک، ایمازون، مائیکرو سافٹ) دنیا کی پانچ سب سے بڑی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں اس سال وباء کی وجہ سے 46 ارب ڈالر اضافی منافع کمائیں گی۔ اس کے ساتھ دنیا کی سات سب سے بڑی دوا ساز کمپنیاں سال کے آخر تک 21 فیصد زائد منافعوں کے ساتھ 12 ارب ڈالر اضافی کمائیں گی۔

Oxfam report 1 Image Oxfam

سال 2020ء میں دنیا کی 100 سب سے گراں قدر کمپنیوں نے اپنی سٹاک مالیت میں 3 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا۔ ایمازون کے مالک جیف بیزوس نے وباء کے آغاز سے اب تک اپنی ذاتی دولت میں 92 ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔ آکسفیم نے حساب لگایا ہے کہ اگر جیف بے زوس اپنے 8 لاکھ 76 ہزار ملازمین کو 1 لاکھ 5 ہزار ڈالر کا بونس بھی دے تو اس کی دولت محض اس سال مارچ والی پوزیشن پر واپس آ جائے گی۔ لیکن ایمازون ملازمین انتہائی کم اجرت پر خطرناک حالات میں کمر توڑ کام کرنے پر مجبور ہیں۔

آکسفیم نے انڈین چائے کمپنیوں کی بھی مثال دی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے منافعوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ وباء کے دوران انہوں نے خواتین مزدوروں کو اجرتیں نہ دے کر ان میں بے پناہ اضافہ بھی کیا ہے۔ کپڑوں کی ریٹیل کمپنی Kohl’s نے اس سال 15 کروڑ ڈالر کے آرڈر منسوخ کر کے بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا کے گارمنٹس کے مزدوروں کو گھر بھیج دیا لیکن پھر بھی 10.9 کروڑ ڈالر کے منافعے اپنے سرمایہ کاروں میں بانٹے۔ درحقیقت، صرف بنگلہ دیش میں 22 لاکھ مزدور ٹیکسٹائل آرڈرز کی منسوخی سے متاثر ہوئے ہیں۔ فیکٹریوں کی بندش کی وجہ سے ملک کو 3 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن دنیا کی دس سب سے بڑی کپڑے کی کمپنیوں کے سرمایہ کاروں میں 2020ء میں 21 ارب ڈالر کے منافعے بانٹے گئے!

رپورٹ میں تیل کی دیوہیکل امریکی کمپنی Chevron کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کمپنی اپنی پوری 45 ہزار کی عالمی لیبر فورس میں 10-15 فیصد کٹوتی کر رہی ہے جبکہ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں سرمایہ کاروں کو زیادہ منافعے دیئے گئے اور شیئرز کی واپس خریداریاں بھی کئی گئیں۔ نائیجیریا کی سب سے بڑی سیمنٹ کمپنی Dangote Cement نے ایک ہی حملے میں 3 ہزار مزدور فارغ کر دیئے لیکن اس سال اپنے سرمایہ کاروں میں 136 فیصد منافعے بانٹے جائیں گے۔

سرمایہ کاروں کا منافع

رپورٹ کے ایک بڑے حصے میں حصص مالکان کو دیئے جانے والے منافعوں کا تذکرہ ہے۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی تمام کمپنیوں کے زیادہ تر حصص امیر ترین افراد کے پاس ہیں۔ رپورٹ میں درج ہے کہ امریکہ میں امیر ترین 10 فیصد افراد تمام امریکی کمپنیوں کے 89 فیصد حصص کے مالک ہیں جبکہ برطانیہ میں تمام پنشن فنڈ کا 46 فیصد امیر ترین 10 فیصد افراد کی ملکیت ہے جبکہ غریب ترین 50 فیصد آبادی کا اس پنشن فنڈ میں حصہ 1 فیصد کے برابر ہے۔ دنیا کے امیر ترین ممالک سے باہر آئیں تو یہ عدم مساوات اور بھی زیادہ شدید ہے۔

حقیقت میں پوری دنیا کے تمام ممالک میں زیادہ تر سٹاکس اور شیئرز مٹھی بھر امراء کی ملکیت ہیں جو عالمی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب مجموعی معاشی پیداوار کے مقابلے میں پیداواری قوتوں میں سرمایہ کاری میں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے، یہ مٹھی بھر اقلیت پہلے سے بڑھ کر اپنا حصہ لے رہی ہے۔ چاہے وہ شیئرز کا منافع بڑھا کر ہو یا شیئرز کی واپس خریداری کر کے یا تنخواہوں اور بونس کی مد میں۔ آکسفیم نے جس ”سب سے پہلے حصص مالک“ ماڈل کی بات کی ہے وہ محض سرمایہ دار طبقے کا اپنی دولت میں اضافے کو یقینی بنانے کا ماڈل ہے جبکہ دوسری طرف منڈیاں مسلسل سکڑ رہی ہیں اور نئی سرمایہ کاری بے فائدہ ہو چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2016-19ء کے دوران دنیا کی 59 سب سے زیادہ منافع بخش کمپنیوں نے اپنے سرمایہ کاروں کو تقریباً 2 ٹریلین ڈالرمنافعے کی مد میں ادا کئے اور یہ اوسطاً منافعوں کا 83 فیصد بنتا ہے۔ کئی موقعوں پر حصص مالکان کو دی جانے والی رقوم تو کمپنی منافعوں سے بھی زیادہ بڑھ گئیں۔ مثال کے طور پر، اور مثال بھی ایسی جو کہ کورونا وباء سے متعلقہ بھی ہے، جنوبی افریقہ کی تین سب سے سے بڑی ہیلتھ کئیر کمپنیوں، جن میں نیٹ کئیر، میڈی کلینک اور ہیلتھ کئیر گروپ شامل ہیں، نے اپنے منافعوں کا ہوشربا 163 فیصد حصص مالکان کو حصص پر منافع اور شیئرز کی واپس خرید کے ذریعے دیئے۔ آکسفیم نے درست انداز میں جنوبی افریقہ میں وباء سے بدحالی اور ان منافعوں کے درمیان تعلق کو واضح کیا ہے جہاں صحت کی فراہمی میں سرمایہ کاری ناپید ہے، شعبہ صحت کے ملازمین کا بے پناہ استحصال کیا جاتا ہے اور وباء سے مقابلے کی صلاحیت سرے سے موجود ہی نہیں۔

Oxfam report 2 Image Oxfam

اس رپورٹ میں ایک اور شرمناک پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح دنیا کی تمام کمپنیاں اپنے سرمایہ کاروں کو مسلسل منافعے دینے کے ساتھ وباء کے نام پر ریاستی بیل آؤٹ پیکج بھی ہڑپ کر رہی تھیں۔ برطانوی حکومت نے ایک ایسے وقت میں دیوہیکل کیمیکل کمپنی BASF اور Bayer کو 1.6 ارب پونڈ کی امداد فراہم کی جب یہ کمپنیاں اپنے سرمایہ کاروں کو منافعوں کی مد میں 6 ارب پونڈ ادائیگیوں کا عندیہ دے چکی تھیں۔ سات فرانسیسی کمپنیوں نے بھی اپنے سرمایہ کاروں کو تقریباً اتنا ہی منافع دیا جبکہ ریاستی پیسے لے کر ملازمین کی تنخواہیں دی گئیں۔ مجموعی طور پر فرانس کی 40 سب سے بڑی کمپنیوں نے اس سال اپنے سرمایہ کاروں کو 35-40 ارب یورو کی ادائیگی کی ہے۔ امریکہ میں رائل کیریبین، ہیلی برٹن، جنرل موٹرز، مکڈونلڈ، 101 کیٹر پلر، لیوی سٹراس، سٹینلے بلیک اینڈ ڈیکر، سٹیل کیس اور ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ نے اپنے سرمایہ کاروں کو ماضی کی سطح پر منافع ادائیگیاں جاری رکھیں اور ساتھ میں حکومت سے امدادی پیکج لیتے ہوئے مزدوروں کو نوکریوں سے نکالا اور دیگر کی اجرتوں میں کٹوتیاں کیں۔ جرمنی میں بی ایم ڈبلیو نے 1.6 ارب ڈالر منافعوں کی مد میں ادائیگی کی جبکہ مزدوروں کو گھر بھیج کر ریاست سے پیسے لے کر ان کی تنخواہیں جاری رکھیں۔ اور سب سے غلیظ مثال تو امریکی دوا ساز کمپنیوں جانسن اینڈ جانسن، مرک اور فائزر کی ہے جنہیں بے تحاشا عوامی پیسہ دیا گیا تاکہ کورونا ویکسین بنائی جائے۔ یہ تینوں کمپنیاں جنوری سے اب تک اپنے سرمایہ کاروں میں 16 ارب ڈالر بانٹ چکی ہیں۔

آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر چیمہ ویرا نے درست طور پر دنیا کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کیا ہے کہ
”اس وقت ہمیں وباء کی وجہ سے جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس کی بنیاد یہ دھاندلی زدہ معاشی ماڈل ہے۔ دنیا کی امیر ترین اجارہ داریاں کم اجرتی مزدوروں کی قیمت پر اربوں ڈالر منافع کما کر سرمایہ کاروں اور ارب پتیوں کو دے رہی ہیں“۔
یہ دھاندلی زدہ ماڈل درحقیقت سرمایہ داری ہے۔

بھیانک استحصال

رپورٹ میں کمپنیوں کے مجرمانہ اقدامات کی کئی مثالیں موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح وباء کے دوران یہ کمپنیاں ہزاروں مزدوروں کی اموات کی ذمہ دار ہیں۔

پوری دنیا میں گوشت پروسیسنگ پلانٹس میں کورونا وائرس آگ کی طرح پھیلا۔ امریکہ میں اس سیکٹر میں کام کرنے والے 27 ہزار مزدور وباء کا شکار ہوئے۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی پروسیسنگ کمپنی ٹائیسن فوڈز نے لابنگ کے ذریعے قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر پوری کوشش کی کہ اس کے پلانٹس بند نہ ہوں۔ برازیل میں گوشت کمپنی جے بی ایس۔۔جس کی حکومت کو رشوت کھلانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔۔نئے تحفظاتی اقدامات منظور کروانے کی کوششیں کر رہی ہے جن میں سماجی تفاصل کو ختم کر دیا جائے گا۔ پہلے ہی اس کمپنی کے کئی سو ملازمین وباء میں مبتلا ہیں۔

رپورٹ کے آغاز میں امریکہ کی ریاست میری لینڈ میں مرنے والے ایک پولٹری مزدور کی بیوہ کے بیان سے ہوتا ہے
”انہیں مزدوروں کی ضرورت ہے تاکہ وہ پیسہ بنا سکیں لیکن انہیں لوگوں کی زندگیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ چکن پلانٹ کام کر رہے ہیں، پیسے بنا رہے ہیں۔۔اگر میرا خاوند۔۔اگر انہیں اس کی صحت کی کوئی پرواہ ہوتی، اگر اسے وباء سے متعلق کچھ بتایا ہوتا۔۔آج وہ زندہ ہوتا“۔

یعنی پولٹری پلانٹ کو بیوہ کے خاوند کی بیماری کا پتہ تھا لیکن اس سے پھر بھی زبردستی کام کرایا جاتا رہا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس کی باتوں سے محنت کش طبقے کے شعور ی معیار کا اندازہ ہوتا ہے جو وباء کے دوران اپنے مالکان کے ہاتھوں موت اور بیروزگاری کا شکار ہوا۔

اشیائے خوردونوش کی ڈلیوری کمپنیاں بھی اپنے نام نہاد ”سیلف ایمپلائمنٹ“ ماڈل کی وجہ سے ملازمین کے غیض و غضب کا شکار ہو کر ننگی ہو چکی ہیں کیونکہ ان ملازمین کے پاس نہ تو بنیادی مزدور حقوق ہیں اور نہ ہی بیماری کے نتیجے میں صحت اور چھٹی کی سہولت۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مزدور حقوق اور حفاظتی کٹس کی عدم موجودگی کے خلاف پوری دنیا میں ہڑتالیں ہوئی ہیں جن میں امریکہ میں انسٹا کارٹ اور انڈیا میں ذوماٹو اور سویگی کے مزدور شامل ہیں۔

یہ تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی کال سینٹر ایجنسی ٹیلی پرفارمنس کے ملازمین نے بھی کسی بھی حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی اور گھروں سے کام کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ہڑتالیں کیں۔ کمپنی نے اس حوالے سے 10 ممالک میں تادیبی کاروائیاں کیں۔


آکسفیم نے وضاحت کی ہے کہ پیرو، میکسیکو، گوئٹے مالا اور کانگو میں کانکنی بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے جاری ہے جبکہ کئی سو کورونا کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔ مغربی افریقہ کے کوکوا فارمز میں چائلڈ لیبر میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بالغ مزدوروں کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی۔ تھائی لینڈ میں سی فوڈ کے مزدوروں کو اپنی حفاظت خود کرنی پڑ رہی ہے کیونکہ عالمی سپلائی لائنز پر کورونا کے شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں اور مزدوروں کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات بھی نہیں کیے گئے۔

سمندر میں فلاح و بہبود کے چند قطرے

پوری وباء کے دوران ذرائع ابلاغ کارپوریٹ فیاضی کا ڈھول پیٹتے رہے۔ ہاں مالکان ابھی بھی ہوشرباء منافعے بٹور رہے ہیں اور اپنے ملازمین کو کام کرا کرا کر قتل کر رہے ہیں لیکن دیکھیں نا! یہ سب انسانیت کی محبت میں کیا جا رہا ہے! ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت وہ پیسہ ہے جو مالکان اور ان کی کمپنیاں۔۔اپنی رحم دلی کی وجہ سے۔۔فلاح و بہود کے لیے خرچ کرتی ہیں۔

Covid money Image Pixabay

بڑی کمپنیوں کی خیرات انکے منافعوں کے سامنے انتہائی حقیر دکھائی دیتی ہے۔ ان کی نام نہاد سخاوت درحقیقت مشہوری کیلئے دکھاوا ہے۔

آکسفیم رپورٹ نے اس تمام جھوٹ اور دھوکے کو ننگا کر دیا ہے۔ 2019ء میں پوری دنیا میں موجود کمپنیوں نے کل ملا کر اوسطاً اپنے منافعوں کا صرف 0.32 فیصد فلاحی کاموں میں خرچ کیا۔ امریکی ریاست کو 2017ء میں ٹیکس چوری کی مد میں 135 ارب ڈالر نقصان ہوا لیکن امریکی کمپنیوں کے مجموعی فلاحی اخراجات 20 ارب ڈالر سے بھی کم تھے۔

رپورٹ واضح کرتی ہے بیشتر کمپنیاں رضا کارانہ فلاحی اخراجات کو ضروری اخراجات جیسے قانونی طور پر واجب الادا ٹیکس یا اپنے ملازمین کو کم از کم اجرت کی ادائیگی پر ترجیح دیتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رضاکارانہ عطیات میں کمپنی کا جتنا دل کرے وہ دے سکتی ہے اور اسے ایسے بنا سنوار کر پیش کیا جاتا ہے جیسے ان سے زیادہ ہمدرد اور دکھی اس کائنات میں موجود نہیں۔ اس طرح وہ اس حقیقی دیو ہیکل رقم کی پردہ پوشی کرتے ہیں جو وہ ریاست کو ٹیکس اور مزدوروں کو اجرتوں کی مد میں نہیں دیتے۔ مارکیٹنگ حکمت عملی کے تحت ان کی بے پناہ بچت ہوتی ہے جبکہ غربت کے خاتمے اور دیگر سماجی مسائل کے لئے کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا۔

حکومتوں کا غلیظ کردار

اگرچہ رپورٹ کی توجہ کورونا وباء کے دوران کارپوریٹ حرص و ہوس پر مرکوز ہے لیکن پوری دنیا کی حکومتیں بھی بڑے کاروباروں کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے ننگی ہوئی ہیں۔ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ کس طرح حکومتیں کمپنیوں کو پیسے دیتی رہیں اور وباء سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر کو ان کی مرضی کے مطابق تبدیل کرتی رہیں جبکہ مالکان ہوشرباء منافع لوٹتے رہے، سرمایہ کار جیبیں بھرتے رہے اور قیمت ملازمین نے ادا کی۔ درحقیقت پوری دنیا میں کینیشئن بیل آؤٹ پیکج دینے کی وجہ ہی یہ تھی کہ کسی طرح سے کاروباروں کو سہارا دیا جا سکے۔

جن کمپنیوں کو ریاستی مالی امداد ددی گئی ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور وہ ٹیکس چوری کے حوالے سے بدنامِ زمانہ ہیں۔ رائٹرز جریدے کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی پیمنٹ پروٹیکشن پروگرام کے تحت 40 لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ حاصل کرنے والی 40 فیصد کمپنیوں نے پچھلے سال ایک ڈالر ٹیکس نہیں ادا نہیں کیا۔ جبکہ بڑی کمپنیوں نے چھوٹے کاروباروں کے لئے متعارف کردہ پروگرام میں سے 35 کروڑ ڈالر بھی ہڑپ کر لیا۔ امریکی ریاستی پروگرام کے مطابق 19 تیل کی کمپنیوں کو 1.9 ارب ڈالر کی ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے۔ وباء میں برطانیہ میں ریاستی امداد لینے والی 29 فیصد کمپنیوں کے آف شور ٹیکس ہیونز سے تعلقات موجود ہیں۔ باقی کمپنیوں کا ایک بڑا حصہ شاید ابھی تک پکڑ ا ہی نہیں گیا۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ ریاست میں موجود سرمایہ داروں کے نمائندے ان کے مفادات کا مکمل تحفظ کریں، اس کے لئے اس وقت بے مثال لابنگ دیکھی جا رہی ہے۔ اس سال کی پہلی سہ ماہی میں امریکہ میں صرف لابنگ کے لیے 90 کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے جو ریکارڈ سے کچھ ہی کم ہے۔ آکسفیم نے کئی حوالوں سے نشاندہی کی ہے کہ کس طرح لابنگ کے نتیجے میں کمپنیوں کو زیادہ تر کامیابیاں ہوئی ہیں۔ امریکہ میں اشیائے خوردونوش کی مینوفیکچرنگ سے لے کر میکسیکو میں کپڑے کے کارخانوں تک کئی کمپنیوں کو عالمی ادارہئ صحت اور خود امریکی ریاست کی ہدایات کے برعکس اپنا کام جاری رکھنے کی چھوٹ ملی۔ انڈین لابسٹس شیئرز کی واپس خریداری پر ٹیکس معافی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور کانکنی کی کئی بڑی اجارہ داریاں کامیابی سے قانونی طور پر ٹیکس بریک لیے بیٹھی ہیں۔ یورپی یونین میں کئی کمپنیوں بالخصوص ایوی ایشن انڈسٹری نے کورونا وباء کو استعمال کر کے ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کے نفاذ اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو کم کرنے میں تعطل سے کام لے رہی ہیں۔

پوری دنیا میں حکومتوں نے مجبوراً مکمل سماجی اور معاشی انہدام کو روکنے کے لیے اقدامات کیے اور آغاز میں عوام کو محسوس ہوا کہ یہ اقدامات انسانی ضروریات کے تحت اٹھائے جا رہے ہیں لیکن اس رپورٹ میں واضح ہو چکا ہے کہ حکومتیں درحقیقت کس طرف کھڑی ہیں۔ ایک کے بعد دوسری حکومت نے اس بحران میں ثابت کیا ہے کہ وہ امراء کی اور امراء کے لئے حکومتیں ہیں۔

”پہلے سے بہتر تعمیر“ کا سراب

آکسفیم رپورٹ میں دولت کے بے پناہ ارتکاز اور لا محدود استحصال کے انکشافات ان سادہ لوح افراد کے لئے بہت بڑی وارننگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وباء کی وجہ سے دنیا بالآخر اب بہتری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ”کورونا وباء کوئی حادثہ نہیں ہے۔ اگر دنیا اسی راہ پر چلتی رہی تو وباء کے نتیجے میں یقیناً طویل مدتی اور ساختی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ موجودہ سماجی، سیاسی اور معاشی دراڑیں مزید گہری ہوں گی۔ بعد از وباء معیشت کے حقیقی فاتح اجارہ داریاں اور امیر سرمایہ کار ہوں گے جن کے پاس پالیسی سازی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ طاقت اور وسائل موجود ہوں گے“۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ رپورٹ میں تمام بحث مباحثہ بحران کا الزام کورونا وباء پر ڈالنے کے برعکس یہ ہے کہ ”ایک پریشان کن رجحان“ کو ”کورونا وباء مہمیز دے رہی ہے“۔ سرمایہ داری کا بحران وباء سے پہلے موجود تھا لیکن اب یہ نہ صرف سطح پر واضح ہو چکا ہے بلکہ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اور رپورٹ میں نشاندہی کے مطابق طبقات کے درمیان وسیع خلیج پہلے ہی ایک طویل عرصے سے بڑھ رہی تھی۔

سرمایہ داری میں کوئی مستقبل نہیں

area line charts md Image QuoteInspector

سرمایہ داری مزید چلنے کا قابل نہیں۔

لیکن آکسفیم کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بہتری ہو سکتی ہے اگر بڑی اجارہ داریاں اپنے سرمایہ کاروں میں دیو ہیکل منافعے نہ بانٹیں۔ ان کی ایک تجویز یہ بھی ہے کہ یہ لمحہ ایک نیا نکتہ آغاز بن سکتا ہے اگر نظام پر مسلط افراد ایک مختلف ”فیصلہ“ کریں۔ ویرا کا کہنا ہے کہ ”ہمارے پاس ایک چوائس ہے۔ یا تو ہم ’پہلے کی طرح‘ سب کچھ کرتے رہیں یا پھر اس لمحے سے سیکھتے ہوئے زیادہ منصفانہ اور پائیدار معیشت تعمیر کر سکتے ہیں“۔ جس ”ہم“ کی وہ بات کر رہا ہے یہ وہی ہیں جو نظام اور پوری دنیا کی حکومتوں میں موجود اپنے تنخواہ دار نمائندوں کے ذریعے لامحدود استحصال کر رہے ہیں!

ڈیڑھ سو سال پہلے کارل مارکس نے اپنی تصنیف ”سرمایہ“ میں واضح کیا تھا کہ دولت کا ارتکاز ناگزیر طور پر کم سے کم ہاتھوں میں ہوتا چلا جاتا ہے۔ آکسفیم رپورٹ میں خود اعتراف کیا گیا ہے کہ شیئرز کی واپس خریداری جیسے طریقے۔۔جس کے ذریعے حکمران طبقہ مزدوروں کی پیدا کردہ دولت میں سے اور بھی زیادہ حصہ وصول کر تا ہے۔۔کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ اور جب ویرا یہ بات کرتا ہے کہ حکمران طبقہ زیادہ سے زیادہ ”طاقت اور وسائل مرتکز کر رہا ہے تاکہ عوامی پالیسی کو اپنے حق میں کیا جا سکے“ تو پھر وہ یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ جس نظام کا کام ہی اس حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے اور یہ انہی کے کنٹرول میں ہے تو کیسے یہی طبقہ اس طاقت اور وسائل کو اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کیونکر محدود کرے گا؟

ظاہر ہے کوئی تو وجہ ہے کہ آکسفیم سرمایہ داری کی حدود سے آگے نہیں دیکھ سکتی۔ اس فلاحی تنظیم نے حالیہ سالوں میں اپنے ڈائریکٹرز کی تنخواہیں دگنی کر دی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اپنی میز سے اپنی مرضی کے مطابق کچھ ٹکڑے سماج میں پھینک دیتا ہے۔۔ہاں، آکسفیم جیسے فلاحی اداروں کے لئے! یہ تنظیم اسی نظام کا حصہ ہے جسے اس رپورٹ میں ننگا کیا گیا ہے۔

درحقیقت رپورٹ میں تمام حقائق اور نتائج سرمایہ داری کے حکمت کاروں کو خبردار کرنے کے لئے مرتب کئے گئے ہیں کہ ان کے نظام کو مستقبل میں کیا خطرات لاحق ہیں۔ بدقسمتی سے سرمایہ داروں کے لئے ”جمہوری حکومت (سرمایہ دار حکومت!) میں عوامی اعتماد کا مزید فقدان اور بڑھتا سماجی انتشار“ ناگزیر طور پر موجودہ بحران کا نتیجہ ہیں۔ ایک ایسا نظام جو معاشی طورپر منہدم ہو رہا ہے اس میں کسی قسم کی کوئی اصلاح نہیں کی جا سکتی اور بظاہر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں اصلاحات کر کے عالمی محنت کش طبقے کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔

سوشلسٹ حل

ایک تاریخی طور پر متروک نظام جس کا خاصہ ہی اکثریت کی بربادی اور اقلیت کی آزادی ہے، کو درست کرنے کی کوشش کے بجائے اسے ختم کرنا ہوگا۔

کورونا وباء اور عوام کو درپیش معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک سوشلسٹ سماج کا ردِ عمل مکمل طور پر مختلف ہوتا۔ صرف سرمایہ کاروں کے منافعوں میں کمی یا خطرناک حالات میں گھرے مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت تک محدود نہ ہوتا۔ پورے سماج کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا جس میں لاک ڈاؤن کے دوران مکمل اجرتوں کے ساتھ روزگار اور صحت سہولیات کی بھرپور فراہمی شامل ہوتی۔ خود مزدور۔۔جو حقیقی طور پر اپنے کام کی جگہوں کے حوالے سے ماہر ہیں۔۔جمہوری طریقے سے فیصلے کرتے کہ انہوں نے اپنا تحفظ کیسے کرنا ہے۔ اس عمل کی جھلکیاں ہم نے کچھ ممالک میں اس سال دیکھی ہیں اور انہیں پورے سماج میں عمومی کرنے کی ضرورت ہے۔

شعبہئ صحت کے ملازموں کے لئے بنیادی حفاظتی سامان کی کوئی کمی نہ ہوتی اور کسی کو یہ فیصلے نہ کرنے پڑتے کہ خطرے میں زندگی ڈالنی ہے یا روزگار۔۔اور نہ ہی کوئی آپ کے لئے ایسے فیصلے کرتا۔ پچھلے سال کے حوالے سے آکسفیم نے مالکان اور سرمایہ کاروں کی جس دیو ہیکل لوٹ مار کی نشاندہی کی ہے۔۔زیادہ تر مثالوں میں تو یہ رقم حکومتی بیل آؤٹ سے بھی زیادہ ہے۔۔یہ ثابت کرتی ہے کہ پورے سماج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے دولت موجود ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک تباہ حال اور ہوشرباء ضیاع کے نظام میں رہتے ہوئے بات کی جا رہی ہے جس میں ہماری مکمل پیداواری قوتوں کو بروئے کار لایا ہی نہیں جاتا۔آکسفیم کی یہ رپورٹ خوش آئند ہے کیونکہ یہ ہماری ایک ایسے نظام کے لیے جدوجہد کو مہمیز دیتی ہے جس میں انسانیت کے مکمل پوٹینشل کو بروئے کار لایا جاسکے گا۔

Comments are closed.