|تحریر: آندریا پٹانے، ترجمہ: ولید خان|
کورونا وباء کو سولہ ماہ گزر چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق اس سے اب تک 69 لاکھ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سرمایہ داری اپنی تاریخ کے عمیق ترین بحران میں دھنس چکی ہے اور حکمران طبقات آپس میں پیٹنٹ ختم کرنے، برآمدات پر پابندی لگانے اور اپنے آپ کو سب سے پہلے رکھنے پر کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حال ہی میں اعلان ہوا ہے کہ اب جو بائیڈن کی حکومت کورونا ویکسین پیٹنٹس کو ختم کرنے کے لئے ”مذاکرات“ کی حمایت کر رہی ہے۔ اس اعلان کے بعد حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں میں نئی دراڑیں پیدا ہو گئی ہیں اور لڑائی نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔
اس خبر نے بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کو پریشان کر دیا ہے جو کورونا ویکسین اور دیگر ادوایت پر غاصبانہ اجارہ داری کے نتیجے میں اربوں ڈالر منافع لوٹ رہی ہیں۔
یہ بات مسلسل واضح ہوتی جا رہی ہے کہ تنگ نظر قومی مفادات اور نجی منافعوں کے حصول پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی انسانی فلاح کے مقصد کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ درحقیقت حالیہ WHO (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ کورونا وبا کو روکا جا سکتا تھا۔ منڈی اور بورژوا سیاست دانوں نے یہ تباہی مچائی ہے اور اب وہ اس کو حل کرنے کی کوئی اہلیت نہیں رکھتے۔
انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس اور بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کے منافعے
پچھلے سال اکتوبر میں ویکسین کی ممکنہ عالمی قلت اور غریب ممالک کی ان کے حصول میں نااہلیت کے پیش نظر انڈیا اور جنوبی کوریا نے WTO کو درخواست دی کہ کورونا سے متعلق تمام ادویات اور ٹیکنالوجی کے انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس ختم کر دیئے جائیں۔ اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں کہیں بھی عام سستے نسخے بنائے جا سکتے ہیں۔
ویکسین اور میڈیکل ٹیکنالوجی WTO کے ٹریڈ ریلیٹڈ انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس (TRIPS) معاہدوں کے زمرے میں آتے ہیں جن کا مقصد بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کے انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کی حفاظت کرنا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اگر TRIPS معاہدے میں چھوٹ دے دی جاتی تو اس سال کے آخر تک دنیا کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی کو ویکسین فراہم کی جا سکتی تھی۔ سال 2022ء کے آخر تک پوری دنیا میں ہر فرد کو ویکسین فراہم کی جا سکتی تھی۔ آج جس بھیانک وباء میں اربوں لوگ جینے پر مجبور ہیں اسے ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکتا تھا۔
پھر تو یقینا TRIPS میں چھوٹ کی درخواست نہایت ہی دانشمندانہ اور ناگزیر نہیں ہے؟ خاص طور جب Pfizer, Johnson & Johnson اور AstraZeneca اب تک 26 ارب ڈالر سے زیادہ منافع لوٹ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ مطالبہ بھی کچھ خاص ریڈیکل نہیں تھا جو صرف ایک ویکسین کی حد تک انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس میں عارضی چھوٹ تک محدود تھا۔
یاد رہے کہ 2001ء میں TRIPS اور عوامی صحت پر جاری ہونے والے دوحہ اعلامیے کے مطابق، جس پر WTO کی تمام ممبر ریاستیں متفق ہیں، عوامی صحت کو انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کی حفاظت پر سبقت حاصل ہے۔
بدقسمتی سے بڑی دوا ساز اجاریاں اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں اور دوحہ اعلامیے جیسے کاغذ کے ٹکڑوں کو خاطر میں لا کر کورونا ویکسین کے نجی منافعوں کو ہڑپ کرنے پر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کے نقطہ نظر سے اس مخصوص موقعہ پر کسی قسم کی رعایت ایک خطرناک روایت بن جائے گی۔
انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کا تحفظ بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کو یہ حق دے رہا ہے کہ وہ دنیا کی اکثریتی آبادی کو ویکسین سے محروم رکھیں۔ اس صورتحال کو امیر ممالک کی ویکسین کے حوالے سے قوم پرستانہ پالیسیوں نے اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے جو سپلائر کمپنی کو براہ راست پیسے دے کر عالمی سپلائی کو ہڑپ کر رہے ہیں۔
WHO کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدوروس نے نیو یارک ٹائمز میں خبردار کیا ہے کہ موجودہ ویکسین لگانے کی شرح کو دیکھتے ہوئے ”یہ ممکن ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کئی ممالک اپنی سب سے زیادہ خطرے کا شکار آبادیوں کے لئے ویکسینیں اکٹھی کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہوں تو دوسری طرف کچھ ممالک اپنی آبادی کو، جسے ویکسینیں لگائی جا چکی ہوں گی، اس وقت کورونا وائرس کی مختلف انواع کے خلاف بوسٹر ویکسین لگا رہے ہوں“۔
بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کے لئے تو یہ امکان جنت سے کم نہیں کہ کورونا وائرس موسمی فلو کی طرح مستقل ہو جائے۔
اگر غریب ممالک میں ہر سال نئی انواع پیدا ہوتی ہیں اور امراء کے لئے موسمی ویکسین بنائی اور تقسیم کی جاتی ہے تو ان جونکوں کی جیبوں میں اگلے کئی سال اربوں ڈالر آتے رہیں گے۔
Moderna کے CEO سٹیفانے بانسیل نے تو اپنے اسٹاک حصے داروں کو ابھی سے اسی قسم کے”کارباری ماڈل“ کا لالچ دے دیا ہے۔۔اور اس سال 19.2 ارب ڈالر کی فروخت کا عندیہ بھی دے دیا ہے!
لیکن یہ تمام لوٹ مار اسی وقت ممکن ہے جب بڑی دوا ساز اجارہ داریاں ویکسین انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کو مظبوطی سے اپنی گرفت میں رکھیں۔ کورونا وائرس کی ہیئت موسمی ہونے سے اگر لاکھوں افراد ہر سال مرتے بھی ہیں تو یہ ان کے لیے ایک معمولی سا مسئلہ ہے۔
پیٹنٹ کا خاتمہ
اس لئے یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ بڑی دوا ساز اجارہ داریاں پوری دنیا کی حکومتوں میں TRIPS پیٹنٹ کے خاتمے کے خلاف لابی کرنے میں مصروف ہیں، اور اب تک انہیں اس حوالے سے کامیابیاں ہی ملی ہیں۔
اکتوبر 2020ء میں امریکہ اور یورپی یونین نے نہ صرف اس چھوٹ کی مخالفت کی بلکہ WTO کے اجلاسوں میں اس موضوع پر کسی قسم کے بحث مباحثے کو بھی ہر ممکن طریقے سے روکا۔
اب، سات ماہ کا مجرمانہ عرصہ گزرنے کے بعد، جس میں لاکھوں لوگ دوسری اور تیسری کورونا لہر میں مارے جا چکے ہیں جنہیں روکا جا سکتا تھا، بائیڈن کی حکومت نے TRIPS چھوٹ پر مذاکرات کی بالآخر حمایت کر دی ہے۔
ظاہر ہے اس خبر کے بعد بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی ہے۔ Pfizer کے CEO البرٹ بورلا کا کہنا ہے کہ انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کی چھوٹ کے نتیجے میں ویکسین کی پیداکاری میں استعمال ہونے والے ”خام مال کا بہاؤ برباد“ ہو جائے گا۔
اس بات سے تو یہ تاثر واضح ہوتا ہے کہ بڑی اجارہ داریاں اس خام مال پر اپنا کنٹرول کھو دیں گی۔
اس دوران Johnson & Johnson نے پیٹنٹ کے خاتمے کی تجویز کے بارے میں اس رد عمل کا اظہار کیا ہے کہ یہ ”ایک غیر معمولی قدم وباء سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے عالمی رد عمل اور حفاظتی اقدامات کو متاثر کرے گا“ اگر غریب ممالک کو ویکسین بنانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
حالانکہ انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ویکسین بناتا ہے اوران دو ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پیٹنٹ کے خاتمے کی تجویز پیش کی تھی۔
بڑی دوا ساز اجارہ داریاں یہ بھی رونا رو رہی ہیں کہ انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس میں چھوٹ سے چین جیسے ممالک کو مغربی mRNA ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو جائے گی جو ویکسین پیداکاری کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کو کینسر کے حوالے سے تحقیق سمیت دیگر مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ mRNA ٹیکنالوجی عوامی یونیورسٹیوں کے تحقیقی اداروں میں ریاستی فنڈنگ کے نتیجے میں پروان چڑھی تھی اور اس کے بعد نجی کمپنیوں کو منافعوں کی لوٹ مار کے لئے سونپ دی گئی تھی۔
سادہ الفاظ میں مختلف سرمایہ دارانہ ریاستوں کی نجی ملکیت بننے کے بجائے یہ بحث پوری دنیا کے لئے جدید میڈیکل سائنس کی مفت فراہمی کی بحث بن جاتی ہے۔
ایک سوچی سمجھی چال
”عالمی یکجہتی“ کے برعکس، امریکی حکومت کی طرف سے یہ نئی چال ایک سوچی سمجھی سیاسی چال ہے جسے امریکی سامراجی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بورژوازی کا زیادہ سنجیدہ دھڑا سمجھ رہا ہے کہ اگر درست اور مکمل معاشی بحالی حاصل کرنا مقصد ہے تو پھریہ کام پوری دنیا میں وباء کے خاتمے کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ہم نے پہلے بھی بحث کی ہے کہ اگر امیر ممالک اپنی ہی سرحدوں میں وباء کو کنٹرول کرنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں تو بھی انہیں اربوں ڈالر کا نقصان ہو گا کیونکہ نئے انواع (جیسے انڈیا اور برازیل میں ہیں) ہمیشہ کسی اور جگہ افزائش پا کر ان کے عوام کو دوبارہ متاثر کر سکتے ہیں جس سے مسلسل معاشی انتشار جاری رہے گا۔
اس لئے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر بھی امیر ممالک کے طویل مدتی مفادات کے لئے ضروری ہے کہ ایک عالمی ویکسین کمپئین منظم کی جائے۔ یہاں تک کہ اس کا مطالبہ روم سے پوپ فرانسس نے بھی کیا ہے!
بائیڈن کا اعلان ویکسین سفارت کاری میں ایک نئی چال بھی ہے۔
امریکہ کے مرکزی حریف چین اور روس اپنے حلقہ اثر کو ان غریب ممالک میں مفت Sinopharm اور Sputnik V ویکسین کی فراہمی کر کے تقویت دے رہے ہیں جو امریکہ اور یورپ کی ویکسین کے حوالے سے قوم پرستانہ پالیسیوں کے نتیجے میں محروم رہ گئے ہیں۔
چین یاور روسی ویکسین برازیل اور ہنگری جیسے ممالک میں بھی جا رہی ہے جو روایتی طور پر مغربی حلقہ اثر میں رہے ہیں۔
اس لئے کورونا ویکسین پر انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس میں چھوٹ درحقیقت مخالف سامراجی طاقتوں کے بڑھتے اثر و رسوخ کا سد باب کرنے کی کوشش ہے جو فی الحال عالمی ویکسین فراہمی میں واشنگٹن سے کوسوں آگے کھڑے ہیں۔
بائیڈن کا اعلان عالمی سٹیج پر امریکی سامراج کی بحالی کی ایک کوشش بھی ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کردہ ”سب سے پہلے امریکہ“ کی قوم پرستانہ ویکسین پالیسی سے بری طرح مجروح ہو چکی ہے اور جسے اب تک بائیڈن نے بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
فنانشل ٹائمزکے مطابق کیتھرین تائی (اولین امریکی تجارتی نمائندہ) اور جیک سالیوان (قومی سلامتی مشیر) نے بائیڈن کو قائل کیا کہ پیٹنٹ کے خاتمے کے لئے اجازت دینا ”ایک سفارتی فتح کے لئے معمولی قیمت ہے“ کیونکہ امریکہ پر ”انڈیا میں رونما ہونے والے کورونا بحران کے حوالے سے مستعد اقدامات نہ اٹھانے پر“ شدید تنقید ہو رہی تھی۔
لو جناب! چڑیا نے خبر دے ہی دی۔ سرمایہ داری میں ویکسین، وباء کا خاتمہ کرنے کی بجائے ”سفارتی فتح کے لئے معمولی قیمت“ جیسے اوزار ہیں۔ ایسے جیسے عالمی قائدین کے درمیان کوئی فٹ بال کا کھیل چل رہا ہے!
مختصر یہ کہ بائیڈن بڑی دوا ساز اجارہ داریوں کے فوری مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ سب کچھ بحیثیت مجموعی پورے امریکی سامراج کے مفادات کے تحفظ کے لئے کر رہا ہے۔
لیکن ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر کھڑے ہونے کی یہ سفاک چال امریکہ نے اسی وقت چلی ہے جب اس نے اپنی دیو ہیکل معاشی قوت کو استعمال کرتے ہوئے اتنی ویکسینیں اکٹھی کر لی ہیں کہ امریکہ کے ہر فرد کو کئی مرتبہ ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔
درحقیقت جنگی قانون Defence Production Act ابھی بھی نافذ ہے جس کے ذریعے امریکی مینوفیکچررز کو مجبور کیا جاتا ہے کہ صحت سے متعلق سب سے پہلے مقامی ضروریات پوری کی جائیں اور اس کے بعد ہی برآمدات کی اجازت ملے گی۔
اس کُلّی بندش نے سپلائی چین میں شدید رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں جس کے نتیجے میں WHO کا غریب ممالک کو ویکسین فراہم کرنے کا پروگرام COVAX بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
لیکن کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئیے کہ آج بھی بائیڈن کی پالیسی ”سب سے پہلے امریکہ“ کی ہی ہے، بس اسے اپنے پیشروکے برعکس خوشنما غلاف میں چھپایا جا رہا ہے۔
تحفظاتی پالیسیوں پر کاربند یورپی یونین
دوسری طرف یورو زون میں ویکسین کی ابھی بھی قلت ہے اور یورپی یونین کے قائدین بائیڈن پر تنقید کر رہے ہیں کہ اسے پابندیاں اٹھا دینی چاہئیں اور انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس میں چھوٹ دینے سے پہلے اپنی زائد ویکسین کا کچھ حصہ تقسیم کرنا چاہئیے۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا کہنا ہے کہ وہ انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس میں چھوٹ کا حامی ہے لیکن فی الحال زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ وسائل پر پابندیاں ختم کریں اور اپنی زائد ویکسین تقسیم کریں۔ ہفتہ وار چھٹی کے دن میکرون نے کہا کہ:
”اگر ہم تیزی سے کام کرنا چاہتے ہیں تو اس وقت دنیا میں کوئی ایسی فیکٹری موجود نہیں جو انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کے باوجود غریب ممالک کے لئے ویکسین نہ بنا سکے۔۔آج سب سے اہم انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس نہیں ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ ہم اپنے آپ کو دھوکہ دیں گے۔ اصل مسئلہ پیداوار ہے“۔
بالکل درست! اور پیداوار کو بے تحاشہ بڑھایا جا سکتا ہے اگر بڑی دوا ساز اجارہ داریاں صرف موجودہ فیکٹریوں کی بھرپور پیداوار پر ہی قناعت کر کے نہ بیٹھی ہوں۔ نئی فیکٹریاں بنائی جا سکتی ہیں، پرانی کو اس کام کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے لیکن یہ صرف اس لئے نہیں کیا جا رہا کہ وباء ختم ہونے کے بعد یہ فیکٹریاں بند (اور غیر منافع بخش) ہو جائیں گی۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تاحال کوئی فرانسیسی کمپنی ویکسین نہیں بنا سکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فرانسیسی سرمایہ داری کے نقطہ نظر سے انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کا تحفظ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔
لیکن جرمنی میں صورتحال مختلف ہے جہاں Pfizer کی پارٹنر کمپنی BioNTech موجود ہے اور جس کی چانسلر اینجیلا مرکل نے انٹیلیک چوئل پراپرٹی رائٹس کو محفوظ رکھنے پر زور دیا ہے تاکہ آزاد منڈی کی ”جدت“ کو یقینی بنایا جا سکے۔ پچھلے جمعے کے دن اس نے کہا کہ:
”میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں کمپنیوں کی تخلیقی اور جدتی قوتوں کی ضرورت ہے اور میرے لئے اس میں پیٹنٹ تحفظ بھی شامل ہے“۔
مرکل بھول رہی ہے کہ منڈی کے ”خفیہ ہاتھ“ کے بجائے وباء کے آغاز سے ریاستی مداخلت ہی وہ سب سے اہم عنصر ہے جس نے ویکسین پیداوار کو یقینی بنایا ہے۔
جس تحقیق کی بنیاد پر ویکسین کی ٹیکنالوجی تخلیق کی گئی اس کی زیادہ تر فنڈنگ عوامی پیسوں سے ہوئی ہے۔ مثلاً AstraZeneca ویکسین کی 97 فیصد فنڈنگ عوامی پیسوں سے ہوئی ہے۔ اور اس میں وہ اربوں ڈالر شامل نہیں ہیں جو مختلف ریاستوں نے اس کی خرید پر خرچ کئے ہیں۔
اس سارے معاملے کا ”جدت“ کے تحفظ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ جرمن سرمایہ داری کے نجی مفادات کا تحفظ ہے۔
ویکسین بالادستی
جرمنی جیسے ممالک کے تحفظات کے باوجود امریکہ کی یہ چال یورپی یونین کو اپنا راگ تبدیل کرنے پر مجبور کر دے گی۔
ہفتہ وار چھٹی کے دن یورپین کونسل کی ایک سربراہی کانفرنس میں صدر چارلس میشل نے کہا کہ ”انٹیلیک چوئل پراپرٹی کے معاملے پر ہمارا نہیں خیال کہ فوری طور پر یہ کوئی جادو کی چھڑی ثابت ہو گی لیکن ہم ٹھوس تجاویز کی روشنی میں اس مسئلہ پر بات کرنے کو تیار ہیں“۔
لیکن برسلز امریکہ سے خائف ہے کہ جب یورپی یونین کا ویکسین پروگرام آغاز میں شدید مسائل کا شکار ہوا تو اس نے اضافی ویکسین فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سربراہی کانفرنس کے اختتام پر یورپی کمیشن صدر ارسولا ون در لیئن نے ایک بار پھر کہا کہ یورپ انٹیلیک چوئل پراپرٹی کے مسئلہ پر ”مذاکرات کرنے کو تیار ہے“ لیکن اس نے یہ موقع زیادہ تر امریکہ پر تنقید کرنے پر صرف کیا:
”یورپی یونین دنیا کی فارمیسی ہے اور پوری دنیا کے لئے کھلی ہے۔ اب تک یورپی یونین میں 40 کروڑ ویکسینیں تیار کی جا چکی ہیں اور ان میں سے 50 فیصد۔۔20 کروڑ۔۔پوری دنیا کے 90 ممالک میں بھیجی جا چکی ہیں۔ اس لئے ہم دیگر کو بھی یہی اقدامات کرنے کی دعوت دیتے ہیں (یہاں واضح طور پر امریکہ کی طرف اشارہ ہے)۔ فوری طور پر پوری دنیا میں ویکسین کے مسائل اور قلت کا مقابلہ کرنے کے لئے یہی طریقہ کار کارآمد ہے“۔
بیلجیئن وزیر اعظم الیگزانڈر دی کروو نے اور بھی زیادہ سخت زبان استعمال کی:
”بطور یورپی ہمیں سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ نے پچھلے چھ ماہ میں ایک بھی ویکسین برآمد نہیں کی۔ یہ یورپ ہی ہے جو پچھلے چھ ماہ سے اپنے اور پوری دنیا کے لئے ویکسینیں بنا رہا ہے“۔
اب چونکہ یورپی ویکسین پروگرام میں کچھ بہتری آ گئی ہے (اگرچہ یہ ابھی بھی امریکہ اور برطانیہ سے بہت پیچھے ہے) اور اس لئے اب وہ بھی اپنی ویکسین سفارت کاری کے ذریعے امریکہ، چین اور روس کا مقابلہ کرتے ہوئے ویکسین بالادستی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کانفرنس میں لیئن نے اعلان کیا کہ 6 لاکھ سے زائد ویکسینیں مغربی بالقان بھیجی جائیں گی اور مشرقی پارٹنرشپ میں موجود مشرقی یورپی ممالک اور کاکیشیا میں بھی ویکسینیں بھجنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
ان میں خاص طور پر یوکرائن شامل ہے جو پہلے ہی واشنگٹن سے ویکسین کی بھیک مانگ مانگ ناامید ہو چکا ہے۔
اس ساری صورتحال میں یورپی یونین برطانوی کمپنی AstraZeneca سے بھی ایک قانونی جنگ لڑ رہی ہے اور حال ہی میں انہوں نے ان پر ویکسین فراہمی میں تاخیر پر قانون دعویٰ بھی کر دیا ہے۔
ایک مرتبہ پھر جب وباء کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم موڑ پر عالمی تعاون کی اشد ضرورت ہے تو بورژوازی کے سیاسی قائدین ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا اور تنگ نظر قومی مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
پاگل پن وقت ختم ہو چکا ہے!
ایک طرف عالمی قائدین چوں چوں کا مربہ بنے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اس وباء میں قید محنت کشوں کی ہولناک بربادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
WTO کو سرکاری اعلامیے میں تائی نے کہا ہے کہ ”مذاکرات (یعنی پیٹنٹ کا خاتمہ) میں وقت لگے گا“۔ لیکن آج کروڑوں محنت کشوں کے سر پر کورونا نامی موت منڈلا رہی ہے اور وقت ہی تو ہے جو ان کے پاس نہیں ہے!
WTO کو تمام فیصلے اتفاق باہمی سے کرنے ہوتے ہیں کیونکہ 164 ممبر ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی کسی فیصلے کو روک کر سکتا ہے۔ اس لئے خیال کیا جا رہا ہے کہ نومبر کے اختتام تک ہی ایک مجوزہ معاہدہ پیش کیے جانے کے ”حقیقت پسند امکانات“ ہیں۔ نومبر سات ماہ دور ہے! اس وقت روزانہ بیسیوں ہزاروں اموات رپورٹ ہو رہی ہیں۔ وائرس کی نئی انواع انڈیا اور لاطینی امریکہ کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔
یعنی کہ پہلی کارآمد ویکسین بنانے میں جتنا وقت لگا تھا اس سے زیادہ وقت اس کے پیٹنٹ کے خاتمے پر لگے گا! یہ پاگل پن ہے۔
پھر WTO کو امریکی اعلامیے میں ویکسین ٹیکنالوجی اور تحقیق کے ٹرانسفر کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔
اگر ویکسین کی پیداوار میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور اس کی تفصیلات دوسروں کو نہیں دی جاتیں تو پھر ایک پیٹنٹ کے خاتمے کے بعد بھی مینوفیکچررز کو ایک عام ورژن بنانے کے لئے ریورس انجینیئرنگ میں کئی مہینے لگ جائیں گے اور اس کے بعد پھر کئی ماہ ٹیسٹنگ ہوتی رہے گی۔
بڑی دوا ساز اجارہ داریاں اپنی ٹیکنالوجی (جو پہلے ہی عوامی پیسوں کا نتیجہ ہے) کبھی بھی رضاکارانہ طور پر دوسروں کو نہیں دیں گی۔
وہ سال 2021ء میں اربوں ڈالر کی فروخت کا تخمینہ لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کریں گے عام ورژن کی پیداکاری جتنی تاخیر زدہ کی جا سکتی ہے، کی جائے۔ وہ سکون سے معاملات کو طوالت دے سکتے ہیں۔ ان کے لئے ایک پل کا مطلب ہوشرباء منافع ہے۔
کورونا وباء نے حقیقی طور پر رمایہ داری کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ترقی کو مہمیز دینے والی قوت کے برعکس نجی ملکیت اور قومی ریاست وباء ختم کرنے میں دو سب سے بڑی رکاوٹیں بن چکی ہیں۔
ایک جمہوری عالمی پیداواری پروگرام کے ذریعے ہم سماج میں آج موجود دیو ہیکل صنعتی اور سائنسی قوتوں کو بے لگام کر سکتے ہیں۔ تمام درکار تحقیق، ٹیکنالوجی اور مہارت کو اس جان لیوا وائرس کے خاتمے کے لئے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
پیداوار اتنی بڑھائی جا سکتی ہے کہ اس سال کے آخر میں دنیا کی بہت بڑی اکثریتی آبادی کو ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔
یہ صرف سرمایہ داری ہے جو راستے کی سب سے بڑی رکاؤٹ ہے۔ ہمیں ہر صورت وباء سے طبقاتی جدوجہد کے ذریعے لڑنا ہو گا! تمام دوا ساز اجارہ داریوں کو قومیایا جائے!