کرونا وائرس: سپین ہزاروں مزدورں کی ہڑتال؛ غیر محفوظ حالات میں کا م کرنے سے انکار!

|تحریر: جوسیبا ایسپاراز، آؤسو فوروندا؛ ترجمہ: ولید خان|

ہسپانوی محنت کش مالکان کی جانب سے کام کی جگہوں پر کرونا وائرس وباء کے خلاف حفاظتی تدابیر کے نفاذ کے انکار پر ہڑتال کر رہے ہیں۔ مندرجہ ذیل اعلامیہ پوری دنیا کے لئے ایک مثالی پیغام ہے۔ کام کی جگہوں پر غیر محفوظ حالات نامنظور! مالکان قیمت ادا کریں!

حکومت مکمل طور پر مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہے اور ایسی صورتحال میں صرف محنت کش طبقہ ہی کرونا وائرس کی وباء کے خلاف مؤثر جدوجہد منظم کر سکتا ہے۔ ویٹوریا میں مرسڈیز مزدور، ولادولید میں IVECO؛ دوس ہرماناس میں ایمازون گوداموں، بالے، ائرنوفا، کونٹی نینٹل وغیرہ کے مزدور۔۔ سب اپنی کام کی جگہوں پر وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے پرعزم ہیں۔ یہ ہسپانوی محنت کش آگے بڑھ کر ہراول کردار ادا کر رہے ہیں!

مرکزی اور علاقائی آزاد حکومتیں اور میڈیا ہمیں بتاتا نہیں تھکتا کہ وباء کو روکنے کے لئے ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں میں رہنا ہے۔ پھر قومی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے خبردار بھی کیا کہ پولیس اور فوج ضروری سخت اقدامات کرے گی۔ انہوں نے خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے اور تادیبی کاروائیوں کی دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن ذمہ داری کی تمام تر اپیلیں مقدس نجی ملکیت کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں۔ ان اقدامات کا سرمائے کے مالکان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ اقدامات جن کا ہر گھنٹہ بعد تمام بڑے میڈیا اداروں سے پرچار کیا جاتا ہے۔۔ ان کے مالکان بھی انہی اجارہ داریوں میں شامل ہیں۔۔ منافعے کی قربان گاہ میں فناء ہو جاتے ہیں اور فیکٹریوں اور کام کی جگہوں میں داخل نہیں ہوتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ لاکھوں کروڑوں مزدوروں کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ ان کو فیصلہ کرنا ہے کہ زیادہ کیا اہم ہے، ان کی صحت یا ان کے حالاتِ زندگی اور روزگار۔

واضح طور پر درست اطلاعات کی اشد ضرورت ہے لیکن کوئی بھی عقل مند مبصر یا اربابِ اختیار صحت کے حوالے سے خوفناک خطرات کو بیان کرنے کی جسارت نہیں کر رہا یا 100 اجارہ دار خاندانوں کے لاکھوں کروڑوں ملازمین کے مستقبل پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ یہ وہی افراد ہیں جو IBEX کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بیٹھتے ہیں اور کسی کو جواب دہ نہ ہوتے ہوئے منافعوں کے حصول کے لئے اپنے ملازمین کی زندگیاں قربان کرنے کو ایک لمحہ توقف نہیں کریں گے۔ اور جن مواقع پر یہ اپنے کاروبار جاری نہیں رکھ سکیں گے تو وہ ابھی سے طاقت کی ڈوریں ہلاتے ہوئے کل اس بحران کی پوری قیمت ہمارے کندھوں پر لاد دیں گے۔

مرسڈیز -وٹوریا کی مثال

17 مارچ کے روز صبح کی شفٹ شروع ہوتے ساتھ ہی مرسڈیز وٹوریا کی پروڈکشن لائن پر شدید تناؤ کی صورتحال تھی۔ باسک کے علاقے میں واقع یہ سب سے بڑا صنعتی ادارہ ہے جہاں 5 ہزار مزدور اور 12 ہزار معاون کار کام کرتے ہیں۔ تمام مزدور شدید ہیجان کا شکار تھے۔ ہر کسی کے ذہن پر ریڈیو اور ٹی وی کا دوغلہ پراپیگنڈہ سوار تھا جس میں عوام کو بار بار یہ بتایا جا رہا ہے کہ گھر میں رہ کر ہی اس وباء کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جبکہ انہیں بنیادی حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی میں کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور اس طرح مزدور اور ان کے خاندان دونوں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ صبح کے وسط تک تناؤ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑا اور مزدوروں نے اجتماعی قدم اٹھا لیا۔

فیکٹری انتظامیہ شروع سے ہی مزاحمت کر رہی تھی اور کسی قسم کے اقدامات کرنے سے انکاری تھی۔ اس لئے مزدوروں نے لائن نمبر 10 پر ملاقات کر کے دیگر مزدوروں کو پیغام پہنچایا اور مطالبہ کیا کہ پیداوار روک دی جائے۔ اس مطالبے کا استقبال بھرپور تالیوں اور متفقہ ”ابھی بند کرو!“ کے نعروں سے ہوا۔ مزدور احتجاج کر رہے تھے۔ کمیٹی صدر نے کئی سو شفٹ مزدوروں کو بتایا کہ مزدور نمائندوں کے متعدد مطالبات کے باوجود انتظامیہ نے پیداوار روکنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ جواب میں کمیٹی نے Ertzaina (ایک باسک پولیس افسر) اور لیبر انسپکٹر سے رابطہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آ کر موقع پر قانونی طور پر منظور شدہ حفاظتی اقدامات کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں۔ کوئی بھی ایکشن لینے کے بجائے پولیس افسر نے فیکٹری پہنچ کر کمیٹی صدر ٹیٹو کی موجودگی میں صرف انتظامیہ کی وضاحت پر ہی کان دھرے جبکہ لیبر انسپکٹر نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ کمپنی اور اتھارٹی کی مجرمانہ بے حسی کے سامنے مزدوروں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیداوار روک دیں گے اور شام کی شفٹ سے پیداوار بند کر دی گئی۔

اداروں کی مجرمانہ بے حسی کے سامنے، جس سے ہماری صحت اور ہمارے خاندان خطرات کا شکار ہیں، مرسڈیز بینز، IVECO کے مزدور؛ دوس ہرماناس کے کنسٹرکشن مزدور؛ ائرونوفا کے مزدور (الاوا میں ایک ائروناٹیکل فیکٹری)، زاراگوزا میں بالے فیکٹری، اور روبی (بارسلونا) میں کانٹی نینٹل ٹائر فیکٹری وہ اہم جگہیں ہیں جہاں مزدوروں نے ہڑتال کر دی۔انہوں نے کہا بس اب بہت ہو گیا۔ وباء کے پھیلاؤ کو روکنے اور کرونا وائرس کو شکست فاش کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مزدور منظم اور متحرک ہوں۔

ان مزدوروں کی مثال کو عمومی بن جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ELA (باسک ورکرز سولیڈیریٹی ٹریڈ یونین) نے تما غیر ضروری کام کی بندش اور متاثر ہونے والے مزدوروں کے لئے موثر اقدامات کا مطالبہ کر کے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے۔

ریاست اور مالکان پر کوئی اعتبار نہیں! صرف مزدور تحریک کا نظم و ضبط اور تحرک ہی صحتِ عامہ کا ضامن ہے!

تمام غیر اہم کاموں کی فوری بندش!

2008ء کے بحران کے بعد جس طرح تمام معاشی قیمت مزدوروں کے کندھوں پر ڈال دی گئی، اس مرتبہ بھی یہ کام کرنے کے منصوبے کو مسترد کیا جائے۔ہم اجرتی مزدور اکثریت میں ہیں اور ہمیشہ ہمیں اجرتوں میں کٹوتی، غیر یقینی نوکریوں اور سماجی حقوق کی تباہی میں قیمت ادا کرنی پڑتی ہے!
مزدوروں کی اجرت اور حالاتِ زندگی، خود کار نوکریوں اور سماج کے تمام غیر محفوظ افراد کی سماجی گارنٹی کے لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ:

وہ امراء جو ملک کی بڑی اور درمیانی کمپنیوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور دہائیوں سے منافعے لوٹ رہے ہیں ہماری تنخواہوں کی 100 فیصد ذمہ داری لیں ورنہ ہم ان کی تمام نجی ملکیت پر قبضہ کر کے مزدور کنٹرول قائم کر لیں گے!

صحتِ عامہ کے لئے پورے ملک کے وسائل متحرک کرنے کے لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل کلیدی پیداواری شعبوں کو فوری طور پر قومیایا جائے:

نجی شعبہِ صحت۔۔لیباٹریاں، ہسپتال، کلینک، میڈیکل سامان اور سپلائز کے مینوفیکچرر تاکہ شعبہ صحت کے مزدوروں اور ان کی تنظیموں کے زیرِ انتظام ایک پلان فوری طور پر عمل میں لایا جائے جس کے تحت تمام ضروری سامان اور وسائل بروئے کار لائے جائیں تاکہ محفوظ ماحول میں مزدور اپنے انتہائی اہم کام کو جاری رکھ سکیں۔ ٹیسٹوں اور ضروری ادویات کی سپلائی کی مکمل گارنٹی دی جائے!

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انرجی سیکٹر سمیت بڑی ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس اور ڈسٹری بیوشن، ریٹیل کمپنیاں جن میں بڑے سٹور اور سپر مارکیٹیں بھی شامل ہوں، کو فوری طور پر قومیایا جائے تاکہ اشیاء خوردونوش اور بنیادی اشیاءِ زندگی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔ صرف مرکادونا ان اشیاء کی ڈسٹری بیوشن اور سیل کا 30 فیصد کنٹرول کرتا ہے۔

پورے فنانشل اور انشورنس سیکٹر کو فوری طور پر قومیایا جائے اور صرف چھوٹے شیئر ہولڈرز کو ہی اس کی قیمت ادا کی جائے!

وٹوریا-گاستیز
17-03-2020
جوسیبا اسپیرازا
ایوسو فوروندا

Comments are closed.