|تحریر: حمید علی زادے، ترجمہ: اختر منیر|
پوری دنیا کے حالات بجلی کی سی رفتار سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس نئے کرونا وائرس (9-COVID) نے ایک کے بعد دوسرے ملک میں ظاہری استحکام کا پول کھولنا شروع کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تمام تضادات سطح پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وباء اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور کسی کے پاس حالات پر قابو پانے کا کوئی مؤثر منصوبہ نہیں ہے۔ زیادہ تر ممالک عالمی ادارہ صحت(WHO) جیسے اداروں کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کے صحت کے شعبے جواب دے چکے ہیں اور دوسرے ممالک کے شعبہ صحت کے کارکنان آنے والے ہفتوں اور مہینوں کو لے کر خوفزدہ ہیں۔
بیماری اب تک زیادہ تر چین، ایران اور مغربی ممالک تک محدود رہی ہے۔ جب یہ کچی بستیوں، جھونپڑ پٹیوں، افریقہ کے کیمپوں، برصغیر اور لاطینی امریکہ جیسے علاقوں میں پہنچے گی، جہاں حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں، تو ہمیں مزید بربادی دیکھنے کو ملے گی۔ ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔ یہ بربادی اور افراتفری جنگی حالات جیسی ہو گی۔
اس کے نتیجے میں ابھی سے سٹاک مارکیٹیں زوال کی طرف جا رہی ہیں۔ سوموار (9مارچ) کو تیل کی قیمتیں تقریباً 30 ڈالر فی بیرل تک آ گئیں۔ پوری دنیا کی سٹاک مارکیٹیں بھی بیٹھ گئیں۔ بدھ (11مارچ) کے دن بینک آف انگلینڈ نے شرحِ سود میں 0.5 فیصد کی غیر معمولی کمی کر دی، مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ اسٹاک مارکیٹیں تاحال انہدام کا شکار ہیں اور جمعرات کا دن (12مارچ) 1987ء کے بعد سے اب تک کا سب سے برا دن رہا۔ سٹاک مارکیٹوں کا یہ رجحان حکمران طبقے کی قنوطیت کا اظہار ہے۔ انہیں عالمی معیشت کی فکر لاحق ہے جو ابھی سے کساد بازاری کا شکار ہوچکی ہے۔
چین، جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، ماؤ کے ثقافتی انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ منفی شرحِ نمو رکھنے والی سہ ماہی کی طرف جانے والی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چین میں وباء پر قابو پا لیا گیا ہے، مگر اب بھی ہوبئے صوبے میں خدمات کا شعبہ بند پڑا ہے۔ بڑی صنعتیں اپنی پیداوار دوبارہ شروع کر رہی ہیں مگر پوری دنیا کے بحران میں ہونے کی وجہ سے طلب بہت کم ہے۔ چھوٹی اور درمیانی صنعت، جہاں چین کے تقریباً 80 فیصد محنت کش کام کرتے ہیں، تاحال فعال نہیں ہو سکی۔
فوری بحالی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ کچھ ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اس سال عالمی معیشت کی شرحِ نمو کم ہو کر 1 فیصد رہ جائے گی جو پچھلے سال 2.6 فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے ممالک معاشی بحران کا شکار ہوں گے۔ مگر یہ بھی خوش فہمی ہے۔ صنعت، تجارت اور آمدورفت بار بار تعطل کا شکار ہوں گے۔ کھپت میں کمی آئے گی۔ رسد بار بار متاثر ہو گی۔ عالمی معیشت کو ایک گہرے بحران کا سامنا ہو گا۔
یورپ کو شدید دھچکے کا سامنا ہے۔ خاص طور پر اٹلی کو جو یورو زون کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ یورپی یونین نے سوائے 25 بلین یورو کا فنڈ قائم کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا، جو پہلے سے ہی موجود تھا۔ تمام ممالک پر سے بجٹ کی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں یعنی اب ہر ملک اپنے رحم وکرم پر ہے۔ اٹلی کے صدر نے بھی یورپی یونین کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اٹلی کو یورپ سے زیادہ تو چین سے امداد آ رہی ہے۔ مختلف ممالک نے اٹلی کے ساتھ سفری رابط ختم کر لیے ہیں۔ اس کے علاوہ چیک ریپبلک نے بھی 15 ممالک کے مسافروں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ فرانس، جرمنی اور دوسرے ممالک نے طبّی ساز و سامان برآمد کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ بالکل 2008ء کے معاشی بحران اور پناہ گزین کے بحران کی طرح ہے جس سے یورپی یونین کے تضادات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس سے یورپی یونین کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کچھ عرصہ پہلے تک یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ امریکہ اس وائرس سے محفوظ رہے گا۔ مگر اب اس نے گھبرا کر قوم پرستانہ موقف اپنا لیا ہے کہ کرونا وائرس ایک ”غیر ملکی وائرس“ ہے۔ اس نے یورپ کے تمام ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں اور میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار بنانے کا دوبارہ سے حکم جاری کر دیا ہے، حالانکہ میکسیکو میں ابھی تک محض 12 کیسز سامنے آئے ہیں۔ غالب امکان ہے کہ یہ پابندیاں امریکی معیشت کو بحران کی طرف دھکیل دیں گی۔
روس اور سعودی عرب بھی تیل کی پیداوار پر جھگڑ رہے ہیں اور اس جھگڑے کی وجہ سے تیل کی قیمت بہت گر چکی ہے۔ اس سے روس دیوالیہ بھی ہو سکتا ہے۔ لبنانی ریاست پہلے ہی اپنے قرضے کی وجہ سے دیوالیہ ہو چکی ہے۔ ترکی، ارجنٹائن، انڈیا، انڈونیشیا اور جنوبی افریقہ جیسی درمیانی معیشتیں بھی جلد یا بدیر اسی طرف آ رہی ہیں۔
وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے عالمی سطح پر تحفظاتی رجحانات میں شدت آ رہی ہے۔ ہر ملک کا حکمران طبقہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے سرگرداں ہے اور منفی اثرات کو برآمد کر دینا چاہتا ہے۔ سفری پابندیاں با آسانی تجارتی پابندیوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں۔ امریکہ کی چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگیں، جو کچھ ٹھنڈی پڑ گئی تھیں، دوبارہ بڑی شدت سے شروع ہونے کا خطرہ ہے۔ اس سے 1930ء کی طرز کے بحران کا خطرہ ہے، جس کے وائرس سے زیادہ دیر پا نتائج ہوں گے۔
سرمایہ دار طبقہ معاشی بحران کا سارا الزام وائرس کے سر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر یہ محض ایک حادثہ تھا جس سے نظام کے تمام مجتمع شدہ تضادات باہر آ گئے ہیں۔ یہ مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے جو دہائیوں سے تیار ہو رہا ہے۔ سرمایہ دار طبقے نے قرضوں کے پھیلاؤ کی مدد سے اسے ٹالے رکھا۔ یہی قرض اس کی نمو میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ کبھی نہ کبھی یہ بلبلہ تو پھٹنا تھا۔ ہم نے اپنے عالمی تناظر میں اس کی پیش گوئی کی تھی جو پچھلے سال نومبر میں منظور کیا گیا تھا۔ اس میں لکھا تھا:
”یہ بحالی بہت کمزور اور نازک تھی اور کسی بھی قسم کا دھچکا معیشت کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ کسی بھی چیز سے دہشت پیدا ہو سکتی ہے: امریکہ میں شرحِ سود میں اضافہ، بریگزٹ، روس کے ساتھ تصادم، چین اور امریکہ کی تجارتی جنگ میں شدت، مشرقی وسطیٰ میں ایک جنگ اور اس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس سے کیا جانے والا ایک احمقانہ ٹویٹ (جن کی کوئی کمی نہیں ہے)۔“
معیشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وائرس محض ایک حادثاتی واقعہ ہے، جو گہری اور پوشیدہ لازمیت کا اظہار ہے۔ مگر اس کے آنے والے واقعات پر گہرے اثرات ہوں گے۔ اس وائرس کی وجہ سے حکمران طبقہ بحران کو موڑنے یا اس سے باہر نکلنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اس عالمی وباء کے پہلے سے کمزور عالمی معیشت پر بہت برے اثرات ہوں گے۔ ایک کے بعد ایک ملک معیشت کو چلانے کے محرک کے طور پر معاشی پیکج کا اعلان کر رہا ہے۔ مگر ان اقدامات کا اثر اس عالمی وباء کی وجہ سے انتہائی محدود ہو گا جو جلد ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ خدمات کا شعبہ اور صنعت شدید متاثر ہوئے ہیں۔ جب تک اس بیماری کا کوئی موثر حل نہیں ملتا یہ صورتحال ایسی ہی رہے گی۔ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں کھپت میں بھی کمی ہو گی جو معیشت کے لیے مزید نقصان کا باعث ہو گا۔
حکمران طبقہ اتنے بڑے پیمانے پر بے روزگاری سے خوفزدہ ہے جس سے طبقاتی جدوجہد میں تیزی آنے کا خطرہ ہے۔ کئی ممالک میں حکومتوں نے مختلف اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں جن میں سرکاری اور نجی ملازمین کے لیے بیماری کی چھٹیاں شامل ہیں۔ مگر ان اقدامات سے مسائل حل نہیں ہونے والے۔ کچھ بینکوں نے مکانات کی قسطوں میں بھی کچھ مہینے کے لیے نرمی کر دی ہے۔ چھوٹے اور درمیانے درجے کی کاروباری کمپنیوں کو آسان قرضے اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی جا رہی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ نے رکن ممالک پر تین فیصد بجٹ خسارے کی حد ختم کر کر دی ہے۔ اس آفت سے نمٹنے کے لیے ریاستی اخراجات میں بے پناہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔
مگر اس سے مسائل حل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس موقع پر کیے جانے والی کنیشیئن اقدامات سے کھپت میں اضافہ بہت مشکل ہے، جو وائرس کی وجہ سے مہینوں، یا پھر سالوں کے لیے کم ہو چکی ہے۔ اس سے الٹا افراطِ زر کا خطرہ ہے۔ چھوٹے اور درمیانے کاروبار دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ٹیکسوں میں کمی اور سستے قرضے محض مسائل کو کچھ وقت کے لیے ٹال سکتے ہیں۔ کروڑوں نوکریاں پھر بھی خطرے میں ہوں گی۔
مغرب میں خدمات کے شعبے کی بہت ساری نوکریاں غیر مستقل ہیں۔ سیاحت کی صنعت، ہوٹل، ریستوران وغیرہ پر کام کرنے والے افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ غریب ممالک میں حالات اس سے بھی خراب ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی 96 فیصد افرادی قوت بغیر کسی معاہدے کام کر نے پر مجبور ہے۔ یعنی انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ تمام ممالک میں بے روزگاروں کی یہ فوج عوامی بغاوت کا باعث بنے گی۔
قومی اتحاد
مختلف ممالک کے حکمران طبقات اور حکومتیں اس بحران کے وقت میں ایک قوم کی طرح اکٹھا ہونے کا درس دی رہی ہیں۔ مگر اس دھوکے کے پیچھے تمام بوجھ محنت کش طبقے پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یکے بعد دیگرے حکومتیں ظالمانہ اقدامات کر رہی ہیں۔ اٹلی، ڈنمارک اور چین کہ کچھ علاقوں میں تو یوں لگتا ہے کہ مارشل لاء نافذ ہے۔
چین میں اہم سٹیل ملز کے محنت کشوں کو ایک مہینے تک کام سے گھر جانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ اٹلی میں ڈاکٹروں اور نرسوں پر ناقابل برداشت کام کا بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ نجی شعبے کے محنت کشوں کو کام جاری رکھنے کا کہا جا رہا ہے۔ بہت سے علاقوں میں محنت کش نے ہڑتالیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ غیر ضروری اشیاء کی پیداوار بند کی جائے اور انہیں تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے، کیونکہ وباء سے بچنے کے لیے گھر رہنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ دار جتنا ہوسکے منافع کما لیں۔ اس سے مزدور قیادت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے جو پہلے مالکان کے ساتھ مل کر فیکٹریاں کھلی رکھنے کی کوشش میں تھے۔ اس سب سے مستقبل میں ہونے والے واقعات کا اندازہ ہوتا ہے۔
فی الحال چین میں پابندیاں اٹھائی جا رہی ہیں، مگر دوبارہ وباء پھوٹنے کی صورت میں یہ واپس لگا دی جائیں گی۔ ڈنمارک اور اٹلی کو بند کر دیا گیا ہے۔ بہت سے دیگر ممالک کو بھی یہی کرنا پڑے گا۔ حکومتیں ”کچھ کرتی“ نظر آنا چاہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ اقدامات بیماری روکنے کے نقطہ نظر سے درست ہیں مگر سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کی وجہ سے یہ بھی بے کار جا رہے ہیں۔ لوگوں کو گھر رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے مگر محنت کشوں کو کام جاری رکھنے پر مجبور بھی کیا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں ہینڈ سینیٹائزر، ماسک اور کرونا وائرس ٹیسٹ کٹس کی قیمتیں بڑھا کر منافع کما رہی ہیں۔ مختلف حکومتیں متضاد اقدامات سے صورتحال مزید خراب کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔
امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ 11 مارچ تک تو یہ ماننے سے ہی انکار کرتا رہا کہ بیماری سے کوئی خطرہ ہے۔ چینی حکومت کمزور معیشت کو نقصان کے خوف سے کئی ہفتے تک وباء کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتی رہی۔ اس کی بجائے انہوں نے اطلاع دینے والوں اور تحقیق کرنے والوں کو قید کیا اور انہیں سزائیں سنائیں۔ ایران میں حکومت نے کئی ہفتوں تک بیماری کی موجودگی سے ہی انکار کیا تاکہ پارلیمانی انتخابات کا سلسلہ چلتا رہے۔ ابھی تک حکومت بیماری کی شدت چھپا رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ابھی تک کرونا وائرس سے محض چند سو افراد ہلاک ہوئے ہیں، مگر غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ متاثر ہونے والوں کی اصل تعداد لاکھوں میں ہو۔
جب سپریم لیڈر خامنہ ای سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو وائرس کے خلاف کیا اقدامات کرنے چاہئیں تو اس نے دعا کرنے کا کہا۔ یہ محض غریبوں کے لیے ہے۔ اگر خامنہ ای خود بیمار ہو تو اسے بہترین سائنسی علاج میسر ہو گا۔ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ایران میں بیماری قم کے ایک مقدس مقام سے پھیلی ہے جہاں زائرین شفاء حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اس سے مذہبی حکومت کی بنیادیں کمزور ہوئی ہیں۔ مگر اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے مذہبی اسٹیبلشمنٹ وباء کو مغربی سازشی تھیوری قرار دے رہی ہے۔ اس سے ایرانی عوام میں شدید غصہ پیدا ہو گا جو حکمران طبقے کی نااہلی کی قیمت اپنی جانوں سے ادا کر رہے ہیں۔
صحت کے شعبے پر دہائیوں سے لگائی جانے والی کٹوتیوں کے باعث بیماری کے خلاف کیے جانے والے اقدامات متاثر ہو رہے ہیں، مثال کے طور پر اٹلی اور برطانیہ میں گزشتہ سالوں کے دوران صحت کے شعبے میں تنزلی آئی ہے۔ یہی صورتحال باقی مغربی دنیا کی بھی ہے۔ اٹلی میں اکثر ہیلتھ ورکرز کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ کس کا علاج کریں اور کس کا نہ کریں، کیونکہ ان کے پاس محدود سہولیات ہیں۔ بہت سے لوگ محدود وسائل کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جن میں زیادہ تر بزرگ افراد ہوں گے۔ جوں جوں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، صحت عامہ کا نظام جواب دیتا جا رہا ہے۔ اس سے لاکھوں لوگ اپنی مدد آپ پر مجبور ہوں گے۔ امیر لوگوں کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایران میں بہت سارے وزیروں اور پارلیمنٹ کے ممبروں کو بیمار ہونے کے بعد فوری بہترین علاج مہیا کیا گیا اور اب وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔ اور دوسری جانب ہزاروں عام مریضوں کو ٹیسٹ کروانے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک المناک واقعے میں ایک نرس کا رزلٹ اس کی وفات کے ایک ہفتے بعد آیا۔
سنگاپور میں تمام شہریوں کو ماسک اور دیگر حفاظتی سامان مہیا کیا گیا۔ چین میں فوری طور پر حالات سے نمٹنے کے لیے نئے ہسپتال بنائے گئے اور ہزاروں لوگوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن میں کوئی علامات موجود نہیں تھیں۔ برطانیہ میں حکومت ایسے کوئی اقدامات کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ ٹیسٹنگ نہیں ہو پا رہی۔ یہاں تک کہ شمالی اٹلی سے آنے والوں اور علامات رکھنے والوں کو بھی ٹیسٹ نہیں کیا جا رہا۔ بورس جانسن کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ شاید برطانیہ میں دس ہزار کے قریب لوگ بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس نے بڑی تقریبات مؤخر کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ”لوگ اپنے پیاروں کو وقت سے پہلے کھونے کے لیے تیار رہیں۔“نیویارک ٹائمز کہ ایک آرٹیکل میں لکھا: ”برطانیہ وائرس سے اپنی معیشت کو بچا رہا ہے، لوگوں کو نہیں۔“
وزیر اعظم بورس جانسن کا یہ انتہائی خود غرضانہ رویہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب اس نے ایک حالیہ انٹرویو میں بیماری کا متبادل حل پیش کرتے ہوئے کہا، ”۔۔۔شاید ہمیں اس کا سامنا کرنا چاہیے، بیماری کو پھیلنے دینا چاہیے، بغیر کوئی سخت اقدامات کیے۔“ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب تھا کہ کوئی سنجیدہ اقدامات کیے بغیر ہزاروں لوگوں کو مرنے دیا جانا چاہیے تا کہ کاروبار معمول کے مطابق چلتا رہے۔ یہ مہلک رویہ سویڈن اور امریکہ جیسے دوسرے ممالک میں بھی پایا جاتا ہے، جسے WHO نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس کا موقف ہے کے رکن ممالک کو وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ان باتوں سے مالتھس ازم کی بو آتی ہے اور اس سے حکمران طبقے کی گھٹیا سوچ واضح ہوتی۔ اس خیال کے مطابق غربت، جنگیں اور وبائیں دنیا کی آبادی کم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ لہٰذا سرمایہ دار طبقہ سوچ رہا ہے کہ اس بیماری کو پوری آبادی میں پھیلنے دینا چاہیے تاکہ ”غیر ضروری“ آبادی کا خاتمہ ہو سکے جن میں زیادہ تر بزرگ شامل ہیں۔ تا کہ بعد میں برطانیہ دوسرے ملکوں سے زیادہ رفتار کے ساتھ بحران سے باہر آ سکے۔
خاص طور پر امریکہ کا صحت کا شعبہ آنے والے حالات کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ لاکھوں لوگ ہیلتھ انشورنس سے محروم ہیں جنہیں خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت لوگوں کو عارضی انشورنس فراہم کر دے۔ مگر اس سے بھی مسائل حل نہیں ہوں گے، کیونکہ امریکہ کا صحت کا شعبہ صرف ایک کام کے لیے ہے اور وہ کام بڑی بڑی میڈیکل اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی جیبیں بھرنا ہے۔ یہ اس قسم کے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
پچھلے کچھ ہفتوں کے دوران کوئی تیاری نہیں کی گئی۔ ہسپتالوں کے پاس کوئی منصوبہ نہیں، ٹریننگ بھی نہیں ہوئی اور سازوسامان بھی محدود ہے۔ امریکی سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول نے جرمنی میں بننے والی عالمی کرونا وائرس ٹیسٹنگ کی ٹکٹ استعمال کرنے سے انکار کر کے اپنی کٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور وقت بھی ضائع ہوا۔ لہٰذا 6 مارچ تک جہاں جنوبی کوریا میں ایک لاکھ چالیس ہزار مریضوں کو ٹیسٹ کر لیا گیا تھا، وہیں امریکہ میں محض دو ہزار لوگوں کا ٹیسٹ ہو پایا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس بات کا اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ مریضوں کی حقیقی تعداد کتنی ہے۔ عام لوگوں کو صحت اور معیشت کے بحران سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ہاں لیکن بحران کے بڑھتے ہی امریکی سنٹرل ریزرو نے بڑے سرمایہ داروں کو بچانے کے لیے منڈی میں 15 کھرب ڈالر پھینک دیے۔
پورے سرمایہ دار طبقے اور اس کے اداروں کی نااہلی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صورتحال سے بالکل لاپروا نظر آتا ہے اور اس کی حرکتوں سے مزید بربادی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہ ٹرمپ کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مفت سرکاری تحفظ صحت کا مطالبہ بھی زور پکڑ سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کی لالچ اور بیہودگی زیادہ واضح ہوتی جائے گی۔ یہ بیماری جن ممالک میں پھیلے گی وہاں یہی سب دیکھنے کو ملے گا۔
مارکس وادیوں کا کام حکمران طبقے اور قومی اتحاد کو بے نقاب کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ اس طفیلیے حکمران طبقے کے مفادات باقی سماج سے کس قدر متضاد ہیں:
1۔ تمام جگہوں پر ہمیں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ صحت کے نجی اداروں کو تحویل میں لیا جائے۔ صحت کے تمام شعبے اور فارماسوٹیکل انڈسٹری کو قومیایا جائے اور اسے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے تحت چلایا جائے تا کہ ضرورت کے مطابق سب کا خیال رکھا جا سکے۔
2۔ بستروں کی تعداد میں فوری طور پر اضافہ کیا جائے اور اگر ضروری ہو تو نئے ہسپتال بنانے چاہئیں، چاہے خالی عمارتوں اور ہوٹلوں میں یا پھر نئے سرے سے۔
3۔ سب کو بیماری کی اجرت دی جائے۔ غیر مستقل افرادی قوت کو فوری طور پر مستقل کیا جائے اور جن کی نوکریاں چلی گئی ہیں انہیں بھی اجرت دی جائے۔ سکولوں اور نرسریوں کے بند ہونے کی وجہ سے بچوں کے بند ہونے کی وجہ سے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین اور سرپرستوں کو معاوضہ دیا جائے۔
4۔ تمام ضروری اشیاء کی قیمتوں کو سختی سے کنٹرول کیا جائے۔ کمیاب حفظان صحت کی مصنوعات اور میڈیکل کا سامان بنانے والی فیکٹریوں کو تحویل میں لیا جائے۔
5۔ لوگوں کو گھروں سے نکالنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے اور امیروں کے خالی پڑے گھروں میں بے گھروں کو رہائش دی جائے۔
6۔ متاثرہ علاقوں میں تمام غیر ضروری پیداوار کو فوری طور پر بند کیا جائے اور بندش کے دوران ملازمین کو تنخواہ دی جائے تاکہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ سرکاری اداروں میں آؤٹ سورسنگ ختم کرتے ہوئے ملازمین کو بھرتی کیا جائے اور انہیں تنخواہیں دی جائیں۔
7۔ جہاں کام ضروری ہے وہاں جائے کار پر صحت اور حفاظت کی تمام سہولیات مہیا کی جائیں اور ان کا خرچہ مالک اٹھائے۔ اگر مالک یہ دعویٰ کرے کہ اس کے پاس وسائل نہیں تو کھاتے کھولے جائیں۔
8۔ یہ تمام اقدامات محنت کش خود اپنی یونین اور اکٹھ کے ذریعے صلاح مشورہ کر کے نافذ کروائیں۔ اگر کسی جگہ یونین نہیں ہے یا کمزور ہے تو وہ فوری طور پر یونین کے حق کے لیے لڑتے ہوئے یونین بنائی جائے۔
9۔ اس عالمی وباء سے لڑنے کے لیے درکار وسائل بجٹ خسارے یا قومی قرض سے حاصل نہیں ہو سکتے، جو بالآخر محنت کشوں کو کٹوتیوں کی صورت میں ادا کرنے پڑیں گے۔ بڑی کمپنیوں اور سرمایہ داروں پر فوری طور پر ٹیکس لگایا جائے۔ ہمیں بینکوں کو قومیانے کا مطالبہ بھی رکھنا ہوگا تا کہ وسائل کی جہاں ضرورت ہے انہیں وہاں استعمال کیا جا سکے اور گھریلو اخراجات، چھوٹے کاروبار اور بندش سے متاثر ہونے والے شعبوں میں پیسہ لگایا جا سکے۔
10۔ دیوالیہ ہونے والی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر محنت کشوں کے کنٹرول میں دیا جائے تا کہ محنت کشوں کی نوکریوں اور گھر بار کو بچایا جا سکے۔ اور اجارہ داریوں کی بے کار پڑی دولت کو تحویل میں لے کر ان فوری اقدامات پر خرچ کیا جائے۔
مارکس وادیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ وضاحت کریں کہ سرمایہ دار طبقہ سماج کو آگے نہیں لے جا سکتا۔ ہمیں محنت کش طبقے کو تحمل سے یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ صرف اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے کر ہی اس عذاب سے نکلا جا سکتا ہے۔
ایک نیا دور
اس وقت ہم دنیا کی تاریخ میں ایک نیا دور دیکھ رہے۔ بحران کا، جنگوں کا، انقلاب کا اور ردِ انقلاب کا دور۔ کسی تالاب میں ایک کنکر سے پیدا ہونے والی لہروں کی طرح اس بحران کے اثرات دنیا کے ہر کونے تک جائیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ سماج میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا بگاڑ ہے۔ ہر حکومت کو بہت بڑے پیمانے پر افراتفری کا سامنا کرنا پڑے گا اور سماجی، معاشی، سفارتی اور عسکری توازن بگڑ کر رہ جائے گا۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کئی مرتبہ وضاحت کی ہے کہ حکمران طبقے نے 2008ء کے بحران کا باعث بننے والے تضادات کو کبھی حل ہی نہیں کیا۔ اس کی بجائے وہ اس غبارے میں مزید ہوا بھرتے رہے ہیں۔ اسی دوران یہ عالمی وباء اس ابتدائی انہدام کو انتہائی شدید بنا دے گی، اور اس کے اثرات تقریباً دو سال تک رہیں گے۔ لیکن جب یہ وباء ختم ہو گی تو بھی حالات ”معمول“ پر نہیں آئیں گے۔ آنے والی دہائی پچھلی دہائی سے کہیں زیادہ ہنگامہ خیز ہو گی۔
مارکس وادیوں کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کا شعور بہت بڑی تبدیلیوں سے گزرے گا۔ یہ عمل بالکل جنگ کے دنوں جیسا ہو گا۔ بحران اور بیروزگاری معمول بن جائے گی۔ محنت کش طبقے کے خلاف ظالمانہ اقدامات کیے جائیں گے۔
پہلے مرحلے میں حکمران طبقہ قومی اتحاد کا راگ الاپتے ہوئے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرے گا۔ پچھلے دور میں اسٹیبلشمنٹ اور ان کی پالیسیوں کا اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ ان نئے حالات سے سمجھوتا کر لیں گے۔ کیونکہ انہیں لگے گا کہ یہ سب عارضی اور ناگزیر ہے۔ بہت سے لوگوں کو لگے گا کہ ریاست قوم کی بہتری کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ بالکل واضح ہوجائے گا کہ کس کو قربانی دینے کا کہاں جا رہا ہے اور کس کے مفادات کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ عوام کو حکمران طبقہ مزید قربانیاں دینے کا کہے گا۔ لیکن ایک حد ہوتی ہے۔ اور جب وہ حد پار ہو گئی تو یہ ظاہری صبر غضب میں تبدیل ہو جائے گا۔
مارکس وادیوں کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کا شعور بہت بڑی تبدیلیوں سے گزرے گا۔ یہ عمل بالکل جنگ کے دنوں جیسا ہو گا۔ بحران اور بیروزگاری معمول بن جائیگی۔ محنت کش طبقے کے خلاف ظالمانہ اقدامات کیے جائیں گے۔
شعور کی تبدیلی کی بنیاد مستقبل کے غیر معمولی واقعات میں ہوگی۔ واقعات لوگوں کے شعور کو جھنجوڑ کر رکھ دیں گے اور وہ ہر موجود شے سے متعلق دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ہر چیز جو معمول کا حصہ تھی تبدیل ہو جائے گی، چھوٹی چھوٹی روزمرہ کی عادات سے لے کر قومی رسوم و روایات تک۔ یہ عوام کو بے عملی سے نکال کر عالمی سیاست کے منظر نامے پر لے آئے گا۔ ساتھ ہی ساتھ پرانے حالات تبدیل ہو جائیں گے اور عوام کا سامنا سرمایہ داری کی ننگی بربریت سے ہو گا۔
ٹراٹسکی نے 1924ء میں برطانیہ کے متعلق پہلی جنگ عظیم کے تناظر میں لکھا تھا:
”ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انسانی شعور، سماجی طور پر، خوفناک حد تک قدامت پرست اور سست رفتار ہوتا ہے۔ صرف عینیت پرست یہ تصور کر سکتے ہیں کہ دنیا آزاد انسانی سوچ کے تابع حرکت کرتی ہے۔ مگر درحقیقت سماج یا ایک طبقے کی سوچ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی، جب تک کہ یہ انتہائی ناگزیر نہ ہو جائے۔ ایسا کب ممکن ہے کہ پرانے جانے پہچانے خیالات نئے حقائق کے مطابق ڈھل جائیں۔ سچ پوچھیں تو طبقات اور عوام نے آج تک کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا، جب تک تاریخ کے بوجھ نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور نہیں کر دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا لوگ سامراجی جنگ ہونے دیتے؟ آخر جنگ سب کی آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ قریب آئی تھی، بالکل ایسے جیسے ایک ہی پٹڑی پر مخالف سمت سے دو ریل گاڑیاں قریب آتی ہیں۔ لیکن عوام خاموش رہے، دیکھتے رہے، انتظار کرتے رہے اور اپنی جانی پہچانی روزمرہ کی قدامت پرست زندگیاں جیتے رہے۔ سامراجی جنگ کی خوفناک اکھاڑ پچھاڑ اجتماعی شعور اور سماجی زندگی میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے ضروری تھی۔ روس کے محنت کشوں نے رومانوف بادشاہت کا تختہ الٹ دیا، بورژوازی کو بھگا دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جرمنی میں انہوں نے ہوہینزولرن سے چھٹکارہ پا لیا مگر آدھے راستے میں ہی رک گئے۔ ان تبدیلیوں کے لیے جنگ کی ضرورت تھی، وہ جنگ جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے، زخمی ہوئے اور ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے۔ یہ اس بات کا کتنا پکا ثبوت ہے کہ انسانی سوچ کس قدر قدامت پرست اور سست رفتار ہے، کتنی مضبوطی سے یہ ماضی کے ساتھ چمٹی رہتی ہے، ہر اس چیز کے ساتھ جو مانوس ہے، جانی پہچانی ہے، جدی پشتی ہے- جب تک کہ اس پر ایک مرتبہ پھر تاریخ کا چابک نہیں برستا۔“
ہم ابھی سے اس عمل کا پہلا مرحلہ دیکھ سکتے ہیں۔ ایران میں انقلابی غصہ ہر جگہ موجود ہے۔ اس ٹویٹ سے عوام کے احساسات کا اندازہ ہو جائے گا: ”دو دن قبل میرے رشتے کے دادا کرونا وائرس کی وجہ سے وفات پا گئے۔ 7 سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات سے لے کر 77 سال کی عمر تک وہ ایک محنت کش رہے۔ قم میں پھیلے اس بحران میں وہ گھر نہیں رہ سکے۔ کیونکہ انہیں روٹی اور اپنی جان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ یہی کڑوا خیال میرے ذہن میں ہے۔“
ہاں یہ بہت کڑوا خیال ہے، بہت سے ایسے خیالات کی طرح جو اس وقت لاکھوں دماغوں میں ہیں۔ ہزاروں لوگ بغیر کسی وجہ کے حکمران طبقے کی لالچ اور نااہلی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ وائرس کا خوف وہ واحد چیز ہے جو تحریک کو روکے ہوئے ہے۔ مگر یہ محض تاخیر کا باعث ہے۔ یہ غبار چھٹ جانے کے بعد عوام پھر سے حرکت میں آئیں گے۔
ایکواڈور میں لینن مورینو نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے کٹوتیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس سے یقیناً ایک نئی بغاوت کا آغاز ہو گا۔ ابھی کچھ ماہ قبل ہی ایک عوامی تحریک حکومت کا تختہ الٹنے کے قریب تھی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں، عرب انقلاب کو فلاحی کاموں پر اخراجات کے ذریعے روکا گیا تھا، اور اب تیل کی قیمتوں میں کمی سے کٹوتیاں ناگزیر ہو جائیں گے۔ ماہرین کا سالوں سے کہنا ہے کہ چین میں جی ڈی پی میں 6 فیصد اضافہ سماجی بے چینی کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ مگر اب یہ 6 فیصد اضافہ ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔
اٹلی میں بھی اسی قسم کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ خاص طور پر ڈاکٹروں، نرسوں اور صحت کے شعبے کے دوسرے کارکنوں میں، جن پر وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے۔ وہ فی الحال تحریک میں نہیں آ سکتے، کیونکہ ان کے کندھوں پر کافی بوجھ ہے۔ مگر جو وہ دیکھ رہے ہیں بھولیں گے نہیں۔ جونہی انہیں سانس لینے کا موقع ملے وہ رد عمل دکھائیں گے۔
ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک بھی نہیں بچیں گے۔ یہاں عوام ایک بحران میں داخل ہو رہے ہیں، جو ایک خوشحالی اور ترقی کے دور کے بعد نہیں بلکہ کے 2008ء کے بحران کے بعد دس سال کی کٹوتیوں اور معاشی حملوں کے بعد آ رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ لوگ اپنے پاس زیادہ سے زیادہ ضرورت کا سامان جمع کر رہے ہیں اور ہدایات پر توجہ نہیں دے رہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آنے والے وقت میں 2008ء سے پہلے کا معیار زندگی واپس نہیں آنے والا بلکہ انہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے زیادہ بیروزگاری اور غربت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ انہیں جدوجہد کی راستے پر لے جائے گا۔
جدوجہد کے دوران محنت کش طبقہ تبدیل ہو جائے گا اور اس کے ساتھ اس کی قیادت اور تنظیموں میں بھی تبدیلی آئے گی۔ اس عمل میں مارکس وادیوں کو اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کے بہت سے مواقع ملیں گے، پہلے پہل لڑاکا پرتوں میں اور اس کے بعد محنت کش طبقے کی اکثریت میں۔ آج ہونے والے واقعات کو محض ہمارے نظریات کی مدد سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
ہر سطح پر یہ تباہی سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے، چاہے وہ ماحول کی تباہی ہو جس سے وباؤں میں اضافہ ہوتا ہے، گلی سڑی فارماسیوٹیکل انڈسٹری ہو جو صرف ان ادویات پر پیسے لگاتی ہیں جن سے منافع حاصل ہو سکے یا پھر صحت کا شعبہ ہو جسے کئی سالوں سے کٹوتیوں، نجکاری اور آؤٹ سورسنگ کا سامنا ہے اور وہ اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ اچانک آنے والی کسی تبدیلی کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا میں حکمران طبقے اور حکومت میں موجود ان کے چمچوں نے بیماری کے دفاع میں یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ کس قدر نا اہل ہیں۔ وہ اپنے منافعوں پر ذرا سا سمجھوتہ کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں، جو وباء پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ وباء سے نمٹنے کی آڑ میں وہ اس عالمی وباء اور معاشی بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
اس وقت ماحول انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔ دنیا کے مختلف حصے لاتعداد سیلابوں خشک سالیوں سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ٹڈی دل کروڑوں لوگوں کے لیے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔ افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں اور خانہ جنگیوں کا راج ہے۔ ہمارا سیارہ ایک کے بعد ایک قدرتی آفت سے دوچار ہو رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال کے برعکس یہ کوئی قیامت کی نشانیاں نہیں ہیں۔ یہ ایک مرتا ہوا نظام ہے جو انسانی سماج کے پیروں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ سوشلزم اور بربریت کا دوراہا کبھی اتنا واضح نہیں تھا۔ سرمایہ داری ایک لامتناہی فساد ہے جو خود ہی اپنا گورکن پیدا کر رہی ہے: محنت کش طبقہ اور اس کی قیادت میں مفلس اور مظلوم۔ ایک بار محنت کش حرکت میں آگئے تو اس سیارے کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک پائے گی۔