|تحریر: نکلس البن سوینسن، ترجمہ: اختر منیر|
کرونا وائرس کی حالیہ وباء نے 2008ء کے بعد اب تک مارکیٹس کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے اور پوری دنیا میں شیئرز کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 5کھرب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ منڈیوں میں یہ خدشات موجود ہیں کہ یہ وائرس پہلے سے کمزور عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ یہ خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔
کرونا وائرس کی اس نئی وباء سے طبقاتی جدوجہد پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس آرٹیکل میں ہم اس کے عالمی معیشت پر مرتب ہونے والے اثرات پر بات کریں گے۔
کرونا وائرس پھیل رہا ہے
ہفتے کے اختتام پر پوری دنیا میں نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ تعداد میں کم ہیں مگر نئی جگہوں پر وائرس کے سامنے آنے سے بڑے پیمانے پر وباء کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔
ہفتے کے اختتام سے قبل ماہرین پر امید تھے کہ نئے مریضوں میں کمی آرہی ہے۔ چین میں 17 سے 24 فروری کے درمیان مریضوں کی تعداد محض چار فیصد (3000) بڑھی۔ اس بنیاد پر امید کی جا رہی تھی کہ بیماری کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لیکن جنوبی کوریا، جاپان اور اٹلی میں نئے مریضوں کی وجہ سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ اقدامات ناکافی ہیں۔
وائرس کی افزائش کے لمبے دورانیے (14 دن) اور وائرس کے شکار کچھ لوگوں میں علامات کی غیر موجودگی نے اس پر قابو پانا مشکل بنا دیا ہے۔ ایک مریض اوسطاً 2.6 لوگوں تک وائرس پہنچاتا ہے، جبکہ اس سے زیادہ خطرناک سارس (SARS۔جو اس سے پہلے آنے والا کرونا وائرس ہے) میں یہ اوسط 1.3 تھی، موسمی زکام اور سوائن فلو کی اوسط بھی ایک کے قریب ہے۔ لہٰذا یہ وائرس کم خطرناک ہونے کے باوجود سارس جیسی دوسری بیماریوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔
نئے اعداد و شمار کے متعلق سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے مریض سامنے آ رہے ہیں جنہیں یہ مرض اپنے ملک سے لاحق ہوا ہے نہ کہ چین سے۔ جنوبی کوریا میں 6سو سے زائد لوگ ایسے ہیں جنہیں اپنے ملک سے یہ مرض لاحق ہوا ہے (مزید 1100 پر تحقیق کی جا رہی ہے) جن کا تعلق ایک خاص مذہبی گروہ سے ہے۔ جاپان میں ایسے لوگوں کی تعداد 129 ہے۔ اٹلی میں ملک کے اندر بیماری کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد 121 ہے اور مزید 276 لوگوں پر تحقیق جاری ہے۔
ڈر اس بات کا ہے کہ کئی دوسرے ممالک میں بھی چین جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کسی کو بھی علم نہیں کہ یہ کتنا برا ہو سکتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن میں چیف آف ہیلتھ ایمرجنسیز مائیکل ریان کا کہنا ہے کہ شاید وہ اس پر قابو پا سکتے ہیں، یا شاید یہ پھیل جائے:
”یہ وائرس وبائی شکل اختیار کر سکتا ہے، ایک موسمی وباء میں ڈھل سکتا ہے یا پھر ایک عالمی وباء کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ابھی یہ کہنا ممکن نہیں کہ ان میں سے کیا ہو گا۔“
24 تاریخ کو ہونے والے جوائنٹ سیشن میں WHO جھجکتے ہوئے پر امید تھی کیونکہ اعداد و شمار سے پتہ چل رہا تھا کہ چین میں وائرس کو کافی حد تک روک لیا گیا ہے اور ووہان کے باہر شرحِ اموات کافی کم تھی (3 کے مقابلے میں 0.7 فیصد)۔
روک تھام
حکام وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ ان میں سوچے سمجھے اقدامات سے لے کر شدید خوف و ہراس پر مبنی اقدامات تک شامل ہیں۔ ڈائمنڈ پرنس بحری جہاز کو الگ تھلگ چھوڑنا انتہائی بھیانک قدم تھا۔ اس دوران یہ مرض چند مریضوں سے سینکڑوں میں پھیل گیا کیونکہ وہاں حفاظتی اقدامات کرنا بہت مشکل تھا۔
ہوبئے حکام کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات نے بھی مرض کے پھیلنے میں کردار ادا کیا۔ پہلے پہل انہوں نے وباء کو چھپانے کی کوشش کی اور اس کے بعد انہوں نے شہر کے قرنطیہ(Quarantine) کا اعلان کر دیا، اور اس پر عملدرآمد آٹھ گھنٹے بعد کیا گیا، جس دوران قرنطیہ سے پہلے پہلے تین لاکھ لوگوں شہر چھوڑنے کا موقع مل گیا۔ طبی ماہرین ان اقدامات سے زیادہ خوش نہیں ہیں، کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اس طرح کے سخت اقدامات سے لوگوں کا حکام سے بھروسا اٹھ جائے گا اور آبادی پر بلا وجہ کا دباؤ پڑے گا۔
اطالوی حکام بھی اسی قسم کے اقدامات کر رہے ہیں، جنہوں نے قرنطیہ کیے گئے علاقوں سے گزرنے والی تیز رفتار ٹرینوں کے راستے بھی بدل دیے ہیں (بے شک وہ وہاں پر نہ بھی رکتی ہوں)۔ حکام بہت سخت اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وائرس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اور سماج اور معیشت پر اس کے اثرات کو لے کر خوف پایا جا رہا ہے، مگر یہ بھی واضح ہے کہ سیاست دان دہشت زدہ ہیں۔ کوئی بھی ایسا شخص بن کر سامنے نہیں آنا چاہتا جو اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لے رہا ہو۔
اونیل انسٹیٹیوٹ فار نیشنل اینڈ گلوبل ہیلتھ لاء، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر لارنس گوسٹن نے وال سٹریٹ جرنل میں لکھا کہ: ”ہم حفاظتی اقدامات سے دہشت کی طرف آگئے ہیں اور ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو غیر ضروری اور کسی قسم کے شواہد کے بغیر ہیں، جن کے معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔“
اپنے آپ کو علیحدہ کر لینا(Self-Isolation) عام طور پر سب سے کار گر طریقہ سمجھا جاتا ہے، جس سے ساتھ کام کرنے والوں اور دوسرے لوگوں کو وائرس سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ مگر اس سے کچھ سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ چین میں حکومت نے کم از کم کچھ بیمار لوگوں کو اجرت دینے کا وعدہ تو کیا ہے، مگر دوسرے ملکوں میں ایسی کوئی سہولت نہیں دی گئی۔
دنیا میں محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد ماہانہ اجرت پر گزارہ کرتی ہے۔ اس لیے یہ واضح نہیں کہ وہ یہ سب کیسے کر پائیں گے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو کافی مشکل ہوگی جو مرض کا شکار نہیں ہوئے اور بیماری کی اجرت لینے کے حق دار نہیں ہیں۔ یہ معاملہ برطانیہ میں سامنے آیا جہاں متاثرہ علاقوں سے واپس آنے والے لوگوں کو 14 دن تک علیحدہ رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ برطانیہ کی لیبر آربیٹریشن اتھارٹی(ACAS) نے مالکان سے کہا کہ ایسے معاملات میں مالکان تعاون کریں اور ملازمین کو بیماری کی چھٹی یا سالانہ چھٹی دیں۔ وہ اس سے محنت کشوں کو پیش آنے والی مشکلات سے بالکل لا تعلق نظر آتے ہیں۔
چین میں 20 کروڑ مہاجر محنت کش بیماری کے خوف اور سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے نئے چینی سال کی چھٹیوں کے بعد اپنے آبائی علاقوں سے واپس ہی نہیں آ ر ہے۔ 14 دن تک فارغ رہنے کے لیے شہر کون آنا چاہے گا جہاں انہیں روز مرہ کے زیادہ اخراجات ادا کرنا پڑیں۔ حکومت اب نہیں واپس لانے کے لیے مختلف قسم کی لالچ دے رہی ہے، کیونکہ ان کی عدم موجودگی سے چین میں سخت اقدامات کے خاتمے کے بعد معیشت کو بحال کرنے کے اقدامات متاثر ہو رہے۔
عالمی معیشت کو دھچکا
وائرس پر قابو پانے کی کوششوں سے معیشت پر برے اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہوبئے کاروں کی صنعت، الیکٹرونکس، ہوابازی، دفاع اور تعمیرات کے شعبوں میں ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے، مگر اس سے بہت وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے۔
مائیکروسوفٹ، ایپل، کار کمپنیوں اور ائیرلائنوں نے کاروبار پر پڑنے والے اثرات سے متعلق خبردار کیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں قابلِ ذکر گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ڈاؤ جونز اپنی اکتوبر کی سطح پر آ چکی ہے۔ بینک آف امریکا نے یورو زون کی بڑھوتری کی پیشین گوئی 1 فیصد سے کم کر کے 0.6 فیصد کر دی ہے۔ کریڈٹ سوئس نے اپنی پیشین گوئی 0.9 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد کر دی ہے۔
سپلائی چینز کے لیے خطرہ
عین وقت پر پیداوار، جو صنعت کے تمام شعبوں میں چل رہی ہے، کا مطلب ہے کہ پرزہ جات کا ذخیرہ محدود ہے اور ان کا انحصار قابل بھروسہ عالمی تجارت پر ہے۔ اب یہ قابل بھروسہ سپلائی چینز خطرے سے دوچار ہیں۔
جب 2003ء میں سارس کی وباء پھیلی تھی، جو اس سے پہلے پھیلنے والی قابل ذکر کرونا وائرس کی وباء تھی، تو چین عالمی معیشت کے لیے اتنا اہم نہیں تھا جتنا اب ہے۔ اس وقت چین کی معیشت عالمی معیشت کا 4 فیصد تھی اور 2015ء میں یہ 15 فیصد تھی۔ چین کی اہمیت میں اضافے کا مطلب ہے کہ یہ نیا وائرس عالمی معیشت پر پہلے سے زیادہ اثرات مرتب کرے گا۔
اجارہ داری کا مطلب ہوتا ہے کہ بعض اوقات کچھ خاص پرزے، جو بہت سارے برینڈز استعمال کرتے ہیں، وہ محض ایک ہی فیکٹری میں بنتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ کے واقعے میں ہوا۔ اس سے کاروں کے پینٹ میں استعمال ہونے والا پگمنٹ بنانے والی ایک فیکٹری متاثر ہوئی، جس سے کاروں کی پیداوار رک گئی۔ اب بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔
کاروں کی صنعت اپنی پیچیدگی کی وجہ سے کافی نقصان اٹھا سکتی ہے۔ جنوبی کوریا میں موجود کار بنانے والے ہوبئے میں موجود ایک فیکٹری پر انحصار کرتے ہیں اور اب ان کی پیداوار رک چکی ہے۔ یورپ میں موجود کار بنانے والی کمپنیاں شمالی اٹلی میں وباء کی وجہ سے خطرے میں ہیں، کیونکہ ایک پرزہ قرنطیہ کیے جانے والے ایک گاؤں میں بنتا تھا۔ یورپی پیداوار پر پوری طرح سے اثرات اگلے ماہ ہی دکھائی دیں گے، کیوں کہ چین سے سامان پہنچنے میں چار سے پانچ ہفتے لگتے ہیں۔
خطرے سے دوچار صنعتیں
شپنگ، ایک اور صنعت ہے جسے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پچھلا سال عالمی تجارت کے لیے ایک برا سال تھا، جس میں 2009ء کے بعد پہلی مرتبہ عالمی تجارت میں اس قدر گراوٹ آئی تھی، جس کی بڑی وجہ ٹرمپ کی تجارتی جنگیں اور یورپی معیشت کی سست روی تھی۔ یہ سال مال بردار جہازوں کی صنعت کے حوالے سے بحالی کا سال ہونا تھا، مگر کرونا وائرس کی وجہ سے بہت ساری شپنگ کمپنیوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جن کے پاس کافی پیسہ ہے اس زوال کو سہہ جائیں گی مگر چھوٹی کمپنیاں نہیں۔ کتنی کمپنیاں بچتی ہیں یہ بحران کی طوالت پر منحصر ہے۔
سیاحت کی صنعت کو شاید سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔ چینی سیاح نہ صرف تعداد میں زیادہ ہیں بلکہ سب سے زیادہ خرچ کرنے والے بھی ہیں۔ 2018ء میں چینی سیاحوں نے 277.3 ارب ڈالر خرچ کیے جو پوری دنیا میں سیاحت پر خرچ ہونے والی رقم کا 20 فیصد ہے اور امریکی سیاحوں کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ چین جانے والی اور چین سے آنے والی فلائٹس کے کینسل ہونے سے یہ رقم خطرے میں ہے۔ جاپان میں کرونا وائرس کی وجہ ایک ہوٹل دیوالیہ بھی ہو چکا ہے۔ پوری دنیا میں خوف پھیلنے کی وجہ سے لوگ سفر کرنے اور چھٹیوں پر جانے سے بھی گریز کریں گے۔ سیاحت کا موسم آنے سے پہلے پہلے اگر حکام وباء پر قابو پانے میں ناکام رہے تو اس کے عالمی سیاحت کی صنعت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
ایئر لائن انڈسٹری کو بھی کافی نقصان پہنچے گا، کیونکہ سیاحت کے ساتھ ساتھ تجارتی سفر بھی متاثر ہو رہا ہے۔ بہت ساری کمپنیاں اب غیر ضروری سفر کرنے سے منع کر رہی ہیں۔ بہت سارے ملک اب اس لسٹ پر موجود ہیں جہاں غیر ضروری سفر سے گریز کا کہا جا رہا ہے۔ جرمنی کی لفتھانسا نے اپنی لاگت کم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ہانگ کانگ کی کیتھے پیسیفک نے اپنے سٹاف کو تین ہفتے کی چھٹیوں پر جانے کا کہا ہے، وہ بھی بغیر تنخواہ کے۔
منافع خوری کا موقع
سرمایہ داری میں ہمیشہ دوسروں کی تکلیف سے منافع کمانے کا موقع ہوتا ہے۔ امریکہ میں سرجیکل اور دوسرے ماسک کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ایمازون نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے تاجروں کو تنبیہ کی ہے کہ یہ ان کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ سب اس کے باوجود ہو رہا ہے کہ میڈیکل اسٹاف کے علاوہ ان کے استعمال کی ہدایت نہیں کی گئی۔ ہینڈ سینیٹائزر، جس کے استعمال کی ہدایت کی گئی ہے، کی قیمت دگنی ہو چکی ہے۔
دواساز کمپنیاں حکومت سے مراعات حاصل کرنے کے چکروں میں ہیں، مگر سوائن فلو کی وباء کے برعکس ابھی تک ان کے پاس کوئی کارگر دوائی یا ویکسین نہیں ہے۔ منگل کے دن شاید ان کی قسمت پھر گئی ہو جب جاپان نے زکام کی دوائی ’ایویگان‘ استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جس کے ساتھ ہی یہ دوا بنانے والی کمپنی فیوجی فلم کے شیئرز کی قیمتوں میں 8.8 فیصد اضافہ ہو گیا۔
اس کے علاوہ بہت سی چھوٹی کمپنیوں کے نقصان کی صورت میں بڑی کمپنیوں کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اپنی حریف کمپنیوں کو ہڑپ کر جائیں۔ میرسک اور کاسکو جیسی شپنگ کی بڑی کمپنیاں اس چکر میں ہوں گی کہ وہ چھوٹی کمپنیوں کو سستے داموں خرید لیں۔ کسی بھی معاشی بحران کی طرح اس کے نتیجے میں بھی دولت کا ارتکاز ہو گا۔
گلوبلائزیشن کا خاتمہ؟
ایک اور وجہ سے بھی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا بہت مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ پوری دنیا آپس میں جڑ چکی ہے۔ پوری دنیا میں تجارتی سفر کرنے والے اور سیر و سیاحت کرنے والے لوگوں کی وجہ سے انفیکشن پھیلنے کی رفتار میں کافی تیزی آئی ہے۔ بلاشبہ اس کا تعلق عالمی تجارت سے ہے۔
ٹرمپ کی حالیہ تجارتی جنگوں اور پوری دنیا میں تارکین وطن پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے حکومتی عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے باوجود سفر محدود کرنے کو تیار ہیں۔ پچھلے ہفتے وال سٹریٹ جرنل میں اس کی نشاندہی کی گئی تھی:
”ان وباؤں (سارس، ایبولا) کے بعد سے بہت سارے ممالک میں گلوبلائزیشن کے برعکس زیادہ مضبوط سرحدوں کی حمایت بڑھی ہے۔ حکام کو بیماری پر قابو پانے کے نام پر تجارت اور سفر روکنے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح یہ وباء گلوبلائزیشن کے خلاف ایک اور قوت کا کردار ادا کر رہی ہے۔“
لہٰذا ان رکاوٹوں کے وقتی اثرات سے زیادہ اثرات ہوں گے۔ اس سے عمومی تحفظاتی جذبات کا ابھار ہو سکتا ہے، جس سے عالمی معیشت کو مزید دشواریوں کا سامنا ہو گا۔ پچھلی کچھ دہائیوں کے دوران عالمی تجارت میں اضافے سے عالمی معیشت کو بڑھوتری ملی۔ گلوبلائزیشن میں کسی قسم کی کمی سے سرمایہ دارانہ عالمی معیشت کو گھمبیر مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آنے والا عالمی بحران
بھلے یہ وائرس کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا یہ مزید پھیلتا ہے، معاشی بحالی چاہے وہ جیسی بھی تھی، اب اختتام کی جانب آ رہی ہے۔
جرمن معیشت اب تکنیکی طور پر بحران کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ اب بڑھوتری نفی میں جا رہی ہے۔ اس کی صنعتی پیداوار پچھلے سال 7 فیصد کم ہوئی اور اس سال اس میں بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ جرمنی کے دو سب سے اہم تجارتی حلیف چین اور اٹلی ہیں، اور اٹلی کا بھی شمالی حصہ۔ جرمن معیشت کا بہت زیادہ انحصار عالمی تجارت پر ہے لہٰذا، کسی قسم کا تعطل اسے بہت حد تک متاثر کرسکتا ہے۔ اب صنعتیں کم از کم دو ماہ تک خام مال اور پرزوں کی عدم دستیابی کے باعث تعطل کا شکار رہیں گے۔ جرمن معیشت کی مشکلات پورے یورپی یونین کے لیے مشکلات کا باعث ہوں گی۔ جرمنی یورپ کی سب سے اہم معیشت ہے اور اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔
امریکی معیشت پہلے ہی سکڑ رہی ہے۔ گولڈمین ساکس 1.2 فیصد بڑھوتری کی پیشین گوئی کر رہا ہے (جو پہلے 2.1 فیصد تھی) جاپان کی معیشت 1.6 فیصد سکڑ چکی ہے۔ آئی ایم ایف نے چین کی بڑھوتری 5.6 فیصد بتائی ہے جو 1990ء کے بعد کم ترین سطح ہے۔
عالمی معیشت ایک اور زوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ یہ وائرس آخری دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو، اینگلز کی الفاظ میں، یہ وائرس ایک ایسا حادثہ ہو سکتا ہے ”جس کے پیچھے لازمیت چھپی ہے۔“