ایک نئی دنیا کا جنم ہو چکا ہے۔ عالمی سطح پر بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہے اور دنیا کا کوئی خطہ اورکوئی بھی حصہ ان تبدیلیوں سے محفوظ نہیں۔ کرونا وائرس کے بعد سے پوری دنیا ایک ہیجان اور افراتفری میں مبتلا ہے اور ہر جانب ایک خوف کی فضا موجود ہے۔ ایک ایسا واقعہ رونما ہو چکا ہے جس کی کسی کو بھی توقع نہیں تھی اور صرف چند ماہ قبل تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پوری دنیا ایسے حالات سے بھی دوچار ہو سکتی ہے۔ صرف مارکسی نظریات کے حامل افراد دنیا میں بہت بڑے واقعات اور اہم بنیادی تبدیلیوں کی پیش گوئی کر رہے تھے جبکہ دنیا کے دیگر تمام تجزیہ نگار اور نظریہ دان”معمول“ کے مطابق اپنے غیر سائنسی تجزیے پیش کرتے چلے جا رہے تھے جن کی قلعی اس وائرس نے کھول کر رکھ دی ہے۔ اس وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے یہ سب انگشت بدنداں ہیں اورحیرت بھری پھٹی آنکھوں سے دنیا بھر کے حالات کو دیکھ رہے ہیں جس میں ایک نیا ”معمول“ ظہور پذیر ہو چکا ہے۔
کرونا وائرس کے بعد کی دنیا نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اکثر افراد کوایسا لگ رہا ہے کہ اچانک سے سب کچھ تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ ایک طویل عرصے سے چلی آ رہی تبدیلیوں کا سطح پر اظہار ہے جب مقدار معیار میں تبدیل ہو گئی۔ ایک جانب تو یہ بات اس وائرس کے جنم کے لیے درست ہے جو ایک لمبے عرصے سے مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی تبدیلیوں سے گزرتا ہوا اس نکتے پر پہنچا جہاں یہ نوع انسان کے لئے خطرہ بن گیا اور اب ہر جگہ تباہی پھیلا رہا ہے۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام اور اس پر براجمان حکمران طبقے کے لیے بھی درست ہے جوایک لمبے عرصے سے بحرانوں میں گھرا ہوا تھا اور اب اتنا نحیف اور کمزور ہو چکا تھا کہ اس وبا کو نہیں روک سکا اور ہزاروں افراد کی اموات کا باعث بنا۔ یہ اموات آنے والے عرصے میں لاکھوں کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا بھر کے محنت کشوں پر اپنے حملے تیز کر دیے تھے گو کہ ان کی شدت میں اضافہ تو سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ہی ہو گیا تھا۔ اس سارے عرصے میں صحت اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات چھیننے کے عمل کا آغاز ہوا جس کے تحت دنیا بھر میں ہسپتالوں اور طبی عملے کی تعداد میں کٹوتیاں شروع کر دی گئیں اور صحت کا بجٹ بھی تیزی سے کم کیا گیا جبکہ اسلحہ سازی اور جنگوں پرکئی گنا زیادہ اخراجات کیے گئے۔ اسی طرح، ادویات ساز ملٹی نیشنل کمپنیوں نے منافعوں کی ہوس میں اپنی لوٹ مار میں کئی گنا اضافہ کر لیا جبکہ اہم تحقیقات کو ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے پیسہ بنانے کے لیے کاسمیٹکس اور دیگر ایسے شعبوں میں زیادہ سرمایہ کاری شروع کر دی۔ ان وجوہات کی بنیاد پر پورے نظام کی وباؤں اور دیگر بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی چلی گئی اور یہ ایک ایسے نکتے پر پہنچ گیا جہاں ایک وبا نے اس دہائیوں سے جاری عمل میں معیاری جست لگاتے ہوئے پورے نظام کو مفلوج کر دیا۔
اس دوران عالمی معاشی بحران کا بھی آغاز ہو چکا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس بحران کی پہلے سے پیش گوئی کی جا رہی تھی اور کئی سالوں سے یہ بحران عالمی منڈیوں کے سر پر منڈلا رہا تھا۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے عالمی معیشت کبھی بھی پوری طرح اس سے باہر نہیں نکل سکی اور اس معیشت کو بچانے کی جتنی بھی کوششیں کی گئیں یہ اتنی ہی بحران زدہ ہوتی گئی۔ اس سارے عرصے میں ایک کریش کو ٹالنے کی کوششیں کی جاتی رہیں اور اس کے لیے ہر ممکن مالیاتی ہتھیار استعمال کیا گیا۔ شرحِ سود میں مسلسل کمی کی گئی تاکہ سرمایہ داروں کو سستے قرضوں کی فراہمی کے ذریعے انہیں نئی سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا سکے جس سے معیشت کا پہیہ چلے۔ اس عمل میں یہ شرح انسانی تاریخ کی کم ترین سطح پر چلی گئی جو یورپ اور جاپان میں منفی ہندسوں میں پہنچ گئی۔ اسی طرح نوٹ چھاپنے کے وسیع عمل کا آغاز کیا گیا اور منڈی کے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتنی بڑی تعداد میں نوٹ چھاپے گئے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک کے ریاستی قرضے بھی ان کی کل قومی پیداوار کے 200 سے 300 فیصد تک پہنچ گئے۔ اس دوران محنت کشوں کی اجرتوں اور پنشنوں پر بھی بے دریغ حملے کیے گئے اور انہیں غربت اور ذلت کی زندگی میں دھکیلا گیا جبکہ دنیا کے امیر ترین افراد کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان خونخوار پالیسیوں کے باوجود اس بحران زدہ معیشت کو سنبھالا نہ جا سکا اور یہ مسلسل ایک کھائی کی جانب لڑھکتی رہی۔ اس عمل میں معیار ی جست اس سال کے آغاز میں لگی جب دنیا بھر کی معیشتیں کساد بازاری کا شکار ہو گئیں۔ عالمی معیشت کی شرحِ نمو میں بڑے پیمانے پر کمی آ چکی ہے اور امکان ہے کہ اس سال یہ ایک فیصد سے بھی کم شرح سے ترقی کرے گی۔ چین کی معیشت کی شرحِ نمو حالیہ سالوں میں دس فیصد سے چھ فیصد تک گر چکی تھی لیکن اب یہ منفی چالیس کی سطح تک پہنچ چکی ہے اور آنے والی سہ ماہیوں میں بھی منفی ہندسوں سے باہر نہیں نکل سکے گی۔ یہی حالت امریکہ سمیت دیگر یورپی معیشتوں کی ہے۔ 2008ء کے عالمی بحران میں چین کی معیشت نے دنیا کو سہارا دیا تھا لیکن آج وہ بھی ایک بوجھ بن چکی ہے اور دنیا کی دیگر معیشتوں کے ساتھ کھائی کی جانب لڑھک رہی ہے۔ یہی حال جرمنی کا ہے جو کساد بازاری کا شکار ہے اور یورپ کو بحران سے نکالنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔
گو کہ کرونا کے باعث دنیا بھر میں جاری لاک ڈاؤن نے اس معاشی بحران کی شدت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے اور دنیا بھر کے سرمایہ دار اور تجزیہ نگار مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ کرونا کی وجہ سے ہوا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرونا صرف ایک حادثہ بنا ہے جبکہ اس معاشی بحران کی لازمیت پہلے سے موجود تھی۔ عالمی معیشت کے یہ تضادات کئی سالوں سے مجتمع ہو رہے تھے اور انہیں پھاڑنے کے لیے کسی چنگاری کی ضرورت تھی۔ اب یہ بحران جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے اور اس کوواپس کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ کرونا وبا کے خاتمے کے بعد بھی یہ جاری وساری رہے گا اور پوری دنیا میں مزید تباہی اور بربادی پھیلاتا چلا جائے گا۔ اب دنیا کے لیے واپس پچھلی حالت میں جانا ممکن نہیں رہا اور آنے والے کئی سالوں تک اس مسلسل گہرے ہوتے بحران کے تحت ہی دنیاکے معمولات وقوع پذیر ہوں گے۔
اس نئی صورتحال نے نہ صرف بڑے پیمانے پرانسانی جانوں کو موت کے منہ میں دھکیلاہے، بینکوں اور ریاستوں کو دیوالیہ پن کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور منڈیوں کو کریش کیا ہے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے ذہنوں میں موجودخیالات کو بھی جھنجھوڑا ہے اور شعور میں بھی معیاری تبدیلیوں کی بنیاد رکھی ہے۔ انسانی شعور عمومی طور پر انتہائی سست رو ہوتا ہے اور حالات سے بہت پیچھے چلتا ہے۔ ٹراٹسکی نے ایک انقلابی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انقلابی صورتحال شعور کی پھرتیوں کے باعث پیدا نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت عمومی شعور واقعات سے بہت پیچھے رہ گیا ہوتا ہے اور ایک مخصوص نکتے پر جا کر جب یہ حالات سے پچھڑاہوا شعوردوبارہ ایک جست کے ساتھ نئی حقیقتوں سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو انقلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے اورانقلابات رونما ہوتے ہیں۔
آج دنیا میں جس تیزی سے واقعات رونما ہو رہے ہیں ان حالات میں عمومی شعور ان کے پیچھے پیچھے گھسٹتا چلا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کرونا وبا کا عنقریب خاتمہ ہو جائے گا اور زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہو جائے گی۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں۔ جلد یا بدیر اگر کرونا وبا کا خاتمہ ہو بھی جاتا ہے تو معیشت کبھی بھی پہلے جیسی صورتحال پر واپس نہیں آ سکتی بلکہ اس کا بحران مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا۔غربت، بھوک، بیروزگاری اور بیماری کی جن تکلیفوں سے دنیا بھر میں لوگ گزر رہے ہیں وہ تجربات ان کا قیمتی اثاثہ بن چکے ہیں اور آنے والے عرصے کے حالات ان اثاثوں میں بیش بہا اضافہ بھی کریں گے۔ مارچ کے آخری دو ہفتوں میں صرف امریکہ میں ایک کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہو گئے جبکہ آنے والے عرصے میں مزید بیروزگار ہوں گے۔ دنیا بھر میں بیروزگار ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ان سب کے لیے کام پر واپس جانا ممکن نہیں۔ دنیا کے تمام ممالک میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور کروڑوں روزگار ختم ہو رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں نہ صرف بڑی بڑی کمپنیاں اور بینک دیوالیہ ہوں گے بلکہ بہت سی بڑی معیشتیں بھی دیوالیہ ہوں گی اوربظاہر مضبوط نظر آنے والی ریاستیں ہوا میں معلق ہو جائیں گی۔ خود امریکہ کی سپر پاور کے طور پر حیثیت متاثر ہو چکی ہے جومزید کمزور ہوتے ہوئے ختم ہونے کی جانب بڑھے گی۔ گزشتہ ایک دہائی میں مشرق وسطیٰ میں بہت سی ریاستیں ختم ہوئی ہیں، آنے والے عرصے میں ان کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔تیل کی قیمتوں کے کریش نے پہلے ہی بہت بڑے سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں اور ان قیمتوں کی پرانی سطح پر مستقل بحالی کے امکان موجود نہیں۔ درحقیقت دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والا ورلڈ آرڈر ٹوٹ چکا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا آرڈر تخلیق ہونے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ انقلابات اور ردِ انقلابات کا دور ہے جس میں پرانے تمام اصول و ضوابط، عالمی ادارے اور معاہدے، سیاسی پارٹیاں، ریاستیں اور ان کی بنیادوں میں موجود نظریات شکست و ریخت کے وسیع تر عمل سے گزرتے ہوئے ختم ہونے کی جانب بڑھیں گے اور اب جنم لینے والی یہ نوزائیدہ دنیا اپنی حقیقت کا شعور حاصل کرے گی۔
دنیا کی مثال اس وقت ایک ایسی تپتی ہوئی بھٹی کی طرح ہے جس میں واقعات کی تیزآگ پرپرانے نظریات پر مبنی پورا نظام اور اس کے تمام تر ڈھانچے پگھل رہے ہیں اور ایک نئے نظام کے خدو خال ابھر رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اس عمل میں شدت آئے گی اور جنگوں، خانہ جنگیوں، انقلابی تحریکوں اور رد انقلابی حملوں کے نئے معمول میں اس نئی دنیا کے پروان چڑھنے کا عمل آگے بڑھے گا۔ اس کا کسی حد تک موازنہ ماضی کی عالمی جنگوں اور ان کے درمیانی عرصے کے علاوہ غلام دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتموں کے ادوار سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ غلام دارانہ نظام کے خاتمے کا اظہار سلطنتِ روم کے زوال اور انہدام میں ہوا تھا۔ یہ عمل کئی صدیوں پر محیط تھا جس میں اس وقت کی پوری جدید دنیا تبدیلی کے ایک تکلیف دہ عمل سے گزری تھی اور جاگیر دارانہ نظام قائم ہوا تھا۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز بھی انقلابات اور ردِ انقلابات کے ایک طویل سلسلے سے ہوا تھا۔
آج پھر ایک سماجی معاشی نظام دنیا بھر میں ختم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ لینے کے لیے ایک نئے سوشلسٹ نظام کے نظریات پہلے سے موجود ہیں۔ لیکن اس دفعہ فرق یہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کا حجم اتنا بڑا ہے جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ یہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا ہی وقت نہیں بلکہ ہزاروں سال سے موجود طبقاتی نظام کے خاتمے کابھی موقع ہے جس نے بے شمار صدیوں سے عام انسانوں کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم اب اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے جہاں چند امیر ترین افراد کی ہوس پورے سیارے اور اس پر بسنے والے اربوں انسانوں کو تباہی اور بربادی میں دھکیل رہی ہے۔ اس حوالے سے سوشلسٹ انقلاب آج انسانیت کی بقا کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے نظریات، طریقہ کار اور حکمت عملی پہلے ہی کئی دہائیوں کے عمل کے دوران تیار کی جا چکی ہے۔ اب اس کو لاکھوں انسانوں تک لے کر جانے کی ضرورت ہے اور انہیں منظم کرتے ہوئے اس تاریخی تبدیلی کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ آج انقلابی پارٹی کی تعمیر اور مارکسی نظریات کی اہمیت پہلے کی نسبت کئی گنا بڑھ چکی ہے اور درحقیقت یہ سوال آج کروڑوں افراد کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔ اس لیے اس انقلابی فریضے کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی اور سستی کی گنجائش موجود نہیں۔ آنے والا وقت انقلابی قوتوں کو اپنا تاریخی فریضہ ادا کرنے کے لیے بے تحاشا مواقع فراہم کرے گا۔ اگر مارکسی لیننی نظریات سے لیس منظم انقلابی قوتیں درست انداز میں آگے بڑھیں تو اسی نسل میں ایک سوشلسٹ انقلاب کرنے کا خواب حقیقت بن جائے گا۔