|تحریر: عرشہ صنوبر|
خواتین جن کی زندگیاں اس سرمایہ داری کی دنیا میں ایک تماشے سے کم نہیں، کسی بھی ملکی یا بین الاقوامی مسئلے میں مزید ابتری کا شکار ہوجاتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کوئی نئی بات نہیں رہی۔ روز مرہ کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے واقعات سننے کو ملتے ہیں لیکنتمام حکمران طبقہ اس پر آنکھ بند کیے خاموش ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں جہاں خواتین کی موجودگی پائی جاتی ہے وہاں ان کا استحصال اور ان سے زیادتی بھی جاری رہتی ہے۔ گھریلو خواتین سے لے کر نوکری کرنے والی خواتین تک کو ایک ہی بیلن میں پیس دیا جاتا ہے۔ ان کا معاشی، جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور ہر طرح کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اگرکبھی این جی اوز کی ”سماجی خیر خواہ“ سرمایہ دار طبقے کی بنی ٹھنی بیگمات یا میڈیا اور شوبز کی خواتین کوظلم کی ماری مزدور خواتین کے بارے میں کچھ خیال آ بھی جائے تو وہ ان کے لیے ایک تفریح سے کم نہیں ہوتا جس میں وہ ہزاروں لاکھوں پیسے پارلر اور جوڑوں پر خرچ کر کے کیمروں کی لائن کے سامنے نفاست سے آبدیدہ ہو کر فرض پورا کرتی نظر آتی ہیں۔ اور ان کے اس کھیل تماشے کی تصاویر اور خبروں کو میڈیا پر اتنی پذیرائی ملتی ہے کہ عوام کو ان کے خلوص پر کوئی شک نہیں رہتا۔
حال ہی میں کرونا کی وبا نے جو لاکھوں لوگوں کی جان لی ہے تو کروڑوں محنت کشوں کو بے روزگار بھی کیا ہے۔ اس وبا نے محنت کش طبقے کی خواتین کی زندگیوں میں مسائل کا بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ معاشی بحران اور لاک ڈاؤن کے باعث گھروں میں بے روزگار بیٹھے مرد عورتوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والی مختلف رپورٹس کے مطابق کرونا سے متاثر تمام ممالک میں لاک ڈاؤن نے گھریلو تشدد اور بالخصوص خواتین پر تشدد کے واقعات میں بے حد اضافہ کیا ہے۔ چین میں اس تشدد میں نوے فیصد تک اضافہ ہوا جس میں کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہوبے میں گھریلو تشدد پر کروائی جانے والی رپورٹس میں تین گنا اضافہ ہوا۔ برازیل میں خواتین کے ساتھ ساتھ بچے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں اور وہاں کی شرح چالیس سے پچاس فیصد بڑھ گئی ہے اور سب سے زیادہ تشد د وہاں کے شہر ریوڈی جنیرو میں نظر آیا ہے۔ اور رپورٹ کے مطابق اٹلی میں تو تشدد بھی انہی علاقوں میں زیادہ دیکھا گیا جہاں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد زیادہ تھی۔ ایسے حالات میں جہاں گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہے وہاں خواتین کے ٹیکسٹ میسجز پر رپورٹس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اسپین کی رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد میں اضافے کے باعث ہسپانوی حکومت نے یہ اعلان بھی کردیاہے کہ تشدد کی شکار خواتین کو گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے کیونکہ ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے جہاں خواتین کو خود کو باتھ رومز میں بند کر کے بچانا پڑا۔ فرانس میں تشدد کی شکار خواتین کی عمریں 18 سے 75 سال تک ہیں۔ بھارت میں جہاں لاک ڈاؤن ایک ماہ گزر چکا ہے وہاں بھی گھریلو تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں 200فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
محنت کش خواتین کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتاہے کہ ان خواتین کو کرونا اور لاک ڈاؤن کے کافی بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین ایک دم سے بے روزگار ہو گئی ہیں۔ ان کی تنخواہیں روک لی گئی ہیں۔ اور جن فیکٹریوں میں ابھی بھی کام جاری ہے وہاں وبا سے بچنے کے کوئی انتظامات نظر نہیں آتے۔ کنالوں پر مشتمل بنگلوں میں لاک ڈاؤن مناتے ہوئے فیکٹریوں کے مالکان کو ملازموں کی زندگیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ان خواتین کی زندگی دوہری اذیت میں ہے۔ وہ تمام خواتین جن کی تنخواہوں سے ان کے گھر چلتے تھے، ان کے اداروں نے انہیں تنخواہوں سے جواب دے دیا ہے اور نتیجتاً گھریلو لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی بے تحاشا ٹیچرز کی تو ایک طرح سے نوکری ہی چھوٹ گئی ہے۔ ادارے کے مالکان نے تنخواہیں یا تو دی ہی نہیں، یا کٹوتی کر کے دی ہیں یا لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد دینے کے وعدے کر کے ٹرخا دیا ہے۔ اور یہ وہی محنت کش خواتین ہیں جن کے گھروں کے چولہے ان کی تنخواہوں سے ہی جلتے ہیں۔حکومتی و ریاستی بے حسی، نااہلی اور سرمایہ دار نواز پالیسیوں کے باعث ہلاکتیں اور لاک ڈاؤن کا عرصہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے مالکان نے تو لاک ڈاؤن کی چھٹیوں کو گرمیوں کی چھٹیوں کا نام دے کر طلباء سے ان چھٹیوں کی فیس کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن اساتذہ کو ان چھٹیوں کی تنخواہ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ گھروں میں بیٹھی یہ مزدور خواتین اپنا گھر چلانے سے بھی مجبور ہیں۔
ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے شروع کردہ ”احساس پروگرام“ کے تحت خواتین کو خوب ذلیل کیا جا رہاہے۔ مزدور طبقے کی عورتیں جنہیں کرونا سے زیادہ بڑی بھوک نامی بیماری کا سامنا ہے اس رش میں ایک دوسرے کو دھکیلتی بارہ ہزارروپے کی خاطر بھکاریوں سے بھی زیادہ ذلیل ہو رہی ہیں۔ اسی دھکم پیل میں ملتان میں قاسم پورہ کے علاقے میں ایم اے جناح سکول میں اس امدادپروگرام میں نتظامیہ کی بد انتظامی کے باعث خواتین کی دھکم پیل میں بیس خواتین زخمی اور ایک ہلاک ہو گئی اور اور تمام ’سوشل ڈسٹنسنگ‘ کی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ لاک ڈاؤن کرنے والوں کی اس قدر بے احتیاطی اور لاپرواہیوں نے انسانی جان لے لی۔ سندھ میں عورتوں کی حالت زار اس سے کچھ مختلف نہیں۔ وہاں کی عورتیں جو گھروں میں چھوٹے موٹے دستکاری کے کام کر کے زندگی گزار رہی تھیں، لاک ڈاؤن نے ان کے یہ کام بھی ٹھپ کر دیے ہیں اور ان کے بچے دودھ کو ترس رہے ہیں۔ یہی خواتین جب سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتی ہیں تو پولیس ان پر لاٹھی چارج کرتی نظر آ تی ہے اور انہیں گھروں میں قید رہنے کا کہتی ہے۔ ایسی خواتین گھروں میں بھوک سے بلکتے بچے چھوڑ کر حکومت سے چند ہزار روپوں کے راشن کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ لیکن ان کے مخاطب اپنے مفادکی دلدل میں اس قدر دھنس چکے ہیں کہ انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔
اس تمام صورتحال نے ایک بات کو تو بالکل واضح کر دیا ہے کہ تمام تر وسائل اور ترقی کے باوجود سرمایہ دارنہ حکمران طبقات اس عالمی وبا کا تدارک کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ کنٹرول تو دور کی بات، مریضوں کے لیے ہسپتال، بستر اور انتظامات ہی نا مکمل ہیں۔لاک ڈاؤن نے محنت کش طبقے کے دلوں میں سلگتی ہو ئی بے چینی کو شعلے کی شکل دے دی ہے۔ وبا کے خوف سے گھروں میں دبے ہو ئے لوگوں میں جب بھوک سے سینکڑوں مریں گے تو وبا کے ختم ہوتے ہوتے لوگوں کی برداشت کا پیمانہ بھی لبریز ہو جائے گا۔ اس عالمی جنگل میں ناانصافی اور سرمایہ داری کے ظلم کی وجہ سے بھڑکتی آگ جو پھیلے گی تو پھر قابو میں نہیں آئے گی۔ انقلاب کا کوئی خاص لمحہ مقرر نہیں ہوتا۔ یہ صدیوں لوگوں کے دلوں میں پنپتا ہے اور پھر ایک ہی لمحہ آتا ہے جس میں یہ سب لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ اس لمحے کا علم کسی کو ہو نہ ہو، اس لمحے سے آگاہی اب پھیل چکی ہے۔ یہ عالمی وبا سرمایہ داری کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونک رہی ہے۔