|تحریر: زین العابدین|
”کرونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران احتیاط کریں۔ ویکسین کا عمل شروع ہوچکا ہے لیکن بیماری سے بچاؤ کے لیے ذاتی احتیاطی تدابیر بھی لازمی ہیں۔ ان پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں بیماری اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔۔۔“ یہ چند جملے کم و بیش ہر پاکستانی کے لیے شناسا ہیں اور جب بھی کسی شخص کو موبائل پر کال ملائی جائے تو یہ جملے سننے کو ملتے ہیں۔ کُل ملا کر کرونا وبا کے مقابلے میں یہی پاکستانی حکومت کا ردعمل ہے جس میں عوام کو احتیاط برتنے کی تلقین کرنے کے بعد حکومت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ”جاگدے رہنا، ساڈے اتے نہ رہنا!“۔
کرونا وائرس کی تیسری لہر کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور اس لیے حکومت نے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے موبائل رنگ ٹون میں پہلے جملے کو تبدیل کر دیا ہے اور عوام کو تیسری لہر میں بھی احتیاط کی تلقین کی جا رہی ہے۔ 7 اپریل کو ملک بھر سے 5329 نئے کیس رپورٹ کیے گئے جو کہ مارچ 2020ء میں وبا کے آغاز سے لے کر اب تک کسی ایک دن میں سامنے آنے والے سب سے زیادہ کیس ہیں مگر حکمرانوں کی روایتی بے حسی برقرار ہے جس کا سب سے واضح اظہار کرونا ویکسین مہم میں ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ عوام کو بیماری اور بھوک سے بچانے کی خاطر تیز ترین بنیادوں پر کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جاتی تا کہ معمول کی زندگی جلد از جلد بحال ہو سکے مگر ان خون آشام حکمرانوں نے روایتی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرونا ویکسین کے کاروبار کا آغاز کردیا ہے۔ کیا کریں اتنی سنہری ’بزنس اوپر چونٹی‘ کو کیسے ہاتھ سے جانے دیں۔ غریب عوام مرتی ہے تو مر جائے۔ اگر چند ہزار غریبوں کی بلی چڑھا کر اربوں روپوں کے منافع کما لیے جائیں تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔ آخر اس سرمایہ دارانہ نظام کی یہی تو منطق ہے۔
اس وقت کرونا وبا کا کوئی انت دکھائی نہیں دے رہا۔ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے لے کر نام نہاد تیسری دنیا کے پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک تک، وبا نا صرف موجود ہے بلکہ اس کی تباہ کاریاں بھی جاری ہیں۔ گو کہ کرونا وبا سے بچاؤ کی کئی ایک ویکسینیں سامنے آچکی ہیں اور بیشتر ممالک میں ویکسینیشن کا عمل شروع ہوچکا ہے مگر تاحال وبا کا کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ نجی ملکیت پر کھڑایہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے پوری دنیا کو متروک قومی حدود میں جکڑ رکھا ہے۔ بڑے مغربی سامراجی ممالک کروڑوں کی تعداد میں ویکسین پر سانپ بنے بیٹھے ہیں تاکہ جلد از جلد اپنے عوام کی ویکسینیشن کرکے معیشت کا پہیہ چالو کیا جاسکے اور منافعوں میں آئے کسی حد تک تعطل اور کمی کو تیز ترین انداز میں پورا کیا جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ حریف ممالک کو پچھاڑتے ہوئے منڈیوں پر تسلط مزید بڑھایا جا سکے۔ مگر اس سارے عمل میں ایشیا اور افریقہ میں بسنے والی دنیا کی آبادی کی بھاری ترین اکثریت ویکسین سے محروم ہے اور مستقبل قریب میں بھی اس محرومی کا مداوا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
درحقیقت، کرونا وبا نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ ایک ایسی آفت سے مقابلے کے لیے جو سرحدوں کی پروا نہیں کرتی یہ نظام تمام تر ترقی کے باوجود کس حد تک لاچار ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی ادارہئ صحت سوائے بڑے سامراجی ممالک سے اپیلیں کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ اس وبا نے ان عالمی اداروں کی متروکیت کو بھی عیاں کیا ہے۔ عالمی ادارہئ صحت کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وبا سے مقابلے کے لیے عالمی سطح پر ایک اجتماعی ردعمل درکار ہے۔ اور جب تک ہرشخص محفوظ نہیں ہوجاتا تب تک کوئی شخص بھی محفوظ نہیں۔ ٹیڈروس صاحب نے بجا فرمایا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسا اجتماعی ردعمل ایک عالمی سوشلسٹ سماج میں ہی ممکن ہے نہ کہ قومی منڈیوں میں بٹے اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں جس میں ہر ملک کے حکمران سرمایہ دار طبقے کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور وہ حریف ممالک کے سرمایہ داروں پر سبقت لے جانے کے لیے لاکھوں کیا کروڑوں محنت کش عوام کی بَلی چڑھانے کو بھی تیار ہیں۔ اس کی سب سے واضح مثال نام نہاد یورپی یونین ہے جہاں یونین میں شامل بڑے ممالک اپنی قومی بورژوازی کے مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ سے زیادہ اور سب سے پہلے ویکسین حاصل کرنے کی دوڑ میں ہیں اور یورپی اتحاد ماضی کے اچھے دنوں کا قصہ بن کر رہ گیا ہے۔
دوسری جانب، یہ ویکسینیں بنانے والی دیوہیکل فارما سیوٹیکل کمپنیاں ہیں جن کو صرف اور صرف اپنے منافعوں سے مطلب ہے اور یہ وبا تو ان کے لیے ایک خوشگوار حیرت (Pleasant Surprise) ثابت ہوئی ہے اور ان کی چاندی ہوگئی۔ ان نجی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو قومیاتے ہوئے اور محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے تو موجودہ پیداواری قوتوں کی ترقی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بھی محض چند مہینوں کے اندر دنیا کی پوری آبادی کو کئی بار ویکسینیٹ کیا جاسکتا ہے اور اس وبا سے انتہائی کم وقت میں نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ لیکن نئی تحقیقات کے مطابق اگر کم سے کم وقت میں پوری دنیا کی آبادی کو کرونا وبا سے بچاؤ کی ویکسین نہ لگائی گئی تو وائرس کے نت نئی اقسام کے سامنے آنے کی وجہ سے یہ ایک ”مستقل وبا“ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ یوں یہ وبا سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خوری اور متروکیت کے باعث ایک طویل عرصے کے لیے مستقل بربریت کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کے خاصے قوی امکانات ہیں۔
بڑے سامراجی ممالک میں ویکسین کے حوالے سے موجود پاگل پن کے باوجود ہر ملک اس کوشش میں ہے کہ مارکیٹ میں دستیاب ویکسینز میں سے کوئی بھی ویکسین جلد از جلد حاصل کی جائے سوائے مملکت خداداد کے حکمرانوں کے، جو کہ ابھی تک زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا رہے ہیں۔ عوام کو اس وبا سے بچانے کی جانب ان حکمرانوں کا رویہ انتہائی بے حسی پر مبنی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کئی ممالک میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں آبادی کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جا چکی ہے، انصاف حکومت نے تاحال ایک ویکسین بھی نہیں خریدی۔ چین سے امداد میں ملنے والی 5 لاکھ ویکسینز کے بعد فروری کے مہینے کے آغاز میں ملک میں ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا اور شرم سے ڈوب مرنے کی بجائے اس کو اپنی بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا گیا۔ اب تک کل ملا کر حکومت 12 لاکھ ویکسینیزکا انتظام کر سکی ہے اور یہ ساری کی ساری چین کی جانب سے امداد کی صورت میں ملی ہیں۔
چین سے ملنے والی ویکسینز کے بعد فرنٹ لائن ہیلتھ کئیر ورکرز کی ویکسینیشن کا آغاز کیا گیا جس میں لگ بھگ ستر ہزار فرنٹ لائن ہیلتھ کئیر ورکرز کو ویکسین لگائی گئی مگر صورتحال یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کو ابھی تک ویکسین کی صرف ایک ڈوز ہی لگ سکی ہے جبکہ مکمل بچاؤ کے لیے دو ڈوز ضروری ہیں۔ اسی طرح، باقی ماندہ لاکھوں کی تعداد میں موجود ڈاکٹر، نرسز، پیرا میڈیکس سمیت ہسپتالوں میں کام کرنے والے دیگر عملے کی ایک بھاری اکثریت ویکسین سے محروم ہے اور بڑی تعداد میں وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں جس کا خمیازہ بھی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کے شعبے پر سب سے کم اخراجات کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں کرونا وبا نے پہلے سے تباہ حال اور جیسے تیسے چلتے صحت کے شعبے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ جیسے ہی کرونا کیسز میں اضافہ ہوتا ہے تو سرکاری ہسپتالوں میں کئی ایک شعبوں کو بند کردیا جاتا ہے۔ ضروری نوعیت کی سرجریوں کے علاوہ باقی ماندہ کو روک دیا جاتا ہے۔ او پی ڈیز کو بند کردیا جا تا ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو ان ہسپتالوں میں کام کرنے والے ہیلتھ کئیر ورکرز کی بڑی تعداد میں وائرس سے متاثر ہونے کے بعد عملی طور پر کئی شعبوں کو چلا پانا ناممکن ہوجا تا ہے جہاں پہلے ہی سٹاف کی شدید قلت ہے۔ ایسے میں غریب سے جیسی بھی سہی علاج کی یہ سہولت بھی چھن جاتی ہے اور ان کے پاس قابل علاج بیماریوں کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنی جانیں گنوانے کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں بچتی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں ہیلتھ ایمر جنسی کی صورتحال ہے اور کرونا وبا کے علاوہ ایسی ایسی بیماریاں (endemic) ہیں جو کہ دنیاکے اکثریتی ممالک سے ختم ہوچکی ہیں اور یہاں دوبارہ سر اٹھا چکی ہیں۔ بچوں کی متعدد قابل علاج بیماریوں کے ساتھ ساتھ آبادی کی قابل ذکر تعداد شوگر، بلڈ پریشر، امراض دل، امراض جگر، خسرہ، یرقان اور دیگر قابل علاج بیماریوں کا شکار ہے اور بڑی تعداد میں لوگ علاج کی سکت نہ ہونے کے سبب وقت سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں ذہنی اور نفسیاتی امراض کا تو کوئی شمار نہیں کیا جاتا گو کہ آبادی کی ایک بھاری اکثریت کسی نہ کسی قسم کی ذہنی یا نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ تا دم تحریر دوفروری سے لے کر اب تک ملک میں لگ بھگ دس لاکھ افراد ہی کرونا ویکسین سے مستفید ہو سکے ہیں۔ ان کی بھی ایک بھاری اکثریت حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے اپنے اور رشتہ داروں تک ہی پہنچی ہے۔ اس بات کا اظہار اس وقت ہوا جب حکومتی اتحاد اور ق لیگ کے رکن اسمبلی طارق بشیر چیمہ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں موصوف اپنے رشتہ داروں کے ساتھ گھر میں براجمان ہیں اورمحکمہ صحت کا عملہ گھر آکر رشتہ داروں کو ویکسین لگا رہا ہے۔ اگلے روز جب ایک ٹی وی ٹاک شو میں موصوف سے اس بابت پوچھا گیا کہ کیا آپ اور آپ کے رشتے دار ویکسین لگوانے کے لیے اہل ہیں تو کمال ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جناب نے فرمایا کہ اگر لگوا بھی لی ہے تو کون سی قیامت آگئی ہے۔ موصوف نے بالکل درست فرمایا۔ اس ملک اور یہاں کے وسائل پر انہی مٹھی بھر سرمایہ داروں اور ریاستی اشرافیہ کا ہی تو حق بنتا ہے اور غریبوں اور محنت کشوں کی زندگیوں میں تو جنم سے لے کر موت تک روز قیامتیں برپا ہوتی ہیں۔ اگر وہ مر بھی جائیں تو کون سی بڑی بات ہے ہاں مگر ان لٹیروں کا زندہ رہنا لازمی ہے تاکہ ان کی زندگیوں کی رونقیں، ان کی پرتکلف محفلیں اور ان کے گھروں کی رنگینیاں قائم و دائم رہ سکیں جو کہ درحقیقت اس دھرتی پر بوجھ ہیں۔
حکومت اس وقت میڈیا پر اپنی ویکسین مہم کو بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہے۔ رواں ماہ کے آغاز پر ہی وفاقی وزیر اسد عمر نے بیان دیا کہ عید کے بعد تمام شہریوں کے لیے کرونا ویکسین کی رجسٹریشن اور فراہمی شروع کر دی جائے گی۔ اس سے قبل موصوف نے بیان دیا تھا کہ چین سے ستر لاکھ ویکسینیں خریدنے کے لیے معاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت پہلے مرحلے میں فرنٹ لائن ہیلتھ کئیر ورکرز کو ویکسین کی فراہمی کے بعد مارچ کے آغاز میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے ویکسین رجسٹریشن اور فراہمی کے عمل کا آغاز کیا گیا اور بعد ازاں مارچ کے اختتام پر پچاس سال سے زائد عمر کے شہریوں کے لیے ویکسینیشن کا عمل شروع کر دیا گیا۔ بظاہر یہ صورتحال بڑی مثبت معلوم ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق اس سب کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ذرا سے غور کرنے پر حکومتی اقدامات کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر ویکسینیشن کے لیے نہ ہی کوئی پلان ہے اور نہ ہی حکمران اس حوالے سے سنجیدہ ہیں بلکہ روایتی بے حسی سے کام لیتے ہوئے حکومتی رسپانس صرف اور صرف بیان بازی اور نام نہاد سمارٹ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات تک محدود ہے۔ پاکستان آبادی کے حوالے سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور اس وقت ملکی آبادی 22 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ وائرس سے مکمل بچاؤ کے لیے 18 سال سے زائد عمر کی 70 فیصد آبادی کو کرونا ویکیسین لگانا ضروری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے 14 کروڑ ویکسین ڈوز درکار ہوں گی۔ حکومتی مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ہمارا ٹارگٹ ہے کہ 10 کروڑ افراد کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے 20 کروڑ ویکسین شاٹس درکار ہوں گے۔ جبکہ اس وقت حکومت کے تمام تر دعووں پر یقین کر بھی لیا جائے تو یہ ساری تعداد کروڑوں میں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں بنتی ہے۔ اسی سے حکومت کی سنجیدگی اور حکومتی دعووں کی حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس بابت حکومتی عہدیداران بہانے بناتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں ویکسین دستیاب نہیں اور بڑے ممالک مینوفیکچر ہونے والی ویکسینز کا ایک بڑا حصہ لے جا تے ہیں اور ہمارے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔ گو کہ اس بات میں کسی قدر سچائی موجود ہے مگر پاکستانی حکمران کرونا وبا کے آغاز سے ہی ویکسین کے حوالے سے سنجیدہ نہیں تھے۔ ہم مزید واضح کرنے کے لیے اپنے قارئین کو چند ایک چھوٹے ممالک کی مثال دیں گے جو کہ پاکستان کی نسبت ناصرف کہیں بڑی تعداد میں ویکسین خرید یا معاہدے کر چکے ہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں آبادی کو ویکسین مہیا کی جاچکی ہے۔ سب سے پہلے بنگلہ دیش کی مثال لیتے ہیں جو کہ 3 کروڑ ویکسینز کی فراہمی کے لیے معاہدے کر چکا ہے اور اس کے علاوہ تا دم تحریر پچاس لاکھ سے زائد افراد کو کرونا ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ اسی طرح، لاطینی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک کولمبیا کی مثا ل ہے جو کہ اپنی پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کے لیے لگ بھگ تین کروڑ ویکسینز کی فراہمی کے لیے معاہدے کر چکا ہے۔ اسی طرح، برادر اسلامی ملک ملائیشیالگ بھگ تین کروڑ ویکسینز کی فراہمی کے لیے مختلف کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کر چکا ہے اور ملک میں ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح ہمسایہ ملک ہندوستان میں ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ یہ اعدادوشمار حکومتی عذر تراشیوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کا ویکسین خریدنے کا کوئی پروگرام ہی نہیں تھا۔ اس بات کا ثبوت مارچ کے آغاز میں وفاقی سیکرٹری برائے صحت کا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے دیا گیا بیان ہے جس میں سیکرٹری صاحب نے انتہائی انسان دشمن بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ویکسین خریدنے کی ضرورت نہیں اور ہم Herd Immunity اور امداد میں ملنے والی ویکسین سے ہی کام چلائیں گے۔ Herd Immunity ایک انتہائی انسان دشمن سوچ ہے۔ موصوف کا کہنا یہ تھا کہ بیماری کو پھیلنے دیا جائے، کمزور یا بیمار افراد بیماری کے ہاتھوں مر جائیں گے اور بقیہ ماندہ میں اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجائے گی۔ رہ گئی بات ویکسینیشن کی تو وہ ڈھونگ ہم امدادمیں ملنے والی ویکسین سے چلاتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ Herd Immunity کی کوئی سائنسی بنیادیں نہیں ہیں اور جس طریقے سے کرونا وائرس میوٹیٹ ہو رہاہے اور اس کی نئی اور زیادہ خطرناک اقسام سامنے آرہی ہیں اس میں ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ اس صورتحال میں Herd Immunity کی بات کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ہے یہاں کے حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کا انسان دشمن کردار جن کے اپنے لیے تو چارٹر فلائٹس پر مہنگی ویکسینیں منگوائی جا رہی ہیں جبکہ عوام کو بھوک اور بیماری سے مرنے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی حکومت کا زیادہ تر دارو مدار عالمی ادارہئ صحت اور گاوی کے اشتراک سے بننے والے Covax الائنس کی مد میں ملنے والی 14 ملین ویکسینز پر تھا مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ بڑے سامراجی ممالک کی ویکسین کے لیے دوڑ اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے اپنے منافعوں کو برقرا رکھنے کی خاطر محدود سپلائی نے اس الائنس کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کی جانب سے پسماندہ اور غریب ممالک کو کرونا ویکسین فراہم کی جانی تھی۔ پلان کے مطابق کوویکس کی جانب سے پاکستان کو ویکسین کی پہلی کھیپ مارچ کے پہلے ہفتے میں مہیا کی جانی تھی اور بقیہ ماندہ جون کے مہینے تک ملنی تھی۔ کوویکس کی جانب سے مہیا کی جانے والی ویکسین انڈیا میں تیار اور سپلائی ہونی تھی مگر انڈیا میں کیسز بڑھنے کے ساتھ ہی انڈین حکومت نے ویکسین کی برآمد پر پابندی لگا دی جس کی وجہ سے تاحال اس پروگرام پر عملدرآمد نہیں ہوسکا اور وائرس دنیا کی غریب ترین آبادیوں میں تباہی مچاتا چلا جا رہا ہے۔
غالب امکان یہی ہے کہ وائرس کی نئی اور زیادہ خطرناک قسم کے سامنے آنے اور دیگر ممالک کی جانب سے ممکنہ سفری پابندیوں کے خطرے کے بعد حکومت نے چین کے ساتھ چند لاکھ ویکسین کی فراہمی کے لیے بات چیت کا آغاز کیا گو کہ یہ تعداد بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ برطانیہ نے پہلے ہی پاکستان سے آنے والے مسافروں پر پابندی عائد کردی ہے۔ اگر وائرس زیادہ پھیلتا ہے اور کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو مزید ممالک بھی ایسے اقدامات اٹھانے کی جانب جا سکتے ہیں جس کے ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے جو کہ پہلے ہی شدید بحران کا شکار ہے۔ امریکی جریدے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اپنی پوری آبادی کی کرونا ویکسینیشن کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصہ درکار ہوگا۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں اور پہلے ہی مقامی حکمرانوں کی نااہلی، لالچ اور کرپشن کے سبب یہاں پولیو جیسی بیماری آ ج تک موجود ہے۔
اس وقت سامنے آنے والے زیادہ کیسز کرونا وائرس کے برطانوی ویرئینٹ کے ہیں جو کہ پچھلے سے زیادہ خطرناک اور زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ مزید برآں، اس ویرئینٹ نے نوجوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ہے جن کو پہلے اس وائرس سے کسی قدر محفوظ خیال کیا جاتا تھا۔ صرف دارالحکومت اسلام آباد میں پانچ ہزار سے زائد بچے اس وائرس سے متاثر ہوکر مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ لاہور میں بھی صورتحال مختلف نہیں اور بڑی تعداد میں بچے اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ لاہور اس وقت کرونا وبا کی تیسری لہر کا مرکز بنا ہوا ہے اور پنجاب میں نیم لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔ مگر حکومتی ردعمل موبائل رنگ ٹون تک محدود ہے۔
بڑے ممالک کے حکمران طبقات کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح جلد از جلد آبادی کی زیادہ سے زیادہ اکثریت کی ویکسینیشن کی جائے تاکہ معیشت کا پہیہ پھر سے چالو ہو اور وہ دل کھول کر دوبارہ اپنی منافع خوری شروع کرسکیں جس پر وبا اور معاشی بحران نے کسی قدر اثر ڈالا ہے۔ مگر پاکستان کے پسماندہ، طفیلیہ اور سامراجی طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے گماشتہ اور بھک منگے حکمران طبقے کا وبا کے مقابلے میں ردعمل اسی پسماندگی اور بھک منگی کا عکاس ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ یہاں کے حکمرانوں نے ویکسین کے کاروبار کی اجازت بھی دے ڈالی ہے جس کے بعد نجی شعبے کی ایک کمپنی AGP پرائیویٹ لمیٹڈ نے ہزاروں روپوں کے عوض روسی ساختہ ویکسین Sputnik-V کی فراہمی کا آغاز کردیا ہے۔ پاکستان کے خون آشام حکمران یہاں بھی بازی لے گئے اور پوری دنیا میں پاکستان وہ پہلا ملک ہے جہاں نجی شعبے کو کرونا ویکسین کے کاروبار کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے تاکہ وہ اس وبا سے اپنے منافعوں کا دوزخ جی بھر کے بھر سکیں۔ اس ویکسین کی قیمت کے تعین کے لیے آغاز میں حکومت اور مذکورہ کمپنی کے مابین ’اختلافات‘ سامنے آئے جس میں نجی کمپنی کا کہنا تھا کہ ہم نے اس شرط پر ویکسین درآمد کی تھی کہ حکومت قیمتوں کے تعین میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گی۔ بعد ازاں، حکومت نے اس ویکسین کی قیمت 55 ڈالر یالگ بھگ ساڑھے آٹھ ہزار روپے سے زائد مقرر کی جس پر مذکورہ کمپنی نے ویکسین بیچنے سے انکار کردیا اور معاملہ سندھ ہائیکورٹ لے گئی اور عدالتوں نے ان سرمایہ داروں کے مفادات اور منافعوں کے تحفظ کی ذمہ داری بخوبی نبھائی اور ویکسین کے دو شاٹس کی قیمت 80 ڈالر یا لگ بھگ ساڑھے بارہ ہزار روپے مقرر کی۔ یہ ہے انصاف کی اندھی دیوی کا حقیقی انصاف جس نے نجی سرمایہ دار کو 300 فیصد زیادہ قیمت پر یہ ویکسین بیچنے کی اجازت دے دی۔ یاد رہے کہ مذکورہ ویکسین کے دو شاٹس کی قیمت عالمی منڈی میں 20 ڈالر بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں یہ چار گنا زیادہ قیمت پر بیچی جا رہی ہے۔ ’خدمت‘ کی خدمت اور منافع کا منافع۔ ایک ٹکٹ میں ڈبل مزے۔ مذکورہ کمپنی کا کہنا ہے کہ کولڈ چین اور دیگر محصولات کی وجہ سے اس ویکسین کی درآمد پر 40 فیصد زیادہ لاگت آتی ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے اور اس ویکسین کا کسی بھی قسم کے کولڈ چین سپلائی کا مسئلہ نہیں اور اس کو عام ریفریجریٹر میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں مذکورہ ویکسین 10 ڈالر فی شاٹ میں ہی اینڈ کسٹمر کو فراہم کی جائے گی۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ نجی ویکسین مراکز 80 ڈالر سے بھی زیادہ قیمت پر یہ ویکسین فراہم کر رہے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ کمپنی یہ ویکسین خرید سکتی ہے تو حکومت یہ کام کیوں نہیں کرسکتی؟ حال ہی میں روسی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا مگر اس دوران ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی بلکہ اسلحہ کے سودے کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس سے حکمرانوں کی انسان دشمن حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ بعید از قیاس نہیں کہ کچھ ہی عرصے میں ریاستی اشرافیہ اور نجی کمپنیوں کی ملی بھگت سے سرکاری ویکسین بھی انہی نجی مراکز تک پہنچ جائے اور امداد میں ملنے والی ویکسین بیچ کر یہاں کے حکمران مال بنائیں۔ پہلے ہی یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ ویکسین سرکاری اداروں سے چوری کر کے حکمرانوں کے رشتے داروں کو سپلائی کی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ویکسین کی فراہمی پر حکومت کی اجارہ داری ہو اور زیادہ سے زیادہ ویکسینیں خرید کر لوگوں کی دہلیز تک ویکسین فراہم کی جائے۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ عین جب وبا اپنے عروج پر ہے تو سرکاری ویکسینیشن مراکز سرکاری تعطیلات کے روز بند رکھے جاتے ہیں۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ حکومتی عہدیداران سمیت نام نہاد پڑھے لکھے لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ عوام تو ہے ہی جاہل اور یہ لوگ اپنی جہالت کے سبب وبا سے مر جائیں گے مگر رائج سازشی تھیوریوں کے سبب ویکسین نہیں لگوائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں بھی حکومت نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے بلکہ الٹا حکومت ان سازشی تھیوریوں کو اپنے گماشتوں کے ذریعے فروغ دینے کے ساتھ ساتھ عوام میں کرونا وبا اور ویکسین کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور خطرات کو اپنے حق میں استعمال کر رہی ہے کہ ہمارے پاس تو وافر مقدار میں ویکسین موجود ہے لوگ لگوانا ہی نہیں چاہتے تو ہم کیا کریں۔ وبا اور ویکسین کے حوالے سے عوام میں موجود یہ سازشی تھیوریاں صرف تیسری دنیا تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی قابل ذکر تعداد میں لوگ اس حوالے سے خدشات کا شکار ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ رائج الوقت حکمرانوں پر بد اعتمادی اور اسٹیٹس کو سے نفرت ہے جہاں عوام نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ یہ حکمران بھول کر بھی کبھی ہمارا بھلا نہیں چاہ سکتے۔ اسی طرح، حکمران طبقات اپنے پالتو گماشتوں کے ذریعے عوامی شعور کو مسخ کرنے کی خاطر ایسی سازشی تھیوریوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ریاستی چھتر چھایا میں پروان چڑھے بنیاد پرستوں کی کمی نہیں جو یہ کام بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔ اور جب وزیر اعظم خود کرونا کا شکار ہو کر میڈیا ٹیم سے ملاقات کرے گا تو عوام سے کیونکر توقع کی جاتی ہے کہ وہ حفاظتی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔ ان سازشی تھیوریوں کا سدباب اور عوام کا ویکسین پر اعتماد بحال کرانا درحقیقت حکومت کی ہی ذمہ داری ہے جس سے تاحال حکومت مکمل طور پر لاتعلق دکھائی دیتی ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹ بھی کھل کر نہیں بتائے جا رہے اور اس حوالے سے بھی سرمایہ دارانہ کمپنیاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہی ہیں جبکہ حقیقت سامنے لانا مشکل ہے۔ حکومت کے پاس بھی اس حوالے سے کوئی پلان نہیں اور نہ ہی یہاں جدید سہولیات موجود ہیں۔ اگر یہاں پر نجی کمپنیاں ویکسین لگانے میں دھوکہ دہی کرتی ہیں یا کولڈ چین برقرار نہیں رکھ پاتیں تو حکومت کے پاس چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نہیں۔ اگر ہو بھی تو کرپشن اور لوٹ مار اوپر سے لے کر نیچے تک موجود ہے اور پہلے بھی اس حکومت کے وزیر ادویات ساز کمپنیوں سے اربوں روپے کھا کر ان کے مفادات کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ اس حوالے سے یہاں پر عوام کے خدشات بالکل بجا ہیں اور سرکاری اداروں اور صحت کی سہولیات پر مکمل عدم اعتماد ہونا بالکل منطقی ہے۔ وبا کی موجودہ صورتحال میں یہ تمام تر کرپشن اور لوٹ مار مزید گھناؤنی اور انسان دشمن شکل تک پہنچ گئی ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں کے حکمرانوں کو صرف اور صرف آئی ایم ایف کی گماشتگی اور اس گماشتگی سے اپنا حصہ بٹورنے کی فکر ہے، عوام جائے بھاڑ میں۔ جس کی جیب میں پیسے ہوں گے وہ نجی ویکسین خرید کو لگوا لے گا اور جس کی جیب میں پیسے نہیں ہیں اس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ یا تو وہ وبا کے ہاتھوں مرے گا یا معاشی بحران، بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب بھوک سے۔ وبا نے تعلیم کے شعبے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور پنجاب کے بڑے اضلاع میں تمام تعلیمی ادارے مارچ کے دوسرے ہفتے سے بند ہیں۔ رواں مہینے کے پہلے ہفتے میں حکومت نے نویں سے بارہویں جماعت تک کے لیے ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات بر وقت منعقد ہوسکیں۔ عین وبا کے عروج پر تعلیمی ادارے کھولنے اور امتحانات کے انعقاد کا فیصلہ کئی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور خاص طور پر جب یہ واضح ہوچکا ہے کہ موجود قسم تونوجوانوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ لگ بھگ پچھلے ایک سال سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ اس دوران کالجز اور یونیورسٹیوں کے لیے آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر حکومت کی جانب سے درکار وسائل مہیا نہ کیے جانے کے سبب یہ ایک ڈرامہ بازی ثابت ہوئی۔ ایسے میں ضروری ہے کہ فوری طور پر تمام طلبہ اور تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور سٹاف کی ویکسینیشن کا عمل شروع کیا جائے تاکہ تعلیمی اداروں کے یہ بار بار کھلنے بند ہونے کا سلسلہ بندہو۔ اس کے لیے طلبہ کو خود آواز بلند کرنا ہوگی اور تعلیم کے شعبے کو مکمل تباہی سے بچانے کی خاطر اس کے لیے مہم کا آغاز کرنا ہوگا۔
یہی صورتحال محنت کشوں کی بھی ہے جو وبا کے باوجود صنعتوں اور مختلف پیداواری شعبوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کی ہلاکتوں کی خبر بھی میڈیا پر دکھانے پر سخت پابندی ہے اور ان کا کوئی احتجاج اور ہڑتال گماشتہ میڈیا کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔ اس حوالے سے مزدور تحریک کو بھی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے اور ہر محنت کش کو مفت ویکسین لگوانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ صنعتی مزدوروں کو ویکسین لگوانا سرمایہ دار کی ذمہ داری ہونی چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اسے سخت ترین سزاسنانی چاہیے۔ آنے والے عرصے میں سماج میں یہ تقسیم واضح طور پر نظر آئے گی اور حکمران طبقہ ویکسین لگا کر محفوظ ہو جائے گا جبکہ عوام کی اکثریت وبا کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاتی رہے گی۔ اس گلے سڑے تعفن زدہ سماج میں ویکسین بھی ایک بہت بڑی عیاشی اور مراعات بن جائے گی جس کے لیے محنت کشوں کو لوٹنے اور ان کی زندگیوں سے کھیلنے کے ایک نئے گھناؤنے عمل کا آغاز ہو جائے گا۔ ریاستی ادارے تو پہلے ہی لوٹ مار کی اس خونی گنگا میں محنت کشوں کے لہو سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہتے ہیں اورمستقبل میں یہاں ایسے قوانین کے نفاذ پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے جس میں ویکسین نہ لگوانے والے افراد کو دوسروں سے سماجی طور پر الگ حیثیت دے دی جائے۔ آخر کار یہاں موجود آئین اور قوانین تو حکمرانوں اور ان کی جائدادوں کے تحفظ کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں۔
اس حوالے آج کی مزدور تحریک کا اولین مطالبہ حکمرانوں کی اس آدم خوری کے خاتمے کا بھی ہونا چاہیے اوراس اہم عمل کونجی شعبے کے حوالے کرنے کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
وبا کے خاتمے تک ملک میں ہنگامی طور پر درج ذیل اقدامات کیے جانے ضروری ہیں تاکہ تمام آبادی کو محفوظ بنایا جا سکے اور لاک ڈاؤن اوربے روزگاری کے عفریت سے جان چھڑوائی جا سکے:
1۔نجی کمپنیوں کو ویکسین لگانے سے فوری روکا جائے اور تمام عمل حکومت مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے۔
2۔ حکومت فوری طور پر دفاعی بجٹ اور دیگر اخراجات میں کمی کر کے ویکسین خریدنے کے عمل کا آغاز کرے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر اداروں کی ادائیگیوں کو بھی فوری طور پر روکا جائے اور انہیں ویکسین کی فراہمی سے مشروط کیا جائے۔
3۔ مالیاتی خسارے سے بچنے کے لیے سرمایہ داروں پربھاری کرونا ٹیکس عائد کیا جائے اور جو ادا نہ کرے اس کی دولت اور جائیداد ضبط کر لی جائے۔
4۔تمام نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کو وبا کے خاتمے تک سرکاری تحویل میں لیا جائے اور صحت کی تمام سہولیات حکومت مفت مہیا کرے۔ وبا سے لڑنے اور ویکسین بنانے کے تحقیقی مراکز فوری طور پر قائم کیے جائیں۔
5۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہر شخص کو راشن، کپڑا اور چھت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ گوداموں میں موجود تمام اجناس ضبط کر کے عوام کو فی الفور مفت فراہم کی جائیں جس کے لیے بہت سے سرکاری ادارے پہلے سے موجود ہیں۔ اسی طرح سرکاری عمارتوں کو بے گھروں کی رہائش اور مریضوں کے علاج کے لیے مختص کیا جائے یا پھرا گر امیروں کے وسیع و عریض گھر ضبط کرنے پڑیں تو وہ بھی وبا کے خاتمے تک لازمی کیے جائیں۔
6۔ ڈاؤن سائزنگ، جبری برطرفیوں اور نجکاری پر فوری پابندی عائد کی جائے اور تمام سرکاری و نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کیا جائے۔ جو ادارہ ملازمین کو وبا کے عرصے میں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کرتا اسے ضبط کر کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔
ان مطالبات کے گرد ملک گیر سطح پر مزدور تحریک کو منظم ہونے کی ضرورت ہے اور اگر یہ تسلیم نہیں کیے جاتے تو ان حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔