|تحریر: فضیل اصغر|
پاکستان کے کروڑوں محنت کش غربت، جہالت، بھوک، بے روزگاری، لا علاجی اور دہشتگردی کے مسلسل خوف تلے ’زندہ‘ تھے کہ اچانک کورونا وباء نے پوری دنیا سمیت پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن لگایا گیا لیکن اس دوران عوام کو خوراک اور دیگر ضروریات پہنچانے کے لیے حکمرانوں نے کوئی بندوبست نہیں کیا بلکہ انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ پہلے سے شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں معیشت کو بھی ایک اور دھچکا لگا اور بے روزگاری اور مہنگائی ان دیکھی بلندیوں تک پہنچ گئی۔ پہلے سے موجود کروڑوں بے روزگاروں کی تعداد میں مزید ہوشربا اضافہ ہوا۔ تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔ پہلے سے بحران کا شکار کئی کاروبار بری طرح متاثر ہوئے یا پھر سرے سے ختم ہی ہوگئے۔ گھروں میں فاقے، جو پہلے بھی بہت بڑی تعداد میں ہوتے تھے، اب خوف ناک صورت حال اختیار کر گئے۔ دوسری طرف حکومت کی جانب سے کورونا وباء کی روک تھام کیلئے کسی بھی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور غریب آدمی کو ’آگے کنواں پیچھے کھائی‘ جیسی صورت حال میں ڈال دیا گیا۔ گھر سے باہر (اگر کسی کے پاس گھر ہے تو) کورونا وائرس ہے جبکہ گھر کے اندر فاقے۔ مرتے کیا نہ کرتے، بیوی بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کی خاطر اپنی محنت کو منڈی میں مزید سستے داموں بیچنے پر مجبور کروڑوں محنت کش کورونا وباء کی زد میں آئے اور حکومتی اعداد و شمار کے برعکس بہت بڑی تعداد میں موت جیسی زندگی کو خیر باد کہہ کر اپنے بیوی بچوں کو اس جنم میں اکیلا چھوڑ گئے یا پھر آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کو مرتے دیکھا۔ اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وباء کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد 11 ہزار سے زائد ہے، جو یقینا سراسر جھوٹ ہے۔ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ویکسین کی عدم موجودگی میں مزیدہزاروں جانوں کے ضیاع کا خطرہ موجود ہے۔
البتہ عالمی سطح پر کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں جیسے فائزر، موڈیرنا، ایسٹرا زینیکا وغیرہ نے کورونا کی ویکسینیں تیار کر لی ہیں۔ سرکاری کنٹرول میں تیار ہونے کی بجائے نجی کمپنیوں کی جانب سے تیار شدہ ویکسینیں منافع کی ہوس کا نشانہ بنیں اور جو پیسہ دے کر خرید سکتا تھا اس نے انہیں خرید لیا۔ اسی وجہ سے ان ویکسینوں کو بہت بڑی تعداد میں امیر ممالک جیسے امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک نے خریدا اور تیسری دنیا کے ممالک اب ترقی یافتہ ممالک یا نام نہاد عالمی اداروں جیسے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کو ویکسینوں کی مفت فراہمی کیلئے COVAX کا پروگرام تخلیق کیا گیا۔ اس وقت پاکستان جیسے ممالک کے حکمران COVAX سے ملنے والی مفت ویکسینوں کی امید میں ہیں۔ اس پروگرام کے نتیجے میں پاکستان کو 4 کروڑ 50 لاکھ ویکسینیں ملیں گی اور اس سے پاکستان کی 20 فیصد آبادی کا احاطہ ہوگا۔
ایک طرف وباء تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے، جس کے بارے میں عمران خان پی ڈی ایم کے جلسوں کے دوران بار بار عوام کو حالات کی سنگینی اور وائرس کے پھیلاؤ کے متعلق آگاہ بھی کرتا رہا، تو دوسری طرف جب عالمی مارکیٹ میں ویکسین میسر ہے تو ریاست پاکستان کی جانب سے ان ویکسینوں کو خریدنے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی اور بس COVAX پروگرام کے تحت ملنے والی ویکسینوں کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس عرصے میں بس ایک سینوفارم نامی سرکاری چینی کمپنی کو پاکستانی حکومت نے 11 لاکھ ویکسینیں خریدنے کا آرڈر دیا ہے۔ جب کہ ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق دیگر کئی ممالک مختلف مغربی کمپنیوں کو پاکستان کی نسبت کافی زیادہ آرڈر دے چکے ہیں۔ مثلا کولمبیا، جانسن اینڈ جانسن، فائزر اور ایسٹرا زینیکا نامی کمپنیوں کو 2 کروڑ 90 لاکھ، بنگلہ دیش ایسٹرا زینیکا کو 3 کروڑ، ملائشیا فائزر کو 1 کروڑ 28 لاکھ جبکہ ایسٹرا زینیکا کو 64 لاکھ کا آرڈر دے چکے ہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ COVAX پروگرام کے تحت ملنے والی ویکسینوں کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر فیصل سلطان (صحت کے شعبے کے حوالے سے وزیر اعظم کا مشیر خاص) کا کہنا ہے کہ ان 11 لاکھ ویکسینوں کو پہلے ان ڈاکٹروں اور شعبہ صحت کے دیگر عملے، جو کورونا مریضوں کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ 60 سال سے زائد عمر کی آبادی کیلئے زیر استعمال لایا جائے گا اور آخر میں باقی آبادی کیلئے ویکسین کو استعمال کیا جائے گا۔ ڈاکٹر فیصل کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا زیادہ تر انحصار COVAX پروگرام پر ہی رہے گا جبکہ باقی کمپنیوں کی ویکسینوں کو بھی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے اور بہتر نتائج سامنے آنے کی صورت میں باقی کمپنیوں سے بھی خریداری کی جائے گی۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ایک شخص کو کم از کم دو بار ویکسین لگوانی پڑے گی وہ بھی 21 دنوں کے وقفے کے بعد (فائزر اور بائیو این ٹیک کا تجویز کردہ)۔ اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ اگر پہلی بار ویکسین لگوانے کے بعد 21 دنوں سے زیادہ عرصے کے بعد دوسری ویکسین لگوائی گئی یا پھر دوسری ویکسین لگوائی ہی نہ گئی تو اس عرصے میں وائرس اپنی شکل بھی تبدیل کر سکتا، جو بہت ہی خطرناک ہوگا۔ یاد رہے کہ کم از کم 75 سے 80 فیصد آبادی میں قوتِ مدافعت پیدا کرنے کی صورت میں ہی وائرس کا خاتمہ ممکن ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر کسی شخص نے پہلی ویکسین کسی ایک کمپنی کی لگوائی ہے تو دوسری ویکسین بھی اسی کمپنی کی لگوانی ہوگی، اگر وہ دوسری ویکسین کسی اور فارمولے (کمپنی) والی لگواتا ہے تو اس صورت میں بھی وائرس کے شکل تبدیل کرنے کا خطرہ موجود ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں اگر ڈاکٹر فیصل یا حکومتی بیانات اور پالیسیوں کو دیکھا جائے تو پاکستان کی اکثریتی آبادی، جو محنت کش طبقے پر مشتمل ہے، کا مستقبل کافی خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ کیا حکومت ”فوری طور پر“ ملنے والی 11 لاکھ ویکسینوں کو 21 دن کے وقفے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہزاروں افراد کو لگا پائے گی؟ اور اگر ساڑھے 4 کروڑ ویکسینیں COVAX کے تحت مزید مل جاتی ہیں،جس کے امکانات بھی اتنے واضح نہیں ہیں کیوں کہ امریکہ اور چین کے اس پروگرام میں کم فنڈنگ کرنے وجہ سے یہ پروگرام بذات خود کافی مشکلات کا شکار ہے، تو کیا پاکستانی ریاست یہ اہلیت رکھتی ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ویکسی نیشن کر پائے؟ بالفرض عمران خان اپنی’قوت تخیلہ‘، ’پختہ ارادوں‘، ’روحانیت‘، ’پیرنی کی کرامات‘اور ’خلائی مخلوق‘کی امداد کے ساتھ ناممکن کو ممکن بنا ڈالتا ہے، یعنی کہ شعبہ صحت کے پورے انفراسٹرکچر کو اگلے ایک مہینے میں جدید تقاضوں کے مطابق ازسر نو تعمیر کر ڈالتا ہے، پھرتو یقینا یہ ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ ویکسینیں ابھی بھی کم پڑیں گی۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہے اور ابھی تک ہمارے پاس کوئی 5 کروڑ کے قریب ویکسینیں آئی ہوں گی، یعنی ابھی بھی بہت بڑی تعداد میں مزید ویکسینیں درکار ہوں گی۔ یہ ویکسینیں ہمیں ملٹی نیشنل کمپنیوں سے خریدنا پڑیں گی۔ ان کے پیسے درکار ہوں گے، جو بقول حکومت کے ہمارے پاس ہیں نہیں۔ تو پھر کیا ہوگا؟ بھائی خان صاحب ہیں نا! آج کل ورلڈ بینک کورنا ویکسین خریدنے والوں کو قرضے دے رہا ہے، تو بس ہوگیا کام۔ ظاہر ہے یہ قرضے ویسے بھی کل کو یہاں کے محنت کشوں نے اپنے بچوں کو تعلیم سے دور رکھ کر، علاج نہ کروا کر، گیس استعمال نہ کر کے اور دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی کھا کر ادا کرنے ہیں۔ ویسے تو خان صاحب آگے بڑھ کر قربانی دینے والی زندگی پر یقین رکھتے ہیں، مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ریاست پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے اور عین ممکن ہے اس بوجھ تلے اس کا سانس رک جائے۔ لہٰذا اس صورت میں بھی ویکسینوں کی امید لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بالفرض ایک اور معجزہ ہو جاتا ہے کہ حکومت بغیر قرض لیے اور حکمرانوں کی جیبوں سے پیسے نکالے، کسی طرح مزید ویکسینیں خرید لیتی ہے، تو پھر ان ویکسینوں کو سنبھال کر کہاں رکھے گی؟ کیوں کہ موڈیرنا کی ویکسین منفی 20 ڈگری درجہ حرارت پر اور فائزر کی ویکسین کم از کم منفی 70 ڈگری درجہ حرارت پر ذخیرہ کی جاتی ہے۔ اس کو اس درجہ حرارت پر ذخیرہ کرنے کیلئے جو ٹیکنالوجی درکار ہے وہ پاکستانی حکومت کے پاس اس مقدار میں موجود نہیں۔ لہٰذا ڈاکٹر فیصل سمیت تمام تر حکومتی بیان بازی در اصل ان کی اس مسئلہ کی جانب غیر سنجیدگی اور عوام دشمنی کو واضح کرتی ہے۔
پاکستان کا حکمران طبقہ عوام دشمنی میں اپنی مثال آپ ہے۔ مثلاً حکومت کی جانب سے جہاں ایک طرف پرائیویٹ مالکان کو ویکسین خریدنے کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے پاس کرانے کے بعد وہ ان ویکسینوں کو مکمل آزادی کے ساتھ بیچ سکتے ہیں، تو دوسری طرف ہسپتالوں کی نجکاری کے عمل کو تیز کر دیا گیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کرنے کے نام پر اس کی نجکاری کی جا چکی ہے جس کے خلاف اس وقت پمز ہسپتال کے محنت کش اسلام آباد میں سراپا احتجاج ہیں۔ نجکاری کی لسٹ میں فوری طور پر سندھ کے تین ہسپتال جن میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیزز، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اور لاہور کا ایک ہسپتال شیخ زید پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ شامل ہیں۔
ڈاکٹر فیصل کے اس بیان کے مطابق کہ ”فوری طور پر دستیاب ویکسین ڈاکٹروں اور شعبہ صحت کے عملے کے زیر استعمال لائی جائے گی“، سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت بہت حقیقت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت کے ملازمین کا خیال بھی رکھتی ہے۔ مگر دوسری طرف کھلے عام نجکاری کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پچھلے پورے سال میں کورونا وباء سے بچاؤ کیلئے شعبہ صحت کے ملازمین کو باقی ضروری آلات تو دور این 95 ماسک تک فراہم نہیں کیے گئے۔
اسی طرح شعبہ صحت کی طرف تضحیک آمیز رویے سے لے کر بیرونی فنڈز میں کرپشن تک یہاں کا حکمران طبقہ عوام دشمنی میں تمام حدود کو پار کرتا جا رہا ہے۔ مثلا سینوفارم سے ہونے والے سودے کی تفصیلات حکومت کی جانب سے ابھی تک نہیں بتائی گئیں۔ حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے چین سے ہونے والے سودے کی تفصیلات وہ کھلے عام اس لیے نہیں بتا سکتے کیونکہ چین نے انہیں باقی دنیا کی نسبت بہت سستے ریٹ میں یہ ویکسینیں بیچی ہیں۔
ویکسین کے نام پر عوام کے ساتھ یہ کوئی پہلا فراڈ نہیں ہے جو یہاں کا حکمران طبقہ کر رہا ہے۔ سی پیک سے لے کر نام نہاد احتساب تک ان فراڈوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ جو 11 لاکھ ویکسینیں فوری طور پر آئیں گی، وہ بھی سب سے پہلے یہاں کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، سیاستدانوں، جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں اور ان کے خاندانوں اور یاروں دوستوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ آخر میں جو بچ جائیں گی ان کا رخ شعبہ صحت کے ملازمین کی جانب موڑا جائے گا۔ اسی طرح جو ویکسینیں پرائیویٹ مالکان برآمد کریں گے انہیں وہی شخص استعمال کر پائے گا جس کے پاس انہیں خریدنے کے پیسے ہوں گے۔
اس صورت حال سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ سرمایہ داروں کی نمائندہ حکومت شعبہ صحت سے منسلک سرمایہ داروں کے منافعوں کو یقینی بنانے کیلئے ویکسینوں کو خریدنے میں تاخیر کر رہی ہے۔ یعنی کہ جب تک حکومت کی طرف سے ویکسینیں فراہم نہیں کی جاتیں، تب تک پرائیویٹ مالکان خوب مال بنائیں گے۔
عالمی سطح پر بھی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے انسانی جانوں پر منافع کو ترجیح دی گئی اور اس وقت تمام کمپنیوں کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ویکسینیں بیچ کر مال بنائیں۔ اور ہر کمپنی دوسری کمپنی سے اپنی ریسرچ کو خفیہ رکھے ہوئے ہے۔ اگر اس ریسرچ کو سب کے استعمال کیلئے دستیاب کر دیا جاتا اور ریاستیں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اجتماعی کوشش کرتیں تو ویکسین کے تیار ہونے سے لے کر اس کی ترسیل (جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے) تک کے عمل کو کافی تیزی کے ساتھ اور مؤثر انداز میں بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ اس حوالے سے ہم پاکستانی ریاست کے کردار پر پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔
اگر وسائل پر نظر دوڑائی جائے تو پوری دنیا میں ہر ریاست کے پاس کم از کم اتنے وسائل تو ضرور ہیں کہ اس وباء سے انسانی جانوں کو بچانے کیلئے مؤثر ویکسی نیشن کر سکیں۔ بس کرنا اتنا ہوگا کہ فالتو کے اخراجات، جیسے اسلحہ کی خریداری وغیرہ کو روکنا ہوگا۔ مگر یہ کرنے کیلئے منصوبہ بند معیشت جسے سوشلزم کہتے ہیں، کی ضرورت ہے۔ سوشلزم میں تمام وسائل محنت کش طبقے کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور ان کے مؤثر استعمال کی ذمہ داری محنت کش طبقے کی نمائندہ ریاست، جسے مزدور ریاست کہتے ہیں، کے پاس ہوتی ہے۔ ایسی ہنگامی صورت حال میں تمام تر ریاستی وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے۔
مگر ایسا نظام خود بخود نہیں آئے گا۔ کسی بھی صورت حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں اور جائیدادوں کو خود نہیں چھوڑے گا۔ وہ اکثریت کی ذلت پر اپنی عیاشیوں کو جاری رکھے گا اور کورونا جیسی بے شمار وباؤں سے اربوں محنت کشوں کو مرنے کیلئے چھوڑ دے گا۔ حالیہ عرصے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے تنبیہ کی ہے کہ کورونا وائرس کی جو شکل جنوبی افریقہ میں دیکھنے کو مل رہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور وہ با آسانی ویکسین سے ختم ہونے والی نہیں کیونکہ اس کے پروٹین میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو اینٹی باڈیز کو اس پر اثر انداز نہیں ہونے دیتیں۔ اگر پروفیسر جان بیل کی یہ بات درست ہے تو یہ انتہائی تشویشناک ہے۔ جتنی دیر سے آبادی کی اکثریت میں قوت مدافعت پیدا ہو گی، اتنا اس وائرس کے ناقابل تسخیر ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ آج صرف محنت کش طبقہ ہی نسل انسانی کو صفحہ ہستی سے مٹ جانے سے روک سکتا ہے۔ یہ محنت کش طبقے کی ایک عالمگیر جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں ہی ممکن ہے۔