|تحریر: خالد قیام|
کورونا وباء کی تیسری لہر پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ فروری سے مئی تک کورونا کے مثبت کیسز میں روزانہ کے حساب سے بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اپریل کے مہینے میں اموات کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی جب روازانہ ڈیڑھ سو سے زائد اموات رپورٹ کی گئیں۔ اس صورتحال میں حکومت لاک ڈاؤن کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی بنانے سے قاصر تھی۔ جب وباء نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانا شروع کی تب برائے نام لاک ڈاؤن کیا گیا۔ لیکن پہلے کی طرح حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کا اعلان غریب محنت کشوں کیلئے معاشی موت کا اعلان ثابت ہوا کیونکہ حکومت اس صورتحال میں ایک دن کا راشن بھی غریب لوگوں تک نہ پہنچا سکی اور نہ ہی وہ ایسا کوئی ارادہ رکھتی تھی۔ احساس پروگرام، لنگر خانوں اور نمائشی راشن تقسیم کے ذریعے بھی کچھ غریب لوگوں کو ذلیل کرنے کے علاوہ اس ضمن میں کوئی قابل قدر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جبکہ دوسری طرف کورونا ریلیف پیکج کی مد میں مختص 12 سو ارب روپے میں بھی کرپشن اور خرد برد کی رپورٹس میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ کورونا ریلیف پیکج کی اس موٹی رقم کی آڈٹ رپورٹ آئی ایم ایف کی شرائط پر تیار کی گئی ہے مگر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بتایا ہے کہ وزارت خزانہ نے اس رپورٹ کو پبلک ہونے سے روک دیا ہے۔ یہ رپورٹ سامنے آنے سے تفصیلات معلوم ہوں گی مگر ایک بات جو اس سے پہلے واضح تھی کہ محنت کشوں کے نام پر لی گئی اس بڑی رقم میں سے محنت کشوں کو کچھ نہیں دیا جائے گا۔ اس کے برعکس وہ پیسے بزنس مالکان نے اپنے جیبوں میں ڈال کر صنعتوں، فیکٹریوں اور اداروں سے محنت کشوں کو برطرف کیا۔
پچھلے لاک ڈاؤن میں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔’دی نیوز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 11 کروڑ لوگ اس معاشی تباہی سے شدید متاثر ہوئے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 1 کروڑ 14 لاکھ دیہاڑی دار مزدور جبکہ 1 کروڑ 35 لاکھ چھوٹے کاروبار والے افراد اپنی آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ پچھلے سال کے معاشی بحران اور لاک ڈاؤن کے دوران 2 کروڑ 6 لاکھ افراد کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح کنسٹرکشن انڈسٹری سے جڑے 80 فیصد، مینوفیکچرنگ سے 70 فیصد اور ٹرانسپورٹیشن سے جڑے 60 فیصد افراد کا روزگار متاثر ہوا۔ دو کروڑ سے زیادہ لوگ صرف پچھلے سال کے آغاز میں غربت کی لکیر سے نیچے جاتے ہوئے رپورٹ کیے گئے۔ 40 فیصد گھرانوں کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل ہوگیا۔ لگ بھگ آدھی آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے جاچکی ہے۔ ہم یہ اعداد و شمار اس لیے اپنے قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ اندازہ لگا سکیں کہ سرکاری و غیر سرکاری اعداد وشمار اتنے خطرناک حقائق بتا رہے ہیں تو حقیقی صورتحال کتنی بھیانک ہوگی۔
ان حالات میں کورونا وباء کی تیسری لہر حملہ آور ہوئی تو حکومت نے صرف موبائل رنگ ٹونز میں تبدیلی کی اور لوگوں کو ماسک پہننے اور چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کی تلقین جاری رکھی۔ اس کے علاوہ کسی موثر ردِعمل کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اس پورے سال میں بچا کھچا تعلیمی نظام بھی مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ صحت کا نظام جو پہلے ہی نجکاری کے ہاتھوں بربادتھا، وہ وباء کے دوران بد انتظامی کے سبب غرق ہونے کی طرف گیا ہے۔
اس صوتحال میں ملکی معیشت اوربد حال عوام مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اور اگر حکومت لاک ڈاؤن جاری رکھے گی تو معاشی بوجھ تلے عوام کی کمر ٹوٹ جائے گی جبکہ دوسری صورت میں معیشت کا پہیہ چالو رکھنے، سرمایہ دار طبقے کے منافعوں کو قائم رکھنے اور عوام کا بوجھ اپنے کندھوں سے ہٹانے کیلئے اگر حکومت لاک ڈاؤن جاری نہیں رکھے گی تو وبا کے رکنے کا کوئی جادوئی امکان موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف وائرس کی مختلف شکلیں سامنے آرہی ہیں جس سے یہ ”مستقل وبا“ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ایسے میں لے دے کر صرف ایک راستہ ہی بچتا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر اسی ایک سال کے اندر اندر پوری آبادی کو کورونا کی ویکسین لگوائی جائے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں ریاست بیانات کے علاوہ کیا عملی اقدام کر رہی ہے۔
اس سے پہلے کہ پاکستان میں ویکسین کے مسئلے پر بات کریں، تھوڑا سا ویکسین کی عالمی سطح پر پیداوار میں تاخیر، اس کی تیاری میں موجود رکاوٹوں اور مشکلات پر بھی ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ وباء کے آغاز سے لے کر اب تک تقریباً دنیا کے تمام ممالک کے حکمران طبقے نے عوام کی زندگیوں پر سرمایہ داروں کے منافعوں کو ترجیح دی۔ لاک ڈاؤن میں تاخیر کر کے سب ممالک نے محنت کشوں کو فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جس سے لاکھوں محنت کشوں کی وباء کے ہاتھوں ہلاکتیں ہوئیں۔ اس طرح وباء کو خوب پھیلنے کا موقع دیا گیا۔ جب یہ وباء قابو سے باہر ہو گئی تب جاکر لاک ڈاؤن لگائے گئے۔ وباء کی دوسری لہر کے عروج پر اقوام متحدہ کے ادارۂ صحت نے واضح طور پر بتایا کہ اگر اس وباء کا بروقت مشترکہ کوششوں سے مقابلہ کیا جاتا تو ہم اس پر آغاز میں ہی قابو پا سکتے تھے۔ پوری دنیا میں دور دراز کے خطوں تک کورونا وباء کے تیز ترین پھیلاؤ نے واضح کیا کہ دنیا کتنی گلوبلائز ہو چکی ہے اور کسی ایک خطے سے شروع ہونے والا واقعہ کس طرح پوری دنیا کو مثاثر کر سکتا ہے۔ مگر یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف دنیا آپس میں جڑی ہے وہاں دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام اور منافع کی لالچ، تنگ نظر قوم پرستی اور قومی مفادات کے پیش نظر کورونا کے خلاف ایک مشترکہ جنگ لڑنے کی بجائے ویکسین تیار کرنے کا مقابلہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں کورونا ویکسین کو اپنے طور پر بناکر مارکیٹ تک پہنچانے کیلئے کمپنیوں نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی اور ویکسین بنانے کی تمام ریسرچ اور کام ایک دوسرے سے چھپا کر کیا جاتا رہا۔ جس کے سبب ویکسین کی تیاری میں زیادہ عرصہ لگا۔ پھر پاکستان جیسے ممالک تو قطار کے بالکل آخر میں کھڑے ہیں اور ہاتھ میں پیسے لے کر ویکسین خریدنے کیلئے نہیں بلکہ کشکول لے کر مفت ویکسین کی بھیک مانگنے کیلئے۔ بہر حال اب کسی طرح سے عوامی سطح پر کورونا ویکسینیشن کا عمل باقاعدہ شروع کیا جا چکا ہے۔
البتہ حکومت اپنی اس اہم ذمہ داری کو انتہائی ناقص حکمت عملی کے ساتھ امداد اور بھیک میں ملی ویکسینوں کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کے ساتھ اسے اپنی بہت بڑی فتح کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ویکسینیشن شروع ہوئے چار ماہ ہونے کو ہیں مگر تا حال صرف 38 لاکھ سے کے قریب لوگوں کو مکمل طور پر ویکسینیٹ کیا جا سکا ہے جو کہ آبادی کادو فیصد بھی نہیں بنتا ہے۔ شروع سے ہی پاکستان میں ویکسینیشن کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ اس سلسلے میں دنیا کے اکثر ممالک بشمول کچھ پسماندہ اور غریب ممالک سے بھی پاکستان پیچھے رہ گیا۔ اپریل میں بلوم برگ نے پاکستان میں ویکسینیشن کو سست ترین قرار دیا تھا جس کے مطابق اگر یہ عمل اسی طرح چلتا رہا تو پاکستان کو اپنی آبادی کے 70 فیصد کو ویکسینیٹ کرنے میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ اب پاکستان میں ویکسینیشن کے عمل کی سستی اور دیگر رکاوٹوں کو دیکھ کر یہ خدشہ درست معلوم ہوتا ہے۔
پچھلے چار ماہ سے ویکسین ایشو پر نظر ڈالی جائے تو اس سستی، کاہلی اور ناکامی کی کئی وجوہات واضح نظر آئیں گی۔ اس میں پہلی وجہ یہ تھی کہ آغاز میں حکومتی سطح پر عوام کیلئے ویکسین خریدنے کی بجائے حکمران بھیک میں ویکسین ملنے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ سب سے زیادہ نظریں ’کوویکس‘ کے تحت متوقع 1 کروڑ 50 لاکھ ویکسینوں کی بھیک ملنے پر تھی۔ کوویکس سے ملنے والی ویکسین پاکستان کی آبادی کے تناسب سے آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے پھر بھی حکومت کا ’کوویکس‘ کے انتظار میں خاموش تماشائی بن کر بیٹھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور ویسے بھی کوویکس نے صرف 20 فیصد آبادی کیلئے ویکسین دینے کی حامی بھری تھی۔ مگر انڈیا میں وباء سے ہونے والی بربادی کے ساتھ وہ سپلائی بھی متاثر ہو چکی ہے کیونکہ ’کوویکس‘ کیلئے زیادہ تر پیداوار انڈیا میں ہو رہی تھی اور انڈیا نے وباء کے حالیہ پھیلاؤ میں مقامی ضرورت کے تحت برآمد پر پابندی لگائی تھی۔ اس دوران پاکستان ہیلتھ ورکرز اور بوڑھے افراد کیلئے چین سے عطیہ کی گئی ویکسین پر گزارا کر رہا تھا۔ مگر ساتھ ہی فروری میں ایک پرائیویٹ کمپنی کو بھی روسی ویکسین ’سپوٹنک‘ برآمد کرنے کی اجازت دی گئی جس نے ویکسین کو عالمی سطح سے تین گنا زیادہ قیمت پر یہاں بیچ کر خوب مال بٹورا۔ اس حال میں عوام کو مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ریاست تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس طرح ’کوویکس‘ سے ملنے والی امدادی ویکسین کی تاخیر کی وجہ سے آخر کار مئی کے آغاز میں پاکستان کو بھی کچھ ویکسینیں خریدنا پڑیں۔ مختلف میڈیا رپورٹس میں وزیر صحت کی طرف سے کہیں 13 ملین تو کہیں اس سے کم یا زیادہ ویکسینیں خریدنے کے دعوے بھی سامنے آچکے تھے۔ ان دھکا سٹارٹ حکومتی اقدامات کے ساتھ بالآخر کسی طرح عوامی سطح پر ویکسینیشن شروع کی گئی ہے لیکن اب اس میں ایک اور سخت مسئلہ درپیش ہے کہ عوام ویکسین لگوانے کیلئے رجسٹریشن کروانے کو تیار نہیں۔ حکومت اس کو عوامی شعور کی کمی اور جہالت بتا رہی ہے لیکن اس کی اصل وجہ حکومت خود ہی ہے۔ حکومت نے ویکسینیشن شروع کروانے سے پہلے ویکسین کے بارے میں آگاہی مہم نہیں چلائی۔ ایسے وقت میں عوام کس طر ح حالات کی سنگینی سے آگاہ ہو سکتے ہیں جب حکمران طبقہ خود اس پورے عرصے میں زبردست جہالت کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ یاسمین راشد صاحبہ نے ایک پریس کانفرنس میں فرمایا تھا کہ وہ اور ان کا عملہ ویکسین نہیں لگوائیں گے۔ عوام کو اس بنیاد پر قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ ریاست کی عوام دشمن پالیسیوں کی بنیاد پر اب عوام کو ان پر اعتماد ہی نہیں رہا۔ وہ ریاست کی ہر پالیسی کو درست طور پر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے ذہن میں یہ سوال ناگزیر طور پر جنم لیتا ہے کہ بھلا ایک ایسی ریاست جو ہمہ وقت چند امیر افراد کے منافعوں کیلئے غریبوں کو لوٹ رہی ہو، آخر کیوں کر ان کی بھلائی چاہے گی؟ اس میں ضرور حکومت کی غریبوں کو پھنسانے کی یا ان کو بے وقوف بنانے کی یا پھر کسی عالمی سامراجی ایجنڈے کو پورا کرنے کی سازش ہوگی۔ یہ مسئلہ ان تمام ممالک میں درپیش ہے جہاں لوگ ریاست پر کم بھروسہ کرتے ہیں۔ حتی کہ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ رجحان پایا گیا ہے۔ مزید ویکسین کے خلاف پراپیگنڈے میں پاکستان کی مذ ہبی انتہاپسند قوتوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ مگر وہ بھی ریاست ہی نے پچھلی صدی سے پالے ہوئے ہیں۔ جنہیں ریاست اپنے فائدے کیلئے کسی بھی مسئلے کے وقت استعمال کرتی رہی ہے۔ درحقیقت اس طرح کی افواہیں ریاستی پشت پناہی میں ہی پھیلائی گئیں ہیں تا کہ ریاست سے سوال نہ کیا جائے۔
ایسے حالات میں اگر ویکسینیشن مکمل ہونے میں تاخیر ہوتی ہے تو ایک طرف وباء کے مزید پھیلنے کا امکان ہے جبکہ دوسری طرف وائرس کی مختلف شکلیں بھی سامنے آسکتی ہیں جن پر موجودہ ویکسین اثر نہیں کرسکے گی۔ اس صورت میں یا تو لوگوں کو بے اختیار موت کے منہ میں چھوڑا جائے گا یا وباء کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن لگاکر لوگوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے کے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔
وباء سے نمٹنے کی جو تھوڑی بہت کوششیں کی جا رہی ہیں ان کی بنیادی وجہ بھی معاشی بربادی ہے۔ معیشت شدید بربادی کا شکار ہے۔ وباء کی تیسری لہر تیزی سے پھیل رہی ہے، کاروبار بند پڑے ہیں، نظام زندگی کے ابھی معمول پر آنے کا کوئی امکان بھی موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف حکومتی دعووں کے مطابق پاکستانی معیشت کی شرح نمو 1.3 فیصد سے اچانک بڑھ کر 3.9 فیصدتک پہنچ چکی ہے، نجانے راتوں رات ایسا کون سا معجزہ ہوا۔ حقیقت میں یہ حکومتی جھوٹ ہے جس سے محنت کشوں اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس تمام تر بحث کا لب لباب یہ ہے کہ غریب عوام کی زندگی، ان کے بچوں کی تعلیم، علاج اور روزگار حکمران طبقے کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ ریاست کی ترجیحات میں صرف امیروں کے منافعے ہوتے ہیں۔ چاہے اس کیلئے انہیں کروڑوں لوگوں کو بھوک، بیماری، جہالت، پسماندگی اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں کیوں نہ دھکیلنا پڑے۔ کورونا وباء کے دوران جب کروڑوں لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے محروم ہوئے تو دوسری جانب ریاست کھربوں روپے کے اسلحے خریدنے کے معاہدے کر رہی تھی۔ جدید ترین جنگی جہاز اور ٹینک رکھنے والے ملک کے پاس انسانوں کی جانیں بچانے کیلئے وینٹیلیٹرز، ادویات، اور ویکسینیں نہیں تھیں۔ مگر یہ بڑی طاقتور فوج، ٹینک، جیٹ جہاز، بڑے میزائل اور ایٹم بم کورونا وائرس کے سامنے بے کار اور بے سود ہیں۔
لوگوں کو بروقت ویکسین لگوانا بھی ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا کیونکہ اس نظام میں ہر چیز بیچنے اور منافع کمانے کیلئے بنائی جاتی ہے۔ کورونا ویکسین کیلئے اگر تمام ممالک مل کر ویکسین بنانے کی مشترکہ کوشش کرتے، اس حوالے سے جاری تحقیق میں دوسروں کو شریک کرتے اور خام مال اور ٹیکنالوجی پوری دنیا سے لاکر مشترکہ طور پر کورونا ویکسین تیار کرنے میں لگائی جاتی تو ویکسین تیار کرنا اور بروقت تمام لوگوں تک پہنچانا کوئی بڑا مشکل کام نہیں تھا، مگر یہ ایک سوشلسٹ نظام میں ہی ممکن ہو سکتا ہے جہاں ہر شعبے میں پیداوار کی منصوبہ بندی عوامی ضروریات، علاج، روزگار، تعلیم اور دیگر تمام بنیادی ضروریات کے تحت کی جاتی ہو نہ کہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور منافع کے حصول کے مقصد سے تحت ہو۔ محنت کش طبقے کو ہر قسم کی قومی، لسانی، مذہبی اور علاقائی تفرقات سے بالاتر ہو کر طبقاتی جدوجہد کو تیز کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے انسانیت کو اس نظام کے جبر و بربریت سے نجات دلائی جا سکے۔