|تحریر: زلمی پاسون|
کرونا وائرس کی وبا نے عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں شعبہ صحت کو کاروبار اور منافع کی ہوس سے چلانے کے لیے سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے گٹھ جوڑ، دلالی، نااہلی اور لفاظیوں کا پردہ فاش کیا۔ اس وقت پوری دنیا کے اندر ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اس عالمی وبا نے موجودہ نظام کی زوال پذیری اور اندرونی تضادات کو حادثاتی طور پر اس نہج پر پہنچایا کہ اس نظام کی پائیداری اور اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا تو بجا ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا کے اندر ایک خوفناک کیفیت طاری ہو چکی ہے، کہ بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ممالک اس عالمی وبا کو کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ گزشتہ سال چین سے ابھرنے والی اس عالمی وبا کے خلاف اب تک صرف چین، سنگاپور اور جنوبی کوریا نے عملی طور پر ایسے اقدامات اٹھائے جہاں پر اس وبا کو کافی حد تک کنٹرول میں رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں کرونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 42 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد دو لاکھ 84 ہزار سے زیادہ ہے۔دنیا بھر میں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 15 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اٹلی، سپین اور فرانس میں ہلاکتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور یورپ اب لاک ڈاؤن میں نرمی کے ساتھ وائرس سے مقابلے کے لیے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ اس عالمی وبا نے ایک طرف اگر انسانیت کے پوشیدہ دشمن کے حوالے سے محنت کش عوام کو خبردار کیا جبکہ دوسری طرف اس نظام کے اندر عوام دشمن اقدامات اور پالیسیوں کا بھی پول کھول دیا۔
پاکستان کے اندر اس وائرس کا اظہار حکومتی ذرائع کے مطابق مارچ کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں ہوا، جب ایران سے زائرین پاکستان میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔ یہاں پر حکومتی نا اہلی کو بیان کرنے سے پہلے ایران کے اندر اس عالمی مہلک وبا کے پھیل جانے کا ذکر ضروری ہے۔ کیونکہ پاکستان میں اس عالمی وبا کا جب اظہار ہوا تھا تو وہ ایران سے آئے ہوئے زائرین اور کاروباری حضرات کیوجہ سے ہوا۔ ایران میں جب اس عالمی مہلک وبا کا ظہور ہوا تھا تو وہاں پر 12 فروری کو پارلیمانی انتخابات اور 21 فروری کو شاہ ایران کیخلاف ایرانی انقلاب کی اکتالیسویں سالگرہ کو منانے کی غرض سے اس وائرس کو حکومتی سطح پر پارلیمانی انتخابات کا انعقاد اور انقلاب کی سالگرہ کی تقریبات منانے کی غرض سے چھپایا گیا تھا۔ انتخابات کے انعقاد اور انقلاب کی سالگرہ کے منانے والی سرگرمیوں کے پیچھے وہ عوامل کار فرما تھے کہ ایران کے اندر محنت کش طبقے کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جائے۔ اب یہاں پر اس موجودہ نظام کے ظالمانہ، استحصالی اور غیر انسانی رویے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
ایران کے ساتھ بارڈر پر بلوچستان کا شہر تفتان موجود ہے جس کی ذمہ داری وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت دونوں کی ہے۔ پاکستان میں اس مہلک وبا کے پھیلنے سے پہلے اقوام متحدہ نے کرونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا تھا جس کے لیے مختلف عالمی سامراجی مالیاتی اداروں نے وائرس سے متاثرہ تمام ممالک کے لئے مختلف مالی امداد کے پیکجز پیش کئے۔ تفتان بارڈر پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ایران سے آنے والے تمام افراد کو نہ صرف مناسب سہولیات دی گئیں بلکہ حکومتی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے ان تمام افراد کے ساتھ ایک غیر انسانی رویے کی بنیاد پر ایسے کیمپوں میں رکھا گیا جہاں پر اگر ایک شخصکرونا وائرس سے متاثر تھا تو اس نے اس آگ کو پوری کے پورے کیمپ میں پھیلا دیا۔ اس سے بڑھ کر تفتان بارڈر پر جو قرنطینہ مراکز بنائے گئے تھے وہاں سے انسانی زندگیوں کیساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے حکمران طبقات کے رشتوں ناطوں اور رشوت کی بنیاد پر وائرس سے متاثرہ افراد کو بغیر کسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے وہاں سے چھڑا کر لے گئے۔ یوں اس وبا نے پاکستان کے اندر پچھلے دو مہینوں کے درمیان ایسا بھونچال مچا دا ہے۔ ڈان جریدے کے مطابق بلوچستان میں اب تک 2ہزار سے زیادہ کنفرم مریض ہیں اور 26 کے قریب اموات واقع ہوئی ہیں۔
اس سال میں مہلک وائرس کے پھیلنے کے بعد ہم مسلسل مضامین اور رپورٹس لکھ چکے ہیں، جن میں ہم حکمران طبقے کے ساتھ اس نظام کی نااہلی اور زوال پذیری کے ساتھ ساتھ اپنا مجوزہ عبوری پروگرام بھی دیتے رہے ہیں۔ مگر حکمران طبقات اپنے اس مجرمانہ غفلت اور نا اہلی کو چھپانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرنے سے گریزاں نہیں ہیں۔ آئے روز ہم پاکستان کی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر ان حکمران طبقات اور ان کے دلال دانشوروں و تجزیہ نگاروں کے بکواسیات سنتے رہتے ہیں، مگر ان سب بکواسیات میں ایک بات جو کہ انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ یہاں کے حکمران طبقات عام محنت کش عوام کی زندگیوں کو زندگی سمجھتے ہی نہیں ہیں بلکہ ان کو مظلوم محنت کش عوام کے زندگیوں اور صحت سے بڑھ کر یہاں کے سرمایہ داروں کے سرمائے کی حفاظت اور منافع خوری کی بڑھوتری کے لیے دلائل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور اس ضمن میں میڈیا کا جو کردار ہے وہ ایک بار پھر اپنی گھٹیا پن سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ محنت کش عوام سے نہ صرف حقائق کو چھپایا جارہا ہے بلکہ حکمران طبقات کے ان تمام تر لفاظیوں اور بکواسیات کو محنت کش طبقے کے شعور پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مملکت خداداد میں اب تک 2 لاکھ 90 ہزار سے زائد ٹیسٹ ہوچکے ہیں جس میں 30ہزار سے زیادہ کنفرم کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ 673 کے قریب اموات واقع ہوچکی ہیں۔ اپریل کے وسط سے لے کر آج تک ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر چھ سو سے سات سو تک کنفرم کیس آتے ہیں، گوکہ ان اعدادوشمار کے حوالے سے بھروسہ کرنا بھی مشکل کام ہوتا ہے۔ کیونکہ اس وقت ہسپتالوں کے اندر اگر ہم حالات دیکھتے ہیں تو ملک بھر کے ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کے لئے جگہ نہیں ہوتی اور آئسولیشن وارڈز تو سرے سے موجود نہیں ہیں، جہاں پر آئسولیشن وارڈ موجود ہیں ان میں مریضوں کے لیے سہولیات کا فقدان ہوتا ہے اور انتہائی نگہداشت سنٹرز میں وینٹی لیٹرز کی شدت سے کمی موجود ہے۔ سوشل میڈیا پر کراچی میں ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر فرقان کی مبینہ ہلاکت کے حوالے سے خبریں گردش کررہی تھیں جن کی تصدیق مختلف الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے بھی ہوئی کہ ڈاکٹر فرقان نے کرونا کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد کراچی شہر کے مختلف ہسپتالوں کے چکر کاٹنے کے بعد جگہ نہ ملنے پر بالآخر گھر کے اندر جان دیدی۔
ڈاکٹر فرقان کی بیوہ کے الفاظ یہ ہیں کہ”انھوں نے میری گود میں دم توڑا۔ میں اُن کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکی۔ میں لوگوں کو مدد کے لیے کہتی رہی لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی۔ وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ میں نے خود اُنھیں سٹریچر پر ڈالا اور ہسپتال لے گئی لیکن انھوں نے میرے شوہر کو داخل نہیں کیا۔ کسی نے بھی ایڈمٹ نہیں کیا“۔
کرونا وبا کے بعد ملک بھر میں جو حالات بنے ہیں ان کے مقابلے میں یہاں کا نام نہاد حکمران طبقہ اب تک کوئی واضح لائحہ عمل اور حکمت عملی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ اور اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے صوبوں اور وفاق کے درمیان مصنوعی طور پر تضاد اور اختلاف کو سامنے لایا جاتا ہے، جس کی حالیہ مثال اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے نئی بحث کو چھیڑا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس پوری وبا کے دوران اب تک وفاق اور صوبوں کے درمیان لاک ڈاؤن پر کوئی واضح اور مشترکہ اعلامیہ نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے 60 سے 70 فیصد تک وائرس اب مقامی سطح پر پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ وفاق اور صوبوں کے درمیان لاک ڈاؤن پر تضادات اختلافات اور بیانات کھل کر سامنے آرہے ہیں جس میں وہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ملک بھر کا محنت کش طبقہ ایک اذیت ناک کیفیت میں مبتلا ہو رہا ہے جس میں بے روزگاری، مہنگائی اور راشن کی قلت عفریت بن کر ابھر رہے ہیں۔ بے روزگاری کے حوالے سے بھی مختلف رپورٹس سامنے آئی ہیں جن میں ملکی سطح پر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے قریب محنت کش بے روزگار ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقہ گھریلو اشیاء خوردنی لینے سے قاصر ہیں۔
بلوچستان کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو بلوچستان کے حالات ملک کے دیگر صوبوں کے حالات سے بدتر ہیں۔ اس وقت صوبے میں کرونا وباء کے شکار مریضوں کی تعداد سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2000کے لگ بھگ بتائی جارہی ہے جس میں اب تک صرف دس ہزار کے قریب افراد کے ٹیسٹ لئے گئے ہیں جن میں سے تین ہزار کے قریب مریضوں کے نتائج آنے ہیں۔ مگر اس اعدادوشمار کے حوالے سے غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق کمی پیش کی جارہی ہے۔ پورے صوبے میں صرف کوئٹہ شہر کے اندر ٹیسٹینگ کرنے کی سہولیات موجود ہیں جن میں بھی صرف دو ہسپتال کرونا وبا کے خلاف استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے تحفظات آرہے ہیں کہ بلوچستان میں کرونا ٹیسٹنگ سروس بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے ایک مریض کے ٹیسٹ کا رزلٹ 10 دن بعدآتا ہے۔ مزید یہ کہ بلوچستان میں کرونا وبا کیخلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے شعبہ صحت کے مزدوروں نے حفاظتی تدابیر کے لیے ضروری آلات کے حوالے سے کامیاب جدوجہد کی جس میں انہوں نے حکومت سے اپنے تمام تر مطالبات تسلیم کروائے۔ گوکہ اس وقت بلوچستان بھرمیں آئسولیشن وارڈز اور قرنطینہ سنٹرز کے حالات ایسے ہیں کہ وہاں پر کوئی بھی مریض رہنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے بعض اوقات کرونا وبا سے متاثرہ افراد اپنا ٹیسٹ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اور مشتبہ مریض اپنے گھروں کے اندر خود ساختہ آئسولیشن اختیار کر لیتے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں کہ بلوچستان میں صحت کے حوالے سے حکمران طبقہ کا رویہ کتنا منفی ہے۔ بلوچستان میں محکمہ صحت کی زبوں حالی کے حوالے سے ہم مختلف آرٹیکلز اور رپورٹس لکھ چکے ہیں جس میں ہم نے کئی بار یہ چیزیں واضح کی ہیں کہ بلوچستان میں شعبہ صحت کن کن مشکلات کا شکار ہے۔
کرونا وبا کی وجہ سے لاک ڈاون کرنے کے بعد جو حالات ملکی سطح پر پیدا ہوئے ہیں اس میں بلوچستان کے محنت کشوں کے حالات بھی بدتر ہوئے ہیں۔ ایک طرف سے حکومت لاک ڈاؤن پر بار بار سختی کا اظہار کر رہی ہے، جس میں 19 مئی تک وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف اس وقت پورے صوبے میں عوام بدستور سڑکوں پر موجود رہتے ہیں اور غیر قانونی طریقوں سے کاروبار زندگی ایک حد تک چل رہا ہے۔ بلوچستان بھر کی مساجد میں حکومت کی طرف سے بنائے گئے ایس اوپیز پر کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا، جس کی وجہ سے لوگ اب بھی مساجد میں تمام تر عبادات میں مشغول ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر کرونا وبا کا خوف ایک حد تک ختم ہونے کو ہے جبکہ دوسری طرف صوبہ بھر میں انتہائی کم تعداد میں ٹیسٹنگ کرنے کے باوجود کنفرم مریضوں کے کیسیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تمام تر حالات میں سب سے زیادہ متاثر کن طبقہ محنت کش طبقہ ہی ہے۔ بالخصوص انفارمل سیکٹر، دیہاڑی دار مزدور، ٹرانسپورٹیشن، اور دیگر مزدور بیروزگار ہونے کیوجہ سے سڑکوں پر گھومتے ہوئے نظر آئینگے، جنکے پاس گھر کے چولہے کو جلانے کے لیے ایک پیسہ نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت بلوچستان نے وفاقی حکومت کی طرز پر چار مہینوں کیلئے بارہ ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا تھا، جوکہ صوبے بھر میں مزدور طبقے کیساتھ وفا ہونے کے لیے تشنہ لب ہے۔ آجکل کے مہنگائی کے دور میں چار مہینوں کے لیے 12 ہزار روپے محنت کش طبقے کیساتھ بھونڈا مذاق ہے۔ مگر اسکے باوجود یہ ساری رقم ایک بار پھر یہاں کے غلیظ حکمرانوں کی بھوک کی ہوس اور کرپشن کا شکار ہو گئیہے، جس میں مستحق افراد کو نظرانداز کرتے ہوئے اقربا پروری کا خیال رکھا گیا ہے۔ راشن کی تقسیم کے حوالے سے صوبائی حکومت کی تمام تر باتیں صرف لفاظیوں اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ 20 کلو آٹے کی بوری اور دو کلو گھی کا ڈبہ تقسیم کرتے ہوئے تمام خواتین و حضرات سوشل میڈیا پر تصویریں لگا کر اپنی مصنوعی مشہوری کر رہے ہیں۔ جبکہ زمینی حقائق ان تمام تر چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔ کوئٹہ شہر سے باہر بلوچستان کے دیگر اضلاع میں مزدور طبقہ کیلئے امدادی پیکج کے اندر جو کرپشن اور اقربا پروری سامنے آتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ جبکہ مختلف سیاسی و غیر سیاسی تنظیموں اور کمیٹیوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کی شروعات میں راشن کی تقسیم کرنے کا عمل دیکھنے میں آیا تھا مگر جونہی سلسلہ لمبا ہوتا چلا گیا وہ تمام تر لوگ خاموش ہو گئے، کیونکہ معاشی بحران اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو خود اپنی بقا کا مسئلہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ خیراتی اداروں یا خیراتی طریقہ کار کے ذریعے عوامی مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوسکتے۔
اس وقت بلوچستان کے اندر بھی بیروزگاری کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم اور خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف یہاں پر انفارمل سیکٹر میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے دوسری طرف کرونا وبا کی جیسے صورتحال کی وجہ سے انفارمل سیکٹر کے اندر سو فیصد کے قریب محنت کشوں کا بے روزگار ہونے کا خدشہ شروع دن سے رہتا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں انفارمل سیکٹر کے اندر موجود ایران سے آنے والے تیل کی خریدوفروخت جبکہ دوسری طرف چمن بارڈر پر ہونے والا کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ اس کے علاوہ ہوٹل و ریسٹورنٹ، ٹرانسپورٹیشن اور چھوٹے بڑے کاروباری دکانوں یا مراکز میں کام کرنے والے مزدوروں کو بیروزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس مد میں حکومت بلوچستان کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن کا اجرا ہوا تھا جس میں انفارمل سیکٹر کے اندر کام کرنے والے مزدور طبقے کو ریاستی کم از کم اجرت کا پیمانہ یعنی 17 ہزار پانچ سو روپے ادا کرنے کی ذمہ داری مالکان کو سونپی گئی تھی جوکہ مزدوروں کے لیے کسی خوشخبری سے کم نہ تھی، مگر دیگر امدادی ٹوٹکوں کی طرح یہ بھی ناکارہ ثابت ہو رہا ہے۔ بلکہ امدادی پیکیج دینے کے علاوہ ان چھوٹے بڑے مالکان کی طرف سے مزدور طبقے کو جبری برطرفیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور انفارمل سیکٹر کے اندر کام کرنے والے مزدوروں کا یہی سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنی محنت بیچنے کیلئے دستاویزی ثبوت نہیں ہوتے،اور نہ ہی ان مزدوروں کو کوئی یونین بنانے کی اجازت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مالکان کے خلاف متحد ہوکر کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ انفارمل سیکٹر کے اندر تعلیم یافتہ افراد کا بھی اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ صوبے بھر میں سالانہ طور پر 25 ہزار سے لے کر 30 ہزار تک طلبا و طالبات گریجویشن کرکے فارغ ہو جاتے ہیں جن میں بمشکل دو سے ڈھائی ہزار کے قریب نوجوانوں کو روزگار مل جاتا ہے۔ ایران کے ساتھ لگے ہوئے بارڈر سے تیل کی خریدوفروخت کے دوران ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی خاطر مختلف حادثات کی مد میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس وقت بلوچستان کے اندر حکومت صرف فوٹوسیشن، اخباری بیانات اورکاغذی کاروائیوں تک موجود ہے۔ حکومت کی طرف سے تمام بیان بازی کا کرتا دھرتا صوبائی ترجمان ہیں جو کہ سوشل میڈیا اور پریس کانفرنسز کے ذریعے حکومتی اقدامات کے حوالے سے میڈیا کو خبر دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اس وقت بلوچستان میں عوام شدید مشکلات کے شکار ہیں، وہ تمام مزدور جن کو مختلف جگہوں سے جبری طور پر برطرف کیا گیا ہے وہ سڑکوں پر کسی متبادل روزگار جوکہ اس وقت ڈھونڈنا مشکل سے زیادہ ناممکن ہے، ایسے حالات میں بالآخر وہ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بلوچستان بھر میں مزدور طبقہ کی امداد کے لیے نقدی رقم اور راشن کی تقسیم کے لیے ضلعی انتظامیہ کے مختلف دفاتر کو مخصوص کیا گیا ہے، مگر ان تمام تر دفاتر میں کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے مزدوروں کے بے تحاشا رش اور بدنظمی کے واقعات میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے تک کی اطلاعات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مضافاتی علاقوں میں نام نہاد راشن اور امدادی پیکج وصول کرنے والے محنت کش طبقے نے راشن کی قلت اور نقد رقم میں خوردبرد کیخلاف احتجاج کیے، جن پر سکیورٹی اداروں کی طرف سے تشدد کے واقعات بھی ریکارڈ ہوئے ہیں۔
کرونا وبا کے بعد پورے ملک کے اندر جو حالات بن چکے ہیں اس نے محنت کش طبقے کے شعور پر کافی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اور محنت کش طبقے کی شعوری اثرات کے حوالے سے ہم اس مظہر کو عالمی طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف حکمران طبقے کے دلال، لبرل اور وظیفہ خور دانشور مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے کرونا وبا کے دوران محنت کش طبقے کی بالعموم نظام کے مخالف اور بالخصوص کسی بھی خطے کی حکومت مخالف احتجاجوں کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے آپسی تضادات کا شاخسانہ بتاتے ہوئے نہیں تھکتے۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ریاستی بیان بازی کو ہی آگے لے جانے کی مترادف ہے جس کی تازہ ترین مثال بلوچستان کے اندر شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے ہیلتھ ورکرز نے اپنے بنیادی مطالبات کے حوالے سے جو جدوجہد کی تھی اس پر ان وظیفہ خور دانشوروں کا نکتہ یہی تھا کہ یہ لڑائی حکومت اور اپوزیشن کی آپسی لڑائی ہے جس کے ذریعے محنت کشوں کو میدان کے اندر اوزار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہر وقت اینٹی اسٹیبلشمنٹ لفاظیوں کی جگالی کرنے والے ان تمام لبرل و تنگ نظر قوم پرست خواتین و حضرات کے خمیر میں یہ چیز شامل ہے کہ جب بھی محنت کش طبقہ اٹھتا ہے تو یہ اس کی تحریک کیخلاف کئے جانے والے سرکاری پراپیگنڈے پرفوراً سے ایمان لے آتے ہیں اور ایک منٹ میں اسٹیبلشمنٹ کے نام نہاد ناقدوں سے نیم سرکاری ماؤتھ پیس بن جاتے ہیں۔
کرونا وبا کے دوران ملک بھر کا طبی عملہ فرنٹ لائن سولجر بن کر لڑ رہا ہے اور انھوں نے ملک بھر کے اندر کرونا وبا کے پھیلنے کے خلاف حکومت سے مکمل طور پر لاک ڈاؤن کرنے کی اپیل کی۔ جس پر مختلف آراء آرہے ہیں بالخصوص یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ ڈاکٹرز اپنی عزت افزائی اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے یہ تمام تر پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ریاستی بیان بازی ہے، کیونکہ اس وقت پورے ملک کے اندر کرونا وبا کے حوالے سے لاک ڈاؤن پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان نہ صرف خلیج برقرار ہے، بلکہ وہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور محنت کش طبقہ کو ورغلانے کے لئے ہر کوئی فارمولا آزما رہے ہیں۔ جس کا مقصد ایک بار پھر سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ کیونکہ سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ ان کے منافع خوری میں لاک ڈاون کی وجہ سے کمی آجائے، دوسری طرف حکمران طبقہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے کرونا وبا سے ہلاکتوں اور کنفرم کیسز کے حوالے سے جھوٹ بول کر محنت کش طبقے کے غیض و غضب سے بچنا چاہتے ہیں۔ جو کہ حکمران طبقہ کی بھول ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ کرونا وبا نے اس وقت محنت کش طبقہ کا عالمی طور پر اس نظام کیخلاف شعور میں ایک معیاری کردار ادا کیا ہے۔ مگر ضرورت ایک بار پھر موضوعی عنصر کی موجودگی پر آتی ہے، اور اس وقت مارکس وادیوں کے لیے فیصلہ کُن گھڑیاں قریب آچکی ہیں، جس میں اپنی انقلابیذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے اس ظلم، بربریت اور استحصال پر مبنی معاشرہ کو تبدیل کرتے ہوئے سوشلسٹ سماج کی تعمیر کے لیے اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرینگے۔