|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
کرونا وبا جہاں دنیا کے ہر خطے کے محنت کشوں اور عام عوام پر اس متروک نظام کے نا اہل حکمرانوں کے پھیلائے گئے ایک عذاب کی صورت میں نازل ہوئی ہے وہیں مشرق وسطیٰ بالخصوص خلیجی کے ممالک میں غیر ملکی محنت کشوں کے لیے یہ ان دیکھے مصائب کا باعث بن رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے صحرائی ممالک میں تقریباً تین سے ساڑھے تین کروڑغیر ملکی محنت کشوں کی قوت محنت کے وحشیانہ استحصال سے زرق برق روشنیوں کے شہر جگمگاتے ہیں۔ معمول کے حالات میں بھی یہ ممالک ہمیشہ سے ہی غیر ملکی محنت کشوں کے قدیم عہد غلامی جیسے اور اس بھی بد تر استحصال کے لیے مشہور رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور افریقہ کے غریب اور پسماندہ ممالک سے آنے والے محنت کش اس خطے کے حکمرانوں کے لیے انتہائی سستی افرادی قوت کا ذریعہ رہے۔ ان ممالک میں غریب اور امیر کی تفریق کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی کے درمیان بھی ایک امتیاز ہمیشہ سے موجود رہا۔ ان ممالک میں غیر ملکی مزدوروں کو کبھی بھی انسان تصور نہیں کیا جاتا تھا اور ان کے ساتھ قانونی طور پر امتیازی برتاؤ روا رکھا جاتا تھا اور کرونا پھیلنے کے بعد بھی مقامی لوگوں کے لیے اس وبا سے بچاؤ کے اقدامات کا مختلف نظام وضع کیا گیا ہے۔
کرونا وبا اور عالمی معاشی زوال کے باعث تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں اور تعمیراتی و دیگر صنعتی سرگرمیوں کے بند ہو جانے کے باعث اب ان محنت کشوں کے ساتھ ایک ناکارہ پرزے جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے مزدور فراہم کرنے والے تمام ممالک کو کہا ہے کہ وہ اپنے مزدوروں کو واپس لیجانے کا فوری انتظام کریں ورنہ وہ آنے والے عرصے میں ان ممالک کے ساتھ مزدور فراہم کرنے کے معاہدے کی شرائط میں رد وبدل کرتے ہوئے ان کا کوٹہ کم کردیں گے۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اگرچہ اس صورتحال میں یہ اقدام درست نہیں ہے لیکن ہم مجبور ہیں ہمیں ان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ ہندوستان کی مرکزی حکومت نے ابھی تک اپنے شہریوں کو واپس لانے کی حامی نہیں بھری جبکہ پاکستان نے بھی اپنی شہریوں کا واپس لانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں 24 اپریل تک چالیس ہزار محنت کش پاکستانی سفارتخانے کو جہاز پر سیٹ کے لیے درخواست دے چکے ہیں اور اس تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ دبئی میں تعینات پاکستانی سفیر نے ٹویٹر پر لوگوں کو سفارتخانے نہ جانے کی اپیل کی ہے چونکہ ابھی تک پاکستانی حکومت ان محنت کشوں کو واپس لانے کا کوئی انتظام نہیں کر سکی۔
عرب کے حکمرانوں کا ان محنت کشوں کی جانب اس قدر بھیانک اور غیر انسانی رویہ بلا وجہ نہیں ہے بلکہ اس میں بنیادی کردار ان ممالک کے حکمرانوں کا ہے جو یہ افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ ہندوستان پاکستان سمیت تمام ممالک کے حکمران ان ممالک کے وحشیانہ اور مزدور دشمن قوانین کو تسلیم کر کے ہی زرمبادلہ کمانے کی لالچ میں اپنے محنت کشوں کو غلاموں کی طرح ان کو بیچتے آئے ہیں، اسی لیے آج تک مشرق وسطیٰ میں ان غیر ملکی محنت کشوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کبھی کسی بھی ملک کے حکمرانوں نے کوئی آواز بلند کرنا تو دور کی بات حرف شکایت بھی زبان پر نہیں لائے۔ حتیٰ کہ نام نہاد انسانی حقوق کے عالمی اداروں سمیت کوئی بھی جمہوریت کا ٹھیکیدار بھی اس ظلم کے خلاف کچھ نہیں کر پایا۔ اسی لیے ہمیں اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں غیر ملکی محنت کشوں کی یہ حالت زار نظر آتی ہے کہ نہ وہ ممالک انہیں وہاں رکھنے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کے اپنے حکمران انہیں واپس لانے کے لیے کوئی اقدامات کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں 2008ء کے عالمی بحران کے بعد سے تقریباً سبھی کمپنیوں میں محنت کشوں کو کئی کئی ماہ کی اجرتیں ادا کیے بغیر ہی ملازمتوں سے برطرف کرنا ایک معمول بن چکا تھا اور اب یہ صورتحال زیادہ بدترین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔سعودی حکومت نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ محنت کشوں کو ملازمتوں سے برطرف نہ کیا جائے اور کرونا لاک ڈاؤن کے دوران تمام کمپنیوں کے ملازمین کی اجرتوں کا ساٹھ فیصد حکومت ادا کرے گی۔ 23 اپریل کو مڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی سب سے بڑی کمپنی، سعودی ٹیلی کام کمپنی جس میں مقامی محنت کشوں کی تعداد زیادہ ہے، کو اجرتوں کا صرف دس فیصد ادا کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ تعمیرات کے شعبے سمیت چھوٹے اور درمیانے درجے کی فیکٹریوں اور کاروباروں کے غیر ملکی ملازمین کو لاک ڈاؤن کے دوران اجرتیں ملنا تو درکنار ان کی کئی کئی ماہ کی بقایا اجرتوں کی ادائیگی بھی نہیں کی جارہی اور لاک ڈاؤن کا جواز بنا کر انہیں نوکریوں سے بھی فارغ کرنے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہوگا۔
کرونا وبا کے باعث دبئی میں ایکسپو 2020، سعودی عرب میں اسی سال نومبر میں متوقع جی 20 کے اجلاس ملتوی ہونے کے خدشات جبکہ قطر میں 2022ء میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریوں کا کام بھی سست پڑنے کے باعث ہزاروں مزدور ملازمتوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان تمام خلیجی ممالک میں یونین سازی اور تحریر و تقریر سمیت کسی بھی بنیادی جمہوری آزادی کا تصور تک موجود نہیں ہے اسی لیے ان ممالک میں غیر ملکی محنت کشوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا عشر عشیر بھی ذرائع ابلاغ میں منظر عام پر نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹوں اور ویڈیوز سے صورتحال کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں مختلف محنت کش تنخواہوں کی عدم ادائیگی سمیت دیگر مسائل کو منظر عام پر لا رہے ہیں۔ عرب نیوز ویب سائٹ پر 15 اپریل کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے کچھ حوالہ جات شائع ہوئے جس میں قطر سے بیدخل کیے جانے والے درجنوں نیپالی محنت کشوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی روداد بیان کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیدخل کیے جانے والے محنت کشوں میں سے 20 محنت کشوں سے انٹرویو لیا گیا۔ ان مزدوروں کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا کہ کرونا ٹیسٹ کے لیے لے جایا جا رہا ہے اور ان کو کسی عمارت میں ہفتوں قید کی حالت میں رکھنے کے بعد وہیں سے سیدھا نیپال کے جہاز پر بٹھا دیا گیا۔ ان کے کرونا ٹیسٹ کرنا تو دور کی بات ان کا درجہ حرارت بھی کسی نے چیک نہیں کیا اور بقایا اجرتیں ادا کرنا تو درکنار ان کو اپنا ضروری سامان تک اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان میں سے ایک مزدور کو کمپنی کے نمائندے نے اس کی بقایا اجرت کا کچھ حصہ وہاں پہنچا یا جو وہاں تعینات پولیس اہلکار نے سنبھال کر رکھنے کے بہانے لے لیا اور اسے واپس نہیں کیا۔ ایمنسٹی کی اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد قطری حکومت نے حسب معمول اس میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کا اعلان کرتے ہوئے اس معاملے کو ختم کر دیا۔
یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ ان ممالک کا معمول ہے جو اس کرونا وبا اور معاشی بحران کے باعث شدت اختیار کرچکا ہے۔ ہاں منظر عام پر آنے والا واحد واقعہ ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں محنت کشوں کے ساتھ ان ممالک میں اس قسم کا ظلم و جبر اب عروج پر ہو گا۔ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں سمیت اب چند بڑے بین الاقوامی اخبار بھی ان ممالک میں غیر ملکی محنت کشوں کے رہائشی کیمپوں کی بدترین حالت کی وجہ سے کرونا پھیلنے کا رونا رو رہے ہیں۔ یہ ڈربے نما رہائشیں، جہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں درجنوں مزدوروں کو رہنے پر مجبور کیا جاتا رہا، ان میں سماجی فاصلہ رکھنا کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کویت، متحدہ عرب امارات اور بحرین میں سرکاری رپورٹوں کے مطابق اب تک کرونا کا شکار ہونے والے تمام مریض غیر ملکی محنت کش ہیں جبکہ سعودی عرب سمیت باقی ممالک میں سرکاری رپورٹوں کے مطابق 80 فیصد سے زیادہ غیر ملکی محنت کش ہیں۔
محنت کشوں کے ساتھ ان ممالک میں چھوٹے موٹے نجی کاروبار کرنے والے غیر ملکی بھی اس لاک ڈاؤن سے متاثر ہو رہے ہیں اور جیسا کہ نظر آ رہا ہے کہ اگلے کئی ماہ تک شاید کرونا وبا پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ اس صورت میں ان چھوٹے کاروباریوں کے بھی معاشی طور پر برباد ہو کر اپنے ممالک میں لوٹنے کے امکانات بڑھ جائیں گے چونکہ ان ممالک میں سوائے ارب و کھرب پتی غیر ملکیوں کے کسی کو بھی شہریت نہیں دی جاتی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں مزدور نیم فاقہ کشی کا شکار کیمپوں میں قید ہیں جبکہ جن شعبوں میں کام بند نہیں کیا گیا ان کے مزدور انہی پر ہجوم بسوں میں سفر کرتے ہیں اور کام کی جگہوں پر بھی کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے جا رہے جس کے باعث یہ مزدور تیزی سے وبا کا شکار ہو رہے ہیں۔ جن ممالک سے ان مزدوروں کا تعلق ہے ان کے حکمران اپنے ملک میں موجود عوام کو اس وبا اور لاک ڈاؤن سے پھیلنے والی بھوک سے بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں تو ان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ ان ممالک میں پھنسے محنت کشوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے کوئی اقدامات کر یں گے۔ ان ممالک کے حکمرانوں کے لیے ان مزدوروں کی صرف اتنی قیمت ہے کہ یہ ان ممالک میں غلامی سے بھی بدتر حالات میں اپنی قوت محنت بیچ کر ان کو زر مبادلہ بھیجتے رہیں۔ اس کے باوجود ہم مزدور تحریک کے پلیٹ فارم سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں اس وبا اور لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے محنت کشوں کو واپس لانے اور ان کے خاندانوں کی کفالت کا فوری بدوبست کیا جائے۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک کے ساتھ افرادی قوت فراہم کرنے کے تمام سابقہ معاہدے منسوخ کیے جائیں اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ تمام بنیادی جمہوری حقوق پر مکمل عملدرآمدکو یقینی بناتے ہوئے نئے معاہدے کیے جائیں۔ یہ مزدور کروڑوں خاندانوں کی روزی روٹی کا بھی ذریعہ ہیں اور اب ان کے ساتھ ان خاندانوں کو بھی فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی ذمہ داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی اور ایک مزدور تحریک کے دباؤ اور طاقت کے زور پر ہی حکمرانوں کے ان مظالم کو روکا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں غیر ملکی محنت کشوں کو اس عذاب سے چھٹکارا دلانے کے لیے جہاں ان ممالک کے مقامی محنت کشوں اور عوام کی سرمایہ داری کے خلاف ابھرنے والی تحریک اہم کردار ادا کرے گی وہیں جن ممالک سے ان کا تعلق ہے وہاں کی مزدور تحریک کا فیصلہ کن کردار ہے۔ مشرق وسطیٰ کی سرمایہ داری اب غیر ملکی محنت کشوں کو غلاموں کی صورت میں بھی زندہ رکھنے کے قابل نہیں رہی اور جو ممالک انہیں افرادی قوت مہیا کرتے ہیں وہاں کے محنت کشوں کی زندگیاں بھی اب پہلے سے بد تر ہوتی جا رہی ہیں۔کرونا کی وبا سرمایہ داری کا ہی محنت کشوں پر نازل کیا جانے والا ایک اور عذاب ہے جو زندگیوں کے ساتھ زندہ رہنے کے وسیلے بھی چھینتا جا رہا ہے۔اس وبا نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اب زندہ رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کا ہر خطے اور ہر ملک سے خاتمہ کیا جائے۔