|تحریر: ڈاکٹر میاں عمیر|
کرونا وائرس کی وبا نے ہمارے ہیلتھ سسٹم کی ناکامیوں کو نہایت عمدگی سے نمایاں کیا ہے۔ پنجاب کے بڑے ہسپتالوں میں ٹیسٹنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور ینگ ڈاکٹرز کے دباؤ پر گورنمنٹ کی طرف سے حفاظتی سامان بھیضرورت سے بہت کم لیکن پھر بھی تھوڑا بہت ملنا شروع ہو گیا ہے۔ ابھی وبا اپنی انتہا تک نہیں پہنچی اور ہسپتالوں میں کرونا کے مریض بھی کم ہیں۔ لیکن ملک میں وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے جس کا ثبوت روزبروز بڑھتے ہوئے کیسز ہیں۔ لاک ڈاؤن میں گزشتہ چند روز سے نرمی دیکھنے میں آئی ہے جس کا سبب بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال ہے۔ غریب طبقے کے لیے بھوک سے ہونے والی اموات کرونا کی نسبت زیادہ ہیں اور ان لوگوں کے پاس کوئی ایسی جمع پونجی نہیں جو یہ صبر شکر کر کے گھر بیٹھ کے کھاتے رہیں۔
لیکن گورنمنٹ کی مکمل توجہ اپنے طبقے یعنی سرمایہ داروں، بینکاروں اور دیگر امیر ترین افراد کی جیبیں بھرنے کی طرف ہے۔ سرمایہ داروں کے لیے سبسڈیوں کا اعلان کیا جا رہا ہے اور ٹیکس معاف کیے جا رہے ہیں تاکہ منافع خوری کی جا سکے۔ عوام کو یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے دی جانے والی سبسڈی کا بڑا حصہ بھی تاجر طبقہ ہی ہڑپ جاتا ہے۔
ایسے میں مڈل کلاس کے بہت سے افراد اور این جی اوز نے ڈونیشن، عطیات خیرات وغیرہ کے ذریعے ”غریبوں کی مدد“ کا جوکھم اٹھایا ہے۔ روزانہ سوشل میڈیا اور روایتی ذرائع ابلاغ پر آپ کو ان مخیر حضرات کی تصویریں ملیں گی جن میں یہ مہاتما غریبوں میں خیرات بانٹتے نظر آتے ہیں۔ اوراس کے ساتھ مزید چندے کی اپیلیں بھی کی جا رہی ہیں تاکہ نیکی اور مشہوری ایک ہی ساتھ کمائی جا سکے ”ہم خرما و ہم ثواب“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جن غریبوں کو یہ خیرات مل جاتی ہے ان کے دو دن بہتر گزر جاتے ہوں گے۔ لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ مسئلے کا حل یہ نہیں ہے، یہ محض ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہے کہ آج کی بھوک مٹا دو کل کی دیکھی جائے گی۔ اصل میں یہ صرف نمائشی اقدامات ہیں جن کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں اور اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل ہے۔ اگرچہ ان مخیر حضرات کی اکثریت اس بات سے انکار کرتے ہوئے منافقانہ انداز میں یہی کہتی ہے کہ ”ہم انتہائی غیر سیاسی ہیں صرف خداکی رضا کے لیے ایسا کرتے ہیں ورنہ ہمیں کوئی لالچ نہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان مخیر حضرات کی طرف سے لگائی جانے والی تصاویر انہی کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ خیراتی عمل کی اس مشہوری کا ایک جواز یہ دیا جاتا ہے کہ یہ مزید چندہ اکٹھا کرنے کا ذریعہ ہے تاکہ باقی لوگوں میں بھی خیرات کا جذبہ پیدا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دوسروں کو جوش دلانے والی نیکی ہمیشہ اپنی مشہوری کے ذریعے کرتے ہیں جبکہ غریبوں کی انسانیت سوز انداز میں بد ترین تذلیل کی جاتی ہے۔
مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہمیں متفرق ٹوٹکے اور غیر سائنسی باتیں بتائی جا رہی ہیں جن میں تعویز گنڈے سے لے کر گرم پانی، شہداور کلونجی تک شامل ہیں۔ جب کہ سائنسی طور پر درست ہدایات اور عوامی آگاہی کا فقدان جا بجا نظر آتا ہے۔ میڈیا چینلز صرف ریٹنگ والی خبریں دے رہے ہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ناظرین کی تعدادبڑھنے پر لمبے نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ ماہرین صحت کی بجائے عامر لیاقت جیسے علما کو بلا کر ٹی وی پر بٹھایا جاتا ہے کیونکہ مقصد کوئی تجزیہ کرنا یا آگاہی پھیلانا نہیں صرف خوف کو بیچ کر ریٹنگ بڑھانی ہے۔ کچھ افراد ایسے ضرور ہیں جو سائنس کی تجویز کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہیں لیکن ایک بڑی تعداد سائنس سے خدا واسطے کا بیر رکھے ہوئے ہے۔
ایسے حالات میں پبلک ہیلتھ ایجوکیشن کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ کیسے عوام کو شعور دیتے ہوئے ایسی وبا سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اس کام کے لیے ریاستی سطح پر پلاننگ اور وسائل کی فراہمی ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ عوام کو یونیورسل ہیلتھ سروسز نہ دے سکے۔ ریاست جان بوجھ کر، وسائل ہوتے ہوئے بھی، سرکاری نظام صحت پر انویسٹ نہیں کر رہی تاکہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا دھندا چلتا رہے۔ پبلک ہیلتھ ایجوکیشن بھی اسی وجہ سے نہیں دی جا رہی کہ اگر لوگوں کو یہ علم ہو گیا کہ یہ یہ چیزیں حفظان صحت کے لیے ضروری ہیں تو وہ صاف پانی کا مطالبہ کر بیٹھیں گے۔ نئے ہسپتالوں کا مطالبہ کر دیں گے تاکہ باقی ہسپتالوں سے رش کم ہو۔ ہیلتھ بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کر دیں گے۔ بنیادی انفراسٹرکچر مانگیں گے، ہیلتھ سیکٹر کو کاروبار بنانے کے خلاف بولیں گے، تاکہ پرائمری ہیلتھ کیئر بہتر ہو۔ مگر اس طرح تو سرمایہ داروں کا دھندا ماند پڑ جائے گا۔ اس کے علاوہ صحت کی سہولیات کے لیے جب کم بجٹ اور غریب ملک ہونے کا جھوٹا رونا رویا جائے گا تو لوگ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ کو قرضوں اور سود کی دائیگی کے لیے دیے جانے والے پیسے اور دفاعی بجٹ کا حساب کتاب مانگنے لگیں گے اور حکمران طبقے کا پر تعیش انداز زندگی اور عوام کے پیسے کی لوٹ مار میں رخنہ آ سکتا ہے۔
ایسے میں ینگ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر ہیلتھ ورکرز کا کردار بہت اہم ہے۔ حکومت اپنی کمزور رٹ کی وجہ سے لاک ڈاؤن پر عمل نہیں کروا سکتی۔ بہت سا کاروباری طبقہ اپنی انڈسٹری کو ”ضروری سروسز“ قرار دلوا کر فیکٹریاں چالو رکھے ہوئے ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی طرف سے حکومت پر دباؤ ہے کہ جلد از جلد لاک ڈاؤن ختم ہو، لوگ مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ عوام بھی بیروزگاری اور بھوک کے ہاتھوں الگ سے تنگ ہے اور اس کے ساتھ جگہ جگہ حکمران طبقے کی حفاظت اور خدمت کے لیے معمورعوام دشمن پولیس کے ہاتھوں ذلیل اور رسوابھی ہو رہی ہے۔
حال ہی میں سرمایہ داروں کو نوازنے والی ان عدالتوں نے فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ آؤٹ ڈور کھول دیے جائیں۔ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے معمور ان افراد کو احساس ہی نہیں کہ جب آؤٹ ڈور میں ہزاروں لوگ روزانہ کی بنیاد پر اکٹھے ہوں گے تو وائرس بہت تیزی سے پھیلے گا۔ اور ہسپتالوں میں اس رش کا ذمہ دار وہ حکمران طبقہ ہے جس نے پچھلے ستر سال میں عوام کی ضروریات کے مطابق ہسپتال نہیں بنائے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا، اس کے برعکس پاکستانی محنت کش طبقے سے سالانہ اربوں ڈالر ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے جو سود خور بینکوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔
یہ اربوں ڈالر کا ٹیکس سود خوروں کے پیٹ میں جانے کی بجائے نئے ہسپتال بنانے پر خرچ ہونا چاہیے۔ بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی پر لگنا چاہیے۔ ایکسپو سنٹر میں عارضی ہسپتال کا قیام خوش آئند ہے جسے مستقل شکل دی جانی چاہیے اور مزید نئے ہسپتال مستقل بنیادوں پہر بنائے جائیں۔ ہسپتالوں کی کمی کی وجہ سے ہزاروں لوگ عام حالات میں بھی مر جاتے ہیں اور موجودہ حالات میں تو یہ خطرہ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ یہ مطالبات گرینڈ ہیلتھ الائنس کے پلیٹ فارم سے سامنے رکھے جا سکتے ہیں اور اس میں دیگر اداروں کی مزدور تنظیموں کو ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے جو خود بھی صحت کی بنیادی سہولت کا حصول چاہتے ہیں۔ اگرحکومت وبا کے دوران ماہرین صحت کی رائے کے برعکس آؤٹ ڈور کھولنے کی طرف جاتی ہے تو آؤٹ ڈور ہڑتال ہیلتھ ورکرز کا آخری آپشن ہوگا۔ کیونکہ ایسے حالات میں آؤٹ ڈور میں ڈیوٹی کرونا وائرس کے انتہائی تیزی سے پھیلنے کا سبب بنے گا۔ اجتماعی عوامی مفاد میں آؤٹ ڈور ہڑتال ہی بہتر آپشن ہو گی۔
عارضی طور پر پبلک ہیلتھ ایجوکیشن کی ذمہ داری ہیلتھ ورکرز اور دیگر خواندہ افراد پر عائد ہوتی ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اس وبا سے متعلق سائنسی معلومات خود بھی حاصل کریں اور دوسروں سے بھی شیئر کریں۔ اگر ہم سب مشترکہ کوشش کریں اور متفقہ لائحہ عمل اپناتے ہوئے خود کو منظم کریں تو حکومت کو یہ مطالبات ماننے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ یہی ہمارا واحد آپشن ہے کیونکہ ”حالات بہت خراب ہو چکے نیں حکومت دسدی نئیں پئی“۔