|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ،لاہور|
17 فروری کو لاہور شیخوپورہ روڈ (بیگم کوٹ) پر واقع جس کے نتیجے میں روڈ بلاکس، لاہور پریس کلب پر احتجاج اور پھر فیکٹری کے سامنے دو بڑے جلسے منعقد کیے گئے۔ مقدمہ عدالت میں بھی درج تھا اور اس کی پیروی بھی ہوتی رہی، لیکن مزدوروں کو عدالت سے سوائے تاریخوں کے اور کچھ نہ ملا جبکہ قاتل فیکٹری مالک ضمانت کروا کر آرام سے اپنے محل نما گھر میں بیٹھا رہا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے ممبران مسلسل ان معاملات میں عملی مداخلت کرتے ہوئے مزدوروں کو انقلابی بنیادوں پر منظم ہو کر اپنے حق کے لیے لڑنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔ مختلف یونین قیادتوں کا کردار بھی اس پورے عمل میں واضح ہوتا نظر آیا اور انہوں نے صرف زبانی جمع خرچ اکٹھا کرنے اور محنت کشوں کو عدالتی بھول بھلیوں میں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
ابھی یہ تمام معاملات چل رہے تھے کہ اس دوران کرونا وبا پاکستان میں بھی پہنچ گئی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال سے مل مالکان، ریاست اور موقع پرست یونین لیڈران کو موقع ملا کہ وہ اس سارے معاملے پر مستقل طور پر مٹی ڈال دیں۔ اس وقت وہ تمام نام نہاد لیبر فیڈریشنیں اور یونین قیادتیں جو باتوں کی حد تک اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار تھیں، ا ب اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
لیکن دوسری طرف فیکٹری کے مزدوروں کی ایک الگ داستان ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے فیکٹری کی بندش کو سرکاری جواز ملنے کے بعد مزدوروں کی اکثریت نے فیکٹری کی رہائش میں رہنے کی بجائے اپنے گھر جا کر رہنے میں ہی بہتری سمجھی اور بیشتر مزدور جو دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے تھے، شہر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن یہ مزدور اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں کیوں کہ نہ تو راوی آٹوز کی انتظامیہ نے انہیں پہلے کی واجب الادا تنخواہوں کی ادائیگی کی ہے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی اور روز گار ہے۔
انہیں مزدوروں میں سے ایک مزدور، جس کا گھر بیگم کوٹ میں ہی ہے، نے راوی آٹوز کی بندش کے بعد اور عدالت کے فیصلے میں حسب توقع تاخیر کی وجہ سے ایک جوتوں کی فیکٹری میں کام ڈھونڈا جو کہ چھ دن کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند ہو گیااور اب پچھلے کئی ہفتوں کی بے روزگاری اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وہ اپنا موبائل فون بیچ کر بچوں کو روٹی کھلا رہا ہے لیکن یہ پیسے بھی آخر کتنے روز چلیں گے۔
لیکن یہ مسئلہ صرف راوی آٹوز کے مزدوروں کا نہیں ہے، بلکہ اس علاقے میں آباد لاکھوں مزدور اس وقت انہی مسائل کا شکار ہیں۔ تمام سرمایہ دار اس وقت کرونا وبا کی روک تھام کے لئے کئے جانے والے سرکاری لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ کر رہے ہیں اور ان میں سے اکثر نے تو مزدوروں کو دو سے تین ماہ کی واجب الادا تنخواہیں بھی نہیں دی ہیں۔ لیکن انہیں حالات میں اسی علاقے میں ایسی فیکٹریاں بھی موجود ہیں جو انتظامیہ کی آشیر باد کے ساتھ کھلے عام لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چل رہی ہیں۔ ان میں سے ایک کانٹینینٹل پلاسٹک انڈسٹریز لمیٹڈ ہے جہاں جب مزدوروں نے کرونا وبا کے خطرے کے تحت فیکٹری بند کرنے یا حفاظتی لباس کی فراہمی کا مطالبہ کیا تو مالکان نے کہا کہ نہ فیکٹری چلے گی اور نہ ہی کوئی حفاظتی لباس فراہم کیا جائے گا۔ سب کو ایسے ہی کام کرنا ہو گا اور جو کام پر نہیں آئے گا وہ خود کو فارغ سمجھے۔ غرض یہ کہ عالمی معاشی بحران اور بگڑتی ہوئی ملکی معیشت کی وجہ سے فیکٹری مالکان پہلے ہی بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ اور اجرتوں میں کٹوتی کرنا چاہ رہے تھے اور کورونا وبا اور لاک ڈاؤن نے انہیں ایسا کرنے کے لئے جواز فراہم کر دیا ہے۔
محنت کش طبقے کے لیے بننے والے ان انتہائی مشکل حالات میں بھی حکومت اور ریاست تمام نام نہاد اپوزیشن جماعتوں کے تعاون سے آئی ایم ایف قرضے کے عوام دشمن معاشی پروگرام اور سرمایہ داروں کی مالی معاونت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور دوسری طرف مسلح ریاستی ادارے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کے نام پر گلیوں اور سڑکوں پر بے روزگاری اور بھوک سے مجبور محنت کشوں کو ذلیل کرتے نظر آ رہے ہیں۔ انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تعداد میں این جی اوز بھی اپنا کاروبار چمکانے میں مصروف ہیں۔ یہ این جی اوز پہلے ہی غریبوں کے زخموں کا بیوپار کر کے اربوں کما چکی ہیں اور اب مزید کمانے کے لئے سرگرم ہیں۔ حکومت نے بھی ڈیم فنڈ کے”کامیاب تجربے“ کے بعد اب کرونا فنڈ نکالا ہے جس کے لئے سرکاری اداروں کے محنت کشوں کی تنخواہوں سے کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
لیکن ان سب مظالم کیخلاف محنت کش طبقے میں ایک لاوا پک رہا ہے جس کی حدت واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔آنے والے دنوں میں یہ لاوا ایک انقلابی تحریک کی صورت میں پھٹے گا اور حکمران طبقے اور ان کے اس عوام دشمن نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔