|تحریر: جو رسل، ترجمہ: یار یوسفزئی|
31 اکتوبر بروز اتوار رسمی طور پر کوپ 26 (COP26-Conference of Parties؛ اقوام متحدہ کی 26ویں کانفرنس برائے ماحولیاتی تبدیلی) کے مذاکرات شروع ہوئے، جو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی حالیہ کانفرنس ہے۔ یہ گلاسگو میں منعقد ہوئی جہاں بورس جانسن نے دو ہفتوں کے مذاکرات، پینل ڈسکشن اور پریس کانفرنس کے لیے دنیا بھر کے سربراہانِ مملکت کو خوش آمدید کہا، جہاں ماحولیاتی تبدیلی پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے کاروباری شخصیات بھی موجود تھیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
واقعات کے دباؤ میں آ کر، حکمران طبقہ اور اس کے نمائندے ماحولیاتی تبدیلی کو زیرِ بحث لانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی مستقبل بعید کا خطرہ نہیں رہا بلکہ حال کا بحران بن چکا ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ حصوں کو بھی ماحولیاتی تباہی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سال نیویارک اور جرمنی کے علاقوں میں اس قسم کے شدید سیلاب دیکھنے کو ملے ہیں جن کے بارے میں کسی زمانے میں خیال کیا جاتا تھا کہ یہ 100 سالوں میں ایک دفعہ آتے ہیں۔ یہ معمول کے واقعات بنتے جا رہے ہیں۔ اس کے معیشت اور سیاست پر بھی اثرات پڑیں گے، جسے حکمران طبقہ مزید نظر انداز نہیں کر سکتا۔
اسی وجہ سے، کوپ 26 اجلاس کے بارے میں کافی شور شرابہ مچایا جا رہا ہے، مگر ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ مین سٹریم میڈیا میں ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں کوپ 21 کو اہم موڑ قرار دیا گیا تھا۔ عمومی سائنسی اتفاق اس بات پر ہے کہ نا قابلِ واپسی اور نا قابلِ برداشت نتائج سے بچنے کے لیے عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو قبل ازصنعتی دور کی نسبت 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے عالمی معیشت کو 2050ء تک کاربن اخراج صفر پر لانا پڑے گا۔ 2015ء میں اقوامِ متحدہ کے کوپ 21 اجلاس کے دوران پیرس معاہدے کے تحت ان اہداف کا تعین کیا گیا تھا۔
بعض لوگ اپنی تمام امیدیں ان بین الاقوامی معاہدوں اور اجلاسوں سے وابستہ کر رہے ہیں، البتہ دیگر کے خیال میں یہ اقدامات کافی نہیں ہیں اور تاخیر کے ساتھ اٹھائے جا رہے ہیں۔ بات کرنا آسان ہے مگر ضرورت فیصلہ کن اقدامات کرنے کی ہے۔ البتہ اقوامِ متحدہ بات چیت کرنے کے ایک خصوصی پلیٹ فارم کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ دنیا کی بڑی معاشی قوتوں کو احکامات بجا لانے پر مجبور نہیں کر سکتا، جن کے مفادات ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
جیو پالیٹکس اور تحفظاتی پالیسیاں
جیو پولیٹیکل تناؤ نے مختلف اقوام میں موجود سرمائے کے نمائندوں کے لیے ان اہداف پر کوئی معمولی سا معاہدہ کرنا بھی مشکل بنا دیا ہے، عملی پالیسی تو دور کی بات۔ پیرس معاہدے کے اہداف کو اہم موڑ قرار دینے کی بنیادی وجہ یہ دعویٰ تھا کہ اوباما، شی جن پنگ اور ولادیمیر پیوٹن نے عوام اور سیارے کی بھلائی کے لیے دنیا کی تین بڑی معاشی قوتوں کے بیچ سامراجی مخالفت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ایک سال بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے منتخب ہونے سے اس خوش فہمی کا خاتمہ ہو گیا، جس نے پیرس معاہدے کو واپس لینے کے گرد مہم چلائی؛ بعد میں اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اس سے چین اور امریکہ کے بیچ جاری تجارتی جنگ کی تلخی خصوصی طور پر بے نقاب ہوئی۔ ایسا محض ٹرمپ کے متغیر مزاج کی وجہ سے نہیں ہوا۔ 2008ء کے بعد عالمی منڈی کا جمود تحفظاتی پالیسیوں کی بنیادی وجہ رہی ہے، جس نے تمام بڑی سامراجی قوتوں کو متاثر کیا ہے۔
کوپ 21 کی ناکامی اور اس کے بعد تحفظاتی رجحانات میں بڑھوتری ان وعدوں اور اہداف کی کمزوری کا اظہار ہے۔ عالمی سطح پر ان کے نفاذ کا کوئی بھی منصوبہ سراسر بے معنی ہے۔ نجی ملکیت اور قومی ریاست، جو سرمایہ دارانہ عہد کی خصوصیات ہیں، انسانی ضروریات کے تحت پیداوار کے کسی بھی منصوبے کے راستے میں بنیادی رکاوٹیں ہیں۔ جون 2020ء میں شائع ہونے والے اقوامِ متحدہ کے ’ریس ٹو زیرو‘ دستاویز کے اندر اس صورتحال کی صاف وضاحت کی گئی ہے:
”اگر انفرادی تنظیمیں ایک دوسرے سے الگ کام کریں تو کسی سنگِ میل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ مقابلے بازی کی دوڑ اور بے عملی کے باعث اکثر اوقات اہداف حاصل نہیں ہو پاتے، جہاں انفرادی تنظیم کو متحرک ہو کر بہت جلد ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔“
بہرحال، اقوامِ متحدہ بڑی سرمایہ دارانہ قوتوں کا ایک اوزار ہے، جن کے دم پر وہ قائم ہے، اور وہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام سے باہر نکل کر سوچنے کا اہل نہیں ہے۔ چنانچہ مکمل بیکار بیٹھنے کی خواہش نہ رکھنے کی وجہ سے وہ خیالی پلاؤ بناتے رہتے ہیں:
”کاربن کے اخراج کو صفر پر لانے کا ہدف تیز رفتار تبدیلی کے ذریعے حاصل ہوگا۔ ہم یہ اس لیے جانتے ہیں کیونکہ ماضی میں ہر بڑی صنعتی بد نظمی کے دوران ایسا ہوا ہے، اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ٹیکنالوجی اور نئی منڈیاں اکثر اوقات سیدھی لکیر کی بجائے تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتی ہیں۔۔۔“ ”۔۔۔ ایسے مواقع پر مختلف شعبوں، جغرافیہ اور معیشتوں سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں تبدیلی کی حمایت شروع کر دیتی ہیں، اور مثبت فیڈ بیک ان میں اعتماد کو مزید بڑھاتا ہے اور ہر مرحلے پر مانگ اور سرمایہ کاری میں بڑھوتری ہوتی جاتی ہے۔“
اقوامِ متحدہ عالمی معیشت میں لمبے عرصے کی بڑھوتری کی امید کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ ان کے خیال میں کچھ قوانین لاگو کرنے اور کچھ تجارتی پابندیاں عائد کرنے سے پوری معیشت متاثر ہو کر صفر کا ہدف حاصل کرنے کی خاطر اپنے آپ میں انقلابی تبدیلی لائے گی۔ ماحولیاتی بحران کو منڈی کی قوتوں کے ذریعے حل کرنے کی اسی کوشش کی وجہ سے ہی آج ہم تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
سرمایہ کاری
تاحال، دنیا کی 84 فیصد توانائی کی کھپت (Primary Energy Consumption) کاانحصار فاسل فیولز (پٹرولیم و گیس) پر ہے۔ 2016ء میں 73.2 فیصد (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کی وجہ توانائی کی پیداوار تھی۔ (لیکن) توانائی کی مجموعی کھپت (Final Energy Consumption) کا لگ بھگ صرف 20 فیصد بجلی کی صورت میں مہیا ہوتا ہے (کم ایفی شینسی ہونے کے باعث باقی ماندہ توانائی، توانائی سیکٹر کے اپنے استعمال اور بجلی بنانے اور ڈسٹری بیوشن کی نظر ہوجاتی ہے)۔ عالمی انفراسٹرکچر کو پوری طرح تبدیل کیے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی منصوبہ بندی کے تحت یہ بالکل ممکن ہوگا۔
2019ء میں، آئی ای اے (انٹرنیشنل انرجی ایجنسی) نے ”آف شور وِنڈ آؤٹ لک 2019ء“ کے نام سے ایک رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ ”بڑی منڈیوں میں دستیاب ہائی کوالٹی وسائل کی مدد سے آف شور (غیر ساحلی) ہوا کے ذریعے پوری دنیا میں سالانہ 4 لاکھ 20 ہزار ٹیرا واٹ آورز بجلی کی پیداوار ممکن ہے۔ یہ آج کی دنیا کو درکار بجلی سے 18 گنا زیادہ ہے۔“ مگر سرمایہ دارانہ بنیادوں پر، میسر وقت کے اندر ایسی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
موجودہ معاشی صورتحال کا ایک اہم خاصہ سرمایہ کاری کی شدید قلت ہے۔ ہمارے پاس فضول بیٹھ کر عالمی معیشت سے بحالی کی امید لگانے کا وقت نہیں ہے۔ قابلِ تجدید توانائی (شمسی، ہوا وغیرہ) کے اندر سرمایہ کاری میں کچھ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، مگر موجودہ سطح پھر بھی بہت زیادہ کم ہے۔ آئی ای اے کے مطابق، ”2020ء میں، تیل و گیس کی صنعت کی جانب سے ماحول دوست توانائی کے اندر سرمایہ کاری ان کمپنیوں کی مجموعی سرمایہ کاری کا محض 1 فیصد بنتا ہے۔“ اگرچہ 2021ء میں یہ 4 فیصد تک بڑھ جائے گی، ”2021ء کے دوران عالمی سطح پر قابلِ تجدید توانائی کے اندر 750 ارب ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری اس سطح سے بہت کم ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے دوران درکار ہے۔“
آئی ای اے کے مطابق ”2050ء تک صفر کا ہدف حاصل کرنے کے لیے، عالمی سطح پر قابلِ تجدید توانائی کے اندر سالانہ سرمایہ کاری میں 2030ء تک تین گنا سے زائد اضافہ کر کے اسے تقریباً 4 کھرب ڈالر پر لانا پڑے گا۔“ موجودہ شرح سے، عالمی سرمایہ کاری 2030ء تک درکار حجم کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکے گی۔
یہ طے کیا گیا تھا کہ 2020ء سے ”ماحولیاتی سرمایہ کاری“ شروع کر دی جائے گی۔ 2009ء میں وعدہ کیا گیا تھا کہ 2020ء اور 2025ء کے بیچ، دنیا کے غریب ترین ممالک ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی خاطر سرمایہ کاری کے لیے امیر ترین ممالک سے سالانہ 100 ارب ڈالر وصول کریں گے۔ پہلے سال کے دوران ہی 20 ارب ڈالر کم سرمایہ کاری کی گئی۔
کلیدی صنعتی شعبہ جات میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ چند ایک جگہوں پر بعض نئے منصوبوں میں ممکنہ تکنیکی حل کی جھلک نظر آتی ہے، مگر حقیقی تبدیلی نظروں سے اوجھل ہے۔ مثال کے طور پر سٹیل کی پیداوار، جو دنیا کے سالانہ کاربن اخراج کے 8 فیصد کی ذمہ دار ہے، میں سرمایہ کاری کر کے اس کے کاربن کے اخراج کو صفر پر لایا جا سکتا ہے۔ اس سال، 1 ارب یورو کی لاگت سے صفر کاربن اخراج پر مبنی دنیا کی پہلی سٹیل مِل تعمیر کی جا رہی ہے، جس میں ماحول دوست ہائیڈروجن استعمال کی جائے گی۔ اس ٹیکنالوجی کو ہنگامی بنیادوں پر پوری دنیا میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ مگر ایسا نہیں کیا جا رہا، جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول، موجودہ سٹیل مِلز میں پہلے سے ہی بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ سرمایہ دار نہیں چاہتے کہ منافعوں کا آخری قطرہ نچوڑے بغیر ان کی ساری سرمایہ کاری بیکار چلی جائے۔ دوم، سٹیل پہلے سے ہی اپنی مانگ سے بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے، چنانچہ اس حوالے سے مزید کوئی سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتا۔ جیسا کہ ’او ای سی ڈی‘ کی 2019ء کی رپورٹ میں وضاحت کی گئی تھی:
”سٹیل مِل کی منصوبہ بندی کرنے، اس کا اجازت نامہ لینے، درکار سرمایہ حاصل کرنے اور اس کو تعمیر کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، اور تعمیر ہونے کے بعد مناسب دیکھ بھال کرتے ہوئے اسے 25 سے 50 سال تک قائم رکھا جا سکتا ہے۔ سٹیل مِلز کی حد سے زیادہ موجودہ سپلائی کے باعث بھی فطری طور پر نئی ٹیکنالوجی اور طریقوں کا اپنانا مشکل ہوگا۔“
کاربن کا اخراج کیے بغیر چلنے والی نئی سٹیل مِل تعمیر ہونے کے باوجود، منافعوں کو ترجیح دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ آرسیلر متل کمپنی نے تسلیم کیا کہ ”اگر 2025ء کے اختتام تک ماحول دوست ہائیڈروجن مناسب قیمت پر دستیاب نہ ہوا تو ہمیں DRI فرنس کے لیے قدرتی گیس کو ہی استعمال کرنا پڑے گا۔“ سرمایہ مزید منافع پیدا کرنے کے لیے وجود رکھتا ہے۔ جب منافعے میں نقصان اور سیارے کو آلودہ کرنے میں سے ایک کو چننا ہوتا ہے، سرمایہ دار اپنا کاروبار برقرار رکھنے کی خاطر ہمیشہ آخر الذکر کو چنتے ہیں۔ منڈی کا انتشار، جس کی قیمتوں میں ہمیشہ غیر متوقع تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی راہ میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے جن کو پار کرنا ممکن نہیں ہے۔
تبدیلی اور منڈی کا انتشار
سرمایہ دار طبقہ، پابندیوں اور رائے عامہ سمیت وباء کے دوران مانگ میں کمی سے خوفزدہ ہو کر، اپنے منافعوں کے بارے میں پریشان ہو کر فاسل فیولز میں سرمایہ کاری روک رہے ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ قابلِ تجدید توانائی کے اندر سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ جتنی تیزی کے ساتھ فاسل فیولز میں سے سرمایہ کاری نکال رہے ہیں، اتنا جلدی وہ قابلِ تجدید توانائی اپنانے کے اہل نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں آنے والی قلت کے باعث سپلائی میں کمی آئی ہے اور بجلی کی قیمتوں میں شدید اضافہ ہوا ہے۔
تیل کی قیمت میں اضافہ منڈی میں تمام اشیاء کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے، جس سے عمومی افراطِ زر کا خطرہ ہوتا ہے۔ ماحول دوست سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی بجائے اس صورتحال کا الٹا اثر پڑ سکتا ہے۔ سٹیل، تانبا، ایلومینیم اور لیتھیم ماحول دوست انفراسٹرکچر کے لیے لازمی ہیں، مگر ابھی ان کی پیداوار میں بڑے پیمانے پر کاربن کا اخراج ہوتا ہے۔ کاربن کے اخراج پر اچانک پابندیاں اور ٹیکس ان شعبوں کے اندر بھی قیمتوں کی بڑھوتری اور سرمایہ کاری کی کمی کا باعث بن رہا ہے۔
اس مسئلے کو ’گرین فلیشن‘ کا نام دیتے ہوئے فنانشل ٹائمز کے ایک مضمون میں وضاحت کی گئی کہ ”پرانی معیشت کو بہت تیزی سے بند کرنے کی کوشش میں اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ماحول دوست انفراسٹرکچر کی تعمیر کی لاگت پہنچ سے باہر ہو جائے گی۔“ بورژوا پالیسی ساز جس جانب بھی قدم اٹھاتے ہیں، منڈی کو تضادات سے بھرا ہوا پاتے ہیں اور پھر بند گلی میں جا کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اکانومسٹ کے ایک مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ”ماحول دوست توانائی اپنانے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔۔۔قانونی دھمکیوں، سرمایہ کاروں کے دباؤ اور پابندیوں کے ڈر کے باعث 2015ء سے فاسل فیولز میں سرمایہ کاری میں 40 فیصد تک کمی آئی ہے۔“
اس کا نتیجہ معاشی ہلچل، کاربن کا استعمال روکنے سے واپس ہٹنے اور جیو پولیٹیکل تناؤ میں مزید اضافے کی صورت نکلا ہے:
”مئی سے لے کر اب تک تیل، کوئلے اور گیس کی قیمتوں میں اوسطاً 95 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ، کوپ 26 کا میزبان، نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر دوبارہ کھول دیے ہیں، امریکہ میں پٹرول کا گیلن 3 ڈالر تک پہنچ گیا ہے، چین اور بھارت لوڈ شیڈنگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، اور ولادیمیر پیوٹن نے یورپ کو یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ تیل کی سپلائی کے لیے روس پر منحصر ہے۔“
جیسے جیسے منڈی میں ہنگامہ پھیل رہا ہے اور جیو پولیٹیکل تناؤ میں اضافہ آ رہا ہے، تحفظاتی پالیسیاں پہلے سے بڑھ کر تقویت پکڑ رہی ہیں۔ سرمایہ داروں کا ہر قومی ٹولہ اپنی انرجی سکیورٹی کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے، جو ”اپنی“ ہائیڈرو کاربن کمپنیوں کو سبسڈیاں دے کر فاسل فیولز کی سپلائی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ توانائی کے بحران کا سامنا ہوتے ہوئے، چین نے کوئلے کے مزید بجلی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چنانچہ یہ محض سرمایہ کاری بڑھانے کا نہیں، بلکہ تبدیلی کے طریقہ کار کا سوال ہے۔ پورے نظام کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تبدیلی کا عمل کامیاب نہیں ہو سکتا۔
کینشیئن ازم کی واپسی
دنیا کی بڑی قوتیں اب سرمایہ کاری کے اپنے الگ الگ منصوبے اپنا رہی ہیں، جس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے بیان بازی بھی کی جا رہی ہے۔ چینی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ 2030ء تک کاربن کے اخراج کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی، جس کے بعد 2060ء تک وہ صفر کا ہدف حاصل کر لے گی، اور ساتھ بیرونِ ملک کوئلے کے بجلی گھروں میں سرمایہ کاری روکنے کا وعدہ کیا ہے۔ چینی صنعت تضادات کا خاکہ کھینچتی ہے، جو موجودہ دور میں پوری دنیا کے اندر شمسی توانائی پیدا کرنے میں پہلے نمبر پر ہونے کے ساتھ ساتھ آلودگی پھیلانے میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔ پوری دنیا میں کوئلے کی مجموعی کھپت کا 50 فیصد چین کے اندر ہوتا ہے۔ بعض افراد کاربن کا اخراج روکنے کے حوالے سے دیگر بڑی معیشتوں کی نسبت چین سے زیادہ امید کر رہے ہیں، کیونکہ چینی ریاست معاشی معاملات میں بڑی مداخلت کرنے کی اہل ہے۔ تقریباً پچھلی دہائی سے، چینی ریاست نے تاریخ میں سب سے بڑے پیمانے پر کینشیئن اخراجات کا پروگرام اپنایا ہے، جو نجی سرمایہ کاروں کو ایسے احکامات صادر کرتی ہے جس سے منصوبہ بند معیشت کا گمان ہوتا ہے۔ مگر چینی معیشت اب گہرے تضادات کا شکار ہے۔ پوری معیشت میں قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں، جس کے باعث پچھلے سال سے کمپنیوں نے خود کو دیوالیہ قرار دینا شروع کیا ہے۔ مزید برآں، اسے توانائی کی سپلائی کے حوالے سے بڑے مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ توانائی کے شعبے کی ملکیت رکھے بغیر اس میں مداخلت کرنے کی کوششیں ہیں۔
امریکہ کی صورتحال بھی کچھ تسلی بخش نہیں۔ وائٹ ہاؤس نے 2050ء تک کاربن اخراج روکنے کے ہدف پر زور دیا ہے، مگر تیل کی قلت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہوتے ہوئے ’اوپیک‘ سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ میں پچھلے سال کی نسبت کوئلے کے استعمال میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بائیڈن نے اپنے 2.6 کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے کو کانگریس سے منظور کرنے کے لیے اس میں ایک چوتھائی سے زائد کمی کی ہے۔ توقعات کے عین مطابق، سینیٹ میں کلین الیکٹریسیٹی پرفارمینس پروگرام (سی ای پی پی) کو بھی تیل اور کوئلے کے شعبہ جات کے وظیفہ خوار نمائندوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
چین اور امریکہ سمیت برطانیہ اور یورپ میں بھی پالیسیوں کی بنیادی تجاویز کینشین اخراجات پر مبنی ہوتی ہیں، جس میں قابلِ تجدید توانائی کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور فاسل فیولز میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے مالیاتی اسکیمیں شامل ہوتی ہیں۔ مگر جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے؛ فاسل فیولز میں سرمایہ کاری رُک جانے کا مطلب یہ نہیں کہ قابلِ تجدید توانائی میں ہونے والی سرمایہ کاری میں درکار حجم کے مطابق اضافہ ہوگا۔ حالیہ معاشی بحران کے بعد سے سرمایہ دار طبقے کو سستے قرضے اور تاریخ کے سب سے بڑے سٹیمولس پیکجز دیے جا رہے ہیں، مگر نجی شعبوں میں سرمایہ کاری کی شدید قلت اپنی جگہ پر موجود ہے۔
گرین ’نیو‘ ڈیل
بائیں بازو میں گرین نیو ڈیل کے نعرے کو بڑی پذیرائی ملی ہے، مگر یہ اپنی اساس میں ریاست کی جانب سے منڈی کی رہنمائی کرنے تک محدود ہے، اور اس میں اوپر بیان کیے گئے ’حل‘ کے سارے مسائل موجود ہیں۔ برطانیہ میں، ’لیبر فار اے گرین نیو ڈیل‘ کے نام سے لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونینز کے اندر مہم شروع کی گئی ہے۔ ان کے زیادہ تر مطالبات ترقی پسند ہیں؛ ”سرکاری ملکیت کو بڑھانا“، ”توانائی، پانی اور ریلوے کو قومیانا“، ”بہتر اجرتوں پر مبنی روزگار جس میں یونین کی اجازت ہو“، ”ماحول دوست ہاؤسنگ“ وغیرہ۔ ہم ان مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ یہ کاربن کی تجارت کے اجازت نامے اور گرین آسٹیریٹی کے ان روایتی منڈی دوست تجاویز سے کئی گنا بہتر ہیں جو سرمایہ داروں کے حامی پچھلی دہائی کے دوران پیش کرتے رہے ہیں، مگر موجودہ بحران در حقیقت انسانی بقاء کا سوال ہے، ہمیں ضروری نتائج اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔
قومیانے کا مطالبہ مخصوص شعبوں تک محدود ہے، جن کو منڈی کی معیشت کے ساتھ چلانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ مگر سٹیل جیسے دیگر شعبوں کا کیا ہوگا؟ ٹرانسپورٹ کا کیا ہوگا؟ ظاہر ہے ریلوے میں سرمایہ کاری لمبے عرصے سے رُکی ہوئی ہے، مگر گاڑیوں اور ٹرکوں کو تیل کے بغیر چلانے کے بارے میں کیا منصوبہ بندی کی جا رہی ہے؟ کیا تمام سائز کی بیٹریوں کی پیداوار کے حوالے سے کچھ ہو رہا ہے، جس کا قابلِ تجدید توانائی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ہوگا؟ جب تک ہم منڈی کے انتشار اور سرمایہ کاری کے فیصلوں میں سے منافعے کے مقصد کو نہیں روکیں گے، یہ سوالات جواب طلب ہی رہیں گے۔
گرین نیو ڈیل میں بنیادی طور پر کچھ ’نیا‘ نہیں ہے۔ اس کا نام جان بوجھ کر روزویلٹ کے 1930ء کی دہائی والے منصوبے سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مقصد امریکی سرمایہ داری کا تحفظ تھا، اور پرانی ڈیل کی طرح یہ پرانے مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ یہ کینشیئن پالیسیوں کی عمومی محدودیت کا شکار ہے۔ اول تو سرمایہ عالمی معیشت پر پھر بھی غالب رہے گا، اور دوم یہ کہ عالمی معیشت زوال کے عہد میں ہے۔ حکومتی اخراجات سے سرمایہ دارانہ بڑھوتری کا دور نہیں آ سکتا۔ منڈی کا انتشار، متغیر قیمتیں اور مالیاتی سرمائے کے مفادات ریاست پر حاوی رہیں گے، نہ کہ ریاست ان پر۔
حالات کے ساتھ مطابقت
نقصان کو کم سے کم تر کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف نقصان دہ گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس امر کی ضرورت بھی ہے کہ جن شدید ماحولیاتی اثرات کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے مطابق خود کو بھی ڈھالیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا کے بہت سے علاقوں کو نہ رہنے کے قابل بنا رہا ہے۔ انسانیت کو فصلوں کی بربادی اور بڑھتی ہوئی شدید قحط سالی کا سامنا ہے۔ سطحِ سمندر کے ابھار سے چھوٹے جزائر پر مبنی اقوام کو مٹ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ شدید موسمیاتی حادثات کا معمول بن جانے سے انسانی جانوں اور املاک کے لیے جنگلی آگ، سیلاب اور شدید طوفان بڑھتا ہوا خطرہ بن کر سامنے آئے گا۔
جب تک سرمایہ داری باقی رہتی ہے تو اس صورتحال کے انسانیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس سال، مدغاسکر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی فصلوں کی بربادی کی وجہ سے 10 لاکھ افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر سب کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی خوراک موجود ہے، مگر سرمایہ داری کے لیے ماحولیاتی تباہی کے متاثرین میں خوراک تقسیم کرنا منافع بخش نہیں ہے۔ امیر افراد کے لیے اے سی، تازہ پانی اور خوراک میسر ہوگی، حتیٰ کہ کئی علاقوں میں نجی فائر بریگیڈ اور دیگر ہنگامی سروسز بھی، جبکہ عوام کو گرمی، پانی کی قلت اور اور فاقہ کشی برداشت کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ زمین کے بڑے بڑے حصے ناقابلِ رہائش بننے کے باعث دنیا کے غریب ترین افراد ہجرت پر مجبور ہیں، انہیں رہائش مہیا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی۔ سرمایہ دار طبقے کے نزدیک مہاجرین ایک مہرے کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں وہ محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کو آپس میں لڑانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
جیسا کہ سرمایہ دار طبقہ ایسی معیشت کا منصوبہ نہیں بنا سکتا جس میں کاربن کا اخراج صفر ہو، اسی طرح وہ سماج کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوئی منصوبہ بندی کرنے سے بھی قاصر ہے۔۔۔چاہے وہ سیلاب سے بچاؤ کیلئے سرمایہ کاری ہو، سرکاری عمارات اور گھروں میں اے سی کے انتظامات ہوں، یا پھر پانی اور زمین کے استعمال کا معاملہ ہو۔
یہ مسائل نئے نہیں ہیں۔ پوری دنیا کے محنت کش طبقے کو لمبے عرصے سے ان مسائل کا سامنا ہے اور سرمایہ داری نے ان کو حل کرنے کے حوالے سے خود کو نا اہل ثابت کر دیا ہے۔ در حقیقت، یہ ایسے مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے وسائل ہمارے پاس موجود ہیں، مگر سرمایہ داری رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ان مسائل کو مزید گہرا کر دے گی جو سرمایہ داری کے تحت محنت کش طبقے کو درپیش ہیں۔ اسی لیے، واحد حل سوشلسٹ نوعیت کا ہو سکتا ہے۔
سوشلسٹ حل کی جانب بڑھو!
پانی اور خوراک کی عالمی افراط کی بنیاد پر ہم ان علاقوں میں تقسیم کا منصوبہ بنا سکتے ہیں جہاں ضرورت ہو، مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے پاس ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت کی بنیاد پر پیداوار کا منصوبہ ہو۔ بڑی بڑی زرعی کمپنیوں کو سرکاری ملکیت میں لے کر انہیں محنت کشوں کے کنٹرول میں دینا پڑے گا۔ یہ کوئی خیالی پلاؤ نہیں بلکہ انتہائی حقیقی اور انتہائی ضروری ممکنات میں سے ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں اناج کی 25 فیصد بر آمدات کارگل کارپوریشن کرتا ہے، جس میں 60 ممالک سے زائد کے اندر 1 لاکھ 66 ہزار محنت کش کام کرتے ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی زرعی کمپنی ہے، جس کی 90 فیصد ملکیت ایک شخص کے ہاتھوں میں ہے۔ اس جیسی کمپنیوں پر فوری قبضہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک شخص کی مقدس ملکیت کا مطلب کروڑوں زندگیوں کی بربادی ہوتی ہے۔
آج زرعی کمپنیوں کے عالمی نیٹ ورک کو اگر محنت کشوں کے کنٹرول میں لیا جائے تو تمام انسانوں کی زرعی ضروریات کو پورا کرنا ممکن ہوگا، جبکہ دنیا کے جنگلات کو دوبارہ بحال کیا جا سکے گا اور حشرات کی آبادی کو تحفظ فراہم کیا جا سکے گا۔ شپنگ کے شعبے میں اجارہ داری نے اس شعبے کو بھی محنت کشوں کے کنٹرول میں لینے کے لیے تیار کر دیا ہے۔ 2000ء اور 2018ء کے درمیان، 10 بڑی کنٹینر کمپنیوں نے اپنے منڈی کے شیئرز کو 12 سے بڑھا کر 82 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔ گرین نیو ڈیل کے تحت پیش کیے جانے والے خیالات میں اس قسم کے تناظر کا فقدان ہے، اور نتیجتاً اس کے مطالبات موجودہ بحران کو حل کرنے سے قاصر ہے۔
ماحولیاتی بحران اور کرونا وباء نے پیداوار کے بین الاقوامی منصوبے کی ضرورت کو مکمل طور پر واضح کر دیا ہے۔ ہمیں بڑی اجارہ داریوں اور صنعتوں کو محنت کشوں کے قبضے میں لینے کا مطالبہ لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اس سے بہتر موقع پہلے کبھی میسر نہیں آیا۔ مگر بائیں بازو کی اصلاح پسندی اس موقع کو ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی، کیونکہ وہ حکمران طبقے کی طرح سرمایہ داری کے دائرے سے باہر نہیں سوچ سکتے۔ بہ الفاظِ دیگر، ماحولیاتی بحران کے خاتمے کی راہ میں جو رکاوٹ حائل ہے، وہ تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کی ہے۔ اس رکاوٹ کو ہٹانے کی اہل واحد سماجی قوت منظم محنت کش طبقہ ہے، اور وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اس لیے جتنا جلدی ممکن ہو محنت کشوں کی تحریک کو درست نظریات سے مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔ اصلاح پسند سراب، جو بائیں بازو کی جانب سے بھی پیش کیا جاتا ہے، محض بند گلی کی طرف نکلتا ہے، جو وقت ضائع کرنے کا سبب بنے گا۔ 1938ء میں لیون ٹراٹسکی نے مندرجہ ذیل الفاظ رقم کیے تھے:
”سوشلسٹ انقلاب کے بغیر آنے والا تاریخی دور پوری انسانی ثقافت کو بربادی کے خطرے سے دوچار کرے گا۔ پرولتاریہ کے اٹھنے کا وقت آ چکا ہے۔۔۔انسانیت کا تاریخی بحران انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔“
ماضی کے حوالے سے یہ بات سچ ثابت ہوئی، جب دوسری عالمی جنگ کی بربادی کی صورت میں ظالمانہ سامراجی قتلِ عام کیا گیا۔ آج کے دور میں یہ الفاظ ماحولیاتی بربادی کا سامنا ہوتے ہوئے سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ اپنے وسائل کو لوگوں اور سیارے کی ضروریات کے مطابق منظم کرنے کے لیے ہمیں پیداوار اور تقسیم کے جمہوری منصوبے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہمارا فریضہ ان انقلابی واقعات کے لیے خود کو تیار کرنا ہے جو دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں؛ یعنی اقتدار پر محنت کش طبقے کے قبضے کے لیے خود کو تیار کرنا۔ صرف اسی صورت ہم اپنے اگلے بڑے فریضے کی تکمیل کو ممکن بنا سکیں گے؛ انسانیت کو باقی فطری دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا فریضہ۔