رپورٹ: |گل زادہ صافی|
جی ٹی روڈ پر کامونکی کے نزدیک چیانوالی میں واقع ماسٹر ٹائل فیکٹری کے کرشنگ یونٹ میں کام کرنے والا ایک اور مزدور چل بسا۔ ہلاک مزدورں کی تعداد9 ہوگئی۔ کئی بستر مرگ پر پڑے موت کا انتظار کر رہے ہیں۔فیکٹری مالک کی جانب سے مالی امداد تو درکنار بیمار پرسی کے لئے بھی کوئی نہیں آتا۔
جی ٹی روڈ پر چیانوالی کے قریب واقع ماسٹر ٹائیل فیکٹری کے اسٹون کرشنگ یونٹ میں تین سال سے کام کرنے والا منڈیالہ وڑائچ کا 25 سالہ بلال سرور سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوکر گزشتہ روز گلاب دیوی ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ جس سے کامونکی اور اسکے گردونواح میں اس فیکٹری کے اسٹون کرشنگ یونٹ میں کام کرتے ہوے سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہونے والے مزدورں کی تعداد 9 ہوگئی۔ یاد رہے اس سے قبل بلال سرور کا بھائی سخاوت اورچچا انور اسکے علاوہ چھجوکی کا خالد، چنڈالی کا مقصود اور ٹبہ محمد نگر کا بشیر بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اب بھی مختلف ہسپتالوں میں بے یار ومددگار موت کے انتظار میں پڑے محنت کشوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ اتنے سنگین نوعیت کے واقعات ہونے کے باوجود فیکٹری میں محنت کشوں کی سانس کی بیماریوں سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور وہاں کام کرنے والے مزدور مسلسل موت کی جانب تیزی سے سفر کر رہے ہیں۔ اس فیکٹری کا منافع اربوں روپے میں ہے اور مالکان ہر سال نئی فیکٹریاں لگا رہے ہیں اور پراپرٹی کے نام پر بھی لوٹ مار جاری ہے۔ لیکن یہ سب مزدوروں کے خون سے ہولی کھیل کر کیا جا رہا ہے اور ان کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
فیکٹری مالک نے کرشنگ یونٹ میں ملازمین کو براہ راست رکھنے کی بجائے ٹھیکیدار کے ذریعہ سے بھرتی کیا ہوا ہے۔ جسکے باعث ان محنت کشوں کا نہ تو فیکٹری میں کوئی ریکارڈ اور نہ ہی سوشل سیکیورٹی میں رجسٹریشن موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیکٹری مالک سرے سے انہیں اپنا ملازم ہی نہیں مانتا اور نہ ہی ان کی کوئی امداد کرنے کو تیار ہے۔ لواحقین کے مطابق فیکٹری مزدورں کی جان محفوظ بنانے کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا اور مالک سوشل سیکورٹی اور دیگر چیک اینڈ بیلنس سے بچنے کے لئے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ملازمین کی اکثریت کو ٹھیکیداروں کے ذریعہ سے ہی بھرتی کرتاہے۔
ایک سال قبل فیکٹری کے مزدوروں نے تمام مشکلات عبور کرتے ہوئے یونین رجسٹر کروا لی تھی جس کی پاداش میں مالک نے سینکڑوں مزدوروں کو جبری برطرف کر دیا۔ اس کے بعد ایک ہفتے تک تمام مزدوروں نے ہڑتال کر کے فیکٹری بند کر دی۔ اس وقت پولیس اور ریاستی مشینری کے جبر کے ذریعے محنت کشوں کو دبانے کی کوشش کی گئی لیکن مزدور ڈٹے رہے۔ اس وقت مالک نے جھوٹی قسمیں کھائی اور جھوٹے وعدے کر کے مزدوروں کو تمام مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن اس کے بعد انتقامی کاروائیاں کرتے ہوئے نہ صرف لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے یونین کی رجسٹریشن ختم کروائی گئی بلکہ بہت سے محنت کشوں کو ایک ایک کر کے نکال دیا گیا۔ اگر مزدوروں کے پاس یونین کا حق ہوتا تو نہ صرف اجرتوں میں خاطر خواہ اضافہ کروایا جا سکتا تھا بلکہ اس مجرمانہ غفلت پر بھی انتظامیہ کو جواب دیا جا سکتا تھا۔
لیکن محنت کشوں کی ہلاکتوں پر کوئی سیاسی پارٹی اور ریاستی اہلکار نوٹس نہیں لے رہا اور سب اپنی دولت اور بدعنوانی کے نشے میں دھت ہیں۔ ایسے میں محنت کشوں کے لیے ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ وہ ان مظالم کیخلاف متحد ہو کر ان ظالم سرمایہ داروں کیخلاف فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز کریں۔