رپورٹ: (بی ایس او، بلیدہ زون)
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بلیدہ زون کی جانب سے بی ایس او کے سرگرم کارکن شہید حاصل رند کی یاد میں سُلو بلیدہ میں بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر ظریف رند کی زیر صدارت تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں نوجوانوں اور بزرگ سیاسی و سماجی کارکنوں نے سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی اور شہید حاصل رند کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اجلاس کے مہمانِ خاص شہید ایوب بلیدی انٹر کالج کے پرنسپل واجہ ظہیر احمد صاحب تھے جبکہ اعزازی مہمان بی ایس او کے نوجوان ظریف زدگ، وسیم جلال، عبداللہ بلوچ، ثناءاللہ بلوچ، سپورٹس کمیٹی کے رکن عامر اسلم اور شہید حاصل کے بھائی خلیل رند نے خصوصی طور پر شرکت کی اور خطاب کیا جبکہ بلیدہ زون کے آرگنائزر ظفر رند نے سٹیج سیکٹری کے فرائض سرانجام دیئے۔
مقررین کا کہنا تھا شہید حاصل رند بالخصوص علاقے اور عمومی طور پر قوم کے روشن چراغ تھے۔ اُن کی جدوجہد نوجوانوں کو روشن مستقبل کا راستہ دکھانا اور انہیں متحد کر کہ امن و محبت پھیلانا تھا جبکہ امن دشمن اور سماج دشمن درندہ صفت بدکاروں سے روشنی کا یہ چراغ برداشت نہیں ہوا اور انہوں نے بزدلی سے وار کرکہ انکی جان لے لی یہ سوچ کرکہ حاصل رند گمنام ہوں گے مگر آج کا یہ شاندار پروگرام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ حاصل جیسے چراغ اس طرح سفاکی سے بجھائے نہیں بھجتے بلکہ یہ چنگاری ہوتے ہیں روشن کل کی اور تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ دہائیوں بعد جو علاقے کا سیاسی جمود ٹوٹا ہے یہ شہید حاصل رند کی لازوال قربانی کا نتیجہ ہے اور بی ایس او کے علمی و شعوری پروگرام کی بدولت ہے جو موجودہ تاریکیوں میں سے روشن سویرے کی نوید لے آئی ہے اور یہی نئے عہد کی غماز ہے۔
پروگرام کے مہمانِ خاص پرنسپل ظہیر صاحب کا کہنا تھا کہ شہید حاصل رند ہمیشہ مسکراتے چہرہ کے ساتھ سماج میں مُسکراہٹ پھیلانے والا نوجوان تھا اور اُس کی فکر بہتر سماج کی تعمیر کی تھی۔ یہاں کے موجودہ حکمران علاقائی مسائل سے خود کو بری ذمہ گردان چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سہولیات کا شدید فقدان ہے اور کالج کی بس بغیر پیٹرول کے کھڑی ہے جبکہ طلبا و طالبات ٹرانسپورٹ کی سہولت نا ہونے کی وجہ سے مزید مایوس ہو رہے ہیں مگر حکام بالا کسی بھی مسئلے پر کان نہیں دھر رہے اس لئے علاقے کے نوجوانوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہید حاصل کے مشن کو آگے لے کر چلیں اور سماجی مسائل پر منظم جدوجہد کریں، یہی کام شہید حاصل کیلئے بہترین خراج تحسین ہوگا۔
آخر میں اجلاس کے صاحبِ صدر بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر ظریف رند نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے بیمار سماج میں جی رہے ہیں جس میں جہاں زندہ رہنا عذاب ہے وہیں آسان موت بھی محال ہے۔ ہر چہرے پر مایوسی اور افسردگی ہے اور ہر گھر روز معاشی موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ گو کہ شہید حاصل شرپسندوں کی گولی کا نشانہ بنے مگر اُن کا قتل غیر نظریاتی اور غلط حکمت عملی پر مبنی سیاسی حالات کا پیداوار ہے جس کا آئے روز نوجوان شکار ہو رہے ہیں اور گھر ویران ہو رہے ہیں جبکہ نوجوان نسل مایوسی اور بے حسی کا شکار ہوئے یا تو اپنی باری کا خاموشی سے انتظار کر رہے ہیں یا پھر منشیات و انتہاپسندی جیسے مہلک رجحانات کا رُخ کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اپنی تاریخی زمہ داری کا احساس کریں اور قدم اُٹھائیں ان کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے کی اور درست سمت کا تعین کرکہ جدوجہد کا آغاز کریں کیونکہ جلد یا بہ دیر قدم اُٹھانا ناگزیر ہے مگر جتنی دیری سے میدان میں اتریں گے اُتنا سماج تاراج ہوگا۔ حاصل رند کے قتل کا بدلہ بندوق اور گولی نہیں بلکہ امن اور برابری کی بنیاد پر قائم انسانی سماج کی تعمیر ہے جس کی تکمیل تک ہم ہر مشکل اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں اور کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے۔
اجلاس کے دوران محمد علی بلوچ، سدھیر صالح بلوچ اور قادر بخش بلوچ نے شہید حاصل کے نام لکھے گئیں اپنی خوبصورت نظمیں پڑھیں جبکہ اجلاس کے اختتام پر تمام شرکا شہید حاصل رند کی آخری آرام گاہ پر گئے اور بی ایس او کا پرچم اُن کی قبر پر چڑھایا گیا۔