|تحریر: کریم پرہر|
سرمایہ داری کے اندر یا اس سے پہلے کے گذشتہ نظاموں (غلام داری اور جاگیرداری) کے اندر اگر ہم عورت کے کردار پر نظر ڈالیں تو وہ ہمیشہ سے غلاموں کی غلام بن کر جی رہی ہے۔ قدیم اشتراکی سماج کے علاوہ ہر معاشرے کے اندر عورت کا جو مقام ہے وہ ایک جنس کی مانند ہے۔ یعنی کہ عام روایات یا معاشرے کا اگر بغور تجزیہ کریں تو عورت کسی نہ کسی شکل میں غلام اور جنس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور سرمایہ داری سے پہلے اور موجودہ دور میں عورت کے کردار اورحیثیت پر آسمانی سٹیمپ لگا کر یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ عورت کا کردار روزِاول سے ایسے ہی ہے جو کہ اب وجود رکھتا ہے۔ اور اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں کہ ایک وقت یعنی قدیم اشتراکیت میں عورت کا کردار اور حیثیت مرد سے کم نہیں بلکہ زیادہ تھی۔ اور تاریخ کو آگے لے جانے میں جتنا مرد کا کردار رہا ہے بالکل عورت بھی اُتنی ہی اُس عمل کو آگے لے جانے کی ذمہ دارہے۔ غلام داری اور جاگیرداری نے عورت کو جو زنجیر پہنائی تھی اُن زنجیروں کو سرمایہ داری نے مزید پختہ کر دیا۔ یہاں ایک امر قابلِ ذکر ہے کہ طبقاتی معاشرے میں اکثریت اُن محنت کش خواتین کی ہوتی ہے جنکے مسائل سماج کو دوسرے بالا دست طبقوں کے خواتین سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مختلف تقریبات میں بالا دست طبقات سے تعلق رکھنے والی خواتین، جنکی اکثریت فیشن، ڈیزائننگ، کاسمیٹکس اور دوسرے غیر ضروری معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے، ہی خواتین کے مسائل پر بات کرتی نظر آتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی خواتین سماج میں اکثریتی محنت کش خواتین کو درپیش مسائل پر کیسے بحث کر سکتی ہیں جبکہ انہیں خواتین کے حقیقی مسائل سے قطعاً کوئی آگاہی نہیں ہے!
پسماندہ ممالک میں خواتین کی صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں پر زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں خواتین کے حوالے سے یہ معیار قائم کیا گیا ہے کہ عورت چاہے خواندہ ہو یا ناخواندہ مگر وہ خود غرض نہ ہو، خاموش ہو، برداشت کرنے والی ہو، قابلِ بھروسہ ہو، سمجھوتہ کرنے والی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے مزدور کی طرح گھر کی دیکھ بال کرنے والی بھی ہو۔ جس معاشرے میں عورت کو ایک انسان کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہو وہاں اگر عورت کوئی بھی کردار ادا کرنے کے لیے میدانِ عمل میں آتی ہے تو سماج میں اسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کے کردار کو رد کر کے انہیں زر خرید غلام بنایا جاتا ہے۔
پاکستان میں عورت کے حالاتِ زندگی اور سماجی رویئے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اگر ہم تعلیم کے حوالے سے بات کریں تو گیلپ سروے کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ مرد اور عورت کا معاشرے میں کردار الگ الگ ہے۔ سروے میں 63 فیصد لوگوں نے ا س بات سے اتفاق کیا کہ عورت سے زیادہ مرد کے لیے تعلیم ضروری ہے اور یہ شرح دیہات میں 67 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 53 فیصد تھی۔ جبکہ 37 فیصد کی رائے اسکے برعکس تھی۔ ان سب چیزوں کے پیش نظر پاکستان میں خواتین کی شرحِ خواندگی مردوں کے شرحِ خواندگی، 69.5 فیصد، کے مقابلے میں 45.8 فیصد ہے اور بلوچستان میں پاکستان کے علاوہ پوری دُنیا میں سب سے کم 27 فیصد ہے۔ جس سے بلوچستان کی حکومت کی نام نہاد تعلیمی ایمرجنسی عیاں ہوتی ہے۔ بلوچستان بھر میں لڑکیوں کے لیے کُل 22 انٹر کالجز اور13 ڈگری کالجز ہیں۔ دیہی علاقوں میں آباد خواتین کل آبادی کا 26 فیصد ہیں جبکہ یہاں شرحِ خواندگی محض2 فیصد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں کالجز میں فیمیل لیکچرارز نہیں ہیں جسکی وجہ سے مرد لیکچرار سیکنڈ ٹائم پڑھاتے ہیں جو کہ لڑکیوں کے لیے موجودہ سماج میں تعلیم سے کنارہ کشی میں اہم پہلو کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسکے علاوہ ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا بھی اس شرح کو مزید گرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ پورے صوبے میں لڑکیوں کے لیے ایک ہی یونیورسٹی ہے جسکی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ معاشرے کے کسی عام محنت کش کے لیے یہ فیسیں ادا کرنا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ یونیسکو کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 72لاکھ 60ہزار سے زائد بچے سکول نہیں جاتے جس میں 58 فیصد لڑکیاں ہے جسکی شرح بلوچستان میں 66 فیصد ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ہمیشہ لڑکوں کی تعلیم کے بعد سوچا جاتا ہے جسکی واضح مثال یونیسکو ہی کے رپورٹ میں ہے کہ کم آمدنی والے خاندانوں سے 22.3 فیصد لڑکیوں نے کبھی سکول دیکھا ہی نہیں ہے جبکہ اِنہی خاندانوں کی طرف سے 66.1 فیصد لڑکے سکول سے فارغ ہو جاتے ہیں اور یہ رجحان دیہی علاقوں میں بہت عام ہے جہاں پر لڑکیوں کو تعلیم کے متبادل گھریلو کام اور کم عمری کی شادی تحفے میں دی جاتی ہے۔
روزگار کے حوالے سے اگر پاکستان کے اندر خواتین کے حصہ داری پر نظر ڈالی جائے تو پاکستان کی آبادی کی دو تہائی جو کہ دیہاتوں میں رہتی ہے، وہاں خواتین محنت کے ہر شعبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ دستکاری اور زراعت میں اُن کا اہم کردار ہوتا ہے۔ مگر ان کے اس کردار کے باوجود معاشرتی روایات کی خاطر ان کو کبھی وہ سماجی حیثیت نہیں دی جاتی جس کی وہ حق دار ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عورت کا پاکستانی معیشت میں اہم کردار ہے اور وقت کے ساتھ ان کے اس شاندار کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 1991-92ء کے ’’لیبر فورس سروے‘‘کے مطابق 10 سال اور اس سے بڑی عمر کی خواتین کا لیبر فورس میں 16 فیصد حصہ تھا، جبکہ ’’ورلڈ بینک‘‘ کی 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ حصہ بڑھ کر اب 22.3 فیصد ہو چکا ہے۔ مگر حیران کن بات یہ ہے کہ صرف 2فیصد خواتین باقاعدہ روزگار کا حصہ ہیں۔ 2008ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 4کروڑ 70لاکھ باروزگارافراد میں خواتین کا حصہ صرف 90لاکھ ہے، جس کا 70 فیصد زراعت سے وابستہ ہے۔ زراعت سے وابستہ ان خواتین کو دیہاتوں میں انتہائی کم اُجرتوں اور نامساعد حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ بلوچستان میں بر سر روزگار خواتین کی شرح 4.3 فیصد ہے جن کی اکثریت این جی اوز اور دوسرے پرا ئیویٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے میدانی علاقوں میں زراعت سے منسلک ہے۔ خواتین کا جس بھی شعبے سے تعلق ہو وہاں وہ شدید استحصال کا شکار ہیں جہاں ان سے حد سے زائد کام لیا جاتا ہے، مردوں کی نسبت کم اُجرتیں دی جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہیں جنسی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑ تا ہے۔
پاکستان پالیسی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حفظانِ صحت کے اصول نہ ہونے کے برابر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا صحت عامہ کا شعبہ جنوبی ایشیا میں کمزور ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ صحت کی سہولیات کی اس ناپیدگی سے پورے سماج کو خطرہ ہوتا ہے مگر ایک مرتبہ پھر خواتین سب سے پہلے اس کے نشانے پر آتی ہیں۔ یونیسیف کی 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 70لاکھ خواتین کی صحت صرف اور صرف غذائی قلت اور صاف پانی کے میسر نہ ہونے کیوجہ سے جواب دے چکی ہے، اسکے ساتھ ساتھ 7 فیصد خواتین کے دورانِ حمل ’ایچ آئی وی‘ کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ سالانہ 30 ہزار خواتین اس مہلک مرض سے دورانِ زچگی مر جاتی ہیں، چھاتی کے سرطان کے حوالے سے پاکستان کا نمبر ایشیا میں سب سے آگے ہے اور سالانہ 40 ہزار خواتین اس مرض سے مر جاتی ہیں۔ ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کے رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے پاکستان دنیا بھر کے 178 ممالک میں 149 ویں نمبر پر آتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے مطابق 47فیصد دیہی اور 17 فیصد شہری خواتین کو صحت عامہ کی سہولیات کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔
بلوچستان میں زچگی کے دوران مرنے والی خواتین کی تعداد ایک لاکھ میں ایک ہزار کے لگ بھگ ہے جو کہ ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں زچگی کے دوران خواتین کی شرحِ اموات سب سے زیادہ ہے جس کی بنیادی وجہ دور دراز علاقوں میں ہسپتال یا بنیادی مراکز صحت کا نہ ہونا شامل ہے۔ خواتین کی 49 فیصد تعداد خون کی کمی کا شکار ہیں۔ اسی طرح یونیسیف کی 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 5سال سے کم عمر بچوں میں شرحِ اموات 13فیصد ہے۔
اِن مسائل کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں، گھریلو تشدد، تیزابی حملے، اغوا کاری، خودکشیاں اور سب سے سنگین مسئلہ غیرت کے نام پر قتل کا ہے۔ اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے نام نہاد سے بلز پاس ہوتے ہیں مگر وہ بھی حکمران طبقے کی ضد اور انا پرستی کا شاخسانہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان کا خواتین کے حالات کے حوالے سے 144 ممالک میں 143 واں نمبر ہے جو کہ یہاں پر خواتین کی زندگی کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ یہاں خواتین کے حقوق پر ملائیت اور سرمایہ دارانہ لبرل ازم کے مابین ایک لڑائی کے طور پیش کیا جاتا ہے، جس سے خواتین کی حالت زار تو خیر کیا بہتر ہونی، حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ ہی ہوتا ہے۔
اب خواتین کو حکمران طبقے کی عیاری کو پہچاننا ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ عورت روز اول سے محکوم و مظلوم چلی آرہی ہے بلکہ تاریخ میں محنت کش طبقے کی خواتین نے شاندار جدوجہد کی مثالیں قائم کی ہیں جن میں فرانسیسی انقلاب، برطانیہ کی مزدور تحریک کے شروعات میں خواتین کا کردار اور سب سے بڑھ کر روس کے ’اکتوبر انقلاب‘ میں پرولتاری خواتین کا کردار اور قربانی قابلِ ذکر ہے۔ آج بھی محنت کش خواتین سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ لڑائی تبھی آگے بڑھ سکتی ہے جب خواتین محنت کش مرد محنت کشوں کے شانہ بشانہ اس جدوجہد میں شامل ہوں۔ جو لوگ خواتین محنت کشوں کو سیاسی شعور سے عاری سمجھتے ہیں انہیں مختلف اداروں کی تحریکوں کا بغور تجزیہ کرنا چاہئے۔ یا پوری دنیا میں ابھرنے والی تحریکوں میں اس مظہر کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے جہاں سیاسی میدان میں خواتین بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔
آج کی ضرورت ایک طبقاتی جنگ میں صف آرا ہونے کی ہے جس کے ذریعے عورت سماجی، اخلاقی، معاشی اور تاریخی بندھن توڑ کر حقیقی آزادی حاصل کر سکتی ہے۔ خواتین کی شمولیت اور فعال کردار کے بغیر کوئی انقلابی پارٹی یا تحریک مکمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی متحرک کردار ادا کرسکتی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد سے منسلک کیا جائے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کا راستہ ہموار کیا جائے۔