|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
کارل مارکس نے سرمایہ داری نظام کا حتمی تجزیہ کرتے ہوئے اس کا حل اس نعرے میں دیا تھا کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ! سرمایہ دارانہ نظام نجی ملکیت پر مبنی ایک استحصالی نظام ہے جو پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے اور اس کے مقابلے اور خاتمے کے لیے بھی پوری دنیا کے محنت کشوں کو ایک ہو کر لڑنا ہو گا! اس ظالمانہ نظام میں سرمایہ دار تمام پیداواری نظام پر اپنا مکمل قبضہ چاہتے ہیں تا کہ محنت کشوں کی محنت سے پیدا ہونے والی پیداوار سے زیادہ سے زیادہ منافع کما کر اپنے ذاتی سرمائے میں اضافہ کر سکیں اور یہ صرف پیداواری ذرائع پر ملکیت حاصل کر کے اور محنت کشوں کا زیادہ سے زیادہ استحصال کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ جس کیلئے وہ مزدور اتحاد اور مزاحمت سے ڈرتے ہوئے انہیں ہر صورت تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ مختلف طریقہ کار، حربے اور حیلے بہانے استعمال کرتے ہیں۔ مذہبی تقسیم، فرقہ واریت، اونچ نیچ، قومی، ملکی، علاقائی، رنگ و نسل، زبان اور کبھی ادارہ جاتی، شعبہ جاتی اور صنفی امتیاز تک ہر ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ حتمی طور پر اجتماعیت کی بجائے انفرادیت پر زور دیا جاتا ہے۔ اجتماعی ملکیت کے مقابلے میں ذاتی ملکیت کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ محنت کے راج کی جگہ سرمائے کا راج قائم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے تا کہ مزدور راج کی جگہ سرمایہ داری راج قائم رہے۔
محنت کش طبقہ بھی یہ سب کچھ اتنی آسانی سے برداشت نہیں کرتا بلکہ مستقل طور پر اس ظلم اور استحصال کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت جاری رکھتا ہے۔ اس مزاحمت کو روکنے کے لیے اس پر بد ترین جبر و تشدد کیا جاتاہے۔ جس سے مزاحمت کمزور ہونے کی بجائے اور تیز ہوتی جاتی ہے اور مزدور تحریک میں اتار اور چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ لیکن یہ مزاحمت لگاتار جاری رہتی ہے اور اس میں ہمیشہ مزدور طبقے کا مقابلہ سرمایہ دار اور حکمران طبقے سے جاری رہتا ہے۔
مزدور اتحاد اور مزدور مزاحمت
دوسرے عوامی اداروں کی مزاحمت کی طرف دیکھا جائے تو محکمہ صحت کے اندر نوجوان ڈاکٹرز کی تحریک صرف ینگ ڈاکٹرز اتحاد سے آگے بڑھ کر گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب اور پھر جی ایچ اے پاکستان بنا کر ایم ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے ہونے والی نجکاری کے خلاف جدوجہد آگے بڑھی۔ اسی طرح ریلوے کی نجکاری کے خلاف آل پاکستان ٹریڈ یونین گرینڈ الائنس کی صورت میں اتحاد بنا کر مزاحمت جاری ہے۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل کے اندر مختلف یونینز نے اکٹھے ہو کر پندرہ سال بعد ریفرنڈم جیتا ہے۔ ایک اتحاد کلرکوں، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور ٹیچرز نے اگیگا کے نام سے تشکیل دیا تا کہ مل کر مزدور دشمن اقدامات کا مقابلہ کیا جا سکے اور ظالم حکمرانوں سے ڈسپیریٹی الاؤنس کسی حد تک حاصل کیا۔ جب نجکاری کا حملہ اور دوسرے مزدور دشمن اقدامات کسی ایک شعبے یا ادارے تک محدود نہیں ہیں تو پھر علیحدہ علیحدہ لڑنے سے مزدوروں کی وحدت اور طاقت کمزور پڑ جاتی ہے اور حکمرانوں کو جیتنے کا موقع ملتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دھرنے کی محدود سیاست سے آگے بڑھتے ہوئے ملکی سطح پر تمام اداروں کے مزدور مل کر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال دیں جس میں تمام ورکرز اپنا ہاتھ روک کر اس نظام کو جام کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں اور اس میں نجی صنعتوں کے ورکرز، چھوٹے کسانوں، طلبہ اور بے روزگار نوجوانوں، سب کو شامل کیا جائے تا کہ سرمایہ دارانہ ظلم و جبر کا مل کر مقابلہ کرتے ہوئے مزدور اتحاد سے مزدور راج کی طرف بڑھا جا سکے!
دوسرے ممالک میں ملک گیر ہڑتال
سرمایہ دارانہ نظام کے زوال اور اس کے متروک ہونے کے سبب پوری دنیا میں اس کے خلاف احتجاجی تحریکیں جاری ہیں اور کئی ممالک میں ملک گیر ہڑتال کرکے آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے خلاف بند باندھے گئے ہیں جن میں فرانس، بھارت، برازیل، اٹلی اور کئی دوسرے ممالک شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی اب ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ناگزیر ہو چکا ہے جس کے لیے ملکی سطح پر اتحاد کی اشد ضرورت ہے جو شعبہ جاتی و ادارہ جاتی تقسیم اور ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ہی کیا جا سکتا ہے!
مزدور اتحاد بمقابلہ کمپنی وائز ریفرنڈم
حکمرانوں کو جب بھی مزدور اتحاد کے ساتھ مزاحمت زندہ ہوتی نظر آتی ہے تو ان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں اور وہ مزدور اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ حملے کرنے کے لیے اپنے مختلف حربے استعمال کر نا شروع کر دیتے ہیں جس میں خود ساختہ اور قبضہ گروپ قیادت ان کا پہلا ہتھیار ہوتا ہے جسے وہ محنت کش طبقہ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس عمل کی ایک واضح مثال واپڈا جیسے ایک بڑے ادارے کی کمپنی وائز تقسیم اور اسی بنیاد پر کمپنی وائز ریفرنڈم ہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ دوسرے عوامی اداروں کی نجکاری کے عمل کو آسان بنانے کے لیے بھی ان کی تقسیم پہلا قدم ہے جس میں ریلوے، پی آئی اے، سوئی گیس اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ واپڈا جیسے ایک بڑے ادارے کو اکٹھا بیچنا مشکل ہے۔ ملکی سطح پر مزدور اتحاد سے ایک بڑی مزاحمت کا خوف بھی موجود ہے اور اس بات کا خوف بھی دن بدن بڑھتا جا رہاہے کہ واپڈا جیسا ایک بڑا ادارہ اگر دوسرے عوامی اداروں کے ورکرز کے ساتھ مل کر ایک نجکاری مخالف الائنس بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو نجکاری کے خاتمے سمیت اس لوٹ مار کے نظام کا خاتمہ یقینی ہے۔ اس لیے حکومت سب سے پہلے واپڈا جیسے بڑے ادارے کے ورکرز کے اتحاد کو توڑ رہی ہے، جس کیلئے کمپنی وائز ریفرنڈم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جس میں عدالت کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ واپڈاکا بجلی کی ترسیل کا اپنا نظام آپس میں جڑاہوا ہے جسے ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ جنریشن مختلف جگہوں پر ہوتی ہے اور پھر پورے ملک میں اس کی ترسیل ٹرانسمیشن لائنز اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس کو آپ اس مثال سے زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ جنریشن سسٹم میں تھوڑی سی خرابی سے پورے ملک میں بریک ڈاؤن ہو گیا تھا اور پورے آٹھ گھنٹے کے بعد بجلی بحال ہو سکی تھی کیونکہ تمام سسٹم آپس میں جڑا ہوا ہے۔ اب اسے مستقل بنیادوں پر تکنیکی بنیادوں پر علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت اندرونی اور بیرونی سرمایہ دار للچائی ہوئی نظروں سے دوسرے عوامی اداروں کی طرح واپڈا کو بھی اپنی لوٹ مار، عیاشی اور منافع کی غرض سے دیکھ رہے ہیں جس کے لیے ہر طرح کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جس میں میڈیا کے ساتھ ساتھ پیغام یونین کی قیادت بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ دن رات کمپنی کی بنیاد پر ریفرنڈم کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور ہر مسئلے کا حل ایک کمپنی میں جیت کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ ابھی دس فروری کو ملک گیر سطح کے اتحاد اگیگا کے اکٹھ کی طاقت سے جو حاصلات ہوئی ہیں، اُنہیں وہ اپنی جیت بتاتے تھکتے نہیں ہیں۔ اسی وقت اُلٹی کلا بازی کھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ واپڈا میں کمپنی وائز ریفرنڈم ہونا چاہئیے جو کہ سیدھا سیدھا مزدوروں کے اتحاد کا خاتمہ ہے۔ کمپنی وائز ریفرنڈم کا جو دوسرا بہانہ وہ بناتے ہیں وہ واپڈا کی کمپنیوں میں تقسیم ہے اور اس میں ہائیڈرو کی مرکزی قیادت پر، درست طور پر، یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے خود یہ کمپنیاں بنوائی ہیں۔ جس کو جواز بنا کر پیغام خود کمپنی وائز ریفرنڈم کی حمایت کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب گردانتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ نعرہ بھی لگاتے ہیں کہ”کمپنیوں کو تحلیل کرو، واپڈا کو بحال کرو“، جو کہ سیدھا سیدھا تضاد ہے اور مفاد پرستی کی آخری انتہا ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پیغام یونین ایک کٹھ پُتلی کا کردا نبھا رہی ہے اور مزدور دشمن قوتوں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے اور تمام مسائل کا موجب ایک شخص کو قرار دیتے ہوئے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مزدور طبقہ کی جدوجہد کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیغام یونین کی طرف سے ہائیڈرو کی قیادت پر لگائے گئے الزامات بھی غلط نہیں ہیں، جن میں واپڈا کی کمپنیوں میں تقسیم کے عمل اور ماضی میں ہونے والی نجکاری کی سہولت کاری شامل ہیں۔ لیکن یہاں اہم نقطہ یہ ہے کہ ہائیڈرو یونین کی قیادت نے جو کمپنیوں میں تقسیم کی سہولت کاری کی، اس کی حمایت کا اعلان پیغام یونین کمپنی وائز ریفرینڈم کا مطالبہ کرتے ہوئے کر رہی ہے اور نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانے میں ہائیڈرو سے کہیں زیادہ جوش و جذبے سے کام کر رہی ہے۔ دوسری طرف آل پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک ورکرز یونین ہے جس کا ایک شاندار ماضی ہے۔ 1968ء کے آخر اور 1969ء کے اوائل میں اس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے خلاف ملک گیر جدوجہد میں ہائیڈرو کا مرکزی کردار تھا جب بابا بختیار نے وقت کے ڈکٹیٹر کو للکارا تھا اور واپڈا ورکرز نے آرمی ہاؤس، ایوان صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس کی بجلی بند کر کے اس ڈکٹیٹر کو استعفٰی دے کر گھر جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن موجودہ حالات میں پاکستان کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین، ہائیڈرو یونین کی قیادت کی طرف سے کمپنی وائز ریفرینڈم کے خلاف مربوط تحریک نہ چلاتے ہوئے اس میں شامل ہونا، ایک سنجیدہ کمزوری اور نااہلی کا ثبوت ہے۔ مزاحمتی سیاست ترک کر کے مفاہمتی اور مفاداتی سیاست کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پہلے واپڈا کی کمپنیاں بننے میں مزاحمت نہ کر کے بزدلانہ کمزوری دکھائی گئی اور کمپنیوں کو تحلیل کر کے واپڈا کی وحدت کو بحال کرنے کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی گئی اور اب کمپنی وائز ریفرنڈم کو بھی تسلیم کر کے کھلی مزدور دشمنی کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔
واپڈا کے مزدوروں کو اس وقت اپنے اتحاد کی طاقت کو بچانے کی ضرورت ہے جوکہ اصل میں ہائیڈرو یونین کی شکل میں موجود ہے اور اس یونین کو بچانے کے لیے کمپنی وائز ریفرینڈم کے خلاف تحریک منظم کرتے ہوئے ہائیڈرو یونین کو بھی دوبارہ سے ملکی سطح پر منظم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ ملکی سطح پر مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھائے اور تمام اداروں کے محنت کشوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے مزدور دشمن آئی ایم ایف اور اس کے دلال حکمرانوں کے ظلم کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ پاکستان کی جانب بڑھا جائے۔